• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیثِ ترکِ رفع یدین کی تحقیق درکار ہے

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیثِ ترکِ رفع یدین

’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَحْمَدُ بْنُ شُعَیْبِ النِّسَائِیُّ اَخْبَرَ نَا سُوَیْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ الْاَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ رضی اللہ عنہما قَالَ اَلَااُخْبِرُکُمْ بِصَلٰوۃِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ؛ فَقَامَ فَرَفَعَ یَدَیْہِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ثُمَّ لَمْ یُعِدْ۔‘‘(سنن النسائی ج۱ص۱۵۸،سنن ابی داؤدج۱ص۱۱۶ )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہمانےفرمایا:’’کیامیں تمہیں اسب ات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیسےنمازپڑھتےتھے؟حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما کھڑےہوئےپہلی مرتبہ رفع یدین کیا (یعنی تکبیر تحریمہ کے وقت) پھر(پوری نماز میں) رفع یدین نہیں کیا۔‘‘



اس حدیث کے راوی یہ ہیں:

1: هناد بن السری:

آپ سے امام بخاری نے”خلق افعال العباد“ میں ، امام مسلم نے اپنی صحیح میں اور اصحاب سنن اربعہ نے روایت لی ہے۔ ثقہ و صدوق ہیں۔

تذکرۃ الحفاظ للذہبی:ج۲ ص۷۰، تہذیب التہذیب لابن حجر
(حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة وهناد بن السري قالا حدثنا أبو الأحوص عن سعيد بن مسروق عن سلمة بن کهيل عن أبي رشدين مولی ابن عباس عن ابن عباس قال بت عند خالتي ميمونة واقتص الحديث ولم يذکر غسل الوجه والکفين غير أنه قال ثم أتی القربة فحل شناقها فتوضأ وضوا بين الوضوين ثم أتی فراشه فنام ثم قام قومة أخری فأتی القربة فحل شناقها ثم توضأ وضوا هو الوضو وقال أعظم لي نورا ولم يذکر واجعلني نورا - مسلم: ج 2 ص 216)

