ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 583
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کرنے والوں کا حکم
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إِنَّ الْفَضَائِلَ الثَّابِتَةَ فِي الْأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ أَكْثَرُ وَأَعْظَمُ مِنَ الْفَضَائِلِ الثَّابِتَةِ لِعَلِيٍّ، وَالْأَحَادِيثُ الَّتِي ذَكَرَهَا هَذَا وَذَكَرَ أَنَّهَا فِي الصَّحِيحِ عِنْدَ الْجُمْهُورِ، وَأَنَّهُمْ نَقَلُوهَا فِي الْمُعْتَمَدِ مِنْ قَوْلِهِمْ وَكُتُبِهِمْ هُوَ مِنْ أَبْيَنِ الْكَذِبِ عَلَى عُلَمَاءِ الْجُمْهُورِ ; فَإِنَّ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ الَّتِي ذَكَرَهَا، أَكْثَرُهَا كَذِبٌ أَوْ ضَعِيفٌ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ، وَالصَّحِيحُ الَّذِي فِيهَا لَيْسَ فِيهِ مَا يَدُلُّ عَلَى إِمَامَةِ عَلِيٍّ وَلَا عَلَى فَضِيلَتِهِ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ، بَلْ وَلَيْسَتْ مِنْ خَصَائِصِهِ بَلْ هِيَ فَضَائِلُ شَارَكَهُ فِيهَا غَيْرُهُ بِخِلَافِ مَا ثَبَتَ مِنْ فَضَائِلِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ; فَإِنَّ كَثِيرًا مِنْهَا خَصَائِصُ لَهُمَا لَا سِيَّمَا فَضَائِلِ أَبِي بَكْرٍ؛ فَإِنَّ عَامَّتَهَا خَصَائِصُ لَمْ يَشْرَكْهُ فِيهَا غَيْرُهُ.
ہم کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل و مناقب کی احادیث، فضائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی احادیث سے بہت زیادہ ہیں ۔ شیعہ مصنف نے اس ضمن میں بعض احادیث نقل کرکے کہا ہے کہ: جمہور ان پر اعتماد کرتے ہیں ؛ اور انہوں نے یہ روایات معتمد اقوال اور معتمد کتابوں سے نقل کی ہیں ؛ یہ صریح کذب ہے ۔ کیونکہ اس نے جو احادیث نقل کی ہیں، ان میں سے اکثر من گھڑت ہیں یا پھر ان کے ضعیف ہونے پر اہل علم محدثین کا اتفاق ہے ۔ ان میں سے جو احادیث صحیح ہیں ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت ثابت نہیں ہوتی اور یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ اور نہ ہی ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی دیگر خصوصیت ثابت ہوتی ہے۔ بلکہ ان فضائل و مناقب میں دیگر خلفاء حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ برابر کے سہیم و شریک ہیں ۔ البتہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل ان کے ساتھ مختص ہیں اور دوسرا کوئی شخص اس ضمن میں ان کے ساتھ شریک نہیں ، خصوصاً ابوبکر رضی اللہ عنہ فضائل میں منفرد ہیں۔
[منهاج السنة النبوية، ج : ٥، ص : ٦-٧]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الَّذِينَ يَمْدَحُونَهُ وَيَقْدَحُونَ فِي الثَّلَاثَةِ، كَالْغَالِيَةِ الَّذِينَ يَدَّعُونَ إِلَاهِيَّتَهُ مِنَ النُّصَيْرِيَّةِ وَغَيْرِهِمْ، وَكَالْإِسْمَاعِيلِيَّةِ الْمَلَاحِدَةِ الَّذِينَ هُمْ شَرٌّ مِنَ النُّصَيْرِيَّةِ، وَكَالْغَالِيَةِ الَّذِينَ يَدَّعُونَ نُبُوَّتَهُ ; فَإِنَّ هَؤُلَاءِ كُفَّارٌ مُرْتَدُّونَ، كُفْرُهُمْ [بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ] ظَاهِرٌ لَا يَخْفَى عَلَى عَالِمٍ بِدِينِ الْإِسْلَامِ، فَمَنِ اعْتَقَدَ فِي بَشَرٍ الْإِلَهِيَّةَ، أَوِ اعْتَقَدَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نَبِيًّا، أَوْ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا، بَلْ كَانَ عَلِيٌّ هُوَ النَّبِيَّ دُونَهُ وَإِنَّمَا غَلَطَ جِبْرِيلُ ; فَهَذِهِ الْمَقَالَاتُ وَنَحْوُهَا مِمَّا يَظْهَرُ كُفْرُ أَهْلِهَا لِمَنْ يَعْرِفُ الْإِسْلَامَ أَدْنَى مَعْرِفَةٍ.
جو لوگ اصحاب ثلاثہ کو مورد طعن بناتے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدح میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ۔ مثلاً فرقہ غالیہ نصیریہ والے الوہیت علی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اسماعیلیہ ملحدین ان نصیریہ سے بھی گئے گزرے ہیں ۔ اور غالی شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی قرار دیتے ہیں ۔ بیشک یہ سب کافر اور مرتد ہیں ۔ اللہ و رسول کے ساتھ ان کا کفر کسی عالم دین سے مخفی نہیں ۔ ظاہر ہے کہ جو شخص کسی انسان کی الوہیت کا قائل ہویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی سمجھتا ہو اس کا کافر ہونا ہر اس شخص پر واضح ہے جو دینی علم سے تھوڑی سی واقفیت بھی رکھتا ہو۔
[منهاج السنة النبوية، ج : ٥، ص : ٧-٩]
کسی شخص کو نبی قرار دینے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اسے نبی کہہ کر پکارا جائے بلکہ اسے صفات انبیاء سے متصف کرنا بھی اسے نبی قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ علامہ کلینی نے جو شیعہ کا امام بخاری سمجھا جاتا ہے۔ شیعہ کی عظیم ترین کتاب ’’ الکافی‘‘ میں جس طرح عنوانات قائم کیے ہیں اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے: ۱۔ اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ ائمہ امورِ الٰہی کے مالک اور اس کے علم کا خزانہ ہیں ۔ ۲۔باب : ائمہ زمین کا ستون ہیں ۔ ۳۔ اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ ائمہ کے یہاں سب کتابیں ہوتی ہیں اور اختلاف الألسنہ (زبانوں کے اختلاف) کے باوجود وہ ان کے مضامین سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ ۴۔ اس بات کا باب کہ قرآن کو ائمہ نے جمع کیا ہے۔ ۵۔ اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ائمہ سب علوم سے واقف ہوتے ہیں ۔ ۶۔ اس بات کا باب کہ اماموں کو اپنی موت کا وقت معلوم ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے فوت ہوتے ہیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَأَمَّا الْغَالِيَةُ فِي عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَدِ اتَّفَقَ الصَّحَابَةُ وَسَائِرُ الْمُسْلِمِينَ عَلَى كُفْرِهِمْ، وَكَفَّرَهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ نَفْسُهُ وَحَرَّقَهُمْ بِالنَّارِ. وَهَؤُلَاءِ الْغَالِيَةُ يُقْتَلُ الْوَاحِدُ مِنْهُمُ الْمَقْدُورُ عَلَيْهِ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کرنے والے شیعہ کے کفر پر تمام صحابہ کرام اور مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے انہیں کافر قرار دیکر آگ میں جلایا تھا؛ ان غالی شیعہ میں سے جس پر قدرت حاصل ہو؛ اسے قتل کردیا جائے۔
[منهاج السنة النبوية، ج : ٥، ص : ١٢]