• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت امیر معاویہ ؓ ، سیرت و کردار

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
حضرت امیر معاویہ ؓ ، سیرت و کردار
13/04/2017

کاتب وحی، صحابی رسول، خلیفۃ المسلمین، جرنیل اسلام، فاتح عرب و عجم، امام تدبیر و سیاست، محسن اسلام حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے کئی دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں، آپ ؓ کی بہن حضرت سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ اور ام المؤمنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ آپ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی، تاریخ اسلام کے روشن اوراق آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے کردار و کارناموں اور فضائل ومناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ رضی اللہ تعالی عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ کے آئینہ اخلاق میں اخلاص، علم و فضل، فقہ و اجتہاد، تقریر و خطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی، مخالفین کے ساتھ حسن سلوک، فیاضی و سخاوت، اور خوف الہی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔

قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب کتابت وحی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ کاتب وحی تھے، ان میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کاتب وحی بنایا تھا.
(ازالۃ الخفاء)

حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط تحریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے، یہاں تک کہ سفر و خضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے۔ چنانچہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں تشریف لے گئے تو سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پیچھے پیچھے گئے۔ راستہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وضو کی حاجت ہوئی، پیچھے مڑ ے تو دیکھا، معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پانی لیے کھڑے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے متاثر ہوئے، چنانچہ وضو کے لیے بیٹھے تو فرمانے لگے: معاویہ! تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں کے ساتھ درگزر کرنا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اسی وقت مجھے امید ہوگئی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشین گوئی صادق آئے گی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی خدمت اور بے لوث محبت سے اتنے خوش تھے کہ بعض اہم خدمات آپ کے سپرد فرما دی تھیں۔ علامہ اکبر نجیب آبادی رقمطراز ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدرات اور ان کے قیام و طعام کا انتظام و اہتمام بھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد کر دیا تھا۔ خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں آپ نے مانعین زکوٰۃ، منکرین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سر انجام دیے۔
(تاریخ اسلام)

عرب نقاد رضوی لکھتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کسی کا خون بہانا پسند نہیں کرتے تھے، مگر آپ اسلامی ہدایات کے مطابق مرتدین کے قتل و قتال میں کسی کے پیچھے نہ ہوتے، ایک روایت کے مطابق مسلیمہ کذاب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں، اس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے. جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے، اس جنگ میں غرضیکہ آپ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔ خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ جہاد و فتوحات میں مصروف رہے اور آپ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس، الشام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ، روڑس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کیا۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ان علاقوں کی فتوحات کے بعد یہ چاہتے تھے کہ اسلام کو ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب کی حیثیت سے سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہیے. فتح قبرص کی خواہش آپ کے دل میں مچل رہی تھی یورپ وافریقہ پر حملہ اور فتح کے لیے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔ بحرروم میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا، اسے فتح کیے بغیر شام ومصر کی حفاظت ممکن نہ تھی، اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کر دی اور اپنی اس بحری مہم کا اعلان کر دیا جس کے جواب میں جذبہ جہاد سے سرشار مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے۔ 28 ہجری میں آپ پوری شان و شوکت، تیاری و طاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ بحر روم میں اترے لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ جس میں تقریبا پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے، قبرص کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کرلیا۔ اس لشکر کے امیر و قائد خود امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے. آپ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کے لیے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیم اجمعین جن میں حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت ابوذرغفاری، حضرت ابودردا، حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت شداد بن اوس، سمیت دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین شریک ہوئے۔ اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا، تجربہ کار فوجوں اور بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بدترین شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی، ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر میں جنگ کرے گا. پہلی بشارت سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سب سے پہلی بحری لڑائی لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کر کے رومیوں کو زبردست شکست دی تھی اور دوسری بشارت سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور حکومت میں اس وقت پوری ہوئی جب لشکر اسلام نے قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کیا۔ اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے شوق شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین و تابعین دنیا کے گوشہ سے دمشق پہنچے، ان میں حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سیدنا حسین بن علی، اور میزبان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین، اور دیگر مدینہ منورہ سے تشریف لا کر اس لشکر میں شریک ہوئے جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت و خوشخبری فرمائی تھی۔

