• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد عبداللہ  (شخصیت، علمی وجماعتی خدمات ، چند ایمان افروز واقعات اور سفر آ

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ءءیادِ رفتگاں
حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد عبداللہ 
(شخصیت، علمی وجماعتی خدمات ، چند ایمان افروز واقعات اور سفر آخرت )

نوٹ:کتاب وسنت ڈاٹ کام میں اس مضمون کو پڑھنے یا پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
عبدالشکور ظہیر​
شاہراہِ زندگی کی منازل طے کرنے کے بعد موت کے پل کو عبور کرکے دارِعقبیٰ میں قدم رکھنا ہر ذی روح کے لئے اللہ تعالیٰ کا مقررہ کردہ اٹل قانون ہے جس کے تحت لاکھوں انسان دارِفانی میں آنکھ کھولتے اور ہزاروں لوگ کچھ اس انداز سے رخت ِسفر باندھتے ہیں کہ کسی کوخبر تک نہیں ہوتی۔ مگر کچھ لوگ اپنے سیرت و کردار ، حسن اخلاق اور علمی کارناموں کی حسین یادیں کتابِ زمانہ کے اوراق میں بکھیر جاتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کبھی بھی محو نہیں ہوپاتیں۔ موت جتنی بڑی حقیقت ہے، اتنی ہی بری خبر بھی لیکن اس سے بڑھ کر یقین والی بات کوئی نہیں!!
اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ روزِ اول سے اب تک اور آج سے روزِ آخر تک اللہ تعالیٰ پیغام توحید، حضور اکرم ا کے متبرک اسوہٴ حسنہ، تعلیمات کی تبلیغ و ترویج او رانہیں ایک عہد سے دوسرے عہد تک منتقل کرنے کے لئے ایسی نابغہ روزگار شخصیات سے نوازتے رہے ہیں جن کی زندگی اعلیٰ و ارفع مقاصد، امربالمعروف اور نہی عن المنکرکی تبلیغ و اشاعت کے لئے وقف رہی ہے اور رہے گی۔ ان شخصیات نے اپنے اپنے وقت میں، حالات و واقعات کے مطابق، نہایت مشکل اور نامساعد حالات کے باوصف ، ناقدری ٴ زمانہ کے باوجود، حضور اکرم ا کے پیغامِ دلنشین کو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچانے میں جو بے نظیر خدمات سرانجام دی ہیں، وہ ہماری تاریخ کا قیمتی ورثہ ہے۔ انہی جیسی شخصیات میں سے ایک روشن ستارہ مولانا محمد عبداللہ ہیں، جو ۲۸/ اپریل ۲۰۰۱ء بروز ہفتہ ۸۱ برس کی عمر میں ہمیں داغِ مفارقت دے گئے(انا لله وانا اليه راجعون)… آئیے ان کے ایمان پرور روشن ابوابِ زندگی ملاحظہ کرتے ہیں
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
پیدائش ، نام و نسب
حضرت مولانا کی پیدائش ۱۸/ مارچ ۱۹۲۰ء بمطابق ۲۶/جمادی الثانی ۱۳۳۸ھ بروز جمعرات، سرگودھا سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور بھیرہ اور ملک وال کے تاریخی قصبات کے پاس تحصیل بھلوال کے نواحی گاؤں چک نمبر ۱۶ جنوبی میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی مولانا عبدالرحمن نے آپ کا نام محمد عبداللہ رکھا۔ بعدازاں آپ ’شیخ الحدیث‘ کے لقب کے ساتھ مشہور ہوئے۔ اکثر و بیشتر علماء و طلباء آپ کو شیخ الحدیث کے نام سے ہی یادکیا کرتے تھے۔
