HUMAIR YOUSUF
رکن
- شمولیت
- مارچ 22، 2014
- پیغامات
- 191
- ری ایکشن اسکور
- 56
- پوائنٹ
- 57
مفسرین نے سورہ الاحزاب کی اس آیت
وما کان لکم ان توء ذوارسول اللہ ولا ان تنکحو ازواجہ من بعدہ ابدا ان ذالک کان عنداللہ عظیما۔(ترجمہ: تمہارے لئے جائز نہٰیں ہے کہ اللہ کے رسول کو دکھ پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ آپکے بعد انکی بیویوں سے نکاح کرو۔ بے شک یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے)
کے تحت یہ واقعہ درج کیا ہے کہ "طلحہ بن عبید ارفہ نے ام المومنین حضرت عائشہ رض سے شادی کی خواہش کی (در منثور ، امام رازی کی تفسیر کبیر، فتح الکبیر، فتح القدیر جلد 4، تفسیر مظہری اور علامہ بغوی کی تفسیر معالم التنزیل)۔ اکثر مقامات تو ایسے ہیں کہ وہ شخص جس نے نکاح کا یہ جملہ بولا تھا، اسکا نام ذکر نہیں کیا گیا، کہیں کہیں حضرت طلحہ بن عبید اللہ کی طرف اس واقعہ کی نسبت کی گئی۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے مجروح ہے، تفسیر عبدالرزاق اور طبقات ابن سعد میں جو روایت نقل کی گئی ہے اس میں سدی نام کا راوی ہے۔ اسکا پورا نام محمد بن مروان بن عبداللہ سدی اصغر کوفی ہے، یعنی سدی صغیر۔ محدثین کا اس راوی کے متعلق کیا فرمانا ہے
سدی صغیر جو کہ محمد بن مروان ہیں۔ ان کو دجال کذاب کہا گیا ہے۔ یہ صاحب شدت پسندوں میں سے تھے اور احادیث گھڑا کرتےتھے۔ والسدي الصغير من الوضاعين الكذابين عند أهل السنة ، وهو رافضي غال ، وله ترجمة في كتب الرافضة مثل " الكنى والألقاب " للقمي (2/311 – 312)
والسدي الصغير حفيده محمد بن مروان بن عبد الله بن إسماعيل بن عبد الرحمن الكوفي ، روى عن محمد بن السائب الكلبي كتاب التفسير ذكره الخطيب البغدادي وقال : قدم بغداد وحدث بها ، وقال انه ضعيف متروك الحديث ، والسدي بضم السين وتشديد الدال المهملتين منسوب إلى منسوب سدة مسجده الكوفة ، وهي ما يبقى من الطاق المسدود .ا.هـ.
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں لوگ اسکے بارے میں خاموش رہیں۔ ابن معین اسکو ثقہ نہیں مانتے تھے۔ بن نمیر کہتے ہیں کہ لاشئی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس بڈھے کو چھوڑ دیا۔ اسی طرح دیگر اہل علم کے اقوال ملتے ہیں جو سدی صغیر کو ذاہب الحدیث مہتم بالکذب، ضعیف، متروک الحدیث اور بعض اسے کذاب رافضی بھی قرار دیتے ہیں۔ تفضیل تہذیب التہذیب جلد 5 صفحہ 972 پر ملاحظہ فرمائی جائے۔ نیز تقریب التہذیب جلد 2 صفحہ 155 پر بھی سدی کو جھوٹا ہونے میں معروف بتلاگیا ہے۔
٭۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کہ ولاتنکحو ازواجہ من بعدہ نازل نہیں ہوا تھا اور جس کام کی حرمت ابھی نازل ہی نہیں ہوئی تھی، اس کام پر الزام دینا کسی طرح درست نہیں، یہ تو ایسا ہی ہے جیسے تحویل قبلہ سے قبل کعبہ اللہ کی منہ نہ کرکے نماز پڑھنے کا الزام دیا جائے یا فرضیت حج کا حکم ہونے سے قبل ترک حج پر گنہگار قرار دیا جائے۔
