• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت مولانا امان اللہ مجاہد … ایک بلند پایہ خطیب

شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
تحریر: جناب مولانا عبدالحنان جانباز

پچھلے دنوں ہم اپنے عہد کے ایک اور قابل فخر عالم دین اور درویش طبع بلند پایہ خطیب حضرت مولانا امان اللہ مجاہد کے وجودِ مسعود سے محروم ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مولانا امان اللہ مجاہدؒ اپنے ایک مطبوعہ انٹر ویو (تذکرہ مساجد اہل حدیث سیالکوٹ شہر از عبدالحنان جانباز سن اشاعت 2010ء) میں فرماتے ہیں کہ میرے والد محترم کا نام فتح محمد ہے، میری تاریخ پیدائش 1959ء اور میرا آبائی علاقہ فیصل آباد ہے۔ پرائمری تک تعلیم اپنے ہی گائوں موضع ’’وڈیاں ناگاں‘‘ میں حاصل کی۔ اسی دوران میرے بڑے بھائی فیض اللہ منور (فاضل درسِ نظامی) مدرسہ دار القرآن والحدیث جناح کالونی فیصل آباد میں زیر تعلیم تھے۔ مجھے بھی شوق پیدا ہوا کہ میں بھی اپنے بھائی کے ساتھ مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کروں۔ چنانچہ والد صاحب نے مجھے بھی اسی مدرسہ میں داخل کروا دیا۔ اس وقت اس مدرسہ کے مہتمم وصدر مدرس جماعت اہل حدیث کے نامور عالم دین شیخ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ ویرووالویؒ تھے۔ اپنے خاندان میں میرے والد صاحب کے سوا کوئی بھی اہل حدیث نہ تھا، اس لیے ان کی شدید خواہش تھی کہ میرے بچے خالص قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کر کے عالم دین بنیں۔ حصولِ تعلیم کے لیے ان کے شوق کا یہ عالم تھا کہ وہ ہم دونوں بھائیوں کو روزانہ اپنی سائیکل پر مدرسہ چھوڑنے جاتے، جب کہ مدرسہ ہمارے گھر سے تقریباً آٹھ میل کی مسافت پر تھا۔

ابتدامیں شوق سے داخلہ تو لے لیا، مگر جلد ہی یہ شوق اُترنا شروع ہو گیا۔ اِدھر والد صاحب آٹھ میل کی مسافت طے کر کے ہمیں مدرسہ چھوڑ کر جاتے اُدھر ہم دونوں بھائی پیدل واپس گھر پہنچ جاتے۔ ایک عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ہم ضد کرتے کہ ہم نے نہیں پڑھنا، والد صاحب بضد رہے کہ میں نے یہی پڑھانا ہے۔ اس پر ہمیں سزا بھی ملتی اور کبھی گھر سے بھی نکال دیا جاتا۔ ہماری پھوپھیاں اکثر ہمارے والد صاحب سے کہتیں کہفتح محمد! ان بچوں کو نہ مارا کرو‘ ان کی قسمت میں پڑھنا نہیں ہے۔ والد صاحب فرماتے کوئی بات نہیں میں ان شاء اللہ ان کی قسمت میں کر کے چھوڑوں گا، بہر حال انھوں نے ہمیں پڑھا لیا۔ والد کے اولاد پر ویسے ہی بہت زیادہ احسانات ہوتے ہیں‘ میرا تعلیم مکمل کر لینا ان کے بہت سارے احسانوں میں سے سب سے بڑا احسان ہے۔ اب جب وہ وقت یاد آتا ہے تو سخت ندامت ہوتی ہے، اپنے خاندان سمیت پورے پاکستان میں جو عزت اللہ نے مجھے دی ہے وہ میرے والد کی محنت کا ثمرہ ہے۔

اسی مدرسہ دار القرآن والحدیث جناح کالونی سے درس نظامی کی سندفراغت حاصل کرنے کے بعد دورہ تخصص کے لیے جامعہ رحمانیہ لاہور چلا گیا۔ دورہ کے دوران ہی میرا داخلہ ’’جامعہ الملک سعود‘‘ ریاض کے شعبہ تدریب المعلمین میں ہوا۔ ریاض یونیورسٹی سے تکمیل نصاب کے بعد واپس آیا اور ایک سال تک جامعہ ابی بکر کراچی سے وابستہ رہا، بعد ازاں شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ کی خواہش پر جامع مسجد قدس اہل حدیث فیصل آباد میں خطابت کی ذمہ داری سنبھال لی۔ پہلا خطبہ جمعہ پہلے سے ہی تیار شدہ موضوع کے تحت پڑھایا جو بہت پسند کیا گیا۔ آئندہ خطبہ کی تیاری کے لیے سخت محنت کرنا پڑی، پہلے موضوع کا انتخاب پھر موضوع کی مناسبت سے قرآنِ پاک سے آیات کی تلاش پھر کتب احادیث سے اسی مناسبت سے احادیث کا انتخاب، تمام آیات وآحادیث کو خوب رٹے لگا لگا کر زبانی یاد کرنا، ایک سال تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، جس سے میرا اپنا اسلوب متعارف ہونا شروع ہو گیا، قدرتی طور پر میرا میلان کیسٹ کی طرف نہیں ہوا، جیسا کہ ہمارے اکثر عوامی خطیب ٹیپ ریکارڈ کی طرح چلتے ہیں۔ اسی ایک سال کی محنت سے اللہ تعالیٰ نے میری زبان رواں کر دی اور میں خطیب معروف ہو گیا۔ اپنی تقاریر میں قرآن سنانا میرا معمول بن گیا، سامعین یہی سمجھتے کہ میں حافظ قرآن ہوں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ تین سال مسجد قدس میں خطابت کے بعد تقریباً بارہ سال تک سمن آباد کی مسجد مبارک اہل حدیث فیصل آباد میں یہی خدمت سر انجام دی۔

سیالکوٹ آمد:

جامع مسجد محمدی اہل حدیث جناح پارک کے بانی ومتولی میاں نذیر احمد مرحوم جو سیالکوٹ شہر کے ایک معروف صنعت کار بھی تھے، علمائے اہل حدیث کے ساتھ ان کی محبت وعقیدت مندی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ علمائے کرام کو انواع واقسام کے کھانے کھلانا، ان کے تبلیغی پروگرام کروانا، ان کی خدمت کو اپنی زندگی کا اولین مقصد سمجھنا، میاں صاحب مرحوم کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ تعمیر مسجد کے بعد جب پہلی دفعہ مولانا حافظ عبداللہ نثار صاحب خطبہ جمعہ کی ادائیگی کے لیے منبر پر تشریف فرما ہونے لگے تو میاں صاحب مرحوم نے پہلے منبر کی سیڑھیوں کو اپنی قمیض کے پَلُو سے صاف کیا، پھر مولانا کو بٹھایا، مولانا حافظ عبداللہ نثار صاحب کے بعد میاں صاحب نے کئی علماء کو بلایا اور سنا، میرے متعلق ان کے انتہائی قریبی اور دیرینہ ساتھی حاجی محمد صدیق صراف مرحوم نے انھیں آگاہ کیا کہ امان اللہ مجاہد کو بھی سنیں، میرا اگرچہ سیالکوٹ آنے کا کوئی ارادہ نہ تھا، بس ایک ہی جمعہ پڑھایا اور یہی خطبہ میری سیالکوٹ آمد کا سبب بن گیا، اب گزشتہ پندرہ سال سے اسی خدمت پر معمور ہوں، الحمد اللہ۔

مولانا امان اللہ مجاہدؒ کی اس گفتگو کو آج پانچ سال گزر چکے ہیں، آج ایک بار پھر مجھے اپنی جماعت کے نامور عالم دین، مفسر قرآن، شیخ الحدیث حضرت مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی بات یاد آ رہی ہے کہ ہمارے مبلغین وواعظین شرک وبدعات کے خلاف برسرِ پیکار فوج کی صف اوّل کے مجاہد ہوتے ہیں، جو دشمنانِ توحید وسنت کا تن تنہا اپنی جان کی پروا کیے بغیر مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں۔ واعظین کی یہ خوبی دیگر خدام دین سے انھیں منفرد مقام عطا کرتی ہے۔
مولانا امان اللہ مجاہد اسم بامسمیٰ پنجابی زبان کے بلند پایہ خطیب، حق گوئی وبے باکی میں بے نظیر، ناموافق حالات کے باوجود تنگ نظر وتنگ ذہن مخالف سامعین کو قرآنی آیات وآحادیث کے استدلال سے مسخر کرنے والے، خطبہ جمعہ کی ادائیگی کے لیے فیصل آباد سے سیالکوٹ کا بلاتعطل 18سال سفر کرنے والے یقینا قابل فخر مجاہد تھے۔ دورانِ خدمت جامع مسجد محمدی اہل حدیث سیالکوٹ کشادہ اور وسیع ہونے کے باوجود تنگی داماں کا شکار وشکایت کناں رہی۔ پنجابی زبان کے خطیب ہونے کے باوجود مولانا کے خوشہ چینوں میں اعلیٰ سرکاری افسران وعہدہ داران سمیت زندگی کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین کی بھی کثیر تعداد جمع ہوتی تھی، اس میں شک نہیں کہ مولانا کثیر المطالعہ کتاب دوست انسان تھے۔

مسلک حقہ اہل حدیث کا یہ بے باک سپاہی جسمانی اعتبار سے درمیانہ قد، معتدل جسامت، کشادہ پیشانی، ہمیشہ مسکراتا خوش گوار چہرہ، گردن کی گُدی پر کھیلتے گھنے لمبے گھنگریالے بال، گلابی سرخی مائل رنگت، سرمہ سے بھرپور غزالی آنکھیں، خوش الہان وخوش لباس، کندھے پر سرخ عربی رومال، سر پے قراقُلی (جناح کیپ) ٹوپی، جس سے ملتے جب ملتے خوشی سے آنکھیں چمک اٹھتیں۔

بیماری نے دو دفعہ دِل پر جان لیوا حملہ کیا، مگر ڈاکٹروں کی احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہی فرماتے رہے کہ اللہ کے قرآن اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سناتے سناتے اگر جان بھی نکل جائے تو اس سے بڑی سعادت مندی کی موت کیا ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نیک وصالح بندے اسی موت کا بے تابی سے انتظار کرتے ہیں کہ کب رفیق اعلیٰ کا بلاوا آئے اور خالق حقیقی سے شرف ملاقات کی سعادت نصیب ہو۔

اب کی بار بیماری کی یہ کوشش اس وقت کامیاب ہوئی جب خالقِ حقیقی سے ملاقات کا وقت آ گیا۔ 11مارچ 2015ء کو مولانا امان اللہ مجاہدؒ اپنی زندگی کا مقصد پورا اور سفر مکمل کر کے اس دنیا فانی کو چھوڑ گئے۔

ادائیگی نمازِ جنازہ سے قبل جب شیخ الحدیث حضرت مولانا ارشاد الحق اثریd نے پیار سے ان کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا تو مولانا مجاہدؒ کا پر رونق چہرہ اس تاثر کا احساس دلا رہا تھا کہ زندگی کا مقصد پورا ہو گیا۔

لنک
http://www.ahlehadith.org/mazameen/maolana-aman-ullah-mujahid.html
 
Top