درمیانہ قد، اُٹھا ہوا ورزشی جسم، سعادت کے نور سے روشن کشادہ پیشانی، درمیانی سفید داڑھی، سفیدی مائل گندمی رنگ، چوڑا چہرہ، ذہانت کی لو سے چمکتی ہوئی خوبصورت آنکھیں، گندمی ہونٹ، باوقار اور وجیہ شخصیت، پروقار چال ڈھال کے مالک مولانا محمد عبداللہ مرحوم تھے۔ مولانا محترم ایامِ شباب میں پہلوانی کرتے رہے ہیں، ورزش ان کامعمول ہوا کرتا تھا، خوراک کی طرف خصوصی توجہ دیتے تھے، اسی وجہ سے وہ مضبوط اور گٹھے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ آخری ایام تک مضبوطی جسم کا یہی حال تھا۔ آپ حدیث نبوی: ”الموٴمن القوي خير من الموٴمن الضعيف“ کا مصداق تھے۔ بلند علمی مرتبہ کی وجہ سے عالمانہ شان اور وقار بھی رکھتے تھے۔
محترم مولانا عبدالرشید راشد، جامعہ لاہور الاسلامیہ کے استادِ گرامی بیان فرماتے ہیں :
”ہم چند ماہ قبل شیخ عبداللہ صالح العبید (ریاض،سعودیہ) کی معیت میں مولانامرحوم سے بغرضِ زیارت ملنے کے لئے گئے۔ مولانا سخت علالت کی وجہ سے زبان کو حرکت تو نہ دے سکتے تھے، البتہ ہوش و حواس قائم تھے، جب میرے سے مصافحہ کیا تو مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں صاحب ِفراش سے نہیں بلکہ کسی مضبوط شخصیت سے مصافحہ کر رہا ہوں۔ مصافحہ اتنا جاندار تھا کہ محسوس ہوتا تھا کہ کسی سے ہاتھ ملایا جارہا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جوانی میں پہلوانی کرتے رہے تھے۔“
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
تعلیم و تعلّم
مولانا موصوف نے ۱۹۳۳ء میں مقامی گورنمنٹ سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا، پھردینی تعلیم کی طرف رغبت کی وجہ سے ۱۹۳۴ء میں مدرسہ محمدیہ، چوک اہلحدیث، گوجرانوالہ میں داخلہ لیا۔ اسی مدرسہ سے دینی تعلیم عرصہ آٹھ سال میں مکمل کرکے ۱۹۴۱ء میں سند ِفراغت حاصل کی۔ دورانِ تعلیم سے ہی وہ خطابت میں دلچسپی رکھتے تھے اور گاہے بگاہے منبر خطابت پر اپنے جوہر دکھاتے رہتے تھے۔لیکن ۱۹۴۲ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد مستقلاً تدریس اور خطابت کا آغاز کیا۔ مدرسہٴ محمدیہ چوک اہلحدیث میں تدریس کا آغاز کیا تو اس وقت یہاں حضرت حافظ محمدگوندلوی بھی کرسی ٴتدریس پر متمکن تھے۔ دوسری طرف جامع مسجد دال بازار، گوجرانوالہ میں انہوں نے درسِ قرآن اور خطابت کا سلسلہ شروع کردیا جو حضرت مولانا اسماعیل سلفی  کی وفات (۱۹۶۸ء)تک جاری رہا۔ بعد ازاں گوجرانوالہ کی جماعت اہلحدیث نے انہیں مولانا اسماعیل سلفی کا جانشین مقرر کردیا ۔ آپ تقریباً دس سال تک مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر رہے۔ دال بازار کی جامع مسجد پر محکمہ اوقاف کے قبضہ کے بعد بوجوہ انہیں کوئٹہ جانا پڑا جہاں سے انہوں نے محکمہ اوقاف کی کوئٹہ اکیڈیمی سے فاضل کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں منشی فاضل اور مولوی فاضل کی سندات بھی حاصل کیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اساتذہ کرام
