عکرمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 658
- ری ایکشن اسکور
- 1,870
- پوائنٹ
- 157
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو گالی دینے والے کا حکم
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال القاضی ابویعلی من قذف عائشۃ بما برأھا اللہ منہ کفر بلاخلاف وقد حکی الاجماع علی ھذا غیر واحد وصرح غیر واحد من الائمۃ بھذا الحکم فروی عن مالک من سب ابا ابکر جُلِّدَ ومن سب عائشۃ قتل قیل لہ لھم؟قال من رماھا فقد خالف القرآن لا ن اللہ تعالیٰ قال :
''يَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِهٖۤ اَبَدًا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ''
وقال ابوبکر بن زیاد النیسا بوری سمعت القاسم بن محمد یقول لا سماعیل بن اسحاق اتی المامون بالرقۃ بر حلین شتم احدھما فاطمۃ والاخر عائشۃ فا مر بقتل الذی شتم فاطمۃ وترک الآخر فقال اسماعیل ما حکمھما الا ان یقتلا لان الذی شتم رد القران علی ھذا مضت سیر۔ۃ اھل الفقہ والعلم من اھل البیت وغیر ھم۔۔۔قال ابوالسائب القاضی کنت یوما بحضرۃ الحسن بن زید الداعی بطبرستان وکان یلبس الصوف ویامر بالمعروف و ینھی عن المنکر ویوجہ فی کل سنۃ بعشرین الف دینار الی المدینۃ السلام یفرق علی سائر ولد الصحابۃ وکان بحضرۃ رجل فذکر عائشۃ بذکر قبیح من الفاحشۃ فقال یا غلام اضرب عنقہ فقال العلویون ھذا رجل من شیعتنا فقال معاذ اللہ ھذا رجل طعن علی النبیﷺ قال اللہ تعالیٰ :
''اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ۠ وَ الْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ وَ الطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَ الطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ اُولٰٓىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِيْمٌ''
فان کان عائشۃ خبیثۃ فالنبیﷺ خبیث فھو کافر فاضربوا عنقہ فضربوا عنقہ وانا حاضر رواہ اللالکائی۔
وروی عن محمد بن زید اخی الحسن بن زید انہ قدم علیہ رجل من العراق فذکر عائشۃ بالسوء فقام الیہ بعمود فضرب بہ دماغہ فقتلہ فقیل لہ ھذا من شیعتنا ومن بنی الاباء فقال ھذا سمی جدی قرنان ومن سمی قرنان اسحق القتل فقتلہ''
(الصارم المسلول:ص:571)
ابوبکر بن زیاد نیشا بوری فرماتے ہیں کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا وہ اسماعلیل بن اسحاق کو کہہ رہے تھےکہ رقہ کے شہر میں خلیفہ مامون کے پاس دو آدمیوں کو لایا گیا ان میں سے ایک نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو گالی دی تھی اور دوسرے نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو گالی دینے والےکو قتل کا حکم دیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا۔اسماعیل نے کہا دونوں کا حکم یہ ہے کہ ان کو قتل کیا جائے کیونکہ جس نے حضرت عائشہ رضی اللہ کو گالی دی اس نے قرآن کی مخالفت کی اہل الفقہ والعلم کا طرز عمل اہل بیت وغیرہم کے ساتھ یہی ہے۔قاضی ابو یعلی فرماتے ہیں کہ جو شخص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو گالی دےاسے قتل کیا جائےان سے اس کی وجہ پوچھی تو کہا جس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان باندھا اس نے قرآن کی مخالفت کی قرآن مجید نے فرمایا:
''اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو''(النور:17)
ابو السائب القاضی نے کہا کہ ایک دن میں طبرستان حسن بن زید الداعی کے پاس تھاوہ اون کا لباس پہنے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر پر عمل پیرا تھےوہ ہر سال بیس ہزار دینار مدینہ منورہ بھیجتے تھے تاکہ صحابہ کے بچوں میں تقسیم کئے جائیں ان کے پاس ایک شخص تھاجس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تذکرہ قبیح الفاظ میں کیا تو انہوں نے غلام کو حکم دیا کہ اس کی گردن اڑا دے یہ دیکھ کر علویوں نے کہا کہ یہ ہمارے گروہ کا آدمی ہےاس نے کہا اللہ کی پناہ اس شخص نے رسول کریمﷺپر طعن کیا ۔قرآن میں فرمایا گیا ہے:
''ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لیے اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیےیہ(پاک لوگ)ان (بدلوگوں)کی باتوں سے بری ہیں اور ان کے لیے بخشش اور اچھی روزی ہے''
اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا(معاذاللہ)ناپاک تھیں تو رسول اللہﷺبھی معاذاللہ ناپاک ہوں گے۔لہذا یہ شخص کافر ہےاس کی گردن اڑا دو چانچہ میری موجودگی میں اسے قتل کردیا گیا اس کو لالکائی نے روایت کیا ہے۔
حسن بن زید کے بھائی محمد بن زید سے مروی ہےکہ ان کے پاس عراق کا ایک شخص آیا اور اس نے برے الفاظ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاذکر کیاوہ ایک کھمبا لے کر اس کی طرف بڑھے اور اس کے سر پر مار کر اسے قتل کردیاان سے کہا گیا کہ یہ شخص(مقتول)تو ہمارے گروہ سے ہمارا چچا زاد تھا۔انہوں نے کہا اس نے میرے جد(دادا یا نانا)کو قرنان کہا اور جو انہیں قرنان کہے گا وہ قتل کا مستحق ہوگا لہذا میں نے اسے قتل کردیا''