غازی
رکن
- شمولیت
- فروری 24، 2013
- پیغامات
- 117
- ری ایکشن اسکور
- 183
- پوائنٹ
- 90
حضرت عمار کو کس باغی گروہ نے قتل کیا تھا؟
یاسر ندیم الواجدی
یہ تحریر اختصار کا لحاظ رکھتے ہوے لکھی گئی ہے، اس کے باوجود قدرے طویل ہے، امید ہے کہ قارئین آخر تک پڑھنے کا حوصلہ رکھیں گے۔ موضوع پر آنے سے پہلے قارئین کے سامنے چند امور پر روشنی ڈالنا از حد ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مشاجرات صحابہ کا موضوع کوئی نیا نہیں ہے، اس موضوع پر صدیوں سے گفتگو ہوتی آئی ہے اور کئی بار فیصلہ کن ہونے کے باوجود روافض اور نواصب دونوں ہی جماعتوں نے اپنے سابقہ عناد اور بغض و حسد کی وجہ سے اس گفتگو کو قبول نہیں کیا ہے۔ عام لوگوں کے لیے اتنا جاننا کافی ہے کہ صحابہ کرام ایک برگزیدہ جماعت کا نام ہے اور اس جماعت کے بعض افراد سے بشری تقاضوں کی وجہ سے کچھ خطائیں بھی صادر ہوئی ہیں، جن کے بارے میں امید ہے کہ اللہ رب العزت انہیں معاف کر چکا ہوگا۔ لہذا مشاجرات کے موضوع کو عوامی مسئلہ بنانا اور اس مسئلے کی آڑ میں اصحاب رسول کے ایک طبقے کے خلاف محرم الحرام میں تبرا کرنا یا ان کو منافق قرار دینا رافضیت کی ترجمانی تو ہوسکتی ہے لیکن اسلام کی خدمت نہیں۔ البتہ کوئی شخص اگر کسی صحابی رسول کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے اور عام لوگ اس کے دجل سے متاثر ہوتے ہیں، تو فطری طور پر اہل سنت کی طرف سے اس صحابی کا دفاع کیا جائے گا اور دفاع کے فریضہ کو انجام دینے والوں پر یہ الزام نہیں لگایا جائے گا کہ مشاجرات صحابہ کے مسئلہ کو آپ نے موضوع بحث کیوں بنایا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ناصبیت اہل بیت سے دشمنی کا نام ہے، حضرت معاویہ کو حضرت علی پر فضیلت دینے کا نام ہے، سیدنا حسین کے قتل کو برحق سمجھنے کا نام ہے۔ میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے میں ان تمام بیماریوں سے مبرا ہوں اور بفضل الہی وہی عقیدہ رکھتا ہوں جو اہل سنت والجماعت کا ہے کہ حضرت علی کی جماعت اجتہادی طور پر با صواب تھی اور حضرت معاویہ کی جماعت سے اجتہادی خطا ہوئی تھی۔
تیسری بات یہ ہے کہ یزید کو تابعی کہنا یا اس کی شان میں گفتگو کرنا بھی جمہور امت کا موقف نہیں رہا ہے۔ دارالافتاء دیوبند کا حالیہ فتوی کچھ بھی رہا ہو، لیکن اکابر دیوبند کا موقف وہی ہے جو جمہور امت کا ہے، لہذا اس مضمون میں یزید اور یزیدیت موضوع بحث نہیں ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اہل سنت کے مدارس سے وابستہ ایک طبقہ جہاں ایک طرف رافضیت کا شکار ہوا ہے، وہی اس کے ردعمل میں دوسرا طبقہ ناصبیت کا بھی شکار ہوا ہے۔ رہی بات عام طلبائے مدارس کی، تو وہ بھی تاریخ اور اصول ومناہج سے کما حقہ واقف نہ ہونے کی وجہ سے شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ میں ایک عرصے تک اس عزم پر باقی رہا کہ اس نازک مسئلہ پر کوئی گفتگو نہیں کروں گا، لیکن دیکھتا یہ ہوں کہ موجودہ دور کے دشمنان اسلام جیسے پشپیندر کلشریستھ اور طارق فتح اور بہت سے ملحدین، مشاجرات کے عنوان کو موضوع بناکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کشی پر لگے ہوئے ہیں، لہذا اس موضوع پر ان دشمنان کو کسی بھی طرح کی کمک فراہم کرنا شعوری یا لا شعوری طور پر شان رسالت میں گستاخی ہے اور یہ وہ آخری حد ہے جس کے بعد خاموشی جرم ہے۔ اسی احساس کے تحت ناچیز نے ایک سوشل میڈیائی تقریر میں "عمار تقتله الفئة الباغية" حدیث کے ذریعے حضرت معاویہ کی کردار کشی کرنے والوں کو جواب دیتے ہوے یہ کہا کہ باغی گروہ سے مراد وہ خارجی عناصر ہیں جو حضرت علی اور حضرت معاویہ دونوں کے لشکر میں شامل تھے اور واقعہ تحکیم کے بعد دونوں جماعتوں کے خلاف ہوگئے تھے۔ انہی عناصر میں سے کسی نے حضرت عمار کا قتل کیا تھا۔ اس پر کچھ مخلصین اور چند رفض وسبائیت سے متاثر متعصبین کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا کہ عمار کے قاتل ابو الغادیہ تھے اور وہ حضرت معاویہ کے ساتھ تھے، وہ خارجی نہیں تھے۔ متعصبین اور روافض کا مقصد ظاہر ہے یہی ہے کہ حضرت معاویہ کی جماعت کو باغی اور جہنم کی طرف دعوت دینے والا قرار دے کر منافق مان لیا جائے۔ اس لیے جوابا عرض ہے:
1- امام احمد نے مسند میں اور ابن سعد نے طبقات میں: کلثوم بن جبیر کے طریق سے روایت کیا ہے کہ "ابو الغادیہ نے کہا کہ میں نے عمار بن یاسر کو حضرت عثمان کو گالی دیتے ہوئے سنا، میں نے عمار کو قتل کی دھمکی دی۔۔۔۔ صفین کے موقع پر میں نے عمار کو قتل کردیا۔ آگے روایت میں ہے کہ عمرو بن عاص کو اطلاع دی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عمار کا قاتل اور ان کا سامان لوٹنے والا جہنمی ہوگا"۔
ابو الغادیہ تک سند صحیح ہے، لیکن روایت کا آخری حصہ کہ قاتلِ عمار جہنمی ہوگا، امام ذہبی (سیر 2/524) کے بقول منقطع ہے، اس کی روایت کرنے والے کلثوم بن جبیر ہیں اور ان کا عمرو بن العاص سے سماع نہیں ہے۔
2- مسند احمد میں اسی روایت کے بعد اگلی روایت ہے کہ حنظلہ بن خویلد کہتے ہیں کہ میں معاویہ کے پاس تھا کہ دو شخص آئے، ان میں سے ہر ایک مدعی تھا کہ اس نے عمار کو قتل کیا ہے، عبد اللہ بن عمرو نے کہا کہ تم ایک دوسرے سے خوش ہوتے رہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا۔ ذہبی فرماتے ہیں کہ اسنادہ جید۔
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ قتل کرنے والا ایک شخص نہیں تھا بلکہ دو لوگ اس کا دعویٰ کررہے تھے اور یہ طے نہیں ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ابو الغادیہ تھے۔
3- ابو الغادیہ کی مندرجہ بالا روایت کو اگر درست مان لیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حضرت عمار بن یاسر جیسا پاک باز شخص امیر المومنین حضرت عثمان پر لعن طعن کیا کرتا تھا۔ حضرت عمار کے مزاج سے یہ عمل بعید معلوم ہوتا ہے۔
4- ابو الغادیہ کو کبار محدثین نے جن میں ابن حجر بھی ہیں صحابی شمار کیا ہے۔ ابن حجر کا منہج اصابہ میں یہ ہے کہ صحابی ہونا یا تو تواتر سے ثابت ہو، یا شہرت سے، یا کوئی معروف صحابی دوسرے کے بارے میں صحابی ہونے کی اطلاع دے، یا کوئی قابل اعتماد تابعی شہادت دے یا پھر کوئی عادل شخص اپنے بارے میں صحابی ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ دعویٰ ممکن بھی ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ ابو الغادیہ نہ تواتر کہ بنیاد پر صحابی ہیں، نہ شہرت کی بنیاد پر، نہ کسی صحابی کی ان کے بارے میں شہادت ہے، نہ کسی قابل اعتماد تابعی کی شہادت اور نہ خود ان کا صحابی ہونے کا دعویٰ موجود ہے۔ جس روایت میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع کی تصریح کر رہے ہیں وہ محدثین کے نزدیک محل نظر ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ابن معین، بغوی، بخاری، ابو زرعہ دارقطنی ان کو صحابی قرار دیتے ہیں اور ان میں کچھ محدثین یہ بھی صراحت کرتے ہیں کہ ابو الغادیہ بیعت رضوان میں شریک تھے، لیکن سب کے نزدیک اس دعوے کی بنیاد وہی مسند احمد والی روایت ہے یہی وجہ ہے کہ سب ان کا تعارف قاتل عمار کہہ کر کراتے ہیں۔ اس روایت کی سند پر کلام اوپر کیا جاچکا ہے، ساتھ ہی یہ بھی ملحوظ نظر رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیعت رضوان میں شامل کوئی شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔ اگر ابو الغادیہ صحابی ہیں اور قاتل عمار بھی ہیں تو اس حدیث کی رو سے جہنمی کہاں رہے، جب کہ قاتلِ عمار کو جہنمی کہا جارہا ہے۔
