• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تعلق سے ایک سبق آموز واقعہ کی حقیقت

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تعلق سے ایک سبق آموز واقعہ کی حقیقت


*از قلم :*
*حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفا اللہ عنہ*

* ناشر :*
*البلاغ اسلامک سینٹر*
=================================


*الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی رسولہ الامین، اما بعد:*

*محترم قارئین!*
واٹسیپ پر درج ذیل واقعہ گردش کر رہا ہے:

* ایک سبق آموز واقعہ *
*”حضرت زید بن اَرقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پینے کے لیے پانی مانگا تو اُن کی خدمت میں ایک برتن لایا گیا جس میں شہد اور پانی تھا۔ جب اسے اپنے منہ کے قریب لے گئے تو رو پڑے اور اتنا روئے کہ آس پاس والے بھی رونے لگ گئے۔ آخر وہ تو خاموش ہوگئے، لیکن آس پاس والے خاموش نہ ہوسکے۔ پھر اسے دوبارہ منہ کے قریب لے گئے تو پھر رونے لگے اور اتنا زیادہ روئے کہ ان سے رونے کا سبب پوچھنے کی کسی میں ہمت نہ ہوئی۔ آخر جب ان کی طبیعت ہلکی ہوگئی اور انھوں نے اپنا منہ پونچھا تو لوگوں نے ان سے پوچھا: آپ اتنا زیادہ کیوں روئے؟ انھوں نے فرمایا: (شہد ملا ہوا پانی دیکھ کر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا تھا اس کی وجہ سے رویا تھا۔ اور وہ واقعہ یہ ہے کہ) میں ایک مرتبہ حضورﷺ کے ساتھ تھا۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ حضورﷺ کسی چیز کو اپنے سے دور کر رہے ہیں، لیکن مجھے کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کیا چیز ہے جسے آپ دور کر رہے ہیں؟ مجھے تو کوئی چیز نظر نہیں آرہی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دنیا میری طرف بڑھی تو میں نے اس سے کہا: دور ہوجا۔ تو اس نے کہا: آپ ﷺ تو مجھے لینے والے نہیں ہیں (یعنی یہ تو مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے نہیں لیں گے میں ویسے ہی زور لگا رہی ہوں) حضورﷺ کے دور کرنے سے دنیا ایک طرف کو ہوکر کہنے لگی: اللہ کی قسم! اگر آپ ﷺ میرے ہاتھ سے چھوٹ گئے ہیں (تو کوئی بات نہیں) آپ کے بعد والے میرے ہاتھ سے نہیں چھوٹ سکیں گے۔ (اخرجہ البزار قال الھیثمی (ج 10 ص 254) (اخرجہ ابو نعیم فی الحلیۃ (ج 1 ص 30) و ھذا اخرجہ الحاکم والبیھقی کما فی الکنز: ج 4 ص 37 )“۔*

*مذکورہ قصے کی بابت چند باتیں پیش خدمت ہیں:*

*[
پہلی بات]* مذکورہ متن حلیۃ الاولیاء للاصبھانی اور شعب الایمان للبیہقی وغیرہ کا ہے۔

*عربی عبارت پیش خدمت ہے:*

امام ابونعیم احمد بن عبد اللہ الاصبہانی رحمہ اللہ (المتوفی:430ھ) فرماتے ہیں:

”حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي عَاصِمٍ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَالْفَضْلُ بْنُ دَاوُدَ، قَالَا: ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، *ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زَيْدٍ، ثنا أَسْلَمُ،* عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللہُ تَعَالَى عَنْهُ اسْتَسْقَى فَأُتِيَ بِإِنَاءٍ فِيهِ مَاءٌ وَعَسَلٌ ، فَلَمَّا أَدْنَاهُ مِنْ فِيهِ بَكَى وَأَبْكَى مَنْ حَوْلَهُ، فَسَكَتَ وَمَا سَكَتُوا ، ثُمَّ عَادَ فَبَكَى حَتَّى ظَنُّوا أَنْ لَا يَقْدِرُوا عَلَى مُسَاءَلَتِهِ ، ثُمَّ مَسَحَ وَجْهَهُ وَأَفَاقَ ، فَقَالُوا: مَا هَاجَکَ عَلَى هَذَا الْبُكَاءِ؟ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعَلَ يَدْفَعُ عَنْهُ شَيْئًا وَيَقُولُ: إِلَيْکَ عَنِّي إِلَيْکَ عَنِّي وَلَمْ أَرَ مَعَهُ أَحَدًا ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللہِ أَرَاکَ تَدْفَعُ عَنْکَ شَيْئًا وَلَا أَرَى مَعَکَ أَحَدًا؟ قَالَ: هَذِهِ الدُّنْيَا تَمَثَّلَتْ لِي بِمَا فِيهَا، فَقُلْتُ لَهَا: إِلَيْكِ عَنِّي فَتَنَحَّتْ وَقَالَتْ: أَمَا وَاللہِ لَئِنِ انْفَلَتَّ مِنِّي لَا يَنْفَلِتُ مِنِّي مَنْ بَعْدَکَ، فَخَشِيتُ أَنْ تَكُونَ قَدْ لَحِقَتْنِي فَذَاکَ الَّذِي أَبْكَانِي“.
(حلیۃ الاولیاء للاصبہانی :1/30 وشعب الإيمان بتحقیق الدكتور عبد العلي :13/163، ح:10112 والمستدرك على الصحيحين للحاکم بتحقیق مصطفی عبد القادر:4/344، ح:7856 و الزهد لابن أبي الدنيا ،ص:27، ح:11۔الناشر: دار ابن كثير، دمشق و مسند أبي بكر الصديق لاحمد المروزی بتحقیق شعیب الارنؤوط ، ص:92، ح:52 و تاریخ دمشق لابن عساکر بتحقیق العمروي:30/329)
واضح رہے کہ اردو ترجمہ میں ”مَنْ بَعْدَکَ“ کے بعد جو عربی عبارت ہے، اُس کا ترجمہ نہیں ہے۔

*[
دوسری بات]* زیر بحث قصہ اور بھی دوسری کتابوں میں چند جملوں کے حذف کے ساتھ موجود ہے۔
جیسے مسند البزار میں یہ قصہ دو جملوں کے حذف کے ساتھ موجود ہے۔
دیکھیں: (مسند البزار بتحقیق محفوظ الرحمن زين الله :1/106، ح:44 و 1/196 )
اور الزہد لابن ابی عاصم میں قصے کا صرف آخری ٹکڑا ہے جو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کا قصہ بیان کیا ہے۔
دیکھیں: (الزهد بتحقیق عبد العلی، ص:93، ح:187)

*[
تیسری بات]* زیر بحث قصہ منکر اور سخت ضعیف ہے کیونکہ اِس کی سند میں دو (2) علتیں ہیں:

(1) اسلم الکوفی : یہ غیر معروف راوی ہے۔


ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
* امام ابو بکر احمد بن عمرو العتکی، المعروف بالبزار رحمہ اللہ (المتوفی:292ھ) زیر بحث قصے کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”وَأَسْلَمُ رَجُلٌ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ، لَا نَعْلَمُ رَوَى عَنْهُ إِلَّا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زَيْدٍ“
”اسلم غیرمعروف آدمی ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اِس سے صرف عبد الواحد بن زید نے ہی روایت کیا ہے“. (مسند البزار بتحقیق محفوظ الرحمن زين الله :1/196و 1/106)
* امام ابو الحسن علی بن محمد الفاسی، المعروف بابن القطان رحمہ اللہ (المتوفی :628ھ) اسلم کی ایک دوسری حدیث کے تحت فرماتے ہیں:*

”لَا يعرف بِغَيْر هَذَا، وَلَا يعرف روى عَنهُ غير عبد الْوَاحِد هَذَا“
”اسلم، اِس حدیث کے علاوہ نہیں جانا جاتا ہےاور یہ بھی نہیں جانا جاتا ہے کہ اِس عبد الواحد کے علاوہ کسی نے اِس سے روایت کیا ہو“۔
(بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام بتحقیق الحسين آيت :2/405)
امام عبد الرحیم العراقی رحمہ اللہ (المتوفی :806ھ) اور ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی :856ھ) نے مذکورہ اقوال کی موافقت کی ہے۔
دیکھیں: (ذيل ميزان الاعتدال بتحقیق علی و عادل ،ص:53، ت:183 ولسان الميزان بتحقیق ابی غدۃ :2/97، ت:1120)

