- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت طبیہ کا جشن ؟!
حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ،دارالمعارف لاہور
مروجہ جشن میلاد اور مشابہت کفار
کوئی بھی کام جس کی کتاب و سنت سے دلیل موجود نہ ہو ، وہ مردود اور بے فائدہ ہے ، اگرچہ اس پر کتنا ہی وقت اور مال خرچ ہو اور اس کے عالمین کو وہ کتنا ہی بھلا لگ رہا ہو، قرآن و حدیث سے اگر اس کی دلیل نہیں تو وہ قابل قبول نہیں۔
مروجہ میلاد مصطفی کی حقیقت بھی اس سے چنداں مختلف نہیں۔ یہ بدعت سراسر کتاب و سنت کی خلاف ورزی پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ رب کی کئی ایک نافرمانیوں کا مرقع ہے۔ اسلام کے نام پر وہ سب کچھ کیا جاتا ہے ، جس کا اسلام سے سرے سے تعلق و واسطہ ہی نہیں۔
مرو جہ جشن میلاد میں صرف یہودوہنود اور عیسائیوں کی تقلید و نقالی اور مشابہت ہے ، جس طرح ہندو شری کرشن اور رام چندر کی ولادت کی مناسبت سے ”جنم اشمٹی“ اور ”رام نومی“ کا انعقاد کرتے ہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم ولادت کو کرسمس ڈے کے طور پر مناتے ہیں۔
ان کی مشابہت میں مسلمان رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کو جشن ولادت اور عیدمیلادالنبی جیسی محافل برپا کرتے ہیں، جبکہ غیر مسلم یہودوہنود اور نصاریٰ کی نقالی کرنے والوں کے بارے میں واضح فرمان نبوی ہے کہ کفار کی مشابہت اختیار کرنے والے انہی میں سے ہیں ،
حدیث نبوی ہے:”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ“۔(سنن أبی داؤد: 4031) ”کسی بھی قوم کی مشابہت کرنے والے کا شمار بھی انہیں میں ہوگا۔“
مروجہ عید میلاد النبی کی کتاب و سنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی، خیر القرون سے کوئی ثبوت نہیں ملتا، خلفائے اربعہ، عشرہ مبشرہ، ائمہ اربعہ سے کسی قسم کا کام اس موقعہ پر ثابت نہیں، بلکہ سراسر غیرمسلموں کی نقالی ہے۔
اس کی تائید و حمایت اور ثبوت کے لیے پیش کیے جانے والے تمام طرح کے دلائل من گھڑت، بے بنیاد اور غیر صریح ہیں ، بلکہ ”کلمۃ حق ارید بھا الباطل“ کی عملی تصویر ہیں۔
ایک موقع پر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللّٰہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے استفسار کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول! آپ کی بدولت رشد و ہدایت کی صورت میں ہمیں جو بھلائی و اچھائی عطا ہوئی ہے،
کیا اس کے بعد دوبارہ بھی شر ہوگا؟ آپ فرماتے ہیں:”نَعَمْ، قَوْمٌ یَسْتَنُّونَ بِغَیْرِ سُنَّتِیْ، وَیَھْتَدُوْنَ بِغَیْرِ ھَدْیِیْ“(صحیح البخاری:3605و صحیح مسلم: 1847) ”ہاں! ایسے لوگ ہوں گے جو میرے طریقہ کے علاوہ طریقہ کو اختیار کریں گے اور میری رہنمائی کے سوا اور کی رہنمائی کے مطابق چلیں گے۔“
حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار تھے کہ آپ نے مجمع عام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: لوگ غور سے سنو! حوض کوثر پر میں تمہارا پیش رو ہوں گا۔ تمہاری کثرت کی وجہ سے میں دیگر اقوام پر فخر کروں گا۔
دیکھنا کہیں مجھے رسوا نہ کروانا، خبردار، توجہ سے سنو! اس روز کچھ لوگوں کو میں جہنم سے بچاؤں گا اور کچھ افراد کو جب جہنم میں پھینکا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے پروردگار! یہ تو میرے ساتھی ہیں؟ تو مجھے جواب دیا جائے گا ”إِنَّکَ لَاتَدْرِیْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَکَ“۔( سنن ابن ماجہ: 3057)”آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کون کون سے نئے کام کیے تھے۔“ والعیاذ باللہ
حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ،دارالمعارف لاہور
مروجہ جشن میلاد اور مشابہت کفار
کوئی بھی کام جس کی کتاب و سنت سے دلیل موجود نہ ہو ، وہ مردود اور بے فائدہ ہے ، اگرچہ اس پر کتنا ہی وقت اور مال خرچ ہو اور اس کے عالمین کو وہ کتنا ہی بھلا لگ رہا ہو، قرآن و حدیث سے اگر اس کی دلیل نہیں تو وہ قابل قبول نہیں۔
مروجہ میلاد مصطفی کی حقیقت بھی اس سے چنداں مختلف نہیں۔ یہ بدعت سراسر کتاب و سنت کی خلاف ورزی پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ رب کی کئی ایک نافرمانیوں کا مرقع ہے۔ اسلام کے نام پر وہ سب کچھ کیا جاتا ہے ، جس کا اسلام سے سرے سے تعلق و واسطہ ہی نہیں۔
مرو جہ جشن میلاد میں صرف یہودوہنود اور عیسائیوں کی تقلید و نقالی اور مشابہت ہے ، جس طرح ہندو شری کرشن اور رام چندر کی ولادت کی مناسبت سے ”جنم اشمٹی“ اور ”رام نومی“ کا انعقاد کرتے ہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم ولادت کو کرسمس ڈے کے طور پر مناتے ہیں۔
ان کی مشابہت میں مسلمان رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کو جشن ولادت اور عیدمیلادالنبی جیسی محافل برپا کرتے ہیں، جبکہ غیر مسلم یہودوہنود اور نصاریٰ کی نقالی کرنے والوں کے بارے میں واضح فرمان نبوی ہے کہ کفار کی مشابہت اختیار کرنے والے انہی میں سے ہیں ،
حدیث نبوی ہے:”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ“۔(سنن أبی داؤد: 4031) ”کسی بھی قوم کی مشابہت کرنے والے کا شمار بھی انہیں میں ہوگا۔“
مروجہ عید میلاد النبی کی کتاب و سنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی، خیر القرون سے کوئی ثبوت نہیں ملتا، خلفائے اربعہ، عشرہ مبشرہ، ائمہ اربعہ سے کسی قسم کا کام اس موقعہ پر ثابت نہیں، بلکہ سراسر غیرمسلموں کی نقالی ہے۔
اس کی تائید و حمایت اور ثبوت کے لیے پیش کیے جانے والے تمام طرح کے دلائل من گھڑت، بے بنیاد اور غیر صریح ہیں ، بلکہ ”کلمۃ حق ارید بھا الباطل“ کی عملی تصویر ہیں۔
ایک موقع پر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللّٰہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے استفسار کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول! آپ کی بدولت رشد و ہدایت کی صورت میں ہمیں جو بھلائی و اچھائی عطا ہوئی ہے،
کیا اس کے بعد دوبارہ بھی شر ہوگا؟ آپ فرماتے ہیں:”نَعَمْ، قَوْمٌ یَسْتَنُّونَ بِغَیْرِ سُنَّتِیْ، وَیَھْتَدُوْنَ بِغَیْرِ ھَدْیِیْ“(صحیح البخاری:3605و صحیح مسلم: 1847) ”ہاں! ایسے لوگ ہوں گے جو میرے طریقہ کے علاوہ طریقہ کو اختیار کریں گے اور میری رہنمائی کے سوا اور کی رہنمائی کے مطابق چلیں گے۔“
حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار تھے کہ آپ نے مجمع عام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: لوگ غور سے سنو! حوض کوثر پر میں تمہارا پیش رو ہوں گا۔ تمہاری کثرت کی وجہ سے میں دیگر اقوام پر فخر کروں گا۔
دیکھنا کہیں مجھے رسوا نہ کروانا، خبردار، توجہ سے سنو! اس روز کچھ لوگوں کو میں جہنم سے بچاؤں گا اور کچھ افراد کو جب جہنم میں پھینکا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے پروردگار! یہ تو میرے ساتھی ہیں؟ تو مجھے جواب دیا جائے گا ”إِنَّکَ لَاتَدْرِیْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَکَ“۔( سنن ابن ماجہ: 3057)”آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کون کون سے نئے کام کیے تھے۔“ والعیاذ باللہ