اس لیے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ابو الغادیہ نام کے صحابی نے حضرت عمار کا قتل کیا تھا، جب کہ مسند احمد کی روایت کے مطابق دو لوگ قاتل ہونے کا دعویٰ کررہے تھے۔
5- رہی یہ بات کہ "عمار تقتله الفئة الباغية" میں باغی گروہ سے کون لوگ مراد ہیں، تو اس کا جواب قرآن سے ہی لیتے ہیں۔ ارشاد باری ہے: وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ۔
صفین کے موقع پر دو جماعتوں نے قتال کیا اور پھر ان کے درمیان تحکیم کا واقعہ پیش آیا، قرآن نے ایسے موقع پر دونوں جماعتوں کو مومنین کا لقب دیا ہے، کسی جماعت کو نہ باغی کہا اور نہی منافق۔ البتہ صلح کو مسترد کرنے والی جماعت کو باغی قرار دیا گیا ہے، واقعہ تحکیم کے بعد جن لوگوں نے صلح کو مسترد کیا انھیں خوارج کہا جاتا ہے اور قرآن کی آیت کے مطابق وہی باغی ہیں۔ اس مفہوم کی تائید بخاری کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو کچھ لوگ اب عنادا مسترد کرنے لگے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا یہ بیٹا یعنی حسن بن علی مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا"۔ اس لیے یہ بات قرین قیاس ہے کہ قتل کرنے والا ایسا فرد ہو جو خوارج میں شامل ہوگیا ہو۔ حضرت معاویہ کی جماعت اس آیت اور صحیح حدیث کی روشنی میں باغی قرار نہیں دی جا سکتی ہے۔
6- حضرت عمار کی شہادت کے بعد جب حضرت عمرو بن العاص نے حضرت معاویہ سے کہا کہ عمار قتل ہوگئے اور حدیث رسول کے مطابق عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، تو حضرت معاویہ نے کہا تو کیا ہم نے قتل کیا ہے؟ إن من قتلوه هم من أخرجوه۔
یہ بات یقینی ہے کہ خوارج کی بڑی تعداد حضرت علی کے لشکر سے نکلی تھی، لیکن کچھ لوگ حضرت معاویہ کے لشکر سے بھی نکلے تھے۔ اگر حضرت معاویہ کے اس قول کا مفہوم یہ لیا جائے کہ حضرت عمار کو میدان جنگ میں حضرت علی لیکر آئے لہذا ان کے قتل کی ذمہ داری بھی حضرت علی پر ہے، تو ایسی تاویل کم از کم عمر بن عاص جیسا عاقل شخص قبول نہیں کر سکتا۔ یہ وہ شخص ہیں جن کو داهية العرب کہا جاتا تھا، کیا عربوں کا سب سے بڑا پالیسی ساز ایسی بات پر مطمئن ہو سکتا تھا؟ دراصل حضرت معاویہ نے عمار کے قتل کو انھی خوارج کی طرف منسوب کیا ہے اور ان کے قتل سے اپنی جماعت کی براءت کا اظہار کیا ہے۔ کوئی سوال کر سکتا ہے کہ جس وقت حضرت عمار کا قتل ہوا، اس وقت خوارج وجود میں نہیں آئے تھے، حضرت معاویہ ان کی طرف قتل کی نسبت کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ اعتراض اس مفروضے پر مبنی ہے کہ حضرت عمرو بن عاص اور حضرت معاویہ کے درمیان ہونے والی گفتگو حضرت عمار کے قتل کے فورا بعد ہوئی تھی اور اس مفروضے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ البتہ خوارج کی جماعت میدان جنگ میں ہی وجود میں آ گئی تھی۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ حضرت معاویہ نے عمار کے قتل کی نسبت کسی گفتگو کے موقع پر خوارج کی طرف کی ہو۔
7- بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مسلمانوں میں پھوٹ پڑے گی تو ایک فرقہ جدا ہو جائے گا، دو جماعتوں میں سے حق سے قریب ترین جماعت اس فرقے سے قتال کرے گی۔ اس حدیث میں خوارج کے ظہور کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس حدیث سے جہاں یہ واضح ہوا کہ حضرت علی کی جماعت حق سے قریب ترین تھی، وہیں یہ بھی ثابت ہوا کہ حضرت معاویہ کی جماعت بھی اجتہادی خطاء پر تھی، باطل وباغی نہیں تھی۔
8- شارح بخاری ابن بطال (وفات 449) جن کا شمار متقدمین شراح میں ہوتا ہے کہتے ہیں کہ فئه باغيه سے مراد خوارج کی جماعت ہے۔ ابن حجر عسقلانی نے اگرچہ ابن بطال کی اس تاویل کو یہ کہہ کر مسترد کیا ہے کہ خوارج حضرت عمار کو کیسے قتل کر سکتے ہیں، جب کہ ان کا وجود بعد میں ہوا ہے، لیکن اس سوال کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے۔ قتل کرنے والے اگرچہ قتل کرتے وقت خوارج نہیں کہے جاتے تھے، لیکن بہت سی مرتبہ کسی چیز کا نام اس کے مستقبل کے اعتبار سے رکھ دیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ إنى أعصر خمرا. یہاں خمر سے عنب مراد ہے کیوں کہ انگور کو ہی نچوڑا کر شراب بنائی جاتی ہے۔
9- عدالت صحابہ کا مسئلہ عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے، حضرت معاویہ کی جماعت کو باغی قرار دے کر منافق تسلیم کرانا اہلسنت والجماعت کے اجماعی عقیدہ کے خلاف ہے۔ عقائد کا مسئلہ احکام سے زیادہ حساس ہے اور احکام میں بھی خبر واحد اگر متواتر نص کے خلاف ہو تو معتبر نہیں ہے، لہذا عقائد میں معتبر ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حدیث :عمار تقتله الفئة الباغية کے الفاظ بعض اہل علم کے نزدیک قطعی اور متواتر ہیں، لیکن اس کا مصداق قطعی اور متواتر نہیں ہے بلکہ تاریخی روایات اور بعض اہل علم کے اقوال پر مبنی ہے۔ اگر تاریخ پر مبنی اس مفہوم کے ذریعے عدالت صحابہ کا عقیدہ متاثر ہوتا ہو، تو یہ مفہوم ترک کردیا جائے گا، جب کہ اس مفہوم کے خلاف قرآن کی آیت اور صحیح احادیث موجود ہیں۔
10- حدیث عمار میں یہ الفاظ بھی وارد ہوے ہیں کہ باغی جماعت جہنم کی طرف بلانے والی ہوگی۔ یہی صفت حضرت حذیفہ کی روایت کے مطابق خوارج کی بیان کی گئی ہے۔ بخاری کے الفاظ ہیں: "دعاة على أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها" جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے ہوں گے، جو شخص ان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔ ابن حجر عسقلانی کے مطابق جہنم کی طرف بلانے والوں سے مراد خوارج کی جماعت ہے۔
11- اب سوال یہ ہے کہ حضرت معاویہ کی جماعت کو باغی قرار دینے کا کیا مقصد ہے؟ اگر مقصد حضرت علی کا برحق ہونا ثابت کرنا ہے، تو وہ پہلے ہی سے تسلیم شدہ ہے، اس کے لیے حضرت معاویہ کا باغی ہونا ضروری نہیں ہے۔ لیکن رافضیت پرست لوگوں کے لیے اتنا کافی نہیں ہے، وہ یہ چاہتے ہیں کہ حضرت معاویہ کی جماعت کو منافق قرار دیا جائے اور ان پر لعنت کو روا رکھا جائے، ان کو "سیاست کا دیوانہ" جیسے القاب سے نوازا جائے۔ اگر مقصد یہی ہے اور لگتا ایسا ہے کہ یہی ہے، تو اپنی رافضیت کا برملا اعلان کیا جائے تاکہ روافض میں رسمی طور پر انضمام کے بعد عام عوام کسی بھی طرح کے دجل وفریب سے متاثر نہ ہوں۔
رہی یہ بات کہ حضرت معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کی بیعت کیوں لی تھی؟ یا خلافت کو ملوکیت میں کیوں تبدیل کر دیا تھا؟ یا موروثی نظام کی بنیاد کیسے ڈالی تھی؟ یا خود حضرت معاویہ کی شخصیت کیسی تھی؟ ان سب سوالوں کے جوابات کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں ہے۔ البتہ اتنا ضرور کہا جائے گا کہ خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنے پر ان لوگوں کا نوحہ پڑھنا اچھا نہیں لگتا جو اپنی چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں موروثی نظام اور ملوکیت کو روا رکھے ہوئے ہیں۔
رضي الله عن علي ومعاوية وعن الصحابة أجمعين.
