محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنھا) کے آنسو !!!
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنھا) کے آنسو!
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ سفر میں جاتے وقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے نام فرعہ ڈالتے اور جس کا نام نکلتا اسے اپنے ساتھ لے جاتے. چنانچہ ایک غزوے کے موقع پر میرا نام نکلا. میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ے ساتھ چلی( یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے) ہوتا یوں کہ میں اپنے ہودج میں بیٹھی رہتی اور جب قافلہ چلتا تو یونہی ہودج رکھ دیا جاتا. ہم غزوے پر گئے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم غزوے سے فارغ ہوئے اور واپس لوٹے اور مدینے کے قریب آگئے. رات کو چلنے کی آواز لگائی گئی میں قضا حاجت کیلئے نکلی اور لشکر کے پڑاؤ سے دور جاکر میں نے قضا حاجت کی پھر واپس لوٹی لشکرگاہ کے قریب آکر میں نے اپنے گلے کو ٹٹولا تو ہار نہ پایا. میں واپس اس کے ڈھوندنے کے لئے چلی گئی اور تلاش کرتی رہی. یہاں یہ ہوا کہ لشکر نے کوچ کردیا. جو لوگ میرا ہودج اٹھاتے تھے انہوں نے یہ سمجھ کر کہ میں حسب عادت اندر ہی ہوں ہودج اٹھا کر اوپر رکھ دیا اور چل پڑے. یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت تک عورتیں نہ کچھ ایسا کھاتی پیتی تھیں نہ وہ بھاری بدن کی بوجھل تھیں. تو میرے ہودج اٹھانے والوں کو میرے ہونے یا نہ ہونے کا مطلق پتہ نہ چلا اور میں اس وقت اوائل عمر کی تو تھی ہی. الغرض بہت دیر کے بعد مجھے میرا ہار مل گیا.
یہاں میں جو پہنچی تو کسی آدمی کا نام و نشان بھی نہ تھا. نہ کوئی پکارنے والا نہ جواب دینے والا. میں اپنے نشان کے مطابق وہی پہنچی جہاں ہمارا اونٹ بٹھایا گیا تھا، اور وہیں انتظار میں بیٹھ گئی کہ جب آپۖ چل کر میرے نہ ہونے کی خبر پائیں گے تو مجھے تلاش کرنے کے لئے یہیں آئیں گے. مجھے بیٹھے بیٹھے نیند آگئی اتفاق سے حضرت صفوان بن معطل سلمی ذکوانی جو لشکر کے پیچھے رہتے تھے وہ پچھلی رات کو چلے تھے صبح کے چاندنے میں یہاں پہنچ گئے. ایک سوتے ہوئے آدمی کو یکھ کر خیال آنا تھا. غور سے دیکھا تو چونکہ پردے کے حکم سے پہلے مجھے وہ دیکھتے ہی تھے ، دیکھتے ہی پہچان گئے اور بآواز بلند ان کی زبان سے نکلا انا ﷲ وانا الیہ راجعون . ان کی آواز سنتے ہی میری آنکھ کھل گئی اور میں آپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ کر سنبھل بیٹھی. انہوں نے جھٹ سے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اس کی ٹانگ پر اپنا پاؤں رکھا. میں اٹھی اور اونٹ پر سوار ہوگئی. انہوں نے اونٹ کو کھڑا کردیا اور بھگاتے ہوئے لے چلے. قسم اﷲ کی نہ وہ مجھ سے کچھ بولے نہ میں نے ان سے کوئی بات کی. نہ سوائے انا ﷲ کے میں نے ان کے منہ سے کوئی کلمہ سنا. دو پہر کے قریب ہم اپنے قافلے سے مل گئے.
بس اتنی سی بات کا ہلاک ہونے والوں نے بتنگڑ بنالیا. ان کا سب سے بڑا اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والا عبداﷲ بن ابی بن سلول تھا. مدینے آتے ہی میں بیمار پڑگئی اور مہینے بھر تک بیماری میں گھر میں رہی. نہ میں نے کچھ سنا ، نہ کسی نے مجھ سے کہا. جو کچھ غل غپاڑہ لوگوں میں ہورہا تھا میں اس سے بے خبر تھی. البتہ میرے دل میں یہ خیال بسا اوقات گزرتا تھا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مہر و محبت میں کمی کی کیا وجہ ہے؟ بیماری میں عام طور پر جو شفقت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو میرے ساتھ ہوتی تھی. اس بیماری میں وہ بات نہ پاتی تھی اسے لئے مجھے رنج تو بہت تھا مگر کوئی وجہ معلوم نہ تھی ، بس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لاتے ، سلام کرتے اور دریافت فرماتے طبیعت کیسی ہے؟ اور کوئی بات نہ کرتے ، اس سے مجھے بڑا صدمہ ہوتا. مگر بہتان بازوں کی تہمت سے میں بالکل غافل تھی.
