• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت علقمہ رض کا واقعہ

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ان کے انتقال کا وقت قریب آ گیا لیکن جان نکلنے میں بہت تکلیف ہورہی تھی گھر والوں نے کلمہ پڑھنے کی تلقین کی لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ اتنے پرہیز گار اور متقی ہونے کے باوجود بھی انکی زبان سے کلمہ جاری نہیں ہو رہا تھا ، گھر والے بھی پریشان ہو گئے کہ نہ جانے ان سے ایسا کونسا گناہ ہو گیا کہ جان کنی کے وقت کلمہ نصیب نہیں ہو رہا ، وہ کوئی عام انسان نہیں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شامل تھے انکا نام علقمہ تھا چنانچہ انکی بیوی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ اطلاع بھجوائی کہ باوجود تلقین کے انکی زبان پر کلمہ جاری نہیں ہو رہا آپ نے فرمایا کہ علقمہ کے والدین زندہ ہیں یا نہیں ۔ بتایا گیا کہ صرف والدہ زندہ ہیں لیکن وہ کسی وجہ سے ناراض ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی والدہ کو پیغام بھجوایا کہ میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں کیا میں آپ کے پاس آؤں یا آپ میرے پاس آ جائیں گی انکی والدہ نے کہا کہ اے اللہ کے نبی میں آپ کو تکلیف نہیں دے سکتی میں خود حاضر خدمت ہوتی ہوں چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کی خدمت میں حاضر ہو گئی آپ نے علقمہ کے متعلق پوچھا کہ وہ کیسا آدمی ہے ان کی والدہ نے بتایا کہ وہ بہت نیک ہے ۔ نماز روزہ کا پابند ہیں لیکن اپنی بیوی کے معاملے میری نافرمانی کرتا ہے اس لیے میں اس سے ناراض ہوں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علقمہ کا حال انکی والدہ کو بیان کیا کہ انکی زبان پر کلمہ جاری نہیں ہو رہا اور جان نہیں نکل رہی اس لیے آپ انہیں معاف کردیں لیکن انکی والدہ نے غصے کی وجہ سے انکار کر دیا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہہ کو حکم دیا کہ لکڑیاں جمع کرو اور علقمہ کو جلا دو ۔ انکی والدہ یہ سن کر گھبرا گئی اور حیرت سے پوچھا کہ کیا میرے بیٹے کو آگے میں ڈالا جائے گا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ اللہ کے عذاب کے مقابلے میں ہمارا عذاب بہت ہلکا ہے ، خدا کے قسم جب تک تم اس سے ناراض ہو نہ تو اسکی کوئی نماز قبول ہے اور نہ صدقہ ۔
انکی والدہ نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں نے انہیں معاف کردیا اور انکی غلطیوں کو درگزر کر دیا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ علقمہ کا حال دیکھو ، لوگوں نے بتایا کہ انکی زبان پر کلمہ بھی جاری ہوگیا ہے اور انکی جان بھی نہایت آسانی سے نکل گئی ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے غسل اور کفن کا حکم دیا اور خود انکے جنازے میں تشریف لے گئے ، دفن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا
جس شخص نے اپنی ماں کی نافرمانی کی یا اسے تکلیف پہنچائی تو اس پر اللہ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت
اللہ اسکا کوئی نیک عمل قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے اور اپنی ماں کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرکے اسے راضی نہ کر لے یاد رکھو کہ اللہ کی رضامندی ماں باپ کی رضامندی میں ہے اور اللہ کا غصہ ماں باپ کے غصہ میں

اب اس واقعہ کو پڑھ کر ہم سوچیں کہ ایک صحابی رسول نے ماں کی ذرا سی نافرمانی کی تو انکے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ، جبکہ وہ بہت نیک اور پرہیز گار تھے ، اور ایک طرف ہم ہیں کہ ہمارے پلے کچھ بھی نہیں ہے اور ماں باپ کا دل دکھانے سے بھی باز نہیں آتے تو ہم کس طرح اپنی بخشش کی امید لگائے بیٹھے ہیں

پس نوشت: اس واقعہ کی سند درکار ہے
@انس
@خضر حیات
@سرفراز فیضی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
پس نوشت: اس واقعہ کی سند درکار ہے
یہ واقعہ بالکل موضوع ہے ،لائق تسلیم نہیں ؛
فی الحال وقت کی قلت کے سبب تفصیل سے نہیں لکھ سکتا ،
اسلئےایک فتوی پیش خدمت ہے :

قصة علقمة مع أمه التي غضبت عليه قصة موضوعة
السؤال: هناك حديث عن رجل صالح يسمى علقمة والذي كان على فراش الموت ولم ينطق الكلمة ، ثم أرسل النبي لأمه التي قالت إنها كانت غاضبة منه ؛ لأنه كان يفضل زوجته عليها ، ثم جمع النبي صلى الله عليه وسلم بعد ذلك الحطب وأخبر أمه بأنه سوف يحرق ابنها أمام عينها ، فقالت : يا رسول الله ! إنه ابني ، ولا يطيق قلبي رؤيتك تحرقه أمامي ! فقال النبي : يا أم علقمة : عقاب الله أشد وأبقى ، فإذا أردت أن يسامحه الله فسامحيه ، والذي نفسي بيده لا تنفعه صلاته وصيامه وزكاته ما دمت غاضبة عليه ، فسامحت المرأة ابنها ، وبعد بعض الوقت مات بعض أن نطق الشهادتين . ويقول الحديث إن النبي صلى الله عليه وسلم بعد ذلك نادي في المهاجرين والأنصار وقال : (إذا قدم أحدكم زوجته على أمه لعنه الله والملائكة والناس أجمعين ، فل يقبل الله صدقته أو صالح عمله إلا أن يتوب لله تعالى ، وأن يطلب عفو أمه ورضاها ، وإن الله يظل غاضبا لغضبها ) وقد قيل إن الحديث في " مسند أحمد " ولكنني لا أستطيع أن أجده . فإن كان صحيحا فأرجوا أن تحددوا لي مكانه .
الجواب :
الحمد لله

