روایت کے بارے میں خضر بھائی نے وضاحت کر دی ہے ۔
میں جن صاحب نے اعتراضات کئے ہیں جو کاشف بھائی نے نقل کئے ہیں ۔ ان کی کچھ باتوں پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں ۔
جہاں تک قران کا تعلق ہے اس کا اعجاز یہ ہے کہ اس میں قیامت تک کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔۔۔
جہاں تک احادیث کا سوال ہے تو احادیث کی جو کتابیں مستند سمجھی جاتی ہیں اور جن کے بارے آج تک کوئی یہ اعتراض نہیں کر سکا کہ ان میں کسی ضعیف راوی سے احادیث روایت کی گئیں ہیں۔ جیسے مسلم، بخاری وغیرہ ۔
بھائی نے ادھر یہ بات کی ہے ۔اور آگے بخاری و مسلم کے ایک راوی کے بارے میں لکھا ہے ۔
ابن عجلان کا شاگرد یحی بن ایوب المصری بھی جو اس روایت کا ایک فرد ہے سخت ضعیف راوی ہے۔
اس روایت کی علتیں : پہلی غور طلب بات یہ ہے کہ نبی پاک کی وفات کے 400 سال بعد تک یہ واقعہ صحاح ستہ سمیت حدیث کی کسی قابل ذکر کتاب میں نہیں ملتا۔
اس واقعہ کو پانچویں صدی میں بیہقی نے اپنی کتاب دلایل النبوت میں اور پھر ابن مردویہ کے ذکر کیا۔
منکرین حدیث یا متجددین کی کتب میں اکثر یہ جملے پڑھنے کو مل جاتے ہیں ۔ حسن ظن رکھتے ہوئے بھائی کو ناواقفیت کی وجہ سے معزور سمجھتے ہیں ۔
صحاح ستہ کے ہمعصر امام احمد ؒ کی کتاب فضائل الصحابہؓ کے زوائد میں ان کے بیٹے نے نقل کی ہے ۔
راوی کے مطابق یہ واقعہ خطبہ جمعہ کے دوران پیش آیا۔ اور کتنی عجیب بات ہے کہ سوائے عبداللہ بن عمر کے کسی اور صحابی یہ تابعی نے اسے کہیں بھی روایت نہیں کیا۔ کتنے صحابہ اور تابعین اس خطبہ کے دوران وہاں موجود ہوں گے۔
کیا اس فارمولے کے تحت اکثر کتب حدیث کی پہلی حدیث ۔انما الاعمال بالنیات۔۔جو حضرت عمرؓ نے ممبر پر سنی ۔۔لیکن کسی اور صحابیؓ سے صحیح سند سے مروی نہیں۔ ۔بھی نشانہ پہ آجاتی ہے کہ نہیں ۔۔؟
اس خاکسار نے محدثین کی تحقیق اس حدیث کے بارے میں نقل کر دی ہیں تاکہ میرے تمام مسلمان بھائی اس روایت کی حقیقت تک پہنج جائیں۔
محدثین کی تحقیق اس حدیث کے بارے میں ہرگز نقل نہیں کی ۔۔اس روایت پر تو جرح ہی دور جدید میں شروع ہوئی ہے ۔اگر کسی محدث نے اس روایت پر جرح کی ہے تو نقل کریں ۔
راویوں پہ جرح نقل کی ہے بھائی نے ۔
میرے بھائی محدثین کو علم تھا اس بات کا ۔غالباََ اسی لئے اس روایت پہ صحیح کا حکم نہیں بلکہ حسن کا حکم لگایا گیا ہے ۔
حافظ ابن کثیر ؒ نے البدایۃ میں حسن فرمایا۔
حافظ ابن حجرؒ نے اصابۃ میں حسن کہا۔
حافظ سخاویؒ نے تخریج اربعین السلمیۃ میں اور مقاصد میں حسن کہا ۔
ملا علی قاریؒ نے حسن کہا۔مرقاۃ میں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے ۵ یا ۶ جگہوں پہ منہاج السنۃ اور فتاوٰی میں استدلال کیا اسی روایت سے
ابن قیمؒ نے مدارج میں استدلال کیا ۔
حافظ خطابیؒ نے بخاری کی حدیث جس میں حضرت عمرؓ کو محَدث فرمایا گیا ہے کی شرح میں اسی حدیث کو پیش کیا۔
بلکہ امام ابو حنیفہؒ نے شیعہ سے مناظرے میں اس روایت کو پیش کیا جیسا کہ حافظ ابن تیمیہ ؒ اور ابن کثیرؒ نے نقل کیا ۔
ابن جوزی ؒ جیسے متشدد محدث نے سیرت عمرؓ اور المنتظم میں بغیر تنقید نقل کیا ۔
اور حوالے میرے شمار سے باہر ہیں ۔
اور اس روایت پر جرح کا مجھے علم نہیں ہو سکا