ابو عبدالرحمٰن السلمی
روایت کے نا قابل مرجوح اور ناقابل احتجاج ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تمام کتب میں اس زیر بحث روایت کے سلسلئہ اسناد میں مرکزی راوی ابو عبدالرحمٰن السلمی ہے جسکا پورا نام عبداللہ بن حبیب بن ربیعہ سلمی ہے اسکی وفات کم و بیش 72 ہجری میں بشر بن مروان کے عہد حکومت میں ہوئی۔ حافظ ابو حاتم رازی متوفی ۲۷۷ ھ کہتے ہیں:
" لیس تثبت روایۃ عن علی رضی اللہ عنہ"
،
ترجمہ: اسکی روایت جناب امیر علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے۔(تہذیب التہذیب جلد ۲ صفحہ ۳۲۰ طبع موسسۃ الرسالۃ ۱۴۱۶ ھ، کتاب المراسیل لابن ابی حاتم صفحہ ۷۰ طبع بغداد)
اس قول کی بنا پر یہ روایت منقطع ہے بہر صورت انقطاع کم ہو یا زیادہ یہ روایت کی حجیت کے لئے قادح ہے اگر بفرض محال روایت ثابت ہو ہی جائے تب بھی اسکی بیان کردہ روایت قابل قبول نہیں کیونکہ یہ شخص جناب امیر علیہ السلام کا زبردست مخالف تھا اور انکے اعلانیہ تنقیض کرتا تھا۔ اس مطلب کی تائید مزید امام بخاری کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔ اب لیجئیے ! اس سلسلے میں امام بخاری متوفیٰ ۲۵۶ھ کا بیان قابل استناد ہے انہوں نے نہایت وا شگاف الفاظ میں اسکا دشمن علی علیہ السلام ہونا بتایا ہے ان کے الفاظ یہ ہیں:
"عن ابی عبد الرحمن و کان عثمانیا فقال لابن عطیہ وکان علویا انی لاعلم ما الذی جرا صاحبک علیٰ الد مآء"،
ترجمہ:"ابو عبدالرحمن سلمی جو عثمانی تھا حبان ابن عطیہ سے کہا جو علوی تھا کہ تیرے صاحب(حضرت علی علیہ السلام) کو اسقدر خون ریزی کرنے کی جرات جس وجہ سے ہوئی ہے اسکو میں جانتا ہوں۔"(صحیح بخاری کتاب الجھاد باب اضطر الرجل الی النظر فی شعور اھل الذمۃ)
بعض محقق شارحین نے بخاری شریف کی اس روایت کے ذیل میں یہ وضاحت کی ہے کہ:
"ابو عبد الرحمن کا یہ کلام صریح بے ادبی ہے حضرت علی علیہ السلام سے، آپ نے جو خوارج اور باغیوں کو قتل کیا وہ بموجب امر الٰہی تھا نہ اس وجہ سے کہ آپ کو اپنے بہشتی ہونے کا یقین تھا اوراس یقین کے بھروسے پر آپ خلاف شرع کام کرتے رہے۔" (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد ۱۵ صفحہ۱۶ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، تیسیر الباری شرح صحیح البخاری جلد ۴ صفحہ۲۳۲-۲۳۳ طبع تاج کمپنی لمیٹڈ )
آپ اندازہ کیجئیے کہ اس شخص کی رگ و ریشہ میں عداوت علی علیہ السلام کس قدر سرایت کر چکی تھی کہ اس کی رگ ناصبیت پھڑک اٹھی اور حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں گستاخی و بے ادبی کی نہایت ذلیل جسارت کرتے ہوئے ان پر خون ریزی کا اتہام لگادیا۔اسکے یہ گستاخانہ کلمات ناصبی ذہنیت کی پیداوار ہیں، پھر یہ بات نا قابل فہم ہے کہ جو شخص کھلم کھلا تنقیض علی علیہ السلام جیسے فعل شنیع کا مرتکب ہوا ہو، اسے قابل اعتماد و استناد اور ثقہ گرداننا کہاں کا انصاف ہے جبکہ اس شخص کا ناصبی ہونا مسلم ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں
براء بن مالک صاحب نے خود پوسٹ کر دیا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی متوفیٰ ۸۵۲ھ اسکے بارے میں لکھتے ہیں:
"شھد مع علی صفین ثم صار عثمانیا۔"،
ترجمہ:"یہ شخص جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھا بعد ازاں عثمانی (ناصبی) ہو گیا تھا۔" (تہذیب التہذیب:۱۸۳،۱۸۴/۵)
یہی بات
مشہور مورخ ابو یوسف البسوی متوفیٰ ۲۷۷ھ نے