هذه الحكاية كان الإمام أحمد رحمه الله قد أثبتها في مسنده في بداية جمعه لأحاديث الكتاب ، وقد كان الجمع الأول يشتمل على كثير من الأحاديث الضعيفة والمتروكة ، ثم بدأ الإمام رحمه الله بتنقية كتابه من هذه الأحاديث ، فحذف هذه القصة فيما حذفه .

جاء في " مسند الإمام أحمد " (32/155) من طبعة مؤسسة الرسالة ما يلي :

" قال أبو عبد الرحمن : وكان في كتاب أبي : حدثنا يزيد بن هارون ، أخبرنا فائد بن عبد الرحمن قال : سمعت عبد الله بن أبي أوفى يقول :

( جاء رجل إلى النبي صلي الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ! إن هاهنا غلاماً قد احتضر ؛ يقال له : قل لا إله إلا الله ، فلا يستطيع أن يقولها . قال : أليس قد كان يقولها في حياته ؟ قال : بلى ، قال : فما منعه منها عند موته ؟ فذكر الحديث بطوله )

لم يحدث أبي بهذين الحديثين - حديثين من طريق فائد عن ابن أبي أوفى - ضرب عليهما من كتابه ؛ لأنه لم يرض حديث فائد بن عبد الرحمن ، وكان عنده متروك الحديث " انتهى النقل من " المسند "

وأما بقية الحديث ، كما جاءت في المصادر الأخرى التي ذكرته ، فهي كالتالي :

قال : ( فنهض رسول الله صلي الله عليه وسلم ونهضنا معه حتى أتى الغلام فقال : يا غلام ! قل لا إله إلا الله . قال : لا أستطيع أن أقولها ، قال : ولم ؟ قال : لعقوق والدتي ، قال : أحية هي ؟ قال : نعم ، قال : أرسلوا إليها ، فأرسلوا إليها ؛ فجاءت ، فقال لها صلي الله عليه وسلم : ابنك هو ؟ قالت : نعم . قال : أرأيت لو أن ناراً أججت ؛ فقيل لك : إن لم تشفعي له قذفناه في هذه النار . قالت : إذن كنت أشفع له ، قال: فأشهدي الله ، وأشهدينا معك بأنك قد رضيت . قالت : قد رضيت عن ابني ، قال : يا غلام ! قل لا إله إلا الله . فقال : لا إله إلا الله . فقال صلي الله عليه وسلم : الحمد لله الذي أنقذه من النار )

أخرجه العقيلي في " الضعفاء الكبير " (3/461) ، ومن طريقه ابن الجوزي في " الموضوعات " (3/87) ، وعزاه غير واحد للطبراني ، ورواه الخرائطي في " مساوئ الأخلاق " (رقم/251) ، والبيهقي في " شعب الإيمان " (6/197) وفي " دلائل النبوة " (6/205) ، والقزويني في " التدوين في تاريخ قزوين " (2/369)

جميعهم من طريق فائد بن عبد الرحمن ، عن عبد الله بن أبي أوفى .

وهذا إسناد ضعيف جدا بسبب فائد بن عبد الرحمن ، قال فيه الإمام أحمد : متروك الحديث . وقال ابن معين : ليس بشيء . وقال ابن أبي حاتم : سمعت أبى يقول : فائد ذاهب الحديث ، لا يكتب حديثه ، وأحاديثه عن ابن أبى أوفى بواطيل لا تكاد ترى لها أصلا ، كأنه لا يشبه حديث ابن أبى أوفى ، ولو أن رجلا حلف أن عامة حديثه كذب لم يحنث . وقال البخاري : منكر الحديث . انظر: " تهذيب التهذيب " (8/256)

وقال ابن حبان :

" كان ممن يروى المناكير عن المشاهير ، ويأتي عن ابن أبي أوفى بالمعضلات ، لا يجوز الاحتجاج به " انتهى.

" المجروحين " (2/203)

وقال أبو عبد الله الحاكم رحمه الله :

" يروي عن ابن أبي أوفى أحاديث موضوعة " انتهى.

" المدخل إلى الصحيح " (155)


والله أعلم .

الإسلام سؤال وجواب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جی محترم یوسف ثانی صاحب ! اس واقعے کو بہت سے علماء کرام نے جھوٹا اور من گھڑت قرار دیا ہے ، اس کی سند میں ایک راوی فائد بن عبد الرحمن ، عجیب و غریب ، بےسند ، اور جھوٹی باتیں بیان کرنے میں معروف تھا ۔
اسحاق سلفی صاحب (جزاہ اللہ خیرا) نے جو عربی عبارت نقل کی ہے ، اس کا خلاصہ یہی ہے ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جزاک اللہ خیرا برادران
 
Top