2: وكيع بن الجراح:
صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔آپ ثقہ، حافظ اور عادل ہیں۔ ثقہ بالاجماع ہیں۔
تقریب التہذیب: ج۲ ص۶۴۶ وغیرہ
(حدثني أبو خيثمة زهير بن حرب حدثنا وکيع عن کهمس عن عبد الله بن بريدة عن يحيی بن يعمر ح و حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري وهذا حديثه حدثنا أبي حدثنا کهمس عن ابن بريدة عن يحيی بن يعمر قال کان أول من قال في القدر بالبصرة معبد الجهني فانطلقت أنا وحميد بن عبد الرحمن الحميري حاجين أو معتمرين فقلنا لو لقينا أحدا من أصحاب رسول الله صلی الله عليه وسلم فسألناه عما يقول هؤلا في القدر فوفق لنا عبد الله بن عمر بن الخطاب داخلا المسجد فاکتنفته أنا وصاحبي أحدنا عن يمينه والآخر عن شماله فظننت أن صاحبي سيکل الکلام إلي فقلت أبا عبد الرحمن إنه قد ظهر قبلنا ناس يقرون القرآن ويتقفرون العلم وذکر من شأنهم وأنهم يزعمون أن لا قدر وأن الأمر أنف قال فإذا لقيت أولک فأخبرهم أني بري منهم وأنهم برآ مني والذي يحلف به عبد الله بن عمر لو أن لأحدهم مثل أحد ذهبا فأنفقه ما قبل الله منه حتی يؤمن بالقدر ثم قال حدثني أبي عمر بن الخطاب قال بينما نحن عند رسول الله صلی الله عليه وسلم ذات يوم إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب شديد سواد الشعر لا يری عليه أثر السفر ولا يعرفه منا أحد حتی جلس إلی النبي صلی الله عليه وسلم فأسند رکبتيه إلی رکبتيه ووضع کفيه علی فخذيه وقال يا محمد أخبرني عن الإسلام فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صلی الله عليه وسلم وتقيم الصلاة وتؤتي الزکاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا قال صدقت قال فعجبنا له يسأله ويصدقه قال فأخبرني عن الإيمان قال أن تؤمن بالله وملاکته وکتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خيره وشره قال صدقت قال فأخبرني عن الإحسان قال أن تعبد الله کأنک تراه فإن لم تکن تراه فإنه يراک قال فأخبرني عن الساعة قال ما المسول عنها بأعلم من السال قال فأخبرني عن أمارتها قال أن تلد الأمة ربتها وأن تری الحفاة العراة العالة رعا الشا يتطاولون في البنيان قال ثم انطلق فلبثت مليا ثم قال لي يا عمر أتدري من السال قلت الله ورسوله أعلم قال فإنه جبريل أتاکم يعلمکم دينکم - مسلم: ج 1 ص 84۔)
3: سفیان الثوری:
صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ائمہ نے آپ کو ”الامام، شیخ الاسلام، سید الحفاظ [حفاظ حدیث کے سردار]، فقیہ، کان سفیان بحراً [آپ علم کا سمندر تھے]، ثقۃ حافظ امام حجۃ امیر المؤمنین فی الحدیث [حدیث میں امیر المؤمنین ہیں]“ جیسے القابات سے نواز کر آپ کے توثیق و تعدیل کی ہے۔ آپ ثقہ بالاجماع ہیں۔
تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج۱ ص ۱۵۱ تا ۱۵۳، تقریب التہذیب: ج۱ ص۲۱۶
(حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا عبد الله بن نمير ح و حدثنا ابن نمير حدثنا أبي حدثنا الأعمش ح و حدثني زهير بن حرب حدثنا وکيع حدثنا سفيان عن الأعمش عن عبد الله بن مرة عن مسروق عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم أربع من کن فيه کان منافقا خالصا ومن کانت فيه خلة منهن کانت فيه خلة من نفاق حتی يدعها إذا حدث کذب وإذا عاهد غدر وإذا وعد أخلف وإذا خاصم فجر غير أن في حديث سفيان وإن کانت فيه خصلة منهن کانت فيه خصلة من النفاق - مسلم: ج 1 ص 164)
4: عاصم بن كليب :
صحیح بخاری معلقاً، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ کو ائمہ نے ثقۃ، صدوق، مامون قرار دیا ہے۔
تاریخ الثقات للعجلی: ص۲۴۲، کتاب الثقات لابن جبان: ص۷ ص۲۵۶، تہذیب التہذیب لابن حجر: ج۳ ص۴۰، ۴۱
زبیر علی زئی نے ایک مقام پر لکھا:
یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ [نماز میں ہاتھ: ص۱۳]
(حدثنا يحيی بن يحيی أخبرنا أبو الأحوص عن عاصم بن کليب عن أبي بردة قال قال علي نهاني رسول الله صلی الله عليه وسلم أن أتختم في إصبعي هذه أو هذه قال فأومأ إلی الوسطی والتي تليها - مسلم ج 5 ص 295)
5:عبد الرحمن بن الأسود:
آپ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ کو الفقیہ، الامام بن الامام، ثقۃ من خیار الناس کہا گیا ہے۔ بالاتفاق ثقہ ہیں۔
سیر اعلام النبلاء للذہبی: ج۵ ص۷، تہذیب التہذیب لابن حجر:ج۳ ص۳۳۹
(حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا علي بن مسهر عن الشيباني ح و حدثني علي بن حجر السعدي واللفظ له أخبرنا علي بن مسهر أخبرنا أبو إسحق عن عبد الرحمن بن الأسود عن أبيه عن عاشة قالت کان إحدانا إذا کانت حاضا أمرها رسول الله صلی الله عليه وسلم أن تأتزر في فور حيضتها ثم يباشرها قالت وأيکم يملک إربه کما کان رسول الله صلی الله عليه وسلم يملک إربه - مسلم ۔ ج 1 ص 407۔)
6:علقمہ بن قیس الکوفی:
صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ فقیہ، ثقۃ اور ثبت تھے۔
تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج۱ ص۳۹، تقریب التہذیب لابن حجر: ج۱ ص۴۰۸
(علقمہ تو علقمہ ہیں)
7: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:
مشہور صحابی ہیں ، آپ کا لقب فقیہ الامۃ ہے۔
تاریخ الصحابہ لابن حبان: ص۱۴۹، تقریب التہذیب لابن حجر: ج۱ ص۳۱۳
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحیح علی شرط مسلم ہے۔ اس کی صحت صر ف امام ترمذی رحمہ اللہ کے حسن فرمانے پر موقوف نہیں جیسا کہ اکثر غیر مقلدین اس حوالے سے الزام بھی لگاتے ہیں۔​

