محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
حضورﷺ عالم الغیب اور حاضر و ناظر کی صفت نہ رکھتے تھے
(1)60سال تا آنحضورﷺ کو اپنی نجات آخرت کا علم نہیں تھا (رسالہ ''وماادری'' ص 6 مصدقہ مولوی ابو الحسنات و ابوالبرکات بریلوی )
(2)حضرت جبرائیل کل کسی وقت حاضری کا وعدہ کر کے چلے گئے ، دوسرے دن انتظار رہا مگر وعدہ میں دیر ہوئی اور حضرت جبرائیل حاضر نہ ہوئے سرکار دوعالم ﷺ باہر تشریف لائے ملاحظہ فرمایا کہ جبرائیل در ِ دولت پر حاضر ہیں ، فرمایا کیوں ؟ عرض کیا ''انا لا یدخل بیتاً فیه كلب او تصاوير ''رحمت کے فرشتے اس گھر میں نہیں آتے جس میں کتا یا تصویر ہو ، آپﷺ اندر تشریف لائے ، سب طرف تلاش کیا کچھ نہ تھا ، پلنگ کے نیچے ایک کتے کا پلا نکلا، اسے نکالا تو ( جبرائیل ) حاضر ہوئے۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت : ص 76، ج3)
(اس حدیث پاک میں چندباتیں قابل غور ہیں کہ نبی ﷺ کو یہ علم نہ تھا کہ جبرائیل گھر میں کیوں نہیں داخل ہو رہے ؟ پھر آپ ﷺ کویہ علم بھی نہ ہو سکا کہ گھر میں کتے کا پلاہے اور کہاں ہے ؟ اور اگر آپ ﷺ ہر جگہ موجود ہوتے تو گھر جگہ حاضر وناظر کی صفت رکھتے ہیں تو حضرت جبرائیل گھر سے باہر ایک دن تک نظرآئے اور پلنگ کے نیچے حاضر ناظر ہونے کے باوجود آ پ کو کتے کا پلا کیوں نظر نہ آیا ؟ اگر آپ ﷺ حاضر وناظر اور عالم الغیب کی صفت کےمالک تھے اور آپ ﷺ کو کتے کے پلے کی موجودگی کا علم تھا تو نعوذ باللہ آپﷺ نے تلاش محض کی ؟ ناقل)
(3)ہم اہل سنت والجماعت کامسئلہ علم غیب میں یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نےحضورﷺ کو علم غیب عنایت فرمایا، اللہ عز وجل فرماتا ہے : '' یہ نبی غیب کے بتانے میں بخیل نہیں '' تفسیر معالم القرآن خازن میں ہے یعنی حضور ﷺ کو علم غیب آتا اور وہ تمہیں بھی تعلیم فرماتے ہیں ۔ ( ملفوظات مولانا احمد رضا حصہ اول ص 34)
(4)میں نے اپنی کتابون میں تصریح کر دی ہے کہ اگر تمام اولین وآخرین کا علم جمع کیا جائے تو اس علم کو علم الہٰی سے وہ نسبت ہرگز نہیں ہو سکتی جو ایک قطرے کے کروڑویں حصہ کو کروڑ سمندر سے ہے ۔( ملفوظات مولانا احمد رضا حصہ اول ص 35)
(5) ہماری تقریر سے روشن و تاباں ہو گیا کہ تمام مخلوق کے جملہ علوم مل کر بھی علم الہیٰ سے مساوی ہونے کا شبہ اس قابل نہیں کہ مسلمان کے دل میں اس کا خطرہ بھی گزرے ، ہم قاہر دلیلیں قائم کر چکے کہ علم مخلوق کا جمیع معلومات الہٰیہ کو محیط ہونا عقل و شرع دونوں کی رو سے یقیناً محال ہے ۔ علم ذاتی اور علم بالاستیعاب محیط تفصیلی یہ اللہ عز وجل کے ساتھ خاص ہیں ۔ بندوں کے لئے صرف ایک گو نہ علم بعطائے الہٰی ہے ، ہم نہ علم الہٰی سے مساوات مانیں ، نہ غیر کے لئے علم بالذات جانیں اور عطائے الہٰی میں سے بعض علم ہی ہی مانتے ہیں نہ کہ جمیع ( خالص الاعتقاد از مولانا احمد رضا خاں بریلوی )
میرا مختصر فتوی انباء المصطفیٰ بمبئی مرادآباد میں تین بار 1318ھ سے ہزاروں کی تعداد میں طبع ہو کر شائع ہوا ، ایک نسخہ اس کا رسالہ ''الکلمۃ العلیا'' (تالیف مولانانعیم الدین مراد آبادی ) کے ساتھ مطبوعہ ہوا ۔ مرسل خدمت ہے ، اس سے بڑھ کرجس جس امر ( علم غیب کلی) کا اعتقاد میری طرف کوئی نسبت کرے ، مفتری و کذاب اور اللہ کے یہاں اس کاحساب ہے ۔ (خالص الاعتقاد شائع کردہ مرکزی حزب الاحناف ہند مطبوعہ 28رمضان 1361ھ)
مولانا احمد رضا کےدادا مرشد پیر حمزہ شاہ کا ارشاد
علم غیب خاص رب العزت کی صفت ہے جو عالم الغیب واشہادہ ہے اور جو رسول اللہ ﷺ کو عالم ا لغیب کہے وہ بے دین ہے ، اس لئے کہ آپ کو بذریعہ وحی کے امور خفیہ کا ہوا تھا ، جسے علم غیب کہنا گمراہی ہے ، ورنہ جمیع مخلوقات نعوذ باللہ عالم الغیب ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کو جو بعطائے الہٰی علم ہوا ، آپ ﷺ نے وہ امت کو پہنچا دیا مثلاً پورا قرآن علم غیب ہی ہے جو ہمارے سامنے او رعلم میں ہے ۔ ( خزئیہ الاولیاء ص 15)