عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
(۳) جامعہ اشرفیہ لاہور کا واقعہ: ایک تیسرا واقعہ نہایت اہم ہے وہ یہ کہ مولانا چند رفقا کے ساتھ لاہور جامعہ اشرفیہ دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچ کر پہلے جامعہ کے کمرے دیکھے، پھر مینار چڑھے، مینار بہت شاندار او رکمرے بڑے خوبصورت پائے، جب مسجد سے باہرنکلنے لگے تو حوض سے متصل ایک کتبہ پر نظر پڑی، جس پرنمایاں حروف میں شیخ الفقہ لکھا ہوا تھا۔ جب مولانا وہاں سے گزرنے لگے تو ایک کلاس فارغ ہو کر کمرہ سے نکل رہی تھی اور دوسری کلاس ا س کی جگہ لے رہی تھی، دیکھا تو کلا س میں ایک بز رگ بیٹھے ہیں جوطلبا کو پڑھاتے تھے۔ مولانا کے دل میں خیال گزرا کہ چند ساعتیں شیخ الفقہ کے حلقہ سبق میں بیٹھ کر ہم بھی مستفید ہولیں، رفقا کو ساتھ لیا او ربیٹھ گئے۔ ایک طالب علم نے ’کنز‘ نامی کتاب کھول کر باب الرضاعة نکالا اور عبارت پڑھی۔ اب شیخ الفقہ نے تقریر شروع کی اورکہا مدتِ رضاعت میں اختلاف ہے، مدتِ رضاعت کا مطلب ہے کہ کتنی مدت ماں اپنے بچہ کو دودھ پلا سکتی ہے اور اس مدت میں جو بچہ اس عورت کا دودھ پی لے وہ اس کا رضاعی بیٹا یا بیٹی بنتے ہیں۔
شیخ الفقہ نے فرمایا: امام شافعی فرماتے ہیں ، دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے اور امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں، اڑھائی سال ہے۔ اس پر مولانا نے اعتراض کیا کہ شیخ صاحب ان دو جلیل القدرائمہ میں یہ اختلاف کیوں ہے؟ کیا یہ مسئلہ قرآن میں نہیں ہے کہ دونوں اِمام متفق ہوجاتے اور اختلاف سے بچ جاتے۔ یہ سوال سن کر شیخ چونک اٹھے۔ اورپوچھنے لگے: تمہارا گھر کہاں ہے؟ مولانا موصوف فرمانے لگے: ضلع سرگودھا کا رہنے والا ہوں۔ شیخ نے پھر پوچھا: یہاں کیا لینے آئے ہو؟ عرض کیا یہاں ماڈل ٹاؤن میں کسی عزیز کے ہاں تعزیت کے لئے آئے تھے۔ آج واپسی کی اجازت نہ ملی تو سوچا جامعہ اشرفیہ ہی دیکھ لیں۔ یہاں پہنچے تو آپ کا کتبہ دیکھا، کلاس دیکھی، سوچا آپ سے مستفید ہولیں۔ پھر شیخ الفقہ نے سوال کیا: آپ کا مسلک کیا ہے؟ فرمایا ہم مسلمان ہیں۔ اس پر اعتراض ہوا: مسلمان تو سب ہیں، کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہو؟ مولانا نے جواباً فرمایا ہم کسی فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ نہ فرقہ پرستی کو اچھا سمجھتے ہیں ہم اول و آخر مسلمان ہیں او راسلام ہی سے ہمیں واسطہ ہے۔اس پر شیخ الفقہ نے فرمایا: بات یہ ہے کہ ائمہ کی نظر ہماری طرح سطحی نہیں ہوتی بلکہ ان کی نظر بڑی دقیق اور نکتہ رس ہوتی ہے۔ اور جہاں ائمہ کی نظر پہنچتی ہے وہاں تک ہماری نظر کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔
مولانانے فرمایا: لیکن ایک امام کی نظر دو سال تک اور دوسرے کی اڑھائی سال تک کیوں پہنچتی ہے، کیا قرآن میں یہ مسئلہ مذکور نہیں ہے؟ شیخ الفقہ نے فرمایا ، قرآن و حدیث میں اڑھائی سال کا اشارہ پایا جاتا ہے، مولانانے فرمایا: وہ اشارہ مجھے بھی دکھائیے قرآن میں تو دو سال کا حکم موجود ہے اوریہ آیت پڑھی
قصہ مختصر اس کے بعد خوب بحث چلی، دلائل کے لئے کتابیں منگوا لی گئیں، اتنے میں شیخ صاحب کے تلامذہ میں سے دو تین پٹھان بول اٹھے۔ ارے بڈھے! تو یہاں سے جاتا ہے یا نہیں؟ مولانا مرحوم اشارہ سمجھ گئے اور جواباً فرمایا: اگر آپ لوگوں نے مارپیٹ کر مسئلہ سمجھانا ہے تو پھر میں خود ہی چلا جاتا ہوں۔ آپ اٹھے، جوتا پہنا اور چل دیئے۔ اتنے میں دوسری کلاس کے کسی طالب علم نے جو حضرت عبداللہ مرحوم کو جانتے تھے کہا کہ یہ مولانا عبداللہ صاحب ہیں اور گوجرانوالہ میں جامع مسجد اہلحدیث کے خطیب ہیں۔ تب انہیں خیال آیا کہ کوئی اچھا کام نہیں ہوا اور لڑکے بھیجے کہ ایک مرتبہ دوبارہ تشریف لائیں ہم اپنے رویہ پر معذرت خواہ ہیں ۔ مولانا نے معذرت قبول فرمائی اور فرمایا کہ بدنامی اور رسوائی کاڈر ہو تو پہلے ہی سوچ سمجھ کرکام کرنا چاہئے۔ (تذکرہ علمائے اہلحدیث پاکستان: ص ۳۷۷)