  • 32ھ میں آپ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ کے قریبی علاقوں میں جہاد جاری رکھا۔
  • 35ھ میں آپ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں غزوہ ذی خشب پیش آیا۔
  • 42ھ میں معرکہ بحستان پیش آیا اور آپ رضی اللہ عنہ ہی کے دور خلافت میں سندھ کا کچھ حصہ بھی مسلمانوں کے زیرنگیں آیا۔
  • 42ھ میں کابل فتح ہوا اور مسلمان ہندوستان میں قدابیل کے مقام تک پہنچ گئے۔
  • 43ھ میں ملک سوڈان فتح ہوا اور بحستان کا مزید علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔
  • 45ھ میں افریقہ پر لشکر کشی کی گئی اور ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے زیرنگیں آیا۔
  • 46ھ میں صقلیہ (سسلی) پر پہلی بار حملہ کیا گیا اور کثیر تعداد میں مال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔
  • 47ھ میں افریقہ کے مزید علاقوں میں جہاد جاری رکھا۔
  • 49ھ میں آپ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ کی طرف زبردست اسلامی لشکر روانہ فرمایا، جو مسلمانوں کا قسطنطنیہ پر پہلا حملہ تھا۔
  • 50ھ میں قبستان جنگ کے بعد قبضہ میں آیا۔
  • 54ھ میں آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسلمان دریائے جیجون کو عبور کرتے ہوئے بخارا تک جا پہنچے۔
  • 56ھ میں معرکہ سمرقند پیش آیا۔ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے رومیوں کے خلاف سولہ جنگیں لڑیں حتی کہ آخری وصیت بھی یہی تھی کہ روم کا گلا گھونٹ دو۔ خلاصہ یہ کہ سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ایک عظیم جرنیل، سپہ سالار اور میدان حرب کے نڈر شہسوار تھے. یہی وجہ ہے کہ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالے سے شاندار دور حکومت ہے. ایک طرف بحراوقیانوس اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیے۔

سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے خلفائے راشدین کے تر قیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نئے امور کی داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا:

  1. سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
  2. سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کی، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا کی زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔
  3. آبپاشی اور آبنوشی کے لیے دور اسلامی میں پہلی نہر کھدوائی۔
  4. ڈاکخانہ کی تنظیم نو کی اور ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔
  5. احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔
  6. آپ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے، آپ نے پرانے غلافوں کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔
  7. خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔
  8. انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیرہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔
  9. دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔
  10. بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت و صنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کیے۔
  11. سرحدوں کی حفاظت کے لیے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
  12. سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا۔
  13. بڑے بڑے اخلاقی مجرموں کے لیے خصوصی پولیس کی بنیاد رکھی۔
  14. دس بڑ ی بڑی سلطنتوں کے 5400 علاقوں پر اسلامی پرچم لہرایا گیا۔
  15. دنیا کا سب سے بڑا شہر قیساریہ، جس کے 300 بازار تھے اور جس کی حفاظتی پولیس کی تعداد ایک لاکھ تھی، اس پر اسلامی حکومت قائم کی گئی۔
  16. احادیث جمع کرنے اور دینی شعائر کے تحفظ کے لیے باقاعدہ محکمہ کا اجرا کیا.
  17. شکایات سیل کا قیام عمل میں لایا گیا.
  18. سرمائی اور گرمائی افواج کی تشکیل کی گئی.
  19. حفاظتی قلعوں کی تعمیر کی گئی.
  20. پارلیمنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا.

حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 163 احادیث مروی ہیں۔ 22 رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فاتح شام و قبرص اور 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کیے گئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ!!


تحریر: مولانا محمد جہان یعقوب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس تحریر کے مشتملات کافی حد تک ایک اور تحریر سے ملتے جلتے ہیں ، جو کہ فورم پر چار پانچ سال پہلے سے موجود ہے ۔
 
Top