• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ جنت اور جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں؟ امام احمد رحمہ اللہ کے قول کی حقیقت

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ
محترم شیخ @خضر حیات حفظہ اللہ

ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں پیش کی جاتی ہے
قسيم الجنة والنار
یہ روایت تو موضوع ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلتہ الضعیفہ رقم ٤٩٢٤ میں موضوع کہا ہے ۔

لیکن اس متعلق امام احمد رحمہ اللہ کا ایک قول پیش کیا جاتا ہے

وأنبأنا أبو الحسين بن الأبنوسي قال: أخبرنا عمر بن إبراهيم الكتاني قال: حدثنا أبو الحسين بن عمر بن الحسن القاضي الأشناني حدثنا إسحاق بن الحسن الحربي قال: حدثني محمد بن منصور الطوسي قال: سمعت أحمد بن حنبل يقول ما روي لأحد من الفضائل أكثر مما روى لعلي بن أبي طالب قال وسمعت محمد بن منصور يقول كنا عند أحمد بن حنبل فقال: له رجل يا أبا عبد الله ما تقول في هذا الحديث الذي يروي أن عليا قال: " أنا قسيم النار " فقال: وما تنكرون من ذا أليس روينا أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال لعلي: " لا يحبك إلا مؤمن ولا يبغضك إلا منافق " قلنا بلى قال: فأين المؤمن قلنا في الجنة قال: وأين المنافق قلنا في النار قال: فعلي قسيم النار.
امام احمد ابن حنبل سے ایک شخص نےمحفل میں سوال کیا کہ حدیث [علی قسیم النار والجنۃ] کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ امام صاحب نےفرمایا اس حدیث سے آپ لوگوں کو کیا انکار ہے؟ کیا ہم نے رسول اللہ سے یہ روایت نہیں کی کہ علی سے محبت رکھنے والا مومن ہے اور بغض رکھنے والا منافق ہے؟ انہوں نے کہا ہاں: کیوں نہیں یہ روایت تو ہم نے بالکل سنی ہے پھر امام صاحب نے پوچھا کہ مومن کہاں ہونگے؟ کہا جنت میں- پھر امام صاحب نے پوچھا کہ منافق کہاں ہونگے؟ کہا جھنم میں- تو پھر امام صاحب نے فرمایا کہ پس علی قسیم النار والجنۃ ہیں- [ طبقات الحنابلة ج ١ ص ٣١٩-٣٢٠ ]

اس سند میں ایک راوی
أبو الحسين بن عمر بن الحسن القاضي الأشناني پر کذاب اور ضعیف جیسی جروحات ہیں ۔ دیکھیں
https://hadith.maktaba.co.in/narrators/25016/عمر-بن-الحسن-بن-علي-بن-مالك-بن...

لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ اس راوی پر جرح نقل کر کے فرما رہے ہیں "
لم یصح ھذا " دیکھیں [ الضعيفة ج ١٠ ص ٦٠٤ ]

علامہ معلمی رحمہ اللہ بھی غالباً اس راوی کی وثاقت پر بات کر رہے ہیں جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں دیکھیں [ التنكيل ج ٢ ص ٥٩٣ رقم ١٧٠ ]

اور شیخ أبو عبيدة مشهور بن حسن آل سلمان حفظہ اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں دیکھئے [ مقدمة جزء القاضي الأشناني ]

سوال ہے کہ کیا یہ راوی ضعیف ہے یا نہیں ؟
جلد از جواب دیں ۔ جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں پیش کی جاتی ہے
قسيم الجنة والنار
یہ روایت تو موضوع ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلتہ الضعیفہ رقم ٤٩٢٤ میں موضوع کہا ہے ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
علامہ البانیؒ نے تفصیل سے اس روایت کا اسناد کے لحاظ سے جھوٹا ہونا واضح کیا ہے ،
لہذا یہ تو طے ہے کہ یہ روایت بالکل بناوٹی ،من گھڑت ہے ،
اسی لئے یہ روایت متون حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ،بلکہ علامہ عقیلی کی "الضعفاء الکبیر "اور امام ابن عدیؒ کی "الکامل فی الضعفاء " میں مذکور ہے ،
اور رہی بات امام احمد بن حنبلؒ کے قول کی تو وہ بھی امام صاحب سے ثابت نہیں ،کیونکہ امام صاحب کے قول کا راوی قاضی اشنانی ناکارہ اور گھٹیا راوی ہے ،جیسا کہ آپ نے نقل کیا ۔۔
لیکن اس متعلق امام احمد رحمہ اللہ کا ایک قول پیش کیا جاتا ہے
وأنبأنا أبو الحسين بن الأبنوسي قال: أخبرنا عمر بن إبراهيم الكتاني قال: حدثنا أبو الحسين بن عمر بن الحسن القاضي الأشناني حدثنا إسحاق بن الحسن الحربي قال: حدثني محمد بن منصور الطوسي قال: سمعت أحمد بن حنبل يقول ما روي لأحد من الفضائل أكثر مما روى لعلي بن أبي طالب قال وسمعت محمد بن منصور يقول كنا عند أحمد بن حنبل فقال: له رجل يا أبا عبد الله ما تقول في هذا الحديث الذي يروي أن عليا قال: " أنا قسيم النار " فقال: وما تنكرون من ذا أليس روينا أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال لعلي: " لا يحبك إلا مؤمن ولا يبغضك إلا منافق " قلنا بلى قال: فأين المؤمن قلنا في الجنة قال: وأين المنافق قلنا في النار قال: فعلي قسيم النار.
[ طبقات الحنابلة ج ١ ص ٣١٩-٣٢٠ ]

