ولید رضا فاروقی
مبتدی
- شمولیت
- جنوری 27، 2016
- پیغامات
- 10
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 9
حضرت انسان بھی کیا عجب چیز ہے
اپنے آس پاس سے جو اسے سیکھنا چاہیے وہ تو سیکھتا نہیں بس اپنی مرضی اور اپنے مطلب کے لئیے سب کچھ کرتا ہے
بس اپنا فائدہ ہونا چاہیۓ دوسروں کا بھلے نقصان ہی کیوں نہ ہو رہا ہو
یہ انسان اپنے فائدے کے لیے اپنے سگے بھائ تک کا خون کرنے کو معمولی بات سمجھتا ہے
لیکن پرندے آج کے اس انسان سے بہت بہتر ہیں
میرۓ ابو کہا کرتے ہیں کہ روز پرندوں کو اپنے ہاتھ سے کچھ ڈال دیا کرو اس سے صدقہ بھی ہو جاتا ہے اور پرندے بھی اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں
اس پر عمل کرتے ہو میں مکان کی چھت پر پرندوں کو روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑۓ ڈالنے گیا
چھوٹے ٹکڑوں کو چھت پر بکھیرے ہی تھے کہ ایک کوا آ گیا میں بھی ایک تھوڑا دور کھڑا ہو گیا
کوۓ نے ایک بھی ٹکڑا نہیں اٹھایا
اور وہاں بیٹھ کر کوا زور زور سے ٹیائیں ٹیائیں کرنے لگا اس کوۓ کی آواز سننی تھی کے کوۓ کی برادری آ گی کوا کافی دیر تک بولتا رہا جب تک کافی کوے اکٹھے ہو چکے تھے
تب اس کوۓ نے کھانا شروع کیا
میں یہ دیکھ کہ سوچ میں پڑ گیا کہ اگر حضرت انسان کو کچھ ملے آج کے اس دور میں تو یہ اپنے سگے بھائ سے چھپاتا ہے ہمساۓ کو تو پوچھے گا ہی کیوں
پر پرندے نے پہلے دوسروں کو بلایا پھر خود کھایا
آج کا انسان تو اس پرندے سے بھی نہیں سیکھتا
پہلے میں نے کہا نا کہ یہ انسان مرضی کا غلام ہے
جی میں آۓ تو اپنے مرنے والوں کی قبروں پر اربوں لگا کر عالیشان محل بنوا دے اور پڑوسی صرف چند ٹکوں کو ترستا ہوا غربت کی وجہ سے خودکشی کر رہا ہو
قلم کار : ولید رضا فاروقی
اپنے آس پاس سے جو اسے سیکھنا چاہیے وہ تو سیکھتا نہیں بس اپنی مرضی اور اپنے مطلب کے لئیے سب کچھ کرتا ہے
بس اپنا فائدہ ہونا چاہیۓ دوسروں کا بھلے نقصان ہی کیوں نہ ہو رہا ہو
یہ انسان اپنے فائدے کے لیے اپنے سگے بھائ تک کا خون کرنے کو معمولی بات سمجھتا ہے
لیکن پرندے آج کے اس انسان سے بہت بہتر ہیں
میرۓ ابو کہا کرتے ہیں کہ روز پرندوں کو اپنے ہاتھ سے کچھ ڈال دیا کرو اس سے صدقہ بھی ہو جاتا ہے اور پرندے بھی اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں
اس پر عمل کرتے ہو میں مکان کی چھت پر پرندوں کو روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑۓ ڈالنے گیا
چھوٹے ٹکڑوں کو چھت پر بکھیرے ہی تھے کہ ایک کوا آ گیا میں بھی ایک تھوڑا دور کھڑا ہو گیا
کوۓ نے ایک بھی ٹکڑا نہیں اٹھایا
اور وہاں بیٹھ کر کوا زور زور سے ٹیائیں ٹیائیں کرنے لگا اس کوۓ کی آواز سننی تھی کے کوۓ کی برادری آ گی کوا کافی دیر تک بولتا رہا جب تک کافی کوے اکٹھے ہو چکے تھے
تب اس کوۓ نے کھانا شروع کیا
میں یہ دیکھ کہ سوچ میں پڑ گیا کہ اگر حضرت انسان کو کچھ ملے آج کے اس دور میں تو یہ اپنے سگے بھائ سے چھپاتا ہے ہمساۓ کو تو پوچھے گا ہی کیوں
پر پرندے نے پہلے دوسروں کو بلایا پھر خود کھایا
آج کا انسان تو اس پرندے سے بھی نہیں سیکھتا
پہلے میں نے کہا نا کہ یہ انسان مرضی کا غلام ہے
جی میں آۓ تو اپنے مرنے والوں کی قبروں پر اربوں لگا کر عالیشان محل بنوا دے اور پڑوسی صرف چند ٹکوں کو ترستا ہوا غربت کی وجہ سے خودکشی کر رہا ہو
قلم کار : ولید رضا فاروقی
اٹیچمنٹس
-
70.3 KB مناظر: 243