اعتراض نمبر 1: ”امام سفیان بن سعید بن مسروق الثوری رحمہ اللہ ثقہ ہونے ساتھ مدلس بھی تھے……مدلس کی عن والی روایات ضعیف ہوتی ہے“ (مضروب حق: 21ص32،33)
جواب نمبر1: "امام سفیان بن سعید بن مسروق الثوری رحمہ اللہ(م161ھ)خیر القرون کے محدث ہیں اور احناف کےنزدیک خیر القرون کی تدلیس صحتِ حدیث کے منافی نہیں۔ {قواعد فی علوم الحدیث للعثمانی:ص159}

جواب نمبر2: "تدلیس کے اعتبار سے محدثین نے رواۃ حدیث کے مختلف طبقات بنائے ہیں،بعض طبقات کی روایات کو صحت حدیث کے منافی جبکہ دوسرے بعض کی روایات کو مقبول قرار دیاہے۔امام سفیان بن سعید الثوری رحمہ اللہ کو محدثین کی ایک جماعت جن میں امام ابوسعید العلائی،علامہ ابن حجر،محدث ابن العجمی شامل ہیں، نے”طبقہ ثانیہ“میں شمار کیا ہے۔
(جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص113،طبقات المدلسین ص64، التعلق الامین علی کتاب التبیین لاسماء المدلسین ص92)
نیزعصر حاضر میں الدکتور العواد الخلف اور سید عبدالماجد الغوری نے بھی امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو مرتبہ/طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے۔
(روایات المدلسین للعواد الخلف ص170،التدلیس والمدلسون للغوری ص104)
خود زبیر علی زئی غیرمقلد کے”شیخ “ بدیع الدین راشدی غیر مقلد نے بھی امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے۔(جزء منظوم ص89)
اور محدثین نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ طبقہ ثانیہ کے مدلس کی روایت مقبول ہے، اس کی تدلیس صحت حدیث کے منافی نہیں۔
(التدلیس والمدلسون للغوری ص104، جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص113، روایات المدلسین للعواد الخلف ص32)
یاد رہے کہ محدثین نے اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ اگر مدلس کا کوئی متابع مل جائے تو الزامِ تدلیس ختم ہوجاتاہے اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی دو محدثین نے متابعت تامہ بھی کررکھی ہے۔
1: امام ابوبکر النہشلی (کتاب العلل للدار قطنی ج5ص172سوال804)

2: اما م وکیع بن جراح (التمہید لابن عبدالبر ج4ص189)

اعتراض نمبر 2: ”اس روایت کو جمہور محدثین نے ضعیف،خطا اور وہم قرار دیاہے“
جواب : جن چند محدثین کے نام ذکر کیے ہیں ان کی جرح یا تو مبہم وغیرمفسر ہے،یا ایسی بنیاد پر ہے جو وجہِ جرح نہیں بنتی بلکہ بعض حضرات کا اسلوب یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے اپنی جرح سے رجوع کرلیا تھا ،لیکن غیر مقلدین نے جوں کی توں نقل کردی اور حقیقتِ حال چھپانے میں عافیت سمجھی۔مثلاًامام ابن مبارک اور امام ابوداود رحمہما اللہ کی جروح مبہم وغیرمفسر ہیں،اصول حدیث کی رو سے ناقابل قبول ہیں۔
(الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب ص101،صیانۃ صحیح مسلم لابن الصلاح ص96،توجیہ النظر ج2ص550)