اس سند میں ایک راوی
أبو الحسين بن عمر بن الحسن القاضي الأشناني پر کذاب اور ضعیف جیسی جروحات ہیں ۔ دیکھیں
https://hadith.maktaba.co.in/narrators/25016/عمر-بن-الحسن-بن-علي-بن-مالك-بن...

لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ اس راوی پر جرح نقل کر کے فرما رہے ہیں "
لم یصح ھذا " دیکھیں [ الضعيفة ج ١٠ ص ٦٠٤ ]
علامہ البانیؒ نے اس راوی کے متعلق جو لکھا وہ ترجمہ کے ساتھ پیش ہے :
قلت: وعمر بن الحسن بن علي - هو الأشناني القاضي -؛ قال الذهبي:
"ضعفه الدارقطني، ويروى عنه: أنه كذاب؛ ولم يصح هذا. ولكن هذا الأشناني صاحب بلايا"

یعنی عمر بن الحسن بن علی قاضی اشنانی کے متعلق علامہ الذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ امام دارقطنیؒ اسے ضعیف کہتے تھے ، اورامام دارقطنیؒ کا اسے کذاب کہنا بھی منقول ہے لیکن یہ کذاب کہنے والی روایت صحیح نہیں ،تاہم یہ راوی عمر بن حسن عجیب مصیبتوں کا پنڈارا اٹھائے پھرتا ہے "انتہیٰ ۔۔
یعنی جھوٹی اور ضعیف روایات کا انبار لئے بیٹھا ہے ،تو ایسے "صاحب البلایا " راوی پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے ؟
بالخصوص جبکہ امام احمدؒ سے قبل مشہور ثقہ محدث امام اعمشؒ اس روایت کے ثبوت سے انکار کرچکے ہیں ،
وقد ثبت عن الأعمش أنه أنكر هذا الحديث على ابن طريف؛ فروى العقيلي بإسناد صحيح عن عبد الله بن داود الخريبي قال:
كنا عند الأعمش؛ فجاء يوماً وهو مغضب فقال: ألا تعجبون من موسى بن طريف يحدث عن عباية عن علي: أنا قسيم النار؟!

یعنی امام عقیلی نے صحیح اسناد سے امام اعمشؒ کا قول نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن داود الخریبی کہتے ہیں کہ ایک دن ہم امام سلیمان بن مہران الاعمش کے پاس موجود تھے اور وہ بڑے غصہ میں تھے ،اپنے غصہ کا سبب بتاتے ہوئے فرمانے لگے کہ :تمہیں موسی بن طریف کی اس روایت پر تعجب نہیں ہوتا جو وہ عبایہ کے حوالہ سے حضرت علی کا قول بیان کرتا ہے کہ : میں جہنم کی ٹکٹیں تقسیم کروں گا ؟
امام اعمش کا مطلب یہ تھا کہ اتنی جھوٹی بات نقل کی جارہی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ ۔۔۔ اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ کرے آمین ۔
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ
اس متعلق بھی تھوڑی وضاحت کر دیں مشکور رہوں گا ۔ جزاک اللہ خیرا
علامہ معلمی رحمہ اللہ بھی غالباً اس راوی کی وثاقت پر بات کر رہے ہیں جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں دیکھیں [ التنكيل ج ٢ ص ٥٩٣ رقم ١٧٠ ]

اور شیخ أبو عبيدة مشهور بن حسن آل سلمان حفظہ اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں دیکھئے [ مقدمة جزء القاضي الأشناني ]
 
Top