ہاں جب قرآنی حکم نازل ہوگیا تو اسکے بعد کسی بھی شخص کو ایسی بات زبان پر لانے کی جرات ہرگز نہیں ہوسکی۔ لیکن اس حکم کے نزول سے قبل صحابہ نے محض رشتہ اور انکی (حضرت عائشہ رض) کی سمجھ داری، دیانت، امانت، صداقت و شرافت کی بناپر ایک ایسی بات کہہ دی جو آپ ﷺ کو ناگوار گزری، حالانکہ یہ ابت اول تو کرنے سے روکا نہیں گیا ۔ ثانیا قائل کے دل میں آپکی ایذا کا تصور تک نہ گزرا تھا۔ اور غیر اختیاری طور پر ایسا ہوجانا باعث الزام نہیں ، جبکہ قائل واقعہ مذکور کے بعد نادم بھی ہوا۔
٭ رافض نے باتعین اس واقعہ سے حضرت طلحہ بن عبید اللہ کا صراحتا نام ذکر کیا ہے، حالانکہ روایات میں اکثر رجلا کا لفظ ہے، جس سے اس قول کے قائل کی تیعین نہیں ہوتی، نیز فتح القدیر میں اس بات سے انکار کیا گیا ہے کہ اس واقعہ کا قائل حضرت طلحہ بن عبید اللہ رض ہیں۔ چنانچہ ابن عطیہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک حضرت طلحہ رض پر یہ الزام لگانا درست نہیں۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے بھی کئی حضرات سے نقل کیا ہے کہ ایسی بات کہنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شایان شان نہیں، لہذہ مذکور واقعہ کی نسبت حضرت طلحہ ، جو جلیل القدر صحابہ اور عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، انکی طرف کرنا درست نہیں۔
علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ کے بارے میں اڑائی جانے والی اس بات پر رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد مین ام المومنین سے نکاح کرلونگا، میں (سیوطی) بے حد مظرب اور پریشان تھا کہ حضرت طلحہ جیسا جلیل القدر عشرہ مبشرہ میں شمار کیا جانے والا صحابی بھلا یہ بات کیسے کہہ سکتا ہے۔یہاں تک کہ حقیقت حال میرے (سیوطی) سامنے کھل گئی کہ یہ بات کہتے والا ایک اور طلحہ ہے جو مبشر بالجنہ صحابی کے نام و نسبت میں کافی حد تک مطابقت رکھتا ہے، پس وہ طلحہ رض جو مشہور صحابی رسول اور عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں ، انکا نام و نسب یوں ہے:
طلحہ بن عبید اللہ بن عثمان بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم التمیی رضی اللہ عنہ ، اور وہ طلحہ جسکا یہ واقعہ ہے، اسکا نام و نسب یوں ہے:
طلحہ بن عبیداللہ مسافح بن عیاض بن سخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تمیم التمیمی۔ ابوموسیٰ نے ابن شاہین سے ذیل میں ان (طلحہ) کے ترجمہ میں فرمایا ہے کہ یہ (صاحب قصہ دوسرا طلحہ) وہ شخص ہیں جسکے بارے میں وما کان لکم الخ آیت نازل ہوئی تھی۔ ملحظا (الحاوی للفتاویٰ، ج 2 ص112، 117 از علامہ سیوطی۔ مطبوعہ فاروق کتب خانہ ملتان)
٭ بالفرض یہ بات حضرت طلحہ رض نے ہی کہی ہوتو تفسیر فتح القدیر کا اسی صفحہ پر انکا توبہ کرنا مذکور ہے، جب یہ آیت نازل ہوئی تو فاعتق ذالک الرجل رقیہ الخ کہ اس شخص نے غلام آزاد کیے۔اور وہ بہت پریشان ہوئے۔ 10 اونٹ (ہر مال سے ) بھر کر خیرات کئے پیدل حج کیا تاکہ قبول ہوجائے۔ اورحدیث پاک کا بتایا ہوا اصول یہ ہے کہ التائب من الذنب کمن لاذئب التوبہ کرنے والا گناہ سے ایسا ہی بری ہے جیسے گناہ نہ کرنے والا۔ صحابہ کو معصوم قرار دینا اہل سنت کا مذہب نہیں ہے بلکہ اہلسنت صحابہ کو محفوظ سمجھتے ہیں کہ غلطی تو ہوجاتی ہے، پر اسکا اثر دل پر نہیں رہتا بلکہ فوری معافی تلافی سے اس گناہ کے اثر کو زائل کردیا جاتا ہے۔ حضرت طلحہ سے اس قصور کا صادر ہونا مان بھی لیا جائے تو توبہ اور معافی سے وہ گناہ باقی نہ رہا، پھر الزام کس چیز پر۔