مزید یہ جرح ان حضرات کو اول عمر میں تھی،آخر عمر میں اس سے رجوع فرمالیا تھا، جیسا کہ ابن مبارک رحمہ اللہ کے آخری عمر کے شاگرد سوید بن نصر المروزی کی روایت میں اور امام ابوداؤد کی وفات والے سال کے نسخہ (اللؤلوی)میں یہ جرح مذکور نہیں۔(سنن النسائی ج1 ص158 باب ترک ذلک، سنن ابو داؤد نسخہ اللؤلوی)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے الفاظ کا بھی جرح سے کوئی تعلق نہیں،امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں تو یہ روایت ”صحیح“قرار پاتی ہے (کیونکہ انہوں نے عبداللہ بن ادریس کی روایت کو اس کے مقابلہ میں اصح کہا،جو دلیل ہے کہ وہ اس کو صحیح مانتے ہیں)لیکن مدہوش”محکک“نے خواہ مخواہ انہیں بھی جارحین میں شمار کر کے گنتی بڑھا دی۔امام ابوحاتم الرازی،امام دارقطنی،امام ابن حبان رحمہم اللہ وغیرہ کی جروح بھی غیرمبین السبب ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔(تفصیل کے لیے دیکھیے مولانا حبیب اللہ ڈیروی رحمہ اللہ کی کتاب نور الصباح ج1ص82تا147)
علی زئی غیرمقلد نے مبہم جروح تو نقل تو کردیں لیکن یہ نقل نہ کیا کہ اس حدیث کو جید محدثین نے صحیح/ حسن کہاہے، جن میں امام ترمذی،امام دارقطنی،علامہ ابن حزم،امام ابن قطان الفاسی،امام زیلعی ،شارح ِبخاری امام عینی،علامہ سید محمدانور شاہ کشمیری وغیرہ شامل ہیں۔(مسئلہ ترک رفع یدین از متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ ص6مخطوط)

البانی صاحب کی بات نقل کر دیتے ہیں۔ غور سے پڑھیے :
قال الالبانی :والحق انہ حدیث صحیح واسنادہ صحیح علی شرط مسلم (التعلیق علی المشکوٰۃ للالبانی ج1ص254)
ترجمہ:البانی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط پرصحیح ہے۔

حدیث ابن مسعود کو صحیح قرار دىنے والے حضرات محدثىن
تنبیہ! اصول فقہ حدیث کا ضابطہ ہے کہ
اذا استدل المجتہد بحدیث الخ
جس حدیث سے کوئی فقىہ و مجتہد ومحدث استدلال کرے وہ اس کے نزدىک صحیح ہے