(2) عبد الواحد بن زید البصری :
یہ سخت ضعیف متروک الحدیث راوی ہے۔
ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
* امام ابو زکریا یحیی بن معین رحمہ اللہ (المتوفی : 233ھ):*

(1) ”ليس حديثه بشئ ضعيف الحديث“
”اِس کی حدیث کچھ نہیں ہے، ضعیف الحدیث ہے“۔
(الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی :6/20، ت:107واسنادہ صحیح)

(2) ”ليس بشئ“ ”یہ کچھ نہیں ہے“۔
(تاريخ ابن معين (رواية عثمان الدارمي) بتحقیق احمد محمد ،ص:147، ت:506)
* امام ابو حفص عمرو بن علی الفلاس رحمہ اللہ (المتوفی : 249ھ):*

”كان عبد الواحد بن زيد قاصا وكان متروك الحديث“
”عبد الواحد قصہ گو تھا اور متروک الحدیث تھا“۔
(الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی :6/20، ت:107)
* امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ (المتوفی:256ھ):*

”تَرَكُوهُ“ ”محدثین نے اِسے ترک کر دیا ہے“۔
(التاريخ الكبير بحواشی محمود خلیل:6/62، ت:1713)
* امام ابو حاتم محمدبن ادریس الرازی رحمہ اللہ (المتوفی:277ھ):*

”ليس بالقوى في الحديث، ضعيف بمرة“
”حدیث میں قوی نہیں ہے، سخت ضعیف ہے“۔
(الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی :6/20، ت:107)
* امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعيب النسائی رحمہ اللہ (المتوفی : 303ھ) :*
متروك الحديث“ ”متروک الحدیث ہے“۔
(الضعفاء والمتروكون بتحقیق محمود إبراهيم زايد،ص:68، ت:370)
* امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی، المعروف بابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:354ھ):*

”كَانَ مِمَّن يغلب عَلَيْهِ الْعِبَادَة حَتَّى غفل عَن الإتقان فِيمَا يروي فَكثر الْمَنَاكِير فِي رِوَايَته فَبَطل الأحتاج بِهِ“
”یہ اُن لوگوں میں تھا جس پر عبادت غالب ہو گئی تھی حتی کہ اپنی مرویات میں اتقان سے غافل ہو گیا جس کی وجہ سے اِس کی روایتوں میں مناکیر کی کثرت ہو گئی لہذا اِس سے دلیل پکڑنا باطل ہے“۔ (المجروحين بتحقیق محمود إبراهيم:2/155، ت:770)
* امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):*
*(1)* ”
متروك “ ”متروک ہے“۔
(تلخيص كتاب الموضوعات بتحقیق أبو تميم ياسر، ص:352، ح:962)
*(2)*
”وَحَدِيْثُه مِنْ قَبِيْلِ الوَاهِي عِنْدَهُم“ ”محدثین کے نزدیک اِس کی حدیث سخت ضعیف کے قبیل سے ہے“۔ (سير أعلام النبلاء بتحقیق مجموعة من المحققين:7/178، ت:59)
* امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی : 852ھ):*
عبد الواحد ضعيف جدا“ ”عبد الواحد سخت ضعیف ہے“۔ (مختصر زوائد مسند البزار بتحقیق صبری :2/1023، ح:2322)
مزید اقوال کے لیے دیکھیں:
(لسان المیزان بتحقیق ابی غدۃ :5/290، ت:4957)

*[
چوتھی بات]* زیر بحث قصے کو کئی علماء کرام نے ناقابلِ احتجاج قرار دیا ہے۔

*اُن کے نام پیش خدمت ہیں:*

*(1)* امام احمد بن عمرو العتکی، المعروف بالبزار رحمہ اللہ (المتوفی:292ھ) نے اِس روایت کو اپنی مسند میں ذکر کر کے، اِس کی علتوں کو بیان کیا ہے ۔
یکھیں: (مسند البزار بتحقیق محفوظ الرحمن زين الله :1/196)

*(2)* امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):