"کتاب المعرفۃ و التاریخ" جلد ۲ صفحہ ۵۸۹ مطبعۃالارشاد بغداد،
مولانا محمد یوسف کاندہلوی نے
امانی الاحبار جلد ۱ صفحہ ۲۴۱ طبع ملتان اور
شیخ محمد امین الاورکزئی نے
نثرالازہار شرح معانی الآثار جلد ۱ صفحہ ۹۶ طبع کوہاٹ میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ درج کی ہے۔
روایت کے نا قابل مرجوح اور ناقابل احتجاج ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تمام کتب میں اس زیر بحث روایت کے سلسلئہ اسناد میں مرکزی راوی ابو عبدالرحمٰن السلمی ہے جسکا پورا نام عبداللہ بن حبیب بن ربیعہ سلمی ہے اسکی وفات کم و بیش 72 ہجری میں بشر بن مروان کے عہد حکومت میں ہوئی۔ حافظ ابو حاتم رازی متوفی ۲۷۷ ھ کہتے ہیں:
" لیس تثبت روایۃ عن علی رضی اللہ عنہ"
، ترجمہ: اسکی روایت جناب امیر علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے۔)تہذیب التہذیب جلد ۲ صفحہ ۳۲۰ طبع موسسۃ الرسالۃ ۱۴۱۶ ھ، کتاب المراسیل لابن ابی حاتم صفحہ ۷۰ طبع بغداد(
بعون اللہ تعالیٰ:
ہمیں شدید حیرت ہے اس اعتراض پر کیونکہ اس اعتراض کی بنیاد بہت ہی کمزورہے ۔ موصوف نے ابوحاتم رازی رحمہ اللہ کے قول کو لاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ روایت منقطع ہے ۔ موصوف جرح تعدیل کے علم میں بالکل کورے لگتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ کے قول سے روایت کے مرجوح اور ناقابل احتجاج ہونے کی حجت پکڑی ہے ۔ان کا یہ خیال باطل ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امام ابوحاتم رازی کاراویوں پر جرح کرنے کے بارے میں تشدد بہت ہی مشہور ومعروف ہے ۔اور اس کے بالکل الٹ امام ابن حبان کی راوی کی توثیق کرنے کے بارے میں تساہل مشہور ہے۔ یہ ایسا ہی جیسا کہ احادیث کی تحقیق کے بارے میں امام ابن جوزی رحمہ اللہ کا تشدد مشہور ہے اور امام سیوطی رحمہ اللہ کا تساہل مشہور ہے۔حالانکہ اسی کتاب 'تہذیب التہذیب 'میں امیر المومنین فی الحدیث کا یہ قول بھی موجود ہے : ’’
وقال حجاج بن محمد عن شعبہ لم یسمع من ابن مسعود ولا من عثمان ولکن سمع من علی“کہ حجاج بن محمد فرماتے ہیں کہ شعبہ فرماتے ہیں کہ)عبداللہ بن حبیب ابوعبدالرحمن السلمی)نے ابن مسعود اور عثمان رضی اللہ عنہما سے احادیث کی سماعت نہیں کی لیکن انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے احادیث کی سماعت کی ہے ۔ (تہذیب التہذیب:۱۸۳،۱۸۴/۵)طبع حیدرآباد دکن
کون اس بات کی گواہی دے رہا ہے :امام شعبہ رحمہ اللہ جو کہ حدیث میں امیرالمومنین ہیں ۔ثقہ اور حجت ہیں ۔ جس کے بارے میں امام سفیان الثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : شعبہ امیرالمومنین فی الحدیث ہیں (تذکرۃ الحفاظ:ج۱ طبقہ ۵ صفحہ ۱۶۵)
ابوزید ہروی کہتے ہیں :امام شعبہ ۸۲ہجری میں پیدا ہوئے ۔۱۶۰ ہجری میں انتقال فرمایا۔
دوسری گواہی بھی سنئےامیرالمومنین فی الحدیث سیدنا امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اپنی مشہور کتاب تاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں :’’
وقال البخاری فی تاریخہ الکبیر سمع علیا وعثمان وابن مسعود“کہ امام بخاری رحمہ اللہ تاریخ الکبیر میں فرماتے ہیں :کہ حبیب بن عبداللہ ابوعبدالرحمن السلمی نے علی ،عثمان اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے احادیث کی سماعت کی ہے۔(تہذیب التہذیب:۱۸۳،۱۸۴/۵)طبع حیدرآباد دکن