اب سنئے اس وقت تک گھروں میں لٹرین کا انتظام نہ تھا . اور عرب کی قدیم عادت کے مطابق ہم لوگ میدان میں قضا حاجب کیلئے جایا کرتے تھے. عورتیں عموماً رات کو جایا کرتی تھیں. گھروں میں لٹرین بنانے پر عام طور پر نفرت کی جاتی تھی .حسب عادت میں ام مسطح بنت ابی رہم ابن عبدالمطلب بن عبد مناف کے ساتھ قضاء حاجت کیلئے چلی. اس وقت میں بہت ہی کمزور تھی. یہ ام مسطح میرے والد کی خالہ تھیں. ان کی والدہ صخر بن عامر کی لڑکی تھیں. ان کے لڑکے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن عبدالمطلب تھا. جب ہم واپس آنے لگے تو حضرت ام مسطح کا پاؤں چادر کے دامن میں الجھا اور بے ساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ (تائس مسطح) مسطح غارت ہو مجھے برا لگا اور میں نے کہا، تم نے بہت برا کلمہ بولا، توبہ کرو، تم گالی دیتی ہو. جس نے جنگ بدر میں شرکت کی. اس وقت ام مسطح نے کہا. بھولی بی بی آپ کو کیا معلوم میں نے کہا کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا وہ بھی ان لوگوں میں ہے جو آپ کو بدنام کرتے پھرتے ہیں. مجھے سخت حیرت ہوئی میں ان کے سر ہوگئی کہ کم از کم مجھے سارا واقعہ تو کہو. اب انہوں نے بہتان باز لوگوں کی تمام کارستانیاں مجھے سنائیں . میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے. رنج و غم کا پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑا، مارے صدمے کے میں تو اور بیمار ہوگئی. بیمار تو پہلے سے تھی. اس خبر نے تو نڈھال کردیا. جوں توں کرکے گھر پہنچی اب صرف یہ خیال تھا کہ میں اپنے میکے جا کر اور اچھی طرح معلوم تو کرلوں کہ کیا واقعی میری نسبت ایسی افواہ پھیلائی گئی ہے اور کیا کیا مشہور کیا جارہا ہے.
اتنے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور سلام کیا اور دریافت فرمایا کیا حال ہے؟ میں نے کہا اگر آپۖ اجازت دیں تو میں اپنے والد کے ہاں ہو آؤں. آپۖ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اجازت دے دی میں یہاں سے آئی اپنی والدہ سے پوچھا کہ اماں جان لوگوں میں میرے متعلق کیا باتیں پھیل رہی ہیں. انہوں نے فرمایا ، بیٹی یہ تو نہایت معمولی بات ہے تم اپنا دل بھاری مت کرو. کسی شخص کی اچھی بیوی جو اسے محبوب ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں. وہاں ایسی باتوں کا کھڑا ہونا تو لازمی امر ہے.میں نے کہا ، سبحان اﷲ کیا واقعی لوگ میری نسبت ایسی افواہیں اڑا رہے ہیں.
اب تو مجھے رنج و غم نے اس قدر گھیرا کہ بیان سے باہر ہے. اس وقت سے جو رونا شروع ہوا. واﷲ ایک دم بھر کے لئے میرے آنسو نہیں تھمے. میں سرڈال کر روتی رہی کہاں کاکھانا پینا، کہاں کا سونا جاگنا اور کہاں کی بات چیت بس رنج والم اور رونا ہے اور میں ہوں. ساری رات اسی حالت میں گزری کہ آنسوؤں کی لڑی نہ تھمی. دن کو بھی یہی حال رہا.
