بسم اللہ الرحمن الرحیم
یوم الأربعاء ( بدھ )٨ ربیع الثانی ١٤٣٣هـ کو جامعہ اسلامیہ ( مدینہ منورہ )میں متعلمین طلبہ کا جمعیت طلبہ سلفیہ کے زیر اہتمام ایک اجتماع مقرر کیا گیا تھا جس میں کچھ مفید موضوعات میں سے ایک موضوع سیرت حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ بھی تھا۔
اس موضوع پر گفتگو کی ذمہ داری مولانا ابو ذکوان حفظہ اللہ( جو کہ مدینہ منورہ میں شعبہ دعوت و تبلیغ کے رکن ہیں اور شیخ نورپوری رحمہ اللہ کے اقرباء میں سے ہیں ) کی تھی ۔
چنانچہ انہوں نے شیخ رحمہ اللہ کی سیرت کے چند پہلؤوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ سب باتیں وہ ہیں جو میں نے خود ان سے براہ راست سنی ہیں یا ان کو کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ جو باتیں انہوں نے بالواسطہ بیان کی ہیں وہاں راوی کا ذکر کردیا ہے ۔ چند باتیں ملاحظہ فرمائیں آئندہ جو بھی معلومات ہیں چونکہ شیخ ابو ذکوان حفظہ اللہ کی زبانی ہیں لہذا آپ اس کو کہہ سکتے ہیں کہ
لمحات من سیرۃ عبد المنان بروایۃ أبی ذکوان
زہدو ورع
ایک دفعہ نورپوری صاحب رحمہ اللہ کسی قصاب کی دکان پر گئے ۔ قصاب نے کہا شیخ صاحب آپ نے مجھ کچھ ادھار گوشت لیاتھا اور اس کے پچاس پیسے آپ نے ادا نہیں کیے تھے ۔
شیخ نے کہا کہ بھائی اچھی طرح سوچ لو میں نے آپ کے پیسے نہیں دینے ہیں وہ کوئی اور ہو گا ۔ اس نے کہا شیخ آپ نے ہی پیسے دینے ہیں ۔ شیخ نے کہا بھائی اچھی طرح یاد کر لو وہ کوئی اور ہو گا آپ کو شاید غلطی ہو رہی ہے ۔
قصاب نے مزید غور و فکر کیا اور سوچا تو اس کو یاد آگیا کہ وہ کوئی اور شخص تھا جبکہ شیخ کا کوئی ادھار باقی نہیں ۔ چنانچہ اس نے شیخ رحمہ اللہ سے معذرت کی اور کہا کہ مجھے غلطی لگی وہ کوئی اور شخص ہے آپ نہیں ہیں ۔
شیخ نے کہا ٹھیک ہے ۔ لیکن ساتھ ہی اس کو پچاس پیسے بھی دے دیے اور کہا کہ چونکہ تمہیں شک ہے اس لیے اب یہ پیسے آپ کورکھنے پڑیں گے ۔
راوی ( ابو ذکوان ) کہتے ہیں کہ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو بتانے لگے کہ یہاں شک دور کرنا ضروری تھا ۔ کیونکہ ممکن ہے کل کویہ شخص کہتا کہ تم بڑے مولانا بنے پھر تے تم نے تو میرے پچاس پیسے نہیں دیے تھے ۔
اور ساتھ ہی امام بخاری رحمہ اللہ کا وہ کشتی والا واقعہ سنایا جب انہوں نے اپنے پیسے دریا برد کر دیے تھے ۔ تاکہ عدالت پر کوئی حرف نہ آئے ۔
اسی ضمن میں ایک اور واقعہ ہےکہ ایک دفعہ شیخ رحمہ اللہ کسی جگہ جمع پڑھانے گئے واپسی پر انہوں نے بطور خدمت کے آپ کو ٢٠٠٠ روپے دیے آپ نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا کہ بھائی اتنے پیسوں کی کیا ضرورت ہے آنے کا خرچہ صرف پانچ روپے ہوا ہے اور جمعہ تو ویسے ہی میں نے پڑھنا (یا پڑھانا ) تھا ۔
عبادت و ریاضت
ایام بیض کے روزوں کی پابندی کرتے تھے ۔
قیام اللیل کی پابندی کرتے تھے ۔
رمضان میں ٨ رکعات جماعت کے ساتھ ادا کرتے تھے ۔ اور باقی چار رکعات دوبارہ پھر خود مسجد میں آ کر پڑھتے تھے اور چار رکعات میں دو اجزاء ( پارے ) کی تلاوت کرتے تھے ۔ ( یہ بات سن کر شعبہ دعوت و تبلیغ کے ایک اور رکن شیخ ابو تراب صاحب ( شیخ کا بھتیجا )نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ میں نے خود نورپوری رحمہ اللہ کے ساتھ یہ رکعات ادا کی ہیں )
احترام علماء
شیخ ابو ذکوان صاحب نے (دکتور عبد الباسط فہیم صاحب کے یاد دلانے پر ) ایک اور واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ مسجدمیں جلسے میں کوئی مولوی صاحب تقریر کر رہے تھے دوران گفتگو اس نے مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ کے خلاف بولنا شروع کردیا ۔ حافظ نورپوری رحمہ اللہ اٹھے اور کہا کہ وہ ہماری جماعت کے ایک مقتدر عالم ہیں ان کے خلاف اس طرح گفتگونہ کرو ۔
مولوی صاحب نے تقریر جاری رکھی توگفتگو کرتے کرتے پھر لکھوی صاحب کی غیبت کرنی شروع کردی نورپوری صاحب نے پھر اس کو منع کیا مختصر یہ کہ جب دین دفعہ منع کرچکے اور وہ مقرر نے چوتھی بار پھر وہی کام کرناشروع کردیا تو نورپوری صاحب کھڑے ہوئے اور اس کو بازو سے پکڑ کر نیچے اتار دیا اور کہا کہ میں تمہیں منع کر رہا ہوں کہ ان کی غیبت نہ کرو تم باز نہیں آ رہے تم اس مقام پر گفتگو کرنے کے لائق ہی نہیں ہو ۔
حفظ القرآن اور شیخ عبد المنان رحمہ اللہ
شیخ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے جب تمام علوم میں اہم اہم کتب یاد کرلیں تو ایک دن میرے ذہن میں خیال آیا کہ میں نے اور تو سب کچھ یاد کرلیا ہے لیکن قرآن جو کہ سب سے اعلی کتاب ہے اس کو حفظ کرنے سےابھی تک محروم ہوں ۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ میں نے حفظ قرآن شروع کردیا رمضان میں چھ ماہ رہتے تھے کہتے ہیں کہ جب رمضان آیا تو میں نے الحمد للہ تراویح پڑھائیں اور اس میں تیس کے تیس پارے حفظ کر کے تلاوت کیے ۔ والحمد للہ علی ذلک ۔