تدریب الراوی ج 1ص 48، تلخىص الحبیر ج2ص143، قواعد فی علوم الحدیث 57
1۔ حضرت ابر اہیم النخعیؒ 96ھ
مسند ابی حنیفہ بروایت حسن ص 13، مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف ص21،موطا امام محمدص93، کتاب الحجہ لامام محمد ج1ص96،مسند ابن الجعد ص292، سنن الطحاوی ج1ص162,163، مشکل الآثار للطحاوی ج2ص11، جامع المسدنید ج1ص352، معجم الکبیر للطبرانی ج 22ص22، سنن دار قطنی ج1ص394، سنن الکبری للبیہقی ج2ص81
2۔ امام اعظم ابو حنیفہ التابعی ؒ 150ھ
مسند ابی حنیفہ بروایت حسن ص13، مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف ص 21، موطا امام محمد ص93، کتاب الحجہ ج 1ص96، سنن الطحاوی ج1ص162، جامع المسانید ج1ص353، الاوسط لا بن المنذر ج3ص148، التجريد للقدروی ج5ص272، حلیة العماءللشاشی ج1ص189، المحلی ابن حزم ج4ص119 ۔ج1ص301، التمیہد ج9ص213، الاتذکار لا بن البر ج4ص 99، مناقب المکی ج1ص130، مغنی لابن قدامہ ج2ص172، دلائل الاحکام ج1ص263، شرح سنن ابن ماجہ المغلطائی ج5ص1466,1467، عمدة القاری ج5ص272
3۔ امام سفیان ثوری ؒ161ھ
جز رفع الیدین ص46، ترمذی ج 1ص59، الاوسط لابن منذر ج3ص148، حلیة العماءللشاشی ج1ص189، التجرید للقدوری ج1ص272، شرح البخاری لابن بطال ج 2ص423، التمہید ج 9ص213،الاستذکار ج4ص99، شرح النہ للبغوی ج2 ص24،مغنی لابن قدامہ ج2ص172، دلائل الاحکام لابن شداد ج1ص263، شر ح سنن ابن ماجہ للمغلطائی ج5ص1466، عمدة القاری ج5ص272
4۔امام ابن القاسم المصریؒ 191ھ
المدونة الکبری لامام مالک ج1ص71
5۔ امام وکیع بن الجراح الکوفی ؒ 197ھ
جزءرفع الیدىن للبخاری ص46، عمدة القاری ج5ص272
6۔امام اسحاق بن ابی اسرائیل المروزی ؒ 246ھ
سنن دار قطنی ج1 ص399,400 سند صحیح
7۔امام محمد بن اسماعیل البخاری256ھ
جزءرفع الیدین للبخاری ص25، للزئی ص 112
8۔ امام ابو داؤد السجستانی275ھ
تاریخ بغداد الخطیب ج 9ص59، تذکرة الحفاظ ج2ص127، النکت لابن حجرص141
9۔امام ابو عیسی ترمذی ؒ 279ھ
ترمذی ج1ص59، شرح الھدایہ للعینی ج2ص294
10۔ امام احمد بن شعیب نسائی 303ھ
النکت لابن حجر ص165، زہر الربی للسیوطی ص3
11۔ امام ابو علی الطوسی 312ھ
مختصر الاحکام مستخرج الطوسی علی جامع الترمذی ج 2ص103، شرح ابن ماجہ للحافظ للمغلطائی ج 5ص1467
12۔ امام ابو جعفر الطحاوی ؒ 321 ھ
الطحاوی ج1ص162، الرد علی الکرانی بحوالہ جوہر النقی ص77,78
13۔امام ابو محمد الحارثی البخاری ؒ 340ھ
جامع المسانید ج 1ص353 مکة المکرمة
14۔امام ابو علی النسابوری ؒ349ھ
النکت لابن حجر ؒ ص165، زہر الربی علی النسائی للسیوطی ص3
15۔امام ابو علی ابن السکن المصری ؒ353ھ
النکت لا بن حجر 164 زہر الربی للسیوطی ص3
16۔ امام محمد بن معاویہ االاحمر ؒ 358ھ
النکت لابن حجر ص164، زہر الربی للسیوطی 3
17۔امام ابو بکر ابن السنی ؒ 364ھ
الارشاد لامام الخلىلی ص زہر الربی للسیوطی ص 3
18۔ امام ابن عدی ؒ365ھ
النکت لا بن حجر ص164 زہر الربی ص3
19۔امام ابو الحسن الدار قطنی ؒ 385ھ
کتاب العلل ج 5ص172، النکت ص164 زہر الربی ص3
20۔ امام ابن مندة390ھ
النکت لا بن حجر 164، زہر الربی للسیوطی ص3
