• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضور اکرم سے پہلے حضور کا وسیلہ

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وربرکاتہ!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا اس طرح ہمارے اسلاف وسیلہ لیا کرتے تھے ؟


Sent from my SM-J250F using Tapatalk

فتح الباری میں عبارت اس طرح ہے:
وَقَدْ بَيَّنَ الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ فِي الْأَنْسَابِ صِفَةَ مَا دَعَا بِهِ الْعَبَّاسُ فِي هَذِهِ الْوَاقِعَةِ وَالْوَقْتَ الَّذِي وَقَعَ فِيهِ ذَلِكَ فَأَخْرَجَ بِإِسْنَادٍ لَهُ أَنَّ الْعَبَّاسَ لَمَّا اسْتَسْقَى بِهِ عُمَرُ قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَمْ يَنْزِلْ بَلَاءٌ إِلَّا بِذَنْبٍ وَلَمْ يُكْشَفْ إِلَّا بِتَوْبَةٍ وَقَدْ تَوَجَّهَ الْقَوْمُ بِي إِلَيْكَ لِمَكَانِي مِنْ نَبِيِّكَ وَهَذِهِ أَيْدِينَا إِلَيْكَ بِالذُّنُوبِ وَنَوَاصِينَا إِلَيْكَ بِالتَّوْبَةِ فَاسْقِنَا الْغَيْثَ فَأَرْخَتِ السَّمَاءُ مِثْلَ الْجِبَالِ حَتَّى أَخْصَبَتِ الْأَرْضَ وَعَاشَ النَّاسُ

آپ کے مراسلہ میں پیش کردہ ترجمہ درج ذیل ہے:
امام عسقلانی نے فتح الباری میں بیان کیا کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ بارش کے لیے بارگاہ الہٰہی میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بطور وسیلہ پیش کیا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی: ''اے اللہ! ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہی بلائیں نازل ہوتی ہیں اور (تیری بارگاہ میں خلوص قلب سے) توبہ کرنے سے ہی ٹلتی ہیں۔ اس قوم نے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے تعلق کا وسیلہ اختیار کیا ہے اور ہمارے یہ گناہ گار ہاتھ تیری بارگاہ میں اُٹھے ہوئے ہیں اور ہماری پیشانیاں توبہ کے لیے (تیری بارگاہ میں) جھکی ہوئی ہیں۔ پس تو ہمیں باش عطا فرما۔'' (ان کی یہ دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ اُسی وقت) پہاڑوں کی طرح بادل اُمڈ آئے اور زمین خوب سرسبز وشاداب ہوگئی اور لوگوں کو ایک نئی زندگی مل گئی۔
میری دانست میں ملون عربی عبارت کا ملون مذکورہ ترجمہ درست نہیں بلکہ اس کا ترجمہ یوں ہو گا کہ:

اس قوم نے تیرے نبی سے میرے تعلق کی وجہ سے میرے ذریعہ (یعنی واسطہ یا وسیلہ) سے تیری طرف رجوع کیا۔
بالفاظ دیگر؛ اس قوم نے تیرے نبی سے میری قرابت کی وجہ سے مجھے وسیلہ بنایا ہے
یعنی کہ وسیلہ عباس رضی اللہ عنہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت کو نہیں، بلکہ عباس رضی اللہ عنہ کا اختیا کیا گیا، کہ وہ حیات تھے، اور زندہ شخص کا وسیلہ اختیار کرنا یعنی اس سے دعا کروانا شرعاً جائز و مندوب ہے، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرابت ان کے فضائل میں سے ہے، جسے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے یہاں ذکر کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت کے سبب ان کا وسیلہ اختیار کیا!
یہ بات اسی مقام پر ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بیان کی ہے:
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 339 جلد 03 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 575 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 575 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 397 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 495 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - المكتبة السلفية

شیخ @اسحاق سلفی بھائی سے نظر ثانی وتصحیح کی درخواست ہے۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
وسیلہ صحیح احادیث کی روشنی میں


تحریر : حافظ ابو یحیٰی نورپوری
قرآن کریم اور صحیح احادیث سے تین طرح کا وسیلہ ثابت ہے۔ ایک اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا، دوسرے اپنے نیک اعمال کا اور تیسرے کسی زندہ نیک شخص کی دعا کا۔ لہٰذا وسیلے کی صرف یہی قسمیں جائز اور مشروع ہیں۔ باقی جتنی بھی اقسام ہیں، وہ غیر مشروع اور ناجائز و حرام ہیں۔ قرآن کریم سے کون سا وسیلہ ثابت ہے؟ اس بارے میں تو قارئین ’’وسیلہ اور قرآن کریم‘‘ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ صحیح احادیث اور فہم سلف کی روشنی میں بھی جائز وسیلے کے بارے میں یہی کچھ ثابت ہے، نیز وسیلے کی ممنوع اقسام کے بارے میں صریح ممانعت و نفی بھی موجود ہے۔ آئیے ملاحظہ فرمائیں :
زندہ نیک شخص کی دعا کے وسیلے کا جواز

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا، فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا. قال: فيسقون .
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب قحط پڑ جاتا تو سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ (کی دعا) کے وسیلہ سے بارش طلب کیا کرتے تھے۔ دعا یوں کرتے تھے: اے اللہ ! بے شک ہم تجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی میں ان کی دعا) کا وسیلہ پیش کر کے بارش طلب کیا کرتے تھے تو تو ہمیں بارش دیتا تھا اور اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات کے بعد ان) کے چچا (کی دعا) کو وسیلہ بنا کر بارش طلب کرتے ہیں (یعنی ان سے دعا کرواتے ہیں)، لہٰذا اب بھی تو ہم پر بارش نازل فرما۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں بارش عطا ہو جاتی تھی۔
[صحيح البخاري:137/1،ح:1010]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۶۶۱۔۷۲۸ھ) اس حدیث کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں :

وذلك أن التوسل به في حياته، ھو أنھم كانو يتوسلون به، أي يسألون أن يدعو الله، فيدعو لھم، ويدعون فيتوسلون بشفاعته ودعائه
وسیلہ کی یہ صورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارکہ میں اس طرح تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے دعا کی درخواست کرتے اور پھر خود بھی دعا کرتے۔ یوں اس طریقہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور وسیلہ حاصل کرتے تھے۔
[مختصر الفتاوي المصرية، ص:194]
شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م : ۷۷۳۔۸۵۲ھ) لکھتے ہیں :
ويستفاد من قصة العباس رضي الله عنه من استحباب الاستشفاع بأھل الخير وأھل بيت النبوة
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے قصہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خیر و بھلائی والے لوگوں، اہل صلاح و تقویٰ اور اہل بیت سے سفارش کروانا مستحب ہے۔
[فتح الباري:497/2]
بعض حضرات اس حدیث سے وسیلے کی ایک ناجائز قسم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث تو ہماری دلیل ہے، کیونکہ زندہ لوگوں سے دعا کرانا مشروع وسیلہ ہے۔ اگر فوت شدگان کی ذات کا وسیلہ جائز ہوتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو چھوڑ کر صحابہ کرام کبھی ایک امتی کی ذات کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کرنے کی جسارت نہ کرتے۔ یوں معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صرف زندہ نیک لوگوں کی دعا کے وسیلے کا اثبات ہوتا ہے۔
محدثین کرام اور فقہائے امت نے اس حدیث سے ذات کا نہیں بلکہ دعا کا وسیلہ مراد لیا ہے۔ جب اسلاف امت اس سے فوت شدگان کا وسیلہ مراد نہیں لیتے تو آج کے غیر مجتہد و غیر فقیہ اہل تقلید کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس حدیث کا ایک نیا معنی بیان کریں ؟
تصریحات محدثین سے عیاں ہو گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے دعا کرنے کا معنی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروائی جاتی تھی، پھر اللہ تعالیٰ کو اس دعا کا حوالہ دیا جاتا کہ اے اللہ ! تیرا نبی ہمارے حق میں تجھ سے دعا فرما رہا ہے، لہٰذا اپنے نبی کی دعا ہمارے بارے میں قبول فرما کر ہماری حاجت روائی فرما دے!
کسی ایک ثقہ محدث یا معتبر عالم سے یہ بات ثابت نہیں کہ وہ اس حدیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کی ذات کا وسیلہ ثابت کرتا ہو۔
فائدہ نمبر

ایک روایت میں ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے بارش کے لیے دعا کا کہا تو انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ دعا کی :

اللھم إنه لم ينزل بلاء الا بذنب، ولم يكشف إلا بتوبة، وقد توجه القوم بي إليك لمكاني من نبيك
”اے اللہ ! ہر مصیبت کسی گناہ کی وجہ سے نازل ہوتی ہے اور توبہ ہی اس سے خلاصی کا ذریعہ بنتی ہے۔ لوگوں نے میرے ذریعے تیری طرف رجوع کیا ہے، کیونکہ میں تیرے نبی کے ہاں مقام و مرتبہ رکھتا تھا۔“
[تاريخ دمشق لابن عساكر: 359،358/26، فتح الباري لابن حجر:497/2، عمدة القاري للعيني:32/7]
تبصرہ: لیکن یہ جھوٹی روایت ہے۔
اس کو گھڑنے والا محمد بن سائب کلبی ہے جو کہ ’’متروک‘‘ اور کذاب ہے۔
نیز اس میں ابوصالح راوی بھی ’’ضعیف‘‘ اور مختلط ہے۔ اس کی سند میں اور بھی خرابیاں موجود ہیں۔
تاریخ دمشق لابن عساکر میں اس روایت کی اسناد یوں درج ہے :

أخبرنا أبو القاسم علي بن إبراهيم نا أبو الحسن رشأ بن نظيف أنا الحسن بن إسماعيل أنا أحمد بن مروان نا محمد بن موسى البصري نا محمد بن الحارث عن المدائني عن الكلبي عن أبي صالح (6) أن العباس بن عبد المطلب يوما استسقى به عمربن الخطاب قال لما فرغ عمر من دعائه قال العباس اللهم انه لم ينزل بلاء من السماء إلا بذنب ولا يكشف إلا بتوبة وقد توجه بي القوم إليك لمكاني من نبيك (صلى الله عليه وسلم) وهذه أيدينا إليك بالذنوب ونواصينا بالتوبة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیر بن بکار کی بیان کردہ روایت کی سند نہیں ملی۔
فائدہ نمبر

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس واقعے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی دعا کے یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں :

اللھم إنا نتقرب إليك بعم نبيك ونستشفع به، فاحفظ فينا نبيك كما حفظت الغلامين لصلاح أبيھما
”اے اللہ ! ہم تیرے نبی کے چچا کے ساتھ تیرا تقرب حاصل کرتے ہیں اور ان کی سفارش پیش کرتے ہیں۔ تو ہمارے بارے میں اپنے نبی کا اس طرح لحاظ فرما جس طرح تو نے والدین کی نیکی کی بنا پر دو لڑکوں کا لحاظ فرمایا تھا۔“
[الاستيعاب:92/3، التمھيد:434/23، الاستذكار:434/2]
تبصرہ: یہ بے سند ہے، لہٰذا قابل اعتبار نہیں۔
فائدہ نمبر

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

استسقي عمر ابن الخطاب عام الرمادة بالعباس بن عبدالمطلب، فقال : اللھم! ھذا عم نبيك العباس، نتوجه إليك به، فاسقنا، فما بر حوا حتي سقاھم الله قال : فخطب عمر الناس، فقال: أيھا الناس! إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرى للعباس ما يري الولد لوالده، يعظمه، ويفخمه، ويبر قسمه، فاقتدو أيھا الناس برسول الله صلى الله عليه وسلم في عمه العباس، واتخذوه وسيلة إلي الله عزوجل فيما نزل بكم
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (قحط و ہلاکت والے سال) میں سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو وسیلہ بنا کر بارش طلب کی۔ انہوں نے یوں فریاد کی : اے اللہ ! یہ تیرے ( مکرم) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے (معزز) چچا عباس ہیں۔ ہم ان کے وسیلے تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ تو ہم پر بارش نازل فرما۔ وہ دعا کر ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بارش سے سیراب کر دیا۔ راوی نے بیان کیا ہے کہ پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا۔ فرمایا: اے لوگو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں وہی نظریہ رکھتے تھے، جو ایک بیٹا اپنے، باپ کے بارے میں رکھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا فرماتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی اقتدا کرو۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔
[المستدرك للحاكم:334/3،ح5638، الاستيعاب لابن عبدالبر:98/3 ]
تبصرہ: اس روایت کی سند سخت ترین ’’ضعیف ‘‘ ہے۔
اس میں داؤد بن عطاء مدنی راوی ’’ضعیف ‘‘ اور ’’متروک ‘‘ ہے۔
اس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ لفظ بھی ثابت نہیں۔

امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں :

ليس بالقوي، ضعيف الحديث، منكر الحديث ”قوی نہیں ہے، ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہے۔“
نیز امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے ’’منکر الحدیث‘‘ کہا ہے۔
[الجرح و التعديل:421/3]
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ’’منکر الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔
[الضعفاء الكبير للعقيلي:35/2، وسنده صحيح]
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ’’متروک‘‘ قرار دیا ہے۔
[سوالات البرقاني للدارقطني:138]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ليس بشيء۔ ”یہ ناقابل التفات ہے۔“
[الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:241/3]
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وفي حديثه بعض النكرة۔ ”اس کی حدیث میں کچھ بگاڑ موجود ہے۔“
[الكامل:87/3]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک‘‘ قرار دیا ہے۔
[تلخيص المستدرك:334/3]
پھر ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس میں دعا کے وسیلے کا ذکر ہے اور دعا ہمارے نزدیک مشروع اور جائز وسیلہ ہے۔
غرضیکہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے توسل والی حدیث میں جس وسیلے کا ذکر ہے، وہ صرف اور صرف دعا کا وسیلہ ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام نے ان سے یہ استدعا کی تھی کہ آپ اللہ سے بارش کی دعا فرمائیں اور پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ان کی اس دعا کا حوالہ دیا کہ تیرے نبی کے چچا بھی ہمارے لیے دعاگو ہیں، لہٰذا ہماری فریاد کو سن لے۔ یہی مشروع اور جائز وسیلہ ہے۔ اس حدیث سے قطعاً فوت شدگان کی ذات کا وسیلہ ثابت نہیں ہوتا۔ جیسا کہ :

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۶۶۱۔۷۲۸ ھ) فرماتے ہیں :

وهذا دعاء أقره عليه جميع الصحابة، ولم ينكره أحد مع شهرته، وهو من أظهر الإجماعات الإقرارية، ودعا بمثله معاوية بن أبي سفيان في خلافته، لا استسقي بالناس، فلو كان توسلهم بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد مماته كتوسلهم به في حياته، لقالوا: كيف نتوسل بمثل العباس ويزيد بن الأسود ونحوهما؟ ونعدل عن التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم الذي هو أفضل الخلائق، وهو أفضل الوسائل وأعظمها عند الله؟ فلما لم يقل ذلك أحد منهم، وقد علم أنهم في حياته إنما توسلوا بدعائه وشفاعته، وبعد مماته توسلوا بدعاء غيره، وشفاعة غيره، علم أن المشروع عندهم التوسل بدعاء المتوسل به، لا بذاته
”یہ ایسی دعا ہے جس پر سب صحابہ کرام نے خاموشی اختیار کی، حالانکہ یہ مشہور و معروف واقعہ تھا، یوں یہ ایک واضح سکوتی اجماع ہے۔ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے جب اپنے دورِ خلافت میں لوگوں کے ساتھ دعاء استسقاء کی تو اسی طرح دعا فرمائی۔ اگر صحابہ کرام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اسی طرح آپ کا وسیلہ لیