• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے بعد طلاق ثلاثہ کیا حکم تھا ؟

شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ!!!
میرا سوال طلاق ثلاثہ پر ہیں
- میرے کم علم اور ناکام تحقیق کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے خلافت کے پہلے دو سال تک طلاق ثلاثہ کا وہی معمول تھا جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا یانی ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار کی جاتی تھی۔
لیکن جب لوگوں نے اس میں جلد بازی شروع کر دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سیاسی فیصلے کی تحت تین طلاقوں کو تین نافذ کر دیا۔

میری ناکام تحقیق یہی پر رک جاتی ہے. میرے کچھ پوائنٹس ہیں جو مجھے سمجھنے ہیں.

پوائنٹ نمبر 1: - جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ فیصلہ کیا تب کتنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہما آپ کے ساتھ تھے-(مجھے بس اتنا جاننا ہے کہ سب صحابہ اس فیصلے پر تھے یا کسی کا اس پر اختلاف تھا کیونکہ میں نے پڑھا ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا اس پر اختلاف تھا اب پتا نہیں یہ بات کتنی صحیح ہے اس کی تحقیق درکار ہیں.)

پوائنٹ نمبر 2: - کیا پوری خلافت عمر رضی اللہ تعالی عنہ میں یہی فیصلہ رہا یا اخری وقت میں تبدیل ہوا(کیوں کہ علامہ ابن القیم رحمة اللہ علیہ کی ایک کتاب اغاثہ اللفہان میں پڑھا تھا کی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس فیصلے پر افسوس زاہر کیا. اس روایت کے بارے میں بھی نہیں پتا صحیح ہے یا نہیں اسکی بھی تحقیق درکار ہیں. )

پوائنٹ نمبر 3:- خلافت عثمانیہ اور خلافت علی رضی اللہ تعالی عنہما کے دور میں طلاق ثلاثہ کا کیا حکم تھا.

یہ تین پوائنٹس ہیں جو میرے ذہن میں بار بار آتے ہیں.
شیخ محترم انکے جواب درکار ہیں.
جزاکم اللہ خیرا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
پوائنٹ نمبر 2: - کیا پوری خلافت عمر رضی اللہ تعالی عنہ میں یہی فیصلہ رہا یا اخری وقت میں تبدیل ہوا(کیوں کہ علامہ ابن القیم رحمة اللہ علیہ کی ایک کتاب اغاثہ اللفہان میں پڑھا تھا کی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس فیصلے پر افسوس زاہر کیا. اس روایت کے بارے میں بھی نہیں پتا صحیح ہے یا نہیں اسکی بھی تحقیق درکار ہیں. )
قال الحافظ أبو بكر الإسماعيلى فى مسند عمر: أخبرنا أبو يعلى: حدثنا صالح ابن مالك: حدثنا خالد بن يزيد بن أبى مالك عن أبيه قال: قال عمر بن الخطاب رضى الله عنه: ما ندمت على شىء ندامتى على ثلاث: أن لا أكون حرمت الطلاق، وعلى أن لا أكون أنكحت الموالى، وعلى أن لا أكون قتلت النوائح.
سیدناعمر بن خطاب سے یہ ندامت بسند صحیح ثابت نہیں ہے،کیوں کہ یزید بن ابی ملک کی سیدنا عمر سے ملاقات ثابت نہیں ہے، واللہ اعلم
 
Last edited:

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
پوائنٹ نمبر 1: - جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ فیصلہ کیا تب کتنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہما آپ کے ساتھ تھے-(مجھے بس اتنا جاننا ہے کہ سب صحابہ اس فیصلے پر تھے یا کسی کا اس پر اختلاف تھا کیونکہ میں نے پڑھا ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا اس پر اختلاف تھا اب پتا نہیں یہ بات کتنی صحیح ہے اس کی تحقیق درکار ہیں.)
سیدنا ابن عباس سے بسند صحیح یہ ثابت ہے کہ انھوں نے دونوں طرح فتوی دیا تین طلاق بھی اور ایک بھی جیسا مصنف عبد الرزاق میں ہے؛
عبد الرزاق. أخبرنا معمر عن أيوب قال: دخل الحكم بن عيينة على الزهرى بمكة وأنا معهم فسألوه عن البكر تطلق ثلاثاً؟ فقال: سئل عن ذلك ابن عباس وأبو هريرة، وعبد الله بن عمرو فكلهم قالوا: لا تحل له حتى تنكح زوجاً غيره، قال: فخرج الحكم وأنا معه فأتى طاوساً وهو فى المسجد فأكب عليه فسأله عن قول ابن عباس فيها، وأخبره بقول الزهرى، قال: فرأيت طاوساً رفع يديه تعجبا من ذلك وقال: والله ما كان ابن عباس يجعلها إلا واحدة.))
 
شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
جزاکم اللہ خیرا شیخ
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے دونوں طریقے ثابت ہیں. اس کا مطلب کہ وہ دونوں طریقے کو جائز سمجھتے تھے. (کیا میں صحیح سمجھ رہا ہوں ) پھر اس مسئلہ پر آج اتنا اختلاف کیوں؟؟؟
کیا دونوں میں سے کسی بھی طریقے پر عمل کیا جا سکتا ہیں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ!!!
میرا سوال طلاق ثلاثہ پر ہیں
- میرے کم علم اور ناکام تحقیق کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے خلافت کے پہلے دو سال تک طلاق ثلاثہ کا وہی معمول تھا جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا یانی ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار کی جاتی تھی۔
لیکن جب لوگوں نے اس میں جلد بازی شروع کر دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سیاسی فیصلے کی تحت تین طلاقوں کو تین نافذ کر دیا۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس مسئلہ پر میری ایک قدیم پوسٹ ملاحظہ کریں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم میں ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ "
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہيں کہ ''رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھیں ۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے اس کام میں جلدی کرنا شروع کردی، جس میں اُنہیں مہلت ملی تھی۔
تو اگر اس کو ہم نافذ کردیں (تو از راہ تعزیر مناسب ہے)۔ پھر اُنہوں نے اسے جاری کردیا۔

اس روایت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں :فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ ۔تو اگر اس کو ہم ان (عجلت کرنے والوں) پر نافذ کردیں ۔۔یعنی :: فلو أمضيناه عليهم لما فعلوا ذلك الاستعجال‘‘
ان الفاظ سے واضح ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سیاسی اور انتظامی نوعیت کا تھا ،نہ کہ شرعی حکم کا ناسخ ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تین طلاقوں کے تین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ تو بالکل خلافِ حقیقت ہے ،
لیکن اس کے برعکس تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے والے حضرات کا اپنے موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنا بالکل برمحل اور برحق ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی مذکور حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو یا تین سال تک تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ۔ مسلم شریف کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ 15ہجری تک صحابہ کرامؓ میں ایک صحابیؓ بھی ایسا نہ تھا جس نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہو، تمام صحابہ کرامؓ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق شمار کرتے تھے۔ اس لئے طلاقِ ثلاثہ کو ایک طلاق قراردینے والے اپنے اس موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں ۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''فنحن أحق بدعوی الإجماع منکم لأنه لایعرف في عھد الصدیق أحد ردّ ذلك ولا خالفه فإن کان إجماع فھومن جانبنا أظھر ممن یدعیه من نصف خلافة عمر وھلمّ جرا فإنه لم یزل الاختلاف فیھا قائما''
'' طلاق ثلاثہ کو ایک بنانے والے حضرات تین بنانے والوں سے بڑھ کر اجماع کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتے ہیں او ر ہمارے موقف پر اجماع کا پایا جانا زیادہ واضح ہے، جبکہ حضرت عمرؓ کے نصف دور میں تین طلاقوں کو تین قرار دینے سے لے کر اب تک اس مسئلہ مں اختلاف چلا آرہا ہے۔''(.إغاثة اللھفان:1؍289 )

رابعاً ... اجماع کا دعویٰ کرنے والوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ جب سے حضرت عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین قرار دینے کا حکم دیاہے، تب سے اس پر اتفاق ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس کی مخالفت جائز نہیں ہے۔جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ خود حضرت عمرؓ نے اپنے اس فیصلے کو ترک کردیاتھا اور ایک مجلس میں تین طلاق کے وقوع کا جو حکم انہوں نے جاری کیا تھا، اس سے رجوع فرما لیا اور اس پر ندامت کا اظہار کیاتھا، جیسا کہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ إغاثة اللھفان میں فرماتے ہیں :
''قال الحافظ أبوبکر الإسماعیلي في مسند عمر أخبرنا أبو یعلی حدثنا صالح بن مالك حدثنا خالد بن یزید بن أبي مالك عن أبیه قال قال عمر بن الخطاب: ما ندمت علی شيء ندامتي علی ثلاث أن لا أکون حرمت الطلاق وعلی أن لا أکون أنکحت الموالي وعلی أن لا أکون قتلت النوائح''(.إغاثة اللھفان: ج1؍ ص336 )
''حضرت عمرؓ نے فرمایا جو ندامت مجھے تین کاموں پر ہوئی ہے وہ کسی اور کام پر نہیں ہوئی: ایک یہ کہ میں تین طلاقوں کو طلاقِ تحریم نہ بناتا، دوسرا یہ کہ غلاموں کو نکاح کرنے کا حکم صادر نہ کرتا، اور تیسرا یہ کہ نوحہ کرنے والیوں کو قتل کرنے کا حکم نہ دیتا۔''

