حافط ابن حجر عسقلانی کا جو قول پیش کیا گیا ہے وہ "مقبول" ہے اور اس کا ترجمہ "یہ مجہول الحال شخص ہے" سے کیا گیا ہے۔ میرے علم کے مطابق تو مقبول کا یہ ترجمہ صحیح نہیں بلکہ شاید یہ توثیق کے الفاظ ہیں۔ باقی اہل علم مزید اس پر روشنی ڈال دیں تو آسانی ہو جائے گی۔
مقبول یہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی اپنی اصلاح ہے اور اس سے کیا مراد ہے یہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کردیاہے چنانچہ:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
السادسة: من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الإشارة بلفظ: مقبول، حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم ص 1]۔
یعنی حافظ موصوف اس راوی کو مقبول کہتے ہیں جس کی حدیث بہت کم ہو اور اس کی جرح ثابت نہ ہو ، اورمقبول سے مراد ایک مشروط مقبولیت ہے اوروہ یہ کہ اس طرح کے راوی کی اگر متابعت مل گئی تو یہ راوی مقبول ہے ورنہ لین الحدیث شمار ہوگا۔
معلوم ہواکہ ’’مقبول‘‘ یہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی نظر میں توثیق کا صیغہ نہیں ہے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی اپنی اصلاح سے متعلق خود اپنی وضاحت سامنے آنے کے بعد عصرحاضرکے ان مقالات کی کوئی حیثیت نہیں ہے جن میں مقبول کو ثقہ کے معنی میں لیا گیا ہے ، اصولی طور پر کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کے قائل کی مراد کے خلاف اس کے قول کی تشریح کرے اہل علم میں یہ قاعدہ عام ہے لایجوز تفسیرالقول بمالایرضی بہ القائل۔
رہی یہ بات کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بہت سے مقامات پر اپنی جانب سے مقبول قراردیے گئے رواۃ کی احادیث کو حسن قرار دیا ہے تو عرض ہے کہ ٹھیک اسی طرح حافظ ان حجررحمہ اللہ نے بہت سے مقامات پر اپنی طرف سے ضعیف قراردیے گئے رواۃ کی احادیث کو بھی حسن کہا ہے تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی نظر میں ضعیف ثقہ کے معنی میں ہے؟؟؟؟؟؟
دوسرا یہ کہ امام ذہبی کا اسی حدیث کو امام حاکم کی تائید میں صحیح قرار دینا اس حدیث کے تمام راویوں کی توثیق ہے۔ اب ان کا پہلا قول مجہول والا اس توثیق سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا اور امام حاکم کی توثیق باقی رہی۔
امام حاکم کی جو توثیق باقی رہی یہ ضمنی توثیق ہے اور اس کا دارومدار ان کی تصحیح پر ہے اورآپ تصحیح میں متساہل ہیں لہٰذا تساہل کے باب سے آنے والے ان کی یہ منفرد توثیق غیرمسموع ہے۔
ہمارے ایک انتہائی پیارے بھائی اور ساتھی کی جانب سے اس روایت پر یہ اعتراض بھی پیش کیا گیا ہے کہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور مروان کی ملاقات ہی ثابت نہیں لہٰذا یہ روایت منقطع ہے، اس بات پر بھی اہل علم کی آراء مع دلائل کا انتظار ہے۔ والسلام
اگریہ بات کسی ناقد امام سے ثابت ہوجائے تو روایت مذکورہ موضوع وباطل ٹہرے گی ۔