مدرسہٴ محمدیہ کے جن اساتذہ سے آپ نے اکتسابِ فیض کیا، ان میں سے سرفہرست اُستاذ الاساتذہ حضرت مولانا حافظ محمد گوندلوی ہیں۔ حضرت حافظ گوندلوی سے آپ نے مشکوٰة المصابیح، موطأ امام مالک، ہدایہ، شرح وقایہ، مسلم الثبوت، شرح جامی، اشارات، کافیہ اور صحیح بخاری پڑھیں۔
آپ کے دوسرے نامور استاد حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی ہیں جن سے آپ نے جامع ترمذی، سنن نسائی، ابوداود اور صحیح مسلم کے علاوہ مختصر المعانی اور مطوّل وغیرہ کا علم حاصل کیا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ایک گراں قدر قربانی
مولانا موصوف جب کوئٹہ سے تکمیل نصاب کے بعد واپس گوجرانوالہ تشریف لائے تو اپنے تدریسی ذوق کے چڑھاؤ کی وجہ سے دال بازار میں جامعہ شرعیہ مدینة العلم کے نام سے ایک دینی مدرسہ قائم کیا جوکچھ عرصہ کے بعد ایک پرشکوہ عمارت کا حامل اِدارہ بن گیا تھا۔ ۱۹۶۸ء کی بات ہے جب ان کے استادِ گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی دارِفانی سے کوچ فرماگئے تو احبابِ اہلحدیث کی طرف سے حضرت مولانا کو مولانا اسماعیل سلفی  کے منبر خطابت چوک نیائیں فروکش کیا گیا تو آپ نے اپنی مصروفیات اور احبابِ جماعت کی خواہش پر جامعہ شرعیہ مدینة العلم کو اپنی مادرِ علمی مدرسہ (جامعہ محمدیہ) میں ضم کردیا۔ چنانچہ جامعہ شرعیہ مدینة العلم کی پرشکوہ عظیم الشان عمارت پر جامعہ محمدیہ کا بورڈ آویزاں کردیا گیا۔ درحقیقت مولانا کا یہ گراں قدر ایثار و قربانی ہے جو انہوں نے اپنے مربی استاد اور اپنی عزیز مادرِ علمی کے لئے دی تھی۔ بنا بریں جامعہ محمدیہ کے فیض میں حضرت موصوف کا بصورتِ صدقہ جاریہ بہت بڑا ہاتھ ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
فنِ تدریس و خطابت
حضرت مولانا محمد عبداللہ جماعت اہلحدیث کی صف ِاول کے ایک نامور رہنما، کہنہ مشق مدرّس، ممتاز اور قدآور علمی شخصیت تھے۔ اللہ نے آپ کو ذہن رسا اور کمال استحضارِ علمی سے نوازا تھا، علمی دسترس کی وجہ سے آپ علمی مکالمہ میں خصوصی ملکہ رکھتے تھے۔ مولاناموصوف کو تدریس وخطابت کا فن اپنے اساتذہ خصوصاً مولانا اسماعیل سلفی سے ملا تھا۔ آپ نے عرصہ ۳۱ سال تک اپنے استادِ گرامی کے جاری کردہ درسِ قرآن اور خطبہ جمعہ کو بالاہتمام نبھایا۔ منفرد اور اعلیٰ تدریسی مہارت کے ساتھ ساتھ آپ ایک بلند پایہ خطیب بھی تھے۔ بیان کرنے کا انداز عام فہم، پرمغز، مدلل، موٴثر اور دلنشین ہوتا تھا۔
تفسیر میں آپ کوایسا ملکہ حاصل تھا جو کم ہی علما کے حصہ میں آیا ہے۔ بیان کرنے کا ایسا اسلوب رکھتے تھے کہ جو بھی سنے گویا خود کو ان حالات و واقعات سے گزرتا محسوس کرے۔ مولانا کے درسِ خطابت میں بڑی خوبی جو بیان کی جاتی ہے وہ یہ کہ موضوع کے متعلقہ پہلوؤں میں سے کسی پہلو کو تشنہ نہ چھوڑتے تھے۔ کئی اشکالات جو موقع بہ موقع جنم لیتے تھے، ساتھ ساتھ حل ہوتے جاتے۔ چنانچہ مولانا سے کسی نقطہ کی وضاحت یا اعتراض کا جواب لینے کی گنجائش باقی نہ رہتی تھی۔ ہر درس و خطاب میں ان کی عالمانہ شان موجود ہوا کرتی تھی۔بعض ایسے مسائل جن پر دیگرعلماے کرامکچھ بیان کرنے سے قاصر ہوتے، مولانا صاحب اپنے جواہر کی جولانی دکھاتے تو حلقہ درس میں ہر شخص ہمہ تن گوش ہوجاتا۔ شرعی احکام کی تفصیل، عذابِ قبر کا منظر، اور احوالِ قیامت کے تذکرہ میں دل کی تیز دھڑکنوں کے ساتھ ہر آنکھ آشکبار ہوجاتی۔ کسی بھی واقعہ کا منظر، پس منظر، پیش منظر اور تہہ منظر کچھ اس انداز اور ترتیب سے پیش فرماتے کہ پورے واقعہ کا نقشہ اَثرات سمیت دل میں پیوست ہوجاتا۔ اور سامع اپنے دل کی کیفیت باوجود کوشش کے چھپانہیں سکتا تھا۔ آپ کے محترم حافظ عبدالقدوس صاحب (گوجرانوالہ) کے بقول :
”ہم جامعہ محمدیہ نیائیں چوک میں حفظ ِقرآن کرتے تھے کہ دیکھتے ہیں کہ ایک بزرگانہ وضع قطع کا جواں سال رات کے آخری حصہ میں بیدار ہو کرغسل کرتا ہے، پھرنمازِ تہجد کے لئے اللہ کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے ہو کر مناجات ہوتی ہے، راز و نیاز کی نہ جانے کیا کیا باتیں ہوتی ہیں۔ تہجد سے فراغت کے بعد وہ مطالعہ میں مصروف ہوجاتا ہے، اتنے میں نمازِ فجر کا وقت ہوجاتاہے، نماز فجر کے بعد وہ درس دینے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں تو راز منکشف ہوتا کہ یہ حضرت مولانا محمد عبداللہ ہیں۔ پھر درس کیا ہوتا، ایک جادو ہوتا تھا۔جس موضوع پر گفتگو کرتے جاتے، ہر ہر بات سامع کے دل میں اُترتی چلی جاتی۔ بات کرنے کا ڈھنگ اور سمجھانے کے ڈھب سے خوب واقف تھے۔ ہر روز ایک نئے موضوع پر درس ہوتا۔ ایسے ایسے موضوعات چھیڑتے پھر ان پر سیر حاصل بحث کرتے کہ دوبارہ، سہ بارہ سننے کو جی چاہتا مگر ایک لمباعرصہ ان کے زیر سایہ گزارنے کے باوجود آج تک انہوں نے دوبارہ کسی سابقہ موضوع کونہ چھیڑا۔مولانا کی قوتِ بیانیہ اس قدر ٹھوس اور عام فہم ہوتی کہ اردو زبان میں فصیح وبلیغ تقریر کرنے کے مدعی حضرات کی تقریرمیں وہ کیف اور لطف نہ ملتا جو مولانا کے خطاب سے حاصل ہوتا تھا۔“
مولانا کا خطبہ جمعہ بھی مولانا اسماعیل سلفی  کی طرح عوامی انداز میں بہترین خطبہ ہوا کرتا تھا، جس میں ملک میں پیش آمدہ مسائل، ان کا تجزیہ پھر ان کا حل کتاب و سنت کی روشنی میں اس قدر تفصیل سے دیا جاتا کہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جاتا۔ بدعات اور کفر و شرک کے خلاف جہاد مولانا کے خطبات کی اصل روح ہوتے تھے۔ اگرچہ تقریر کی طرف میلان کم تھا مگر وہ خطبہ سے ہی تقریر کا کام نکال لیا کرتے تھے، ویسے بھی تدریسی مشاغل اور تعلیمی و خطابتی ذمہ داریاں اس قدر حاوی رہیں کہ جلسوں میں تقریریں کرنے کے مواقع بہت کم میسر آئے۔ پھربھی جب کبھی کانگریس کی مخالفت کا وقت آیا یا مسلم لیگ کی حمایت کی ضرورت پیش آئی تو آپ نے اپنے خطباتِ جلیلہ سے پاکستان کی خوب حمایت کی اور کانگرس کے نظریات پر سخت چوٹیں لگائیں، حتیٰ کہ آپ نے ان حضرات کا اپنے خطبات سے خوب محاکمہ کیا جو سیاست کو مذہب سے الگ چیز گردانتے تھے۔ درحقیقت آپ دین وسیاست کی تفریق اور دو رنگی کے قائل نہیں تھے۔ آپ کا نظریہ مذہب و سیاست کے متعلق یہ تھا کہ مذہب اور سیاست ایک ہی جسم کے دو اعضاء یا ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں۔ ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا گویا ایک جسم کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔
مزید آپ نے تدریس و خطابات کے ساتھ ساتھ اِفتاء کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ باوجود علومِ شرعیہ پر عبور کے آپ نے مستقلاً مسند ِافتا تو نہیں جمائی مگر گاہے بگاہے اور بوقت ِضرورت کافی حد تک فتویٰ نویسی کا کام سرانجام دیتے رہے۔ ان کے فتاویٰ کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے۔ یہ فتاویٰ الگ مقام پر اکٹھے کرکے شائع کرنے کی ضرورت ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
گوجرانوالہ شہر کی خوش قسمتی
تاریخی، ملی اور دینی اعتبار سے وزیرآباد اور گوجرانوالہ کو ایک اہمیت حاصل رہی ہے، چنانچہ جب حضرت مولانا استاذ الاساتذہ حافظ محمد محدثگوندلوی ، حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی اور حضرت مولانا ابوالبرکات کی وفات کا عظیم سانحہ در سانحہ پیش آیا تو ان جلیل القدر بزرگان کا سایہ اٹھ جانے کے غم کے ساتھ ساتھ احبابِ جماعت کوایک فکر یہ بھی دامن گیر تھی کہ ان متذکرہ بالا شخصیات کے حلقہ کے حضرات کاکسی اور کی خطابت و اِمامت پر اس قدر جلد مطمئن ہونا کیونکر ممکن ہوسکے گا۔ مگر اللہ جل شانہ نے اس مشکل کو مولانا محمد عبداللہ کی صورت میں ایک جلیل عالم باعمل دے کر آسان فرما دیا۔ بظاہر یہ ایسا خلا تھا جو جلد پُر ہونے والا نظر نہ آتا تھا۔ مگر حضرت مولانا مرحوم جب جانشین بنے تو سلفی بزرگان کا لگایاہوا گلشن پہلے کی طرح ہی رونق دینے لگا۔اللہ تعالیٰ نے خلا کو پُر کرنے کے لئے ایسی شخصیت کا انتخاب کیا جو اس منصب کے لائق اور موزوں ترین شخصیت تھی او رہر شخص ان کے علم کا دل سے معترف بھی تھا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
عادات و خصائل
مولانا مرحوم زہد و تقویٰ، تہجد گزاری، دیانتدارانہ اور کریمانہ اخلا ق واوصاف کے حامل تھے۔ آپ کی شخصیت میں درج ذیل صفات نمایاں تھیں :
(۱) دیانت و امانت: آپ کی دیانتداری او رامانت داری مسلم تھی۔ لاکھوں روپے پر مشتمل بھاری رقوم کامکمل حساب کتاب رکھا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے جامعہ محمدیہ کاگوشوارہ آمدوخرچ باقاعدہ ہر سال شائع کیا جاتاہے کہ کسی کے ذہن میں غلط خیال جنم نہ لینے پائے۔ رسیدوں کو فائلوں میں محفوظ رکھنا، باقاعدہ چیک کرنا، اخراجات پر کڑی نگاہ رکھنا، مشکوک رسید کی بغیر تحقیق کے منظوری نہ دینا، قوم کے صدقات کو ضرورت سے زیادہ یا بلا ضرورت خرچ کرنا، آمدن کو خفیہ رکھنا یا سالانہ حساب و کتاب سے لوگوں کو آگاہ نہ کرنا، مولانا کے نزدیک سخت معیوب تھا ۔اولاً تو مولانا کسی ہاتھ سے کوئی رقم لیتے ہی نہ تھے، بلکہ انجمن کے سفیر کے ذریعہ سے ہی حاصل کرتے، اگر لے بھی لیتے تو بلاتاخیر رسید کاٹ کر واپس فرماتے، یہی وجہ ہے کہ مولانا پر آج تک کسی بڑے سے بڑے مخالف کو یہ جرأت نہیں ہوسکی کہ وہ مولانا مرحوم کی دیانت و امانت پرانگشت نمائی کرسکے۔
(۲) قناعت پسندی: مولانا کی ایک بڑی خوبی ان کی قناعت پسندی ہے۔جماعت نے جو بھی مشاہرہ ان کے لئے مقرر کیا، اسی پر اکتفا کیا۔ حالات کے مدوجزر کے باوجود کسی سے دست سوال دراز نہیں کیا۔ خطباتِ جمعہ یا دیگر خطبات میں باوجود اصرار کے مولانا نے کبھی معاوضہ نہیں لیا۔ موقع بموقع پیسے لینے کی عادت قناعت پسندی کے خلاف تو ہے ہی، مزید اس سے علما کا وقار اور خوداری متاثر ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علما کے احترام میں وہ حقیقی جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے جو ہر دور میں ائمہ اسلاف کی علامت رہاہے۔ قناعت پسندی اور عزتِ نفس کی بقا اسی پر منحصر ہے کہ علما قناعت پسندی اختیار کریں، کسی کے سامنے دست ِسوال دراز نہ کریں۔
(۳)تحقیق: آپ کی یہ صفت بھی نمایاں تھی کہ آپ ہرمعاملہ میں چاہے شرعی ہو یا غیر شرعی، تحقیق کے بغیر کوئی رائے یا نظریہ قائم نہ کرتے تھے۔ یقینا تحقیق کے بغیر انسان کی عقل اپاہج اور علم اُدھورا نظر آتا ہے۔ جس شخص میں تحقیق کا مادّہ نہ ہو، وہ نہ تو خود علم سے صحیح فائدہ اٹھا سکتا ہے نہ دوسروں کی درست طور پر رہنمائی کرسکتا ہے۔ صحیح فیصلہ کے لئے تحقیق کے راستہ سے گزرنا ضروری ہوتا ہے، اس سے ذہن کو جلا اور دل کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ تحقیقی رجحان کا یہ حال تھا کہ عام لڑائی جھگڑے کے فیصلے میں بھی معاملات کی پوری چھان بین کیا کرتے۔فریقین کے درمیان تنازعہ شدت پکڑ کران کے سامنے آتا تو دونوں فریقوں کی گفتگو سنے بغیر کبھی فیصلہ صادر نہ کرتے تھے۔
(۴) قول کے ساتھ عمل بھی: حضرت مولانا مرحوم ان بزرگوں میں سے تھے جو بات کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے یعنی قرآن و سنت کا عملی نمونہ تھے۔ ایسا آج تک دیکھنے میں نہیں آیا کہ ان کانقطہ نظر تو کوئی اور ہو لیکن عمل اس کے خلاف۔
(۵) جامعہ محمدیہ کی دیکھ بھال اورپیدل سفر کرنا: یہ علالت سے پہلے اس دور کی بات ہے جب شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ صاحب جامعہ محمدیہ کے مہتمم ہوا کرتے تھے۔ تب اکثر مولانا جامعہ محمدیہ،نیائیں چوک سے جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ تک پیدل آتے تھے۔ ان کا درمیانی فاصلہ تقریباً ۵ کلومیٹر ہے۔ پھر جامعہ میں آکر جامعہ کے متعلقہ ہر چیز کی دیکھ بھال خود کرنے کی کوشش میں رہتے، وسیع وعریض جامعہ کے اشجار، درودیوار کے متعلق پوری معلومات رکھتے تھے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
چند روح پرور روشن واقعات
(۱) مولانامودودیسے مکالمہ: تشکیل پاکستان کے بعد جماعت اسلامی کا پہلا اجتماع گوالمنڈی، ریلوے روڈ لاہور پرواقع ’تسنیم‘ کے دفتر میں ہوا تھا۔ مختلف اضلاع سے آنے والے وفود کے لئے مولانا مودودی سے ملاقات کاالگ الگ وقت متعین تھا تاکہ ہر ضلع سے آنے والے احباب کے ساتھ تبادلہ خیالات ہوسکیں۔ گوجرانوالہ سے آئے ہوئے وفد میں حضرت مولانا محمد عبداللہ مرحوم بھی شامل تھے۔ نمازِ عشا کے بعد جب ملاقات کا وقت آیا تو گوجرانوالہ کے احباب مولانا کی معیت میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی خدمت میں حاضر ہوئے، کچھ دیر تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ آخر میں مولانا مودودی نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص استفسار کرنا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے۔ دیگر بہت سے قومی نوعیت کے سوالات کے دوران مولانا عبداللہ مرحوم نے ایک سوال یہ بھی کیا کہ آپ قرآن و سنت کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں، آپ کانصب العین ملک میں اسلامی نفاذ ہے اور اسلام قرآن و سنت کا نام ہے اور حدیث میں صحیحین کا مقام سب کے نزدیک مسلم ہے۔ جبکہ رفع الیدین فی الصلوٰة کی احادیث صحیحین میں آتی ہیں اورآپ ان پر عمل نہیں کرتے۔ احادیث صحیحین کے ساتھ یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔ اس پر مولانا مودودی نے یہ جواب دیا
”رفع الیدین سے لوگ متوحش ہوتے اور بدک جاتے ہیں، اس لئے میں عام جگہوں پر جب نماز پڑھتا ہوں تو رفع الیدین نہیں کرتا لیکن جب گھر میں تہجد کی نماز پڑھتا ہوں تو رفع الیدین کرلیتا ہوں۔“ (تذکرہ علمائے اہلحدیث پاکستان : ص۳۸۴)
(۲) مولانا امین احسن اصلاحی سے ایک مکالمہ: ۱۹۴۴ء کی بات ہے کہ تحصیل پٹھان کوٹ ضلع گورداسپور کے ریلوے اسٹیشن ’سرانہ‘ میں جماعت اسلامی کا سالانہ اجلاس تھا۔ مولانا عبداللہ مرحوم بھی تین چار افراد سمیت سرانہ پہنچ گئے۔ اجلاس میں شامل ہو کر باقاعدہ کارروائی سنتے رہے، وقفہ میں چہل قدمی کے لئے نکل جاتے۔ ایک مرتبہ بعد از نمازِ عصر مولانا باہر سے تشریف لائے تو دیکھا چارپائی پر مولانا امین احسن اصلاحی تشریف فرما ہیں اور قریب کی چارپائیوں پربیٹھے افراد سے یہ تذکرہ فرما رہے تھے کہ خبرواحد حجت نہیں ہے۔ مولانا عبداللہ مرحوم جب وہاں پہنچے تو اصلاحی صاحب فرما رہے تھے، میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں مدلل انداز سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ خبرواحد حجت نہیں اور اس کتاب کا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ تو مولانا عبداللہ مرحوم نے فرمایا: اصلاحی صاحب! آپ یہ بتائیے کہ خبر واحد حجت کیوں نہیں ہے؟ اصلاحی صاحب متوجہ ہوئے اور پوچھا :آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے؟ مولانا نے فرمایا: ہمارا نظریہ ہے کہ خبر واحد حجت ہے۔ پوچھا: اس پر کوئی دلیل؟ مولانا نے کہا کہ صحیح بخاری میں حدیث ہے