”ومن مناكيره ما روى ابن أبي الدنيا في تواليفه : حدثنا ۔۔۔ثم ساق السند و المتن“
ک”عبد الواحد بن زید کی منکر روایتوں میں سے ایک روایت وہ بھی ہے جسے امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ نے اپنی تصانیف میں روایت کیا ہے۔۔“۔
(ميزان الاعتدال بتحقیق البجاوی :2/673، ت:5288)

*(3)* علامہ البانی رحمہ اللہ :
ضعيف جداً“ ”سخت ضعیف ہے“۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ :10/491، ح:4878)

*(4)* شیخ شعیب الارنؤوط رحمہ اللہ :

”اسنادہ ضعیف لضعف عبد الواحد بن زید و جہالتہ اسلم الکوفی“ ”اِس کی سند عبد الواحد کے ضعف اور اسلم الکوفی کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے“۔
(فی تحقیق مسند أبي بكر الصديق لاحمد المروزی ، ص:92، ح:52)

*(5)* دکتور سعد بن عبد اللہ حفظہ اللہ :

”الحديث ضعيف بهذا الِإسناد لضعف عبد الحميد بن زيد، وجهالة شيخه أسلم الكوفي“
”عبد الحمید بن زید کے ضعف اور اُس کے شیخ اسلم الکوفی کی جہالت کی وجہ سے اِس سند کے ساتھ حدیث ضعیف ہے“۔
(فی تحقیق مختصرُ استدرَاك الحافِظ الذّهبي على مُستدرَك أبي عبد اللهِ الحَاكم :6/2969، ح:1005)

راقم کہتا ہے کہ عبد الواحد بن زید کی وجہ سے اِس حدیث کو فقط ضعیف قرار دینا صحیح نہیں ہے۔واللہ اعلم۔

*[
پانچویں بات]* امام احمد البزار رحمہ اللہ زیر بحث قصے کے تحت فرماتے ہیں:
”وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَنْ رَسُولِ اللہِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا أَبُو بَكْرٍ، وَلَا عَنْ أَبِي بَكْرٍ إِلَّا زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، وَلَا عَنْ زَيْدٍ إِلَّا مُرَّةُ، وَلَا عَنْ مُرَّةَ إِلَّا أَسْلَمُ الْكُوفِيُّ“
”ہمارے علم کے مطابق یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے صرف اسی طریق سے روایت کی گئی ہے اور ہمارے علم کے مطابق اِس کو رسول اللہ ﷺ سے صرف ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ سے صرف زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے صرف مرہ رحمہ اللہ نے اور مرہ رحمہ اللہ سے صرف اسلم الکوفی نےروایت کیا ہے“۔ (مسند البزار بتحقیق محفوظ الرحمن زين الله :1/106، ح:44)

اب چند باتیں بطور تنبیہ پیش خدمت ہیں:


*[تنبیہ نمبر : 1]* زیر بحث قصے پر حکم لگاتے ہوئے امام حاکم رحمہ اللہ (المتوفی:405ھ) فرماتے ہیں:
”هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ“
”یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے اِس کی تخریج نہیں کی ہے“۔
(المستدرك على الصحيحين بتحقیق مصطفى عبد القادر :4/344، ح:7856)

اِس کا تعاقب کرتے ہوئے امام محمد الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”فيه عبد الواحد، تركه البخاري وغيره“
”اِس میں عبد الواحد ہے جس کو امام بخاری وغیرہ نے ترک کر دیا ہے“۔
(المصدر السابق و مختصرُ استدرَاك الحافِظ الذّهبي على مُستدرَك الحَاكم: 6/2967، ح:1005)

*[تنبیہ نمبر : 2]* المستدرک علی الصحیحین کے حوالہ مذکورہ میں زیر بحث قصے کے تحت لکھا ہوا ہے :
”عبد الصمد تركه البخاري وغيره“.

اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اِسی طرح الضعیفہ میں نقل کیا ہے۔(الضعیفۃ :10/493، ح:4878)

راقم کہتا ہے کہ عبد الصمد غلط لکھا ہوا ہے، صحیح عبد الواحد ہے کیونکہ عبد الصمد بن عبد الوارث رحمہ اللہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے متروک نہیں کہا ہے اور نہ ہی کسی اور امام نے متروک کہا ہے بلکہ امام بخاری وغیرہ نے عبد الواحد کو متروک کہا ہے۔
نیز دیکھیں : (مختصرُ استدرَاك الحافِظ الذّهبي على مُستدرَك أبي عبد الله الحاكم :6/2967، ح:1005 کا حاشیہ)

*[تنبیہ نمبر : 3]* امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:354ھ) نے عبد الواحد بن زید کو کتاب الثقات میں ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

”يعْتَبر بحَديثه إِذا كَانَ دونه وفوقه ثِقَات“
”اِس کی حدیث کا اعتبار کیا جائے گا جب اِس کے نیچے اور اِس کے اوپر ثقہ راوی ہوں“۔
(الثقات :7/124، ت:9289)

*راقم عرض کرتا ہے کہ اِس قول کی بابت :*
*(1)* امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”وذكره أيضًا في الثقات فما أجاد“
”عبد الواحد کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں بھی ذکر کیا ہے اور آپ رحمہ اللہ نے اچھا نہیں کیا“۔
(لسان المیزان بتحقیق ابی غدۃ :5/290، ت:4957)

*(2)* علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”وهذا - مع مناقضته لنفسه - مخالف لاتفاق الأئمة أيضاً، وفيهم إمام الأئمة البخاري“
”یہ قول- خود اُن کے اپنے قول کے متضاد ہونے کے ساتھ ساتھ- ائمہ کرام کے اتفاق کے بھی مخالف ہے اور انہیں میں امام الائمہ بخاری بھی ہیں“۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ :10/492، ح:4878)
اور ایک دوسری جگہ حاشیہ میں فرماتے ہیں:

”كذا قال في الثقات (7/ 124)، فما أجاد -كما قال الحافظ ابن حجر في اللسان- وقد ذكره ابن حبان في الضعفاء أيضاً (2/ 154 - 155) فأصاب“
”اِسی طرح امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں کہا ہے لیکن اچھا نہیں کیا - جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان المیزان میں کہا ہے- اور عبد الواحد کو آپ رحمہ اللہ نے ضعفاء میں بھی ذکر کیا ہے اور درستگی کو پہنچے ہیں“۔ (ضعیف الترغیب و الترہیب :2/332، تحت الحدیث :1917)

*[تنبیہ نمبر : 4]* امام عبد العظیم بن عبد القوی المنذری رحمہ اللہ (المتوفی : 656ھ) زیر بحث قصے کے تحت فرماتے ہیں:

”رَوَاهُ ابْن أبي الدُّنْيَا وَالْبَزَّار وَرُوَاته ثِقَات إِلَّا عبد الْوَاحِد بن زيد وَقد قَالَ ابْن حبَان: يعْتَبر حَدِيثه إِذا كَانَ فَوْقه ثِقَة ودونه ثِقَة وَهُوَ هُنَا كَذَلِك“
”اِس روایت کو امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ اور امام بزار رحمہ اللہ نے روایت کیا ہےاور اِس کے رواۃ ثقہ ہیں سوائے عبد الواحد بن زید کے اور (اِن کی بابت) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب اِن کے اوپر اور اِن کے نیچے ثقہ راوی ہوں تو اِن کی حدیث کا اعتبار کیا جائے گا۔ اور یہاں معاملہ اِسی طرح ہے“۔(الترغيب والترهيب بتحقیق إبراهيم شمس الدين :4/103، ح:4990)

علامہ البانی رحمہ اللہ نے عبد الواحد کی بابت ائمہ کرام کے اقوال، بطور خاص امام ابن حبان رحمہ اللہ کے دونوں اقوال، کتاب الثقات میں موجود امام ابن حبان کے قول کا جواب دینے اور میزان الاعتدال سے امام ذہبی کا حکم نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

”ولذلک كله فلا التفات إلى قول المنذري في الترغيب“ ”اِن تمام چیزوں کی وجہ سے ترغیب میں امام منذری رحمہ اللہ کا قول ناقابل التفات ہے“۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ :10/493، ح:4878)

راقم کہتا ہے کہ امام منذری رحمہ اللہ کے قول کا آخری ٹکڑا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ عبد الواحد کے اوپر اور نیچے دونوں جگہ ثقہ راوی نہیں ہیں ۔ اُن کے شیخ اسلم الکوفی غیر معروف راوی ہیں جیسا کہ گذشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔

*[تنبیہ نمبر : 5]* امام عبد العظیم المنذری رحمہ اللہ زیر بحث قصے کے تحت فرماتے ہیں:

”رَوَاهُ ابْن أبي الدُّنْيَا وَالْبَزَّار وَرُوَاته ثِقَات إِلَّا عبد الْوَاحِد بن زيد“ ”اِس روایت کو امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ اور امام بزار رحمہ اللہ نے روایت کیا ہےاور اِس کے رواۃ ثقہ ہیں سوائے عبد الواحد بن زید کے“۔
(الترغيب والترهيب بتحقیق إبراهيم شمس الدين :4/103، ح:4990)
اور امام ابو الحسن علی بن ابو بکر الہیثمی رحمہ اللہ (المتوفی :807ھ) فرماتے ہیں:

”رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَفِيهِ عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زَيْدٍ الزَّاهِدُ، وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ الْجُمْهُورِ۔۔۔ وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ“
”اِس روایت کو امام بزار رحمہ اللہ نے روایت کیا ہےاور اِس میں عبد الواحد بن زید الزاہد ہے اور وہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے ۔۔۔ اور اِس روایت کے بقیہ رجال ثقہ ہیں“۔
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد بتحقیق حسام الدين القدسي:10/254، ح:17858)

راقم جوابا عرض کرتا ہے کہ عبد الواحد کو چھوڑ کر زیر بحث روایت کے تمام رجال ثقہ نہیں ہیں کیونکہ اِس سند میں اسلم الکوفی بھی ہیں جو کہ غیر معروف راوی ہیں۔جرح و تعدیل کے کسی بھی امام نے اِن کو ثقہ نہیں کہا ہے لہذا مذکورہ دونوں ائمہ کرام کی بات صحیح نہیں ہے۔
اور یہ بات بھی واضح رہے کہ دونوں ائمہ کرام سے یہاں سہو ہوا ہے اور اِس کی دو (2) دلیلیں ہیں، انہیں میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ مسند البزار میں - جہاں سے دونوں ائمہ کرام نے حدیث اخذ کی ہے- امام بزار رحمہ اللہ کا کلام موجود ہے جس سے عبد الواحد کا غیر معروف ہونا واضح ہوتا ہے۔
نیز کئی ائمہ کرام نے امام بزار رحمہ اللہ کے اِس قول کی موافقت بھی کی ہے جیساکہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔

*[تنبیہ نمبر : 6]* امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ عبد الواحد کے ترجمے میں رقمطراز ہیں:

”وذكره ابنُ حِبَّان في الضعفاء فقال: كان ممن يقلب الأخبار من سوء حفظه وكثرة وهمه فلما كثر ذلك منه استحق الترك“
”عبد الواحد کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے الضعفاء میں ذکر کے فرمایا : یہ اپنے سوء حفظ اور کثرتِ وہم کی وجہ سے حدیثوں کو الٹ پلٹ دیا کرتا تھا ۔ جب اِس کی جانب سے اِس چیز کی کثرت ہوئی تو یہ ترک کا مستحق ہو گیا“۔
(لسان المیزان بتحقیق ابی غدۃ :5/290، ت:4957)

راقم کہتا ہے کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ سے چوک ہو گئی ہے کیونکہ مذکورہ بات امام ابن حبان رحمہ اللہ نے عبد الواحد کی بابت نہیں کہی ہے بلکہ عبد الرزاق بن عمر الدمشقی کی بابت کہی ہے اور عبد الواحد کی بابت المجروحین میں جو کلام ہے، وہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔

* خلاصتہ التحقیق :* زیر بحث قصہ منکر اور سخت ضعیف ہے لہذا اِسے نہ پھیلایا جائے۔

*وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین.*

*حافظ اکبر علی اختر علی سلفی/ عفا اللہ عنہ*
*صدر البلاغ اسلامک سینٹر*
*️ 28 - شوال - 1441ھ*
*️ 20 - جون - 2020ء*



 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
Top