21۔ امام ابو عبد اﷲ الحاکم ؒ 405ھ
النکت لابن حجر ص164 زہر الربی للسیوطی ص3
22۔ امام عبد الغنی بن سعید ؒ 409ھ
النکت لابن حجر ص164 زہر الربی للسیوطی ص3
23۔ امام ابو الحسین القدوری ؒ 428ھ
التجرید للقدوری ؒ ج2ص518
24۔امام ابو یعلی الخلیلی ؒ446ھ
الارشاد للخلیلی ص النکت ص164 زہر الربی للسیوطی ص3
25۔ امام ابو محمد ابن حزم 456ھ
المحلی لا بن حزم ج 4ص121 مصر
26۔ امام ابوبکر الخطیب للبغدادی ؒ 463ھ
النکت الابن حجر ص163 زہر الربی للسیوطی ص3
27۔ امام ابوبکر السرخسی ؒ 490ھ
المبسوط للسرخسی ج 1ص14
28۔ امام موفق المکی ؒ568 ھ
مناقب موفق المکی ج1ص130,131
29۔امام ابو طاہر السلفی ؒ 576ھ
النکت الابن حجر ص163 زہر الربی للسیوطی ص3
30۔ امام ابوبکر کاسانی ؒ587ھ
بدائع الصنائع للکاسانی ؒ ج1ص40
31۔امام ابن القطان الفاسیؒ 628ھ
بیان الوھم والا ےھام لابن القطان الفاسی ج3ص367
32۔ امام محمد الخوارزمی 655ھ
جامع المسانید
33۔امام ابو محمد علی بن زکریا المنجی ؒ686ھ
اللباب فیا الجمع بین السنة والکتاب ج1 ص256
34۔ امام ابن الترکمانی ؒ745ھ
الجوہر النقی علی البیہقی لا بن الترکمانی ج2ص77,78
35۔امام حافظ مغلطائی 762ھ
شرح ابن ماجہ الحفاظ المغلطائی ج 5ص1467
36۔ امام حافظ زیلعی ؒ 672ھ
نصب الرایہ للزیلعی ج1ص396وفی نسخة ج1ص474
37۔امام حافظ عبد القادر القرشی ؒ 775ھ
الحاوی علی الطحاوی ج 1ص530
38۔ امام فقیہ محمد البابرقی 786ھ
العنایہ شرح الھدایہ ج1ص269
39۔ امام فقیہ محمد الکردری 826 ھ
مناقب کردری ج1ص174
40۔محدث احمد بن ابی بکر البوصیری ؒ 840ھ
اتحاف الخیرة المھرہ للبوصیری ج10ص355,356
41۔ محدث محمود العینی ؒ 855ھ
شرح سنن ابی داؤد للحافظ العینی ؒ ج 3ص341,342 ، شرح الھدایہ عینی ج2 ص294
42۔امام ابن الھمام ؒ 861ھ
فتح القدیر شرح الھدایہ لابن الھمام ج1ص269,270
43۔ملا علی قاری ؒ1014ھ
مرقات ج2ص269، شرح الفقایہ ج1ص257,58، شرح مسند ابی حنیفہ للعلی قاری ص38
44۔ امام محمد ھاشم السندھی ؒ1154ھ
کشف الدین مترجم لمصمدہاشم السندھی ص15,16
45۔امام حافظ محدث محمد الزبیدی ؒ 1205ھ
عقود الجواھر المنفىہ للزبیدی
46۔ امام محمد بن علی النیموی ؒ 1344ھ
آثار السنن مع التعلیق للنمیوی ؒ ص132
47۔امام حافظ خلىل احمد السہارنفوری 1346ھ
بذل المجھود ج2ص21
48۔ مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ1350ھ
نیل الفرقدین لکشمیری ص56,57,58,64,66,61
49۔ علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ
اعلاءالسنن للعثمانی ؒ ج 3ص45,46
50۔ امام شیخ الحدیث زکریا المدنی ؒ
اوجز المسالک علی موطا مالک
51۔علامہ محمد زہیر الشاویش ؒ
تعلیق علی شرح السنة للبغوی ج3ص24بیروت
52۔ علامہ احمد محمد الشاکر المصری غیر مقلد
الشرح علی الترمذی لا حمد شاکر المصری ج2ص41 دارالعمران بیروت
53۔علامہ شعیب الارناؤط
تعلیق علی شرح السنہ للبغوی ج3ص24 بیروت
54۔ الشیخ حسین سلیم اسد
تعلیق علی مسند ابی یعلی شیخ حسین سلیم اسد ج8ص454۔ ج9ص209 دمشق بیروت
55۔ ناصر الدین البانی غیر مقلد
مشکوة بتحقیق الالبانی ج1ص254بیروت
 
Top