یاسر ندیم الواجدی
یہ تحریر اختصار کا لحاظ رکھتے ہوے لکھی گئی ہے، اس کے باوجود قدرے طویل ہے، امید ہے کہ قارئین آخر تک پڑھنے کا حوصلہ رکھیں گے۔ موضوع پر آنے سے پہلے قارئین کے سامنے چند امور پر روشنی ڈالنا از حد ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مشاجرات صحابہ کا موضوع کوئی نیا نہیں ہے، اس موضوع پر صدیوں سے گفتگو ہوتی آئی ہے اور کئی بار فیصلہ کن ہونے کے باوجود روافض اور نواصب دونوں ہی جماعتوں نے اپنے سابقہ عناد اور بغض و حسد کی وجہ سے اس گفتگو کو قبول نہیں کیا ہے۔ عام لوگوں کے لیے اتنا جاننا کافی ہے کہ صحابہ کرام ایک برگزیدہ جماعت کا نام ہے اور اس جماعت کے بعض افراد سے بشری تقاضوں کی وجہ سے کچھ خطائیں بھی صادر ہوئی ہیں، جن کے بارے میں امید ہے کہ اللہ رب العزت انہیں معاف کر چکا ہوگا۔ لہذا مشاجرات کے موضوع کو عوامی مسئلہ بنانا اور اس مسئلے کی آڑ میں اصحاب رسول کے ایک طبقے کے خلاف محرم الحرام میں تبرا کرنا یا ان کو منافق قرار دینا رافضیت کی ترجمانی تو ہوسکتی ہے لیکن اسلام کی خدمت نہیں۔ البتہ کوئی شخص اگر کسی صحابی رسول کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے اور عام لوگ اس کے دجل سے متاثر ہوتے ہیں، تو فطری طور پر اہل سنت کی طرف سے اس صحابی کا دفاع کیا جائے گا اور دفاع کے فریضہ کو انجام دینے والوں پر یہ الزام نہیں لگایا جائے گا کہ مشاجرات صحابہ کے مسئلہ کو آپ نے موضوع بحث کیوں بنایا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ناصبیت اہل بیت سے دشمنی کا نام ہے، حضرت معاویہ کو حضرت علی پر فضیلت دینے کا نام ہے، سیدنا حسین کے قتل کو برحق سمجھنے کا نام ہے۔ میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے میں ان تمام بیماریوں سے مبرا ہوں اور بفضل الہی وہی عقیدہ رکھتا ہوں جو اہل سنت والجماعت کا ہے کہ حضرت علی کی جماعت اجتہادی طور پر با صواب تھی اور حضرت معاویہ کی جماعت سے اجتہادی خطا ہوئی تھی۔
تیسری بات یہ ہے کہ یزید کو تابعی کہنا یا اس کی شان میں گفتگو کرنا بھی جمہور امت کا موقف نہیں رہا ہے۔ دارالافتاء دیوبند کا حالیہ فتوی کچھ بھی رہا ہو، لیکن اکابر دیوبند کا موقف وہی ہے جو جمہور امت کا ہے، لہذا اس مضمون میں یزید اور یزیدیت موضوع بحث نہیں ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اہل سنت کے مدارس سے وابستہ ایک طبقہ جہاں ایک طرف رافضیت کا شکار ہوا ہے، وہی اس کے ردعمل میں دوسرا طبقہ ناصبیت کا بھی شکار ہوا ہے۔ رہی بات عام طلبائے مدارس کی، تو وہ بھی تاریخ اور اصول ومناہج سے کما حقہ واقف نہ ہونے کی وجہ سے شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ میں ایک عرصے تک اس عزم پر باقی رہا کہ اس نازک مسئلہ پر کوئی گفتگو نہیں کروں گا، لیکن دیکھتا یہ ہوں کہ موجودہ دور کے دشمنان اسلام جیسے پشپیندر کلشریستھ اور طارق فتح اور بہت سے ملحدین، مشاجرات کے عنوان کو موضوع بناکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کشی پر لگے ہوئے ہیں، لہذا اس موضوع پر ان دشمنان کو کسی بھی طرح کی کمک فراہم کرنا شعوری یا لا شعوری طور پر شان رسالت میں گستاخی ہے اور یہ وہ آخری حد ہے جس کے بعد خاموشی جرم ہے۔ اسی احساس کے تحت ناچیز نے ایک سوشل میڈیائی تقریر میں "عمار تقتله الفئة الباغية" حدیث کے ذریعے حضرت معاویہ کی کردار کشی کرنے والوں کو جواب دیتے ہوے یہ کہا کہ باغی گروہ سے مراد وہ خارجی عناصر ہیں جو حضرت علی اور حضرت معاویہ دونوں کے لشکر میں شامل تھے اور واقعہ تحکیم کے بعد دونوں جماعتوں کے خلاف ہوگئے تھے۔ انہی عناصر میں سے کسی نے حضرت عمار کا قتل کیا تھا۔ اس پر کچھ مخلصین اور چند رفض وسبائیت سے متاثر متعصبین کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا کہ عمار کے قاتل ابو الغادیہ تھے اور وہ حضرت معاویہ کے ساتھ تھے، وہ خارجی نہیں تھے۔ متعصبین اور روافض کا مقصد ظاہر ہے یہی ہے کہ حضرت معاویہ کی جماعت کو باغی اور جہنم کی طرف دعوت دینے والا قرار دے کر منافق مان لیا جائے۔ اس لیے جوابا عرض ہے:
1- امام احمد نے مسند میں اور ابن سعد نے طبقات میں: کلثوم بن جبیر کے طریق سے روایت کیا ہے کہ "ابو الغادیہ نے کہا کہ میں نے عمار بن یاسر کو حضرت عثمان کو گالی دیتے ہوئے سنا، میں نے عمار کو قتل کی دھمکی دی۔۔۔۔ صفین کے موقع پر میں نے عمار کو قتل کردیا۔ آگے روایت میں ہے کہ عمرو بن عاص کو اطلاع دی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عمار کا قاتل اور ان کا سامان لوٹنے والا جہنمی ہوگا"۔
ابو الغادیہ تک سند صحیح ہے، لیکن روایت کا آخری حصہ کہ قاتلِ عمار جہنمی ہوگا، امام ذہبی (سیر 2/524) کے بقول منقطع ہے، اس کی روایت کرنے والے کلثوم بن جبیر ہیں اور ان کا عمرو بن العاص سے سماع نہیں ہے۔
2- مسند احمد میں اسی روایت کے بعد اگلی روایت ہے کہ حنظلہ بن خویلد کہتے ہیں کہ میں معاویہ کے پاس تھا کہ دو شخص آئے، ان میں سے ہر ایک مدعی تھا کہ اس نے عمار کو قتل کیا ہے، عبد اللہ بن عمرو نے کہا کہ تم ایک دوسرے سے خوش ہوتے رہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا۔ ذہبی فرماتے ہیں کہ اسنادہ جید۔
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ قتل کرنے والا ایک شخص نہیں تھا بلکہ دو لوگ اس کا دعویٰ کررہے تھے اور یہ طے نہیں ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ابو الغادیہ تھے۔
3- ابو الغادیہ کی مندرجہ بالا روایت کو اگر درست مان لیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حضرت عمار بن یاسر جیسا پاک باز شخص امیر المومنین حضرت عثمان پر لعن طعن کیا کرتا تھا۔ حضرت عمار کے مزاج سے یہ عمل بعید معلوم ہوتا ہے۔
4- ابو الغادیہ کو کبار محدثین نے جن میں ابن حجر بھی ہیں صحابی شمار کیا ہے۔ ابن حجر کا منہج اصابہ میں یہ ہے کہ صحابی ہونا یا تو تواتر سے ثابت ہو، یا شہرت سے، یا کوئی معروف صحابی دوسرے کے بارے میں صحابی ہونے کی اطلاع دے، یا کوئی قابل اعتماد تابعی شہادت دے یا پھر کوئی عادل شخص اپنے بارے میں صحابی ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ دعویٰ ممکن بھی ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ ابو الغادیہ نہ تواتر کہ بنیاد پر صحابی ہیں، نہ شہرت کی بنیاد پر، نہ کسی صحابی کی ان کے بارے میں شہادت ہے، نہ کسی قابل اعتماد تابعی کی شہادت اور نہ خود ان کا صحابی ہونے کا دعویٰ موجود ہے۔ جس روایت میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع کی تصریح کر رہے ہیں وہ محدثین کے نزدیک محل نظر ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ابن معین، بغوی، بخاری، ابو زرعہ دارقطنی ان کو صحابی قرار دیتے ہیں اور ان میں کچھ محدثین یہ بھی صراحت کرتے ہیں کہ ابو الغادیہ بیعت رضوان میں شریک تھے، لیکن سب کے نزدیک اس دعوے کی بنیاد وہی مسند احمد والی روایت ہے یہی وجہ ہے کہ سب ان کا تعارف قاتل عمار کہہ کر کراتے ہیں۔ اس روایت کی سند پر کلام اوپر کیا جاچکا ہے، ساتھ ہی یہ بھی ملحوظ نظر رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیعت رضوان میں شامل کوئی شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔ اگر ابو الغادیہ صحابی ہیں اور قاتل عمار بھی ہیں تو اس حدیث کی رو سے جہنمی کہاں رہے، جب کہ قاتلِ عمار کو جہنمی کہا جارہا ہے۔
اس لیے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ابو الغادیہ نام کے صحابی نے حضرت عمار کا قتل کیا تھا، جب کہ مسند احمد کی روایت کے مطابق دو لوگ قاتل ہونے کا دعویٰ کررہے تھے۔
5- رہی یہ بات کہ "عمار تقتله الفئة الباغية" میں باغی گروہ سے کون لوگ مراد ہیں، تو اس کا جواب قرآن سے ہی لیتے ہیں۔ ارشاد باری ہے: وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ۔
صفین کے موقع پر دو جماعتوں نے قتال کیا اور پھر ان کے درمیان تحکیم کا واقعہ پیش آیا، قرآن نے ایسے موقع پر دونوں جماعتوں کو مومنین کا لقب دیا ہے، کسی جماعت کو نہ باغی کہا اور نہی منافق۔ البتہ صلح کو مسترد کرنے والی جماعت کو باغی قرار دیا گیا ہے، واقعہ تحکیم کے بعد جن لوگوں نے صلح کو مسترد کیا انھیں خوارج کہا جاتا ہے اور قرآن کی آیت کے مطابق وہی باغی ہیں۔ اس مفہوم کی تائید بخاری کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو کچھ لوگ اب عنادا مسترد کرنے لگے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا یہ بیٹا یعنی حسن بن علی مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا"۔ اس لیے یہ بات قرین قیاس ہے کہ قتل کرنے والا ایسا فرد ہو جو خوارج میں شامل ہوگیا ہو۔ حضرت معاویہ کی جماعت اس آیت اور صحیح حدیث کی روشنی میں باغی قرار نہیں دی جا سکتی ہے۔
6- حضرت عمار کی شہادت کے بعد جب حضرت عمرو بن العاص نے حضرت معاویہ سے کہا کہ عمار قتل ہوگئے اور حدیث رسول کے مطابق عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، تو حضرت معاویہ نے کہا تو کیا ہم نے قتل کیا ہے؟ إن من قتلوه هم من أخرجوه۔
یہ بات یقینی ہے کہ خوارج کی بڑی تعداد حضرت علی کے لشکر سے نکلی تھی، لیکن کچھ لوگ حضرت معاویہ کے لشکر سے بھی نکلے تھے۔ اگر حضرت معاویہ کے اس قول کا مفہوم یہ لیا جائے کہ حضرت عمار کو میدان جنگ میں حضرت علی لیکر آئے لہذا ان کے قتل کی ذمہ داری بھی حضرت علی پر ہے، تو ایسی تاویل کم از کم عمر بن عاص جیسا عاقل شخص قبول نہیں کر سکتا۔ یہ وہ شخص ہیں جن کو داهية العرب کہا جاتا تھا، کیا عربوں کا سب سے بڑا پالیسی ساز ایسی بات پر مطمئن ہو سکتا تھا؟ دراصل حضرت معاویہ نے عمار کے قتل کو انھی خوارج کی طرف منسوب کیا ہے اور ان کے قتل سے اپنی جماعت کی براءت کا اظہار کیا ہے۔ کوئی سوال کر سکتا ہے کہ جس وقت حضرت عمار کا قتل ہوا، اس وقت خوارج وجود میں نہیں آئے تھے، حضرت معاویہ ان کی طرف قتل کی نسبت کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ اعتراض اس مفروضے پر مبنی ہے کہ حضرت عمرو بن عاص اور حضرت معاویہ کے درمیان ہونے والی گفتگو حضرت عمار کے قتل کے فورا بعد ہوئی تھی اور اس مفروضے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ البتہ خوارج کی جماعت میدان جنگ میں ہی وجود میں آ گئی تھی۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ حضرت معاویہ نے عمار کے قتل کی نسبت کسی گفتگو کے موقع پر خوارج کی طرف کی ہو۔
7- بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مسلمانوں میں پھوٹ پڑے گی تو ایک فرقہ جدا ہو جائے گا، دو جماعتوں میں سے حق سے قریب ترین جماعت اس فرقے سے قتال کرے گی۔ اس حدیث میں خوارج کے ظہور کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس حدیث سے جہاں یہ واضح ہوا کہ حضرت علی کی جماعت حق سے قریب ترین تھی، وہیں یہ بھی ثابت ہوا کہ حضرت معاویہ کی جماعت بھی اجتہادی خطاء پر تھی، باطل وباغی نہیں تھی۔