شیخ الفقہ نے فرمایا: امام شافعی فرماتے ہیں ، دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے اور امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں، اڑھائی سال ہے۔ اس پر مولانا نے اعتراض کیا کہ شیخ صاحب ان دو جلیل القدرائمہ میں یہ اختلاف کیوں ہے؟ کیا یہ مسئلہ قرآن میں نہیں ہے کہ دونوں اِمام متفق ہوجاتے اور اختلاف سے بچ جاتے۔ یہ سوال سن کر شیخ چونک اٹھے۔ اورپوچھنے لگے: تمہارا گھر کہاں ہے؟ مولانا موصوف فرمانے لگے: ضلع سرگودھا کا رہنے والا ہوں۔ شیخ نے پھر پوچھا: یہاں کیا لینے آئے ہو؟ عرض کیا یہاں ماڈل ٹاؤن میں کسی عزیز کے ہاں تعزیت کے لئے آئے تھے۔ آج واپسی کی اجازت نہ ملی تو سوچا جامعہ اشرفیہ ہی دیکھ لیں۔ یہاں پہنچے تو آپ کا کتبہ دیکھا، کلاس دیکھی، سوچا آپ سے مستفید ہولیں۔ پھر شیخ الفقہ نے سوال کیا: آپ کا مسلک کیا ہے؟ فرمایا ہم مسلمان ہیں۔ اس پر اعتراض ہوا: مسلمان تو سب ہیں، کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہو؟ مولانا نے جواباً فرمایا ہم کسی فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ نہ فرقہ پرستی کو اچھا سمجھتے ہیں ہم اول و آخر مسلمان ہیں او راسلام ہی سے ہمیں واسطہ ہے۔اس پر شیخ الفقہ نے فرمایا: بات یہ ہے کہ ائمہ کی نظر ہماری طرح سطحی نہیں ہوتی بلکہ ان کی نظر بڑی دقیق اور نکتہ رس ہوتی ہے۔ اور جہاں ائمہ کی نظر پہنچتی ہے وہاں تک ہماری نظر کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔
مولانانے فرمایا: لیکن ایک امام کی نظر دو سال تک اور دوسرے کی اڑھائی سال تک کیوں پہنچتی ہے، کیا قرآن میں یہ مسئلہ مذکور نہیں ہے؟ شیخ الفقہ نے فرمایا ، قرآن و حدیث میں اڑھائی سال کا اشارہ پایا جاتا ہے، مولانانے فرمایا: وہ اشارہ مجھے بھی دکھائیے قرآن میں تو دو سال کا حکم موجود ہے اوریہ آیت پڑھی
تو ’حولین کاملین‘ میں اڑھائی سال کا اشارہ کہاں؟ اس پر شیخ الفقہ نے فرمایا بعض احکام کا تعلق آنحضرت ا کے زمانہ کے ساتھ خاص ہے، آج ان پرعمل نہیں ہوسکتا۔﴿وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ کَامِلَيْنِ﴾ ”مائیں اپنے بچوں کو دو سال تک دودھ پلائیں“
قصہ مختصر اس کے بعد خوب بحث چلی، دلائل کے لئے کتابیں منگوا لی گئیں، اتنے میں شیخ صاحب کے تلامذہ میں سے دو تین پٹھان بول اٹھے۔ ارے بڈھے! تو یہاں سے جاتا ہے یا نہیں؟ مولانا مرحوم اشارہ سمجھ گئے اور جواباً فرمایا: اگر آپ لوگوں نے مارپیٹ کر مسئلہ سمجھانا ہے تو پھر میں خود ہی چلا جاتا ہوں۔ آپ اٹھے، جوتا پہنا اور چل دیئے۔ اتنے میں دوسری کلاس کے کسی طالب علم نے جو حضرت عبداللہ مرحوم کو جانتے تھے کہا کہ یہ مولانا عبداللہ صاحب ہیں اور گوجرانوالہ میں جامع مسجد اہلحدیث کے خطیب ہیں۔ تب انہیں خیال آیا کہ کوئی اچھا کام نہیں ہوا اور لڑکے بھیجے کہ ایک مرتبہ دوبارہ تشریف لائیں ہم اپنے رویہ پر معذرت خواہ ہیں ۔ مولانا نے معذرت قبول فرمائی اور فرمایا کہ بدنامی اور رسوائی کاڈر ہو تو پہلے ہی سوچ سمجھ کرکام کرنا چاہئے۔ (تذکرہ علمائے اہلحدیث پاکستان: ص ۳۷۷)