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو اور حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما کو بلایا. وحی میں دیر ہوئی . اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کوئی بات معلوم نہ ہوئی تھی. اس لئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان دونوں حضرات سے مشورہ کیا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے الگ کردیں یا کیا کریں؟ حضرت اسامہ نے صاف کہا کہ اے اﷲ کے رسولۖ صلی اﷲ علیہ وسلم ہم آپ کی اہل پر کوئی برائی نہیں جانتے. ہمارے دل تو ان کی محبت عزت اور شرافت کی گواہی دینے کے لئے حاضر ہیں. ہاں حضرت علی نے جواب دیا کہ یا رسول اﷲۖ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کوئی تنگی نہیں عورتیں ان کے سوا بھی بہت ہیں اگر آپ گھر کی خادمہ سے پوچھیں تو آپ کو صحیح واقعہ معلوم ہوسکتا ہے.آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسی وقت گھر کی خادمہ حضرت بریرة کو بلوایا اور ا ن سے فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی کوئی بات شک و شبہ والی کبھی بھی دیکھی ہو تو بتلاؤ. بریرة نے کہا کہ اس اﷲ کی قسم جس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں نے ان میںکوئی بات کبھی اس قسم کی نہیں دیکھی. ہاں صرف یہ بات ہے کہ کم عمری کی وجہ سے ایسا ہوجاتا ہے کہ کبھی کبھی گوندھا ہوا آٹا یونہی رکھا رہتا ہے اور بی بی سو جاتی، تو بکری آٹا کھا جاتی. اس کے سوا میں نے ان کا کوئی قصور کبھی نہیں دیکھا. چونکہ کوئی ثبوت اس واقعہ کا نہ ملا اس لئے اسی دن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ممبر پر کھڑے ہوئے اور مجمع سے مخاطب ہوکر فرمایا کون ہے جو مجھے اس شخص کی ایذاؤں سے بچائے جس نے مجھے ایذائیں پہنچاتے پہنچاتے اب تو میری گھر والیوں کے بارے میں مجھے ایذائیں پہنچانی شروع کردیں . واﷲ میں جہاں تک جانتا ہوں مجھے اپنی گھر والیوں میں سوائے بھلائی کے کوئی چیز معلوم نہیں جس شخص کا نام یہ لوگ لے رہے ہیں میری دانست میں تو اس کے متعلق بھی سوالئے بھلائی کے اور کچھ نہیں وہ میرے ساتھ ہی گھر میں آتا تھا یہ سنتے ہی حضرت سعد بن معاذ کھڑے ہوگئے، فرمانے لگے ، یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میں موجود ہوں ، اگر قبیلہ اوس کا شخص ہے تو ابھی ہم اس کی گردن تن سے جدا کرتے ہیں اور اگر وہ ہمارے خزرج بھائیوں سے ہے تو بھی آپ جو حکم دیں ہمیں اس کی تعمیل میں کوئی عذر نہ ہوگا. یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہ کھڑے ہوگئے. یہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے. تھے تو یہ بڑے نیک بخت مگر حضرت سعد بن معاذ کی اس وقت کی گفتگو سے انہیں اپنے قبیلے کی حمیت آگئی اور ان کی طرف داری کرتے ہوئے حضرت سعدبن معاذ سے کہنے لگے نہ تو تو اسے قتل کرے گا ، نہ اس کے قتل پر تو قادر ہے اگر وہ تیرے قبیلے کا ہوتا تو اس کا قتل کیا جانا کبھی پسند نہ کرتا. یہ سن کر اسید بن حضیر کھڑے ہوگئے یہ حضرت سعد بن معاذ کے بھتیجے تھے کہنے لگے اسے سعد بن عبادہ تم جھوٹ کہتے ہو ہم اسے ضرور مار ڈالیں گے. آپ منافق ہیں کہ منافقوں کی طرف داری کررہے ہیں. اب ان کی طرف سے ان کا قبیلہ اور ان کی طرف سے ان کا قبیلہ ایک دوسرے کے مقابلے پر آگئے اور قریب تھا کہ اوس و خزرج یہ دونوں قبیلے آپس میں لڑ پڑیں. حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ممبر پر انہیں سمجھانا اور چپ کرانا شروع کیا. یہاں تک کہ دونوں طرف خاموشی ہوگئی.
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم بھی خاموش ہو رہے یہ تو تھا وہاں کا واقعہ. میرا حال یہ تھا کہ سارا دن بھی رونے ہی میں گزرا. میرے اس رونے نے میرے والدین کی بھی سٹی گم کردی تھی. وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ میرا یہ رونا میرا کلیجہ پھاڑ دے گا. دونوں حیرت زدہ مغموم بیٹھے ہوئے تھے اور مجھے تو رونے کے سوا اور کوئی کام ہی نہ تھا. انصار کی ایک عورت آئی اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی. ہم یونہی بیٹھے ہوئے تھے جو اچانک رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کرکے میرے پاس بیٹھ گئے. قسم اﷲ کی جب سے یہ بہتان بازی شروع ہوئی تھی آج تک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میرے پاس کبھی نہیں بیٹھے تھے . مہینہ بھر گزر گیا تھا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہی حالت تھی کوئی وحی نہیں آئی تھی کہ فیصلہ ہوسکے. آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیٹھتے ہی اول تو تشہد پڑھا، پھر اما بعد پڑھ کر فرمایا کہ اے عائشہ ! تیری نسبت مجھے یہ خبر پہنچی ہے اگر تو واقعی پاک دامن ہے تو اﷲ تعالیٰ سے استغفار کر اور توبہ کر. بندہ جب گناہ کرکے اپنے اقرار گناہ کے ساتھ اﷲ کی طرف جھکتا ہے اور اس سے معافی طلب کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے.آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اتنا فرما کر خاموش ہوگئے یہ سنتے ہی میرا رونا دھونا سب جاتا رہا ، آنسو تھم گئے . یہاں تک کہ میں آنسو کا ایک قطرہ بھی نہ پاتی تھی میں نے اول تو اپنے والد سے درخواست کی کہ میری طرف سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو آپ ہی جواب دیں لیکن انہوں نے کہا واﷲ! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں؟ اب میں نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ آپ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو جواب دیں. لیکن انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں نہیں سمجھ سکتی کہ میں کیا جواب دوں؟ آخر میں نے خود ہی جواب دینا شرو ع کیا میری عمر کچھ ایسی بڑی تو نہ تھی اور نہ مجھے زیادہ قرآن حفظ تھا . میں نے کہا آپ سب نے ایک بات سنی اور اسے اپنے دل میں بٹھالیا، گویا سچ سمجھ لی اور اب اگر میں کہوں گی کہ میں اس سے بالکل بری ہوںاور اﷲ خوب جانتا ہے کہ واقعی میں اس سے بالکل بری ہوں لیکن تم لوگ نہیں مانو گے ہاں اگر میں کسی امر کا اقرار کرلوں حالانکہ اﷲ تعالیٰ کو خوب علم ہے کہ میں بالکل بے گناہ ہوں تو تم ابھی مان لو گے. میری اور تمہاری مثال تو بالکل حضرت ابو یوسف کا یہ قول ہے: فصبر جمیل واﷲ الستعان علی ما تصفون '' پس صبر ہی اچھا ہے جس میں شکایت کا نام ہی نہ ہو، اور تم جو باتیں بناتے ہو ان میں اﷲ تعالیٰ ہی میری مدد کرے''اتنا کہہ کر میں نے کروٹ پھیرلی اور اپنے بستر پر لیٹ گئی. واﷲ مجھے یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں اﷲ تعالیٰ میری برات اپنے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو ضرور معلوم کرادے گا . لیکن یہ تو میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے بارے میں قرآن کی آیتیں نازل ہوں گی. میں اپنے آپ کو اس سے بہت کمتر جانتی تھی کہ میرے بارے میں کلام اﷲ کی آیتیں اتریں. ہاں مجھے زیادہ سے زیادہ یہ خیال ہوتا تھا کہ ممکن ہے کہ خواب میں اﷲ تعالیٰ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو میری برات دکھا دے.
واﷲ! ابھی تو نہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم اپنی جگہ سے ہٹے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی گھر کے باہر نکلا تھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونا شروع ہوگئی اور چہرے(مبارک) پر وہی نشان ظاہر ہوئے جو وحی کے وقت ہوتے تھے اور پیشانی مبارک سے پسینے کی پاک بوندیں ٹپکنے لگیں. سخت سردی میں بھی وحی کے نازل ہونے کی یہی کیفیت ہوا کرتی تھی. جب وحی اتر چکی تو ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ (مبارک) ہنسی سے شگفتہ ہورہا ہے. سب سے پہلے آپۖ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ عائشہ خوش ہوجاؤ . اﷲ تعالیٰ نے تمہاری برات نازل فرمادی. اسی وقت میری والدہ نے فرمایا کہ بچی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو جا. میں نے جواب دیا کہ واﷲ! نہ تو میں آپۖ کے سامنے کھڑی ہوں اور نہ سوائے اﷲ تعالیٰ کے کسی اور کی تعریف کروں. اسی نے میری برات اور پاکیزگی نازل فرمائی ہے. اس لئے میں تو اسی کی تعریف کروں گی اور اسی کا شکریہ ادا کروں گی.
(تفسیر ابن کثیر ، جلد 3)
( ''صحیح اسلامی واقعات ''، صفحہ نمبر 24-15)
قارئین !! نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے کتنی محبت تھی کہ اتنا بڑا بہتان لگنے کے باوجود ان کو طلاق نہیں دی. اس کے علاوہ جس منافق نے یہ حرکت کی تھی اس نے کتنی تکلیف پہنچائی . لیکن افسوس صد افسوس آج بھی ایک طبقہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے بارے میں گستاخانہ گمان رکھتا ہے اور ان کی پاکدامنی کا صاف انکار کرتا ہے. حالانکہ قرآن نے اس عظیم عورت کے بارے میں برات کی آیتیں نازل کی.کیا کوئی امہات المومنین یعنی مومنین کی ماؤں پر ایسے غلط الزامات لگا سکتا ہے؟