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جو تین طلاقوں کے تین ہونے کا حکم دیا تھا، وہ شرعی حکم نہ تھا بلکہ تعزیری اور وقتی آرڈیننس تھا، جو یکبار تین طلاقیں دینے والوں کے لئے سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔ جب دیکھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ لوگوں کا یکبارگی طلاقیں دینے کا فساد اوربڑھا ہے تو آپؓ نے اس ذاتی فیصلے سے رجوع فرما لیا، اور اس پر ندامت کا اظہار بھی کیا۔ تو دیکھئے جب حضرت عمرؓ ہی اپنے اس فیصلے پر ندامت کااظہار فرماچکے ہیں تو اب اسے بنیاد بنا کر اجماع کا دعویٰ کیسے کیاجاسکتا ہے؟ بعض لوگوں نے مسند ِعمرؓ کے اس اثر پر یہ اعتراض کیاہے کہ اس کی سند میں خالد بن یزید بن ابی مالک راوی ضعیف ہے، اس لئے یہ ناقابل اعتبار ہے۔

اگرچہ بعض علما نے اس راوی پر جرح کی ہے لیکن کبارائمہ مثلاً ولیدبن مسلم، عبداللہ بن مبارک، سلیمان بن عبدالرحمن، ہشام بن عمار، ہشام بن خالد، سوید بن سعید، ابوزرعہ اور ابن صالح وغیرہ نے اس راوی کو ثقہ اور قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اسے فقہاے شام میں شمار کیا ہے او ریہ بھی کہاہے کہ یہ صدوق في الروایة ہے۔ عجلی نے بھی اسے ثقہ کہا ہے۔ ( تهذیب التهذیب: ج3 ص126)

i. زیر نظر بحث اور مذکورہ حدیث کی تفصیل کے لیے دیکھئے: تطلیقاتِ ثلاثة از مولانا عبد الرحمن کیلانی
شائع شدہ ماہنامہ 'محدث' لاہور، بابت اپریل ١٩٩٢ء ... ص ٥٢ تا ٧٩
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس مسئلہ پر دیگر شقوں کے جواب کیلئے آپ انڈیا کے معروف محقق علامہ رئیس ندوی کی کتاب ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھیں ، لنک نیچے دیا گیا ہے ۔

تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اگرچہ بعض علما نے اس راوی پر جرح کی ہے لیکن کبارائمہ مثلاً ولیدبن مسلم، عبداللہ بن مبارک، سلیمان بن عبدالرحمن، ہشام بن عمار، ہشام بن خالد، سوید بن سعید، ابوزرعہ اور ابن صالح وغیرہ نے اس راوی کو ثقہ اور قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اسے فقہاے شام میں شمار کیا ہے او ریہ بھی کہاہے کہ یہ صدوق في الروایة ہے۔ عجلی نے بھی اسے ثقہ کہا ہے۔
میرے بھائی یہاں مسئلہ راوی کے ضعیف ہونے کا نہیں ہے،بلکہ یہاں تو سند میں انقطاع ہے،جو بندہ سیدنا عمر سے ان کی ندامت بیان کر رہا ہے اس کا ان سے سماع ہی ثابت نہیں ہے،اس اثر میں ایک برائی یہ ہے کہ سیدنا عمر نے نوحہ کرنے والی عورتوں کو قتل کرنے كا حکم صادر فرمایا تھا؟ جب کہ اس اثر میں اس بات کا ذکر موجود ہے کہ حضرت عمر نے نوحہ کرنے والی عورتوں کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا،جیسا کہ راوی بیان کرتا ہے:
وعلی أن لا أکون قتلت النوائح'' اور تیسرا یہ کہ نوحہ کرنے والیوں کو قتل کرنے کا حکم نہ دیتا۔''
اس لیے یہ اثر نا سند کے اعتبار سے درست ہے اور نہ متن کے لحاظ ٹھیک ہے،اس میں دو دو چیزیں ایسی موجود ہیں جو اس کے ضعیف ہونے کی طرف مشیر ہیں، واللہ اعلم!
 
Top