”حضرت عمر کے دورِ خلافت میں علاقہ شام میں جنگ ہورہی تھی ۔ابوعبیدہ بن جراح کی قیادت میں مسلمان فوجیں پیش قدمی کر رہی تھیں۔ اطلاع ملی کہ آگے طاعون ہے ، لشکر رُک گیااور پڑاؤ ڈال دیا گیا۔ حضرت عمر کو بلایا گیا۔ حضرت عمر وہاں پہنچے، مہاجرین کوجمع کرکے پوچھا کہ کس کومعلوم ہے نبی ا کا طاعون کے متعلق کوئی ارشاد؟ جواب نفی میں ملا، پھر انصارکوجمع کرکے ایسے ہی پوچھا، جواب نفی میں ملا۔ لشکر کو رات آرام کرنے کے لئے کہا گیا، صبح ہونے پر پھر سبھی انصار و مہاجرین کو پوچھا گیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف نے پوچھا کہ خلیفہ کیا با ت ہے؟ بات بتائی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ا کا ارشاد مجھے معلوم ہے کہ طاعون کی وبا کے مقام پر نہ کسی کو جانا چاہئے اور نہ وہاں سے کسی کو نکلنا چاہئے۔ چنانچہ لشکر کو حکم مل گیا کہ اس سے آگے نہیں بڑھنا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف تمام صحابہ سے تنہا تھے، لہٰذا خبر واحد حجت ہوئی۔ حضرت عمر نے اسے تسلیم کیا ہے، سب صحابہ کرام نے اسے تسلیم کیا ہے، تو آپ کس طرح انکار کرسکتے ہیں؟ ۔“
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اصلاحی صاحب فرمانے لگے کہ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ عمومِ بلویٰ کی صورت میں اگر کوئی مسئلہ ہو اور ایک ہی راوی بیان کرے، تو تب خبر واحد حجت نہیں ہے۔ مولانا عبداللہ صاحب نے فرمایا: اس پر بھی دلیل موجود ہے۔ اصلاحی صاحب نے پوچھا، بتاؤ کیا حدیث ہے؟ تو مولانا موصوف نے فرمایا:
”حضرت عمر کے زمانہ میں کچھ لوگ ایک عورت کو پکڑ لائے کہ اس کا نہ نکاح ہوا ہے اور نہ شوہر موجود ہے لیکن یہ حاملہ ہے؟ آپ نے رجم کا حکم دے دیا۔ راستہ میں حضرت علی ملے، قصہ کاعلم ہوا تو کہا: اس عورت کو واپس لے چلو، حضرت عمر کے پاس پہنچے اور فرمایا: امیرالموٴمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ آنحضرت اکے زمانہ میں ایک حاملہ عورت آئی تھی، اس نے گناہ کا اعتراف کیا اور اپنے رجم کئے جانے کا مطالبہ بھی کیا تو آپ نے فرمایا کہ تیرے پیٹ میں بچہ ہے۔ وضع حمل کے بعد آنا، جب عورت وضع حمل کے بعد آئی تو فرمایا: ابھی بچہ کودوسال دودھ پلاؤ۔ دو سال دودھ پلانے کے بعد عورت آئی اور مدتِ رضاعت ختم ہونے کی خبر دی تو فرمایا کہ اب اس عورت کورجم کردو۔ چنانچہ رجم کردیا گیا۔“
اس عورت کو رجم کرنے والے بے شمار لوگ تھے اور یہ واقعہ اہل مدینہ کے سامنے رونما ہوا۔ جبکہ بیان کرنے والے صرف حضرت علی اکیلے ہیں اور یہ خبر واحد ہے۔عمومِ بلویٰ کی صورت میں حضرت عمر نے حضرت علی کی شہادت قبول فرمائی۔ اس پر مولانا اصلاحی فرمانے لگے: اصل بات یہ کہ حضرت علی کا مقام بہت بلند تھا۔ مولانا عبداللہ مرحوم نے جواب دیا کہ ہم بھی اس شخص کی خبر واحد کو حجت مانتے ہیں جو ثقہ اور معتبر ہو، غیر ثقہ روایت کو تو ہم بھی نہیں مانتے۔ اس کے بعد مولانا اصلاحی صاحب خاموش ہوگئے او رکچھ نہ بولے۔ (تذکرہ علمائے اہلحدیث پاکستان: ص ۳۸۱)
 
Top