8- شارح بخاری ابن بطال (وفات 449) جن کا شمار متقدمین شراح میں ہوتا ہے کہتے ہیں کہ فئه باغيه سے مراد خوارج کی جماعت ہے۔ ابن حجر عسقلانی نے اگرچہ ابن بطال کی اس تاویل کو یہ کہہ کر مسترد کیا ہے کہ خوارج حضرت عمار کو کیسے قتل کر سکتے ہیں، جب کہ ان کا وجود بعد میں ہوا ہے، لیکن اس سوال کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے۔ قتل کرنے والے اگرچہ قتل کرتے وقت خوارج نہیں کہے جاتے تھے، لیکن بہت سی مرتبہ کسی چیز کا نام اس کے مستقبل کے اعتبار سے رکھ دیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ إنى أعصر خمرا. یہاں خمر سے عنب مراد ہے کیوں کہ انگور کو ہی نچوڑا کر شراب بنائی جاتی ہے۔
9- عدالت صحابہ کا مسئلہ عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے، حضرت معاویہ کی جماعت کو باغی قرار دے کر منافق تسلیم کرانا اہلسنت والجماعت کے اجماعی عقیدہ کے خلاف ہے۔ عقائد کا مسئلہ احکام سے زیادہ حساس ہے اور احکام میں بھی خبر واحد اگر متواتر نص کے خلاف ہو تو معتبر نہیں ہے، لہذا عقائد میں معتبر ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حدیث :عمار تقتله الفئة الباغية کے الفاظ بعض اہل علم کے نزدیک قطعی اور متواتر ہیں، لیکن اس کا مصداق قطعی اور متواتر نہیں ہے بلکہ تاریخی روایات اور بعض اہل علم کے اقوال پر مبنی ہے۔ اگر تاریخ پر مبنی اس مفہوم کے ذریعے عدالت صحابہ کا عقیدہ متاثر ہوتا ہو، تو یہ مفہوم ترک کردیا جائے گا، جب کہ اس مفہوم کے خلاف قرآن کی آیت اور صحیح احادیث موجود ہیں۔
10- حدیث عمار میں یہ الفاظ بھی وارد ہوے ہیں کہ باغی جماعت جہنم کی طرف بلانے والی ہوگی۔ یہی صفت حضرت حذیفہ کی روایت کے مطابق خوارج کی بیان کی گئی ہے۔ بخاری کے الفاظ ہیں: "دعاة على أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها" جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے ہوں گے، جو شخص ان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔ ابن حجر عسقلانی کے مطابق جہنم کی طرف بلانے والوں سے مراد خوارج کی جماعت ہے۔
11- اب سوال یہ ہے کہ حضرت معاویہ کی جماعت کو باغی قرار دینے کا کیا مقصد ہے؟ اگر مقصد حضرت علی کا برحق ہونا ثابت کرنا ہے، تو وہ پہلے ہی سے تسلیم شدہ ہے، اس کے لیے حضرت معاویہ کا باغی ہونا ضروری نہیں ہے۔ لیکن رافضیت پرست لوگوں کے لیے اتنا کافی نہیں ہے، وہ یہ چاہتے ہیں کہ حضرت معاویہ کی جماعت کو منافق قرار دیا جائے اور ان پر لعنت کو روا رکھا جائے، ان کو "سیاست کا دیوانہ" جیسے القاب سے نوازا جائے۔ اگر مقصد یہی ہے اور لگتا ایسا ہے کہ یہی ہے، تو اپنی رافضیت کا برملا اعلان کیا جائے تاکہ روافض میں رسمی طور پر انضمام کے بعد عام عوام کسی بھی طرح کے دجل وفریب سے متاثر نہ ہوں۔
رہی یہ بات کہ حضرت معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کی بیعت کیوں لی تھی؟ یا خلافت کو ملوکیت میں کیوں تبدیل کر دیا تھا؟ یا موروثی نظام کی بنیاد کیسے ڈالی تھی؟ یا خود حضرت معاویہ کی شخصیت کیسی تھی؟ ان سب سوالوں کے جوابات کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں ہے۔ البتہ اتنا ضرور کہا جائے گا کہ خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنے پر ان لوگوں کا نوحہ پڑھنا اچھا نہیں لگتا جو اپنی چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں موروثی نظام اور ملوکیت کو روا رکھے ہوئے ہیں۔
رضي الله عن علي ومعاوية وعن الصحابة أجمعين.