امام ابن حجر رحمہ اللہ امام بخاری کے اس قول کو امام ابوحاتم رازی کے قول کے بعد لے کر آئے ہیں ۔جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ کے قول کو ناقابل حجت قرار دے کر امام بخاری کے قول کے ذریعے حبیب بن عبداللہ ابوعبدالرحمن السلمی کی علی رضی اللہ عنہ سے احادیث کی سماعت کو ثابت کررہے ہیں ۔
دیکھئے کس طرح جرح وتعدیل کے علماء نے ان کی سماعت اور ملاقات کو علی رضی اللہ عنہ سے ثابت کیا ہے ۔
عن أبي عبد الرحمن ، قال : أخذت القراءة عن علي
أبو بكر بن عياش ، عن عاصم ، عن أبي عبد الرحمن ، أنه قرأ على علي –عليه السلام-، وعن أبي عبد الرحمن ، قال : خرج علينا علي رضي الله عنه وأنا أقرئ .
قال أبو عمرو الداني : أخذ القراءة عرضا عن عثمان ، وعلي ، وزيد ، وأبي ، وابن مسعود .
روى حسين الجعفي عن محمد بن أبان ، عن علقمة بن مرثد ، أن أبا عبد الرحمن السلمي تعلم القرآن من عثمان ، وعرض على علي .
محمد ليس بحجة .
وروى أبان العطار ، عن عاصم بن بهدلة ، عن أبي عبد الرحمن ، قال : أخذت القراءة عن علي .
أبو بكر بن عياش ، عن عاصم ، عن أبي عبد الرحمن ، أنه قرأ على علي .
وعن أبي عبد الرحمن ، قال : خرج علينا علي - رضي الله عنه - وأنا أقرئ .
( سير أعلام النبلاء ج4ص267 ت97 )
مندرجہ بالا تمام روایات میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ عبداللہ بن حبیب ابوعبدا لرحمن السلمی کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے ثابت اور تسلیم شدہ ہے ۔ حدیث کے دوامیرالمومنین امام شعبہ اور امام بخاری رحمہما اللہ نے بھی ان کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے ثابت مانا ہے ۔
اب قارئین کرام خود ہی اندازہ لگالیں کے اتنے بڑے آئمہ اعلام کے مقابلے میں سپاہ محمد کی جرح کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔ اورموصوف کی جرح کا دارومدارصرف امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ کا قول ہے۔ جسے خود امام ابن حجر رحمہ اللہ نے امام شعبہ اور امام بخاری رحمہما اللہ کے قول کو نقل کرکے ناقابل حجت قراردے دیا ہے۔والحمد للہ علی ٰ ذلک
عبداللہ بن حبیب کی جن علماء محدثین نے توثیق کی ہے ہم ان کو ذیل میں درج کررہے ہیں تاکہ قارئین جان لیں کہ آئمہ حدیث کے نزدیک السلمی کا کیا مقام ہے:
٭ امام عجلی فرماتے ہیں :کوفہ کے رہنے والے تابعی ہیں ثقہ ہیں ۔
٭ امام نسائی فرماتے ہیں :ثقہ ہیں۔
٭ محمد بن عمر الواقدی فرماتے ہیں:حدیث بیان کرنے میں ثقہ(قابل اعتماد) ہیں۔
٭ ابن عبدالبر فرماتے ہیں :کہ تمام محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔
٭ امام ابن سعد فرماتے ہیں:ثقہ کثیر الحدیث ہیں ۔
٭ امام ذہبی رحمہ اللہ آپ کا تذکرہ ان الفاظ سے شروع کرتے ہیں :''آپ کا نام عبداللہ بن حبیب ہے آپ کوفہ کے مشہور معلم قرآن اور عالم دین ہیں آپ نے عثمان ۔علی اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے قرآن حکیم پڑھا ۔اور ان سے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے علم حدیث حاصل کیا ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں قرآن حکیم کی تعلیم دینے کے لئے مسندِ درس پر رونق افروز ہوئے اور وفات تک اپنی پوری زندگی اسی کام میں صرف کردی ۔آپ کی وفات عراق پر بشر بن مروان کے عہد گورنری ۷۳ ہجری یا اس کے کچھ بعد واقع ہوئی ۔مشہور قاریب عاصم نے آپ سے فنِ قراء ت سیکھا اور ابراہیم نخعی ،سعید بن جبیر ،علقمہ بن مرثد ،عطاء بن سائب اور اسماعیل بن عبدالرحمن شدی نے حدیث روایت کی ،آپ ثقہ اور بڑے اونچے مرتبہ کے حامل تھے ۔(تذکرۃ الحفاظ:۶۵،۶۶/۱)
