باب ٤٩ کہ الله تعالیٰ کا قول (جب الله تعالیٰ نے ان کو صحیح سالم بچہ دے دیا تو وہ اس کی بخشش و عنایت میں دوسروں کو شریک ٹھرانے لگے – الله بہت بلند و بر تر ہے ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
ابن حزم کہتے ہیں مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر وہ نام رکھنا حرام ہے جس میں غیر الله کی طرف عبدیت کا اظہار ہوتا ہو جیسے عبد عمرو ، عبد الکعبہ وغیرہ -صرف عبد المطلب اس سے مستثنیٰ ہے – اور ابن عبّاس اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب آدم و حوا آپس میں ملے تو یہ حاملہ ہوئیں – ابلیس ان کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں وہی ہوں جس نے تم کو جنّت سے نکالا – میری بات مانو اور ہونے والے بچے کا نام عبد الحارث رکھو ورنہ میں اس کے سر پر بارہ سنهگا جیسا سر بنا دوں گا اور یہ تمہارا پیٹ چیر کر باہر نکلے گا اور میں یہ کروں گا اور وہ کروں گا- لیکن انہوں نے نہ مانا اور امید کرنے لگے لیکن بچہ مردہ پیدا ہوا- پھر وہ دوبارہ حاملہ ہوئیں اور ابلیس واپس آیا اور جیسا پہلے کہا تھا ویسا پھر کہا – دونوں (دوبارہ ویسا ہی کیا ) اور امید کرنے لگے لیکن مردہ پیدا ہوا – پھر وہ دوبارہ حاملہ ہوئیں اور ابلیس واپس آیا اور جیسا پہلے کہا تھا ویسا پھر کہا – ان کے دل میں بچے کی محبّت پیدا ہوئی اور انہوں نے اس کا نام عبد الحارث رکھا – قرآن کی آیت جَعَلا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا میں اسی طرف اشارہ ہے
ا س کو روایت کیا ہے ابن ابی حاتم نے – اور صحیح سند کے ساتھ قتا دہ نے بھی روایت کیا ہے اور کہا کہ ان کا شرک اطاعت میں تھا نہ کہ عبادت میں
ا بن عبّاس رضی الله تعالیٰ عنہ کی روایت
تفسیر ابن ابی حاتم میں اس روایت کی سند ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَمْزَةَ، ثنا حَبَّانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَولِهِ: ” {فَلَمَّا آتَاهُمْا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا} [الأعراف: 190] ، قَالَ: اللَّهُ هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا، فَلَمَّا تَغَشَّاهَا آدَمُ حَمَلَتْ آتَاهُمَا إِبْلِيسُ، فَقَالَ: إِنِّي صَاحِبُكُمَا الَّذِي أَخْرَجْتُكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ، لَتُطِيعَنَّنِ أَوْ لَأَجْعَلَنَّ لَهَا قَرْنَيْ إِبِلٍ فَيَخْرُجُ مِنْ بَطْنِكِ فَيَشُقَّهُ وَلَأَفْعَلَنَّ وَلَأَفْعَلَنَّ يُخَوِّفُهُمَا سَمِّيَاهُ عَبْدَ الْحَارِثِ، فَأَبَيَا أَنْ يُطِيعَاهُ فَخَرَجَ مَيِّتًا، ثُمَّ حَمَلَتْ يَعْنِي الثَّانِيَةَ فَأَتَاهُمَا أَيْضًا فَقَالَ: أَنَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي فَعَلْتُ مَا فَعَلْتُ لَتَفْعَلُنَّ أَوْ لَأَفْعَلَنَّ وَلَأَفْعَلَنَّ يُخَوِّفُهُمَا فَأَبَيَا أَنْ يُطِيعَانِهِ فَخَرَجَ مَيِّتًا، ثُمَّ حَمَلَتِ الثَّالِثَةُ فَأَتَاهُمَا أَيْضًا فَذَكَرَ لَهُمَا فَأَدْرَكَهُمَا حُبَّ الْوَلَدِ فَسَمَّيَاهُ عَبْدَ الْحَارِثِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ: {جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا}
اس کا راوی خُصَيْفٍ بن عبد الرحمان الجزری ہے جو بیشتر کے نزدیک کمزور ہے یحییٰ بن سعید اس کو ضعیف کہتے ہیں – ابن حبان کہتے ہیں کہ بعض نے ان کی روایت ترک کی تھی – نسائی کہتے ہیں قوی نہیں
مسند احمد کی سمرہ رضی الله تعالیٰ عنہ کی روایت
مسند احمد میں روایت کا متن اور سند ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَمَّا حَمَلَتْ حَوَّاءُ طَافَ بِهَا إِبْلِيسُ، وَكَانَ لَا يَعِيشُ لَهَا وَلَدٌ، فَقَالَ: ” سَمِّيهِ عَبْدَ الْحَارِثِ، فَإِنَّهُ يَعِيشُ، فَسَمَّوْهُ عَبْدَ الْحَارِثِ، فَعَاشَ، وَكَانَ ذَلِكَ مِنْ وَحْيِ الشَّيْطَانِ، وَأَمْرِهِ
مسند احمد کی سمرہ رضی الله تعالیٰ عنہ کی اس روایت کے راوی عمر بن إبراهيم العبدي أبو حفص البصري- کے لئے کہا جاتا ہے کہ في روايته عن قتادة ضعف کہ قتادہ سے روایت کرنے میں کمزور ہیں –
مسند کی اس روایت پر حاشیہ لکھنے والے محقق شعيب الأرنؤوط لکھتے ہیں کہ
إسناده ضعيف، کہ اس کی سند ضعیف ہے ابن ابی حاتم والی روایت کے لئے رقم طراز ہیں کہ
وأخرجه ابن أبي حاتم في “تفسيره” كما في “تفسير” ابن كثير 3/529، والطبراني في “الكبير” (6895) ، وابن مردويه كما في “تفسير” ابن كثير من طريق شاذ بن فيّاض، عن عمر بن إبراهيم، به. قال الترمذي: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه مرفوعاً إلا من حديث عمر بن إبراهيم عن قتادة، ورواه بعضهم عن عبد الصمد ولم يرفعه
ابن ابی حاتم کی روایت کی سند میں بھی عمر بن إبراهيم العبدي أبو حفص البصري ہے
اس راوی کے لئے تہذیب الکمال میں لکھا ہے کہ
قَال أَبُو أَحْمَدَ بْن عدي : يروي عن قتادة أشياء لا يوافق عليها، وحديثه خاصة عن قتادة مضطرب
أَبُو أَحْمَدَ بْن عدي کہتے ہیں : قتادہ سے وہ چیزیں روایت کرتے ہیں جن کی موافقت کوئی نہیں کرتا اور خاص طور پر ان کی حدیثیں قتادہ سے مضطرب ہیں
ابن حزم کا تبصرہ
اب ذرا ابن حزم کے تبصرے پر بھی نگاہ ڈال لی جائے – ابن حزم المتوفى ٤٥٦ اپنی کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں لکھتے ہیں
فَهَذَا تَكْفِير لآدَم عَلَيْهِ السَّلَام وَمن نسب لآدَم عَلَيْهِ السَّلَام الشّرك وَالْكفْر كفرا مُجَردا بِلَا خلاف من أحد من الْأمة وَنحن ننكر على من كفر الْمُسلمين العصاة العشارين القتالين وَالشّرط الْفَاسِقين فَكيف من كفر الْأَنْبِيَاء عَلَيْهِم السَّلَام وَهَذَا الَّذِي نسبوه إِلَى آدم عَلَيْهِ السَّلَام من أَنه سمى ابْنه عبد الْحَارِث خرافة مَوْضُوعَة مكذوبة من تأليف من لَا دين لَهُ وَلَا حَيَاء لم يَصح سندها قطّ وَإِنَّمَا نزلت فِي الْمُشْركين على ظَاهرهَا
یہ تو آدم علیہ السلام کی تکفیر ہے اور جنہوں نے شرک کی نسبت آدم علیہ السلام کی طرف کی ہے …….. کہ انہوں نے اپنے بچے کا نام عبد الحارث رکھا تو ان کو نہ دین کی سمجھ ہے نہ شرم و حیا – کیونکہ یہ روایت خرافات کا پلندہ ، موضوع اور گھڑی ہوئی جھوٹی روایت ہے بلکہ یہ تو مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے
مزید براں قتادہ کے قول وله بسند صحيح عن قتادة قال: “شركاء في طاعته ولم يكن في عبادته”.کا حوالہ اغلبا تفسیر طبری سے لیا ہے – احمد شاکر سوره الاعراف کی آیت ١٩٠ میں حاشیہ میں بحث سمیٹے ہوۓ لکھتے ہیں
قلت: وسترى أن أبا جعفر قد رجح أن المعني بذلك آدم وحواء، قال: ((لإجماع الحجة من أهل التأويل علي ذلك)) . وإجماع أهل التأويل في مثل هذا، مما لا يقوم الأول: لأن الآية مشكلة، ففيها نسبة الشرك إلى آدم الذي اصطفاه ربه، بنص كتاب الله، وقد أراد أبو جعفر أن يخرج من ذلك، فزعم (ص: 315) أن القول عن آدم وحواء انقضى عند قوله: ((جعلا له شركاء فيما آتاهما، ثم استأنف قوله: ((فتعالى الله عما يشركون)) ، يعنى عما يشرك به مشركو العرب من عبدة الأوثان.وهذا مخرج ضعيف جداً.
الثاني أن مثل هذا المشكل في أمر آدم وحواء، ونسبة الشرك إليهما، مما لا يقضى به، إلا بحجة يجب التسليم لها من نص كتاب، أو خبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. ولا خبر بذلك، إلا هذا الخبر الضعيف الذي بينا ضعفه، وأنه من رواية عمر بن إبراهيم، عن قتادة. وروايته عن قتادة مضطربة
احمد شاکر کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ : آپ دیکھیں گے کہ ابو جعفر الطبري کے نزدیک اغلبا آیات آدم و حوا سے متعلق ہیں کہتے ہیں کہ اہل تاویل کا اس کی حجت پر اجتما ع ہے – اور اہل تاویل کا اس جیسی چیز پر اجماع دلیل نہیں کیونکہ اول : آیات میں اک مشکل ہے کہ اس میں آدم کی طرف شرک کی نسبت ہے جن کو الله نے چنا اور ابو جعفر الطبري نے اس سے یہ نکالا ہے اور یہ زعم کیا کہ (ص ٣١٥ ) یہ آدم و حوا کے لئے ہے کہا جعلا له شركاء فيما آتاهما اور پھر کہا کہ فتعالى الله عما يشركون یعنی جیسے عرب کے مشرک بتوں کی پوجا کرتے تھے – اور یہ نتیجہ انتہائی بودا ہے – دویئم اس مثال میں مشکل ہے کہ یہ آدم و حوا کے بارے میں ہے – اور ان کی طرف شرک کی نسبت کرتی ہے – جس کی کوئی ضرورت نہیں سوائے اس کہ کتاب الله میں اس پر کوئی نص ہو یا کوئی خبر رسول ہو – اور یہ جو خبر ہے نہایت کمزور ہے اور یہ روایت ہے عمر بن إبراهيم، عن قتادة کی سند سے اور قتادہ سے اس کی روایت مضطرب ہے