٭آپ ﷺ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے مذکورہ واقعہ کے بعد کبھی ان سے ناراضگی کا نہ اظہار فرمایا اور نہ کبھی رنج و دکھ کو ظاہر فرمایا، بلکہ ان سے ایسی ایسی دینی خدمت کی جو صرف حضرت طلحہ ہی کا حصہ و نصیبہ ہوسکتا ہے۔ میدان احد کا وہ صحابی جس نے تیر پر تیر کھا کر ہاتھ تو چھلنی کروالیا مگر رحمت عالم ﷺ کے وجود اطہر کی طرف دشمن کے کسی تیر کو نہ آنے دیا، وہ صحابی حضرت طلحہ ہی تھے۔ یہی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ہیں جنکی ناراضگی سے اظہار تو دور کی بات، لسان نبوت نے ایسے ایسے خوبصور و عظیم الشان ارشادات سے انکی عزت افزائی فرمائی کہ رہتی دنیا تک وہ عدیم المثال رہیں گی۔
٭ وہ صحابہ جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ان میں شامل ہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں کے لئے فرمایا کہ جو زمین پر چلتا پھرتا شہید دیکھنا چاہے وہ طلحہ کو دیکھ لیں (ترمذی)۔ آپ رض اللہ عنہ نے احد میں 80 سے زیادہ زخم وجود پر ہونے کے باوجود محبوب کریم ﷺ کو کندھے پر اٹھالیا تب آپ ﷺ نے فرمایا کہ طلحہ کیلئے جنت واجب ہوگئی، اسی طرح کے کئی ارشادات نبوی ﷺ حضرت طلحہ کیلئے آپ ﷺ کی مبارک زبان سے جاری ہوئے۔ اس سے بخوبی جانا جاسکتا ہے کہ حضرت طلحہ سے آپ کو کس درجہ محبت تھی اور کس درجہ آپ انکا خیال رکھتے تھے۔
وما کان لکم ان توء ذوارسول اللہ ولا ان تنکحو ازواجہ من بعدہ ابدا ان ذالک کان عنداللہ عظیما۔(ترجمہ: تمہارے لئے جائز نہٰیں ہے کہ اللہ کے رسول کو دکھ پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ آپکے بعد انکی بیویوں سے نکاح کرو۔ بے شک یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے)
کے تحت یہ واقعہ درج کیا ہے کہ "طلحہ بن عبید ارفہ نے ام المومنین حضرت عائشہ رض سے شادی کی خواہش کی (در منثور ، امام رازی کی تفسیر کبیر، فتح الکبیر، فتح القدیر جلد 4، تفسیر مظہری اور علامہ بغوی کی تفسیر معالم التنزیل)۔ اکثر مقامات تو ایسے ہیں کہ وہ شخص جس نے نکاح کا یہ جملہ بولا تھا، اسکا نام ذکر نہیں کیا گیا، کہیں کہیں حضرت طلحہ بن عبید اللہ کی طرف اس واقعہ کی نسبت کی گئی۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے مجروح ہے، تفسیر عبدالرزاق اور طبقات ابن سعد میں جو روایت نقل کی گئی ہے اس میں سدی نام کا راوی ہے۔ اسکا پورا نام محمد بن مروان بن عبداللہ سدی اصغر کوفی ہے، یعنی سدی صغیر۔ محدثین کا اس راوی کے متعلق کیا فرمانا ہے
سدی صغیر جو کہ محمد بن مروان ہیں۔ ان کو دجال کذاب کہا گیا ہے۔ یہ صاحب شدت پسندوں میں سے تھے اور احادیث گھڑا کرتےتھے۔ والسدي الصغير من الوضاعين الكذابين عند أهل السنة ، وهو رافضي غال ، وله ترجمة في كتب الرافضة مثل " الكنى والألقاب " للقمي (2/311 – 312)
والسدي الصغير حفيده محمد بن مروان بن عبد الله بن إسماعيل بن عبد الرحمن الكوفي ، روى عن محمد بن السائب الكلبي كتاب التفسير ذكره الخطيب البغدادي وقال : قدم بغداد وحدث بها ، وقال انه ضعيف متروك الحديث ، والسدي بضم السين وتشديد الدال المهملتين منسوب إلى منسوب سدة مسجده الكوفة ، وهي ما يبقى من الطاق المسدود .ا.هـ.
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں لوگ اسکے بارے میں خاموش رہیں۔ ابن معین اسکو ثقہ نہیں مانتے تھے۔ بن نمیر کہتے ہیں کہ لاشئی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس بڈھے کو چھوڑ دیا۔ اسی طرح دیگر اہل علم کے اقوال ملتے ہیں جو سدی صغیر کو ذاہب الحدیث مہتم بالکذب، ضعیف، متروک الحدیث اور بعض اسے کذاب رافضی بھی قرار دیتے ہیں۔ تفضیل تہذیب التہذیب جلد 5 صفحہ 972 پر ملاحظہ فرمائی جائے۔ نیز تقریب التہذیب جلد 2 صفحہ 155 پر بھی سدی کو جھوٹا ہونے میں معروف بتلاگیا ہے۔
٭۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کہ ولاتنکحو ازواجہ من بعدہ نازل نہیں ہوا تھا اور جس کام کی حرمت ابھی نازل ہی نہیں ہوئی تھی، اس کام پر الزام دینا کسی طرح درست نہیں، یہ تو ایسا ہی ہے جیسے تحویل قبلہ سے قبل کعبہ اللہ کی منہ نہ کرکے نماز پڑھنے کا الزام دیا جائے یا فرضیت حج کا حکم ہونے سے قبل ترک حج پر گنہگار قرار دیا جائے۔
ہاں جب قرآنی حکم نازل ہوگیا تو اسکے بعد کسی بھی شخص کو ایسی بات زبان پر لانے کی جرات ہرگز نہیں ہوسکی۔ لیکن اس حکم کے نزول سے قبل صحابہ نے محض رشتہ اور انکی (حضرت عائشہ رض) کی سمجھ داری، دیانت، امانت، صداقت و شرافت کی بناپر ایک ایسی بات کہہ دی جو آپ ﷺ کو ناگوار گزری، حالانکہ یہ ابت اول تو کرنے سے روکا نہیں گیا ۔ ثانیا قائل کے دل میں آپکی ایذا کا تصور تک نہ گزرا تھا۔ اور غیر اختیاری طور پر ایسا ہوجانا باعث الزام نہیں ، جبکہ قائل واقعہ مذکور کے بعد نادم بھی ہوا۔
٭ رافض نے باتعین اس واقعہ سے حضرت طلحہ بن عبید اللہ کا صراحتا نام ذکر کیا ہے، حالانکہ روایات میں اکثر رجلا کا لفظ ہے، جس سے اس قول کے قائل کی تیعین نہیں ہوتی، نیز فتح القدیر میں اس بات سے انکار کیا گیا ہے کہ اس واقعہ کا قائل حضرت طلحہ بن عبید اللہ رض ہیں۔ چنانچہ ابن عطیہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک حضرت طلحہ رض پر یہ الزام لگانا درست نہیں۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے بھی کئی حضرات سے نقل کیا ہے کہ ایسی بات کہنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شایان شان نہیں، لہذہ مذکور واقعہ کی نسبت حضرت طلحہ ، جو جلیل القدر صحابہ اور عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، انکی طرف کرنا درست نہیں۔
علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ کے بارے میں اڑائی جانے والی اس بات پر رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد مین ام المومنین سے نکاح کرلونگا، میں (سیوطی) بے حد مظرب اور پریشان تھا کہ حضرت طلحہ جیسا جلیل القدر عشرہ مبشرہ میں شمار کیا جانے والا صحابی بھلا یہ بات کیسے کہہ سکتا ہے۔یہاں تک کہ حقیقت حال میرے (سیوطی) سامنے کھل گئی کہ یہ بات کہتے والا ایک اور طلحہ ہے جو مبشر بالجنہ صحابی کے نام و نسبت میں کافی حد تک مطابقت رکھتا ہے، پس وہ طلحہ رض جو مشہور صحابی رسول اور عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں ، انکا نام و نسب یوں ہے:
طلحہ بن عبید اللہ بن عثمان بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم التمیی رضی اللہ عنہ ، اور وہ طلحہ جسکا یہ واقعہ ہے، اسکا نام و نسب یوں ہے:
طلحہ بن عبیداللہ مسافح بن عیاض بن سخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تمیم التمیمی۔ ابوموسیٰ نے ابن شاہین سے ذیل میں ان (طلحہ) کے ترجمہ میں فرمایا ہے کہ یہ (صاحب قصہ دوسرا طلحہ) وہ شخص ہیں جسکے بارے میں وما کان لکم الخ آیت نازل ہوئی تھی۔ ملحظا (الحاوی للفتاویٰ، ج 2 ص112، 117 از علامہ سیوطی۔ مطبوعہ فاروق کتب خانہ ملتان)
٭ بالفرض یہ بات حضرت طلحہ رض نے ہی کہی ہوتو تفسیر فتح القدیر کا اسی صفحہ پر انکا توبہ کرنا مذکور ہے، جب یہ آیت نازل ہوئی تو فاعتق ذالک الرجل رقیہ الخ کہ اس شخص نے غلام آزاد کیے۔اور وہ بہت پریشان ہوئے۔ 10 اونٹ (ہر مال سے ) بھر کر خیرات کئے پیدل حج کیا تاکہ قبول ہوجائے۔ اورحدیث پاک کا بتایا ہوا اصول یہ ہے کہ التائب من الذنب کمن لاذئب التوبہ کرنے والا گناہ سے ایسا ہی بری ہے جیسے گناہ نہ کرنے والا۔ صحابہ کو معصوم قرار دینا اہل سنت کا مذہب نہیں ہے بلکہ اہلسنت صحابہ کو محفوظ سمجھتے ہیں کہ غلطی تو ہوجاتی ہے، پر اسکا اثر دل پر نہیں رہتا بلکہ فوری معافی تلافی سے اس گناہ کے اثر کو زائل کردیا جاتا ہے۔ حضرت طلحہ سے اس قصور کا صادر ہونا مان بھی لیا جائے تو توبہ اور معافی سے وہ گناہ باقی نہ رہا، پھر الزام کس چیز پر۔
٭آپ ﷺ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے مذکورہ واقعہ کے بعد کبھی ان سے ناراضگی کا نہ اظہار فرمایا اور نہ کبھی رنج و دکھ کو ظاہر فرمایا، بلکہ ان سے ایسی ایسی دینی خدمت کی جو صرف حضرت طلحہ ہی کا حصہ و نصیبہ ہوسکتا ہے۔ میدان احد کا وہ صحابی جس نے تیر پر تیر کھا کر ہاتھ تو چھلنی کروالیا مگر رحمت عالم ﷺ کے وجود اطہر کی طرف دشمن کے کسی تیر کو نہ آنے دیا، وہ صحابی حضرت طلحہ ہی تھے۔ یہی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ہیں جنکی ناراضگی سے اظہار تو دور کی بات، لسان نبوت نے ایسے ایسے خوبصور و عظیم الشان ارشادات سے انکی عزت افزائی فرمائی کہ رہتی دنیا تک وہ عدیم المثال رہیں گی۔
٭ وہ صحابہ جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ان میں شامل ہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں کے لئے فرمایا کہ جو زمین پر چلتا پھرتا شہید دیکھنا چاہے وہ طلحہ کو دیکھ لیں (ترمذی)۔ آپ رض اللہ عنہ نے احد میں 80 سے زیادہ زخم وجود پر ہونے کے باوجود محبوب کریم ﷺ کو کندھے پر اٹھالیا تب آپ ﷺ نے فرمایا کہ طلحہ کیلئے جنت واجب ہوگئی، اسی طرح کے کئی ارشادات نبوی ﷺ حضرت طلحہ کیلئے آپ ﷺ کی مبارک زبان سے جاری ہوئے۔ اس سے بخوبی جانا جاسکتا ہے کہ حضرت طلحہ سے آپ کو کس درجہ محبت تھی اور کس درجہ آپ انکا خیال رکھتے تھے۔