امام ابن حجر کی فیصلہ کن بات :
عبداللّٰہ بن حبیب ربیعة ابوعبدالرحمن السلمی الکوفی المقری مشہور بکنیتہ ولابیہ صحبة ثقة ثبت من الثانیة مات بعد السبعین۔
عبداللہ بن حبیب ربیعہ ابوعبدالرحمن السلمی کوفہ کے رہنے والے قاری اپنی کنیت سے مشہور ہیں ان کے والد صحابی تھے ثقہ ثبت ہیں دوسرے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ستر کی دہائی کے بعد انتقال ہوا۔(تقریب التہذیب:۱۷۰،۱۷۱)
سپاہ محمد جس راوی پر تم نے بحث کا دروازہ کھولا ہوا ہے دیکھو ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں کہہ رہے ہیں ثقہ ثبت ہیں اور اپنی کتاب تقریب التہذیب میں ثقہ ثبت کا حکم لگارہے ہیں ۔ اور محدثین کے دوسرے طبقہ میں شمار کررہے ہیں جو کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد کا طبقہ ہے۔ابوعبدالرحمن السلمی صحیحین کے مرکزی راوی ہیں ۔ اس لیے آپ کی جرح ابو عبدالرحمن السلمی رحمہ اللہ پر کالعدم ہے ۔
معزز قارئین کرام اب ہم آپ کو سپاہ محمد کی غفلت سے آگاہ کرتے ہیں کہ جب انسان حق سے انحراف کرتا ہے تو کس طرح غلطیاں کرتا ہے :اب ہم فتح الباری شرح صحیح البخاری سے ایک حدیث نقل کرکے بتاتے ہیں کہ ابوعبدالرحمن السلمی کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت ہے:
باب اذا اضطر الرجل الی النظر فی شعور اھل الذمة والمومنات اذا عصین اللہ ، وتجریدھن
حدثنی محمد بن عبداللّہحوشب الطائفی حدثنا ھشیم اخبرنا حصین عن سعد بن عبیدة عن ابی عبدالرحمن وکان عثمانیاً ، وقال لابن عطیة وکان علویاً :انی لاعلم ماالذی جرّا صاحبک علی الدماء ، سمعتہ یقول بعثنی النبی والزبیر۔۔۔۔۔۔۔
غور کریں عبدالرحمن السلمی ابن عطیہ سے فرمارہے ہیں کہ تمہارے صاحب (علی رضی اللہ عنہ)کو (خوارج اورباغیوں کو اس قدر قتل کرنے کی )جراءت جس وجہ سے ہوئی اس وجہ کو میں جانتا ہوں۔اور اس کے بعد بیان کیا کہ :میں نے علی بن ابی طالب سے اس حدیث کو سنا ہے۔
ملاحظہ فرمائیے کہ آپ ہی نے اس صفحہ کو نقل کیا ہے اپنے جواب میں جس میں ابوعبدالرحمن السلمی کی سماعت احادیث علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے جس کو آپ نے قابل توجہ نہیں سمجھا یا اس کی عبارت کو سمجھ ہی نہیں سکے ۔ ہم نے آپ کے اس مسئلے کو بھی حل کردیا ۔ اب آپ کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ جو جرح آپ نے امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ کے حوالے سے کی تھی وہ ناقابل التفات اور ناقابل توجہ ہے ۔جس کی آئمہ حدیث کی وضاحت کے بعد کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ۔
دوسری بات آپ نے قابل اعتراض بتائی اوراس کو جرح کاسبب قرار دیا وہ ہے :
"
شھد مع علی صفین ثم صار عثمانیا۔"،
ترجمہ:"یہ شخص جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھا بعد ازاں عثمانی (ناصبی) ہو گیا تھا۔" (تہذیب التہذیب:۱۸۳،۱۸۴/۵)
ہمیں سخت افسوس ہے آپ کی اس جرح پر کہ علم جرح وتعدیل کو سمجھتے ہی نہیں اور کیوں سمجھیں گے یہ علمی ورثہ ہے جس کی وارث اہل السنۃ والجماعۃ ہیں ظاہر ہے وہی اس کو جانتے ہیں کہ کیا چیز جرح کا باعث ہے اور کیا چیز جرح کا باعث نہیں ۔عثمانی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ :وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل جانتے تھے ۔عبارت کا مقصد اور مطلب صرف یہی تھا آپ نے لفظ (ناصبی ) کااضافہ کرکے قارئین کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ۔
سپاہ محمد تمام اہل السنۃ والجماعۃ مشرق سے لے کر مغرب تک عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیتے ہیں ۔ تو کیا اس بات پر یہ سارے اہل السنۃ والجماعۃ ناصبی کہلائیں گے ۔ ولاحول ولا قوۃ الاباللہ ۔یہ اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے ۔
چنانچہ اسی وجہ سے حدیث کے شارح ابن حجر عسقلانی نے اس قول پر صرف اتنی بحث کی ہے کہ :
وقولہ
((کان عثمانیا))أی یقدمعثمان علی علی فی الفضل کہ اس کے قول 'کان عثمانیاً'کا مطلب یہ ہے کہ وہ حضرت عثمان کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل جانتے تھے ۔یہی عقیدہ جمیع اہل السنۃ والجماعۃ بشمول علماء محدثین مفسرین وغیرہم کا ہے ۔ اب کیا سارے اہل السنۃ والجماعۃ ناصبی ہوگئے ۔ اگر آپ ایسا ہی سمجھتے ہیں تو پھر بحث کس بات پر اور اگر ایسا نہیں سمجھتے تو آپ کا موقف باطل قرار پاتا ہے ۔
اب ہم اس اعتراض کو دوحدیثیں بیان کرکے ہمیشہ کے لیے ختم کردیتے ہیں:
قال البخاری حدثنا محمد بن کثیر اخبرنا سفیان ، حدثنا جامع بن ابی راشد ،حدثنا ابویعلیٰ ۔ عن المحمد بن الحنفیةقال : قلت لابی : ای الناس خیر بعد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟ قال : ابوبکر، قلت : ثم من؟ قال:ثم عمر ، وخشیت أن یقول : عثمان ، قلت :ثم انت؟قال: ما انا الا رجل من المسلمین ۔
محمد بن الحنفیہ نے بیان کیا کہ میں نےاپنے والد )علی رضی اللہ عنہ(سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟انہوں نے بتلایا کہ :ابوبکر رضی اللہ عنہ ۔میں نے پوچھا پھر کون ہیں ؟انہوں نے بتلایا'اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔مجھےاندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد ؟تو)کہہ دیں گے عثمان رضی اللہ عنہ ۔اس لئے میں نے خود کہا 'اس کے بعد آپ ہیں ؟ یہ سن کر بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
حدثنی محمد بن حاتم بن بزیع حدثنا شاذان حدثنا عبدالعزیز بن ابی سلمةالماجشون عن عبیداللّٰہ عن نافع عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنھما قال : کنّا فی زمن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یعدل بابی بکر احدا ، ثم عمر ثم عثمان، ثم نترک اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا تفاضل بینھم ۔ تابعہ عبداللّٰہ بن صالح عن عبدالعزیز)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں قرار دیتے تھے ۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ۔اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر ہم کوئی بحث نہیں کرتے تھے اور کسی کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم )۔
ہم نے اب اہل السنۃ والجماعۃ کے مسلک کو دوصحیح احادیث سے ثابت کرکے دکھلادیا ہے ۔ اب سپاہ محمد کے پاس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ ا س زیر بحث حدیث کو تسلیم کرلیں ۔جس پرانہوں نے لایعنی اعتراض کرکے حدیث کو ناقابل اعتبار قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔ الحمد للہ ہم نے اسے ثابت کردیا ہے کہ ابوعبدالرحمن السلمی کا سماع احادیث علی رضی اللہ عنہ سے ثابت اور تسلیم شدہ ہے ۔
آپ کے جواب کا شدت سے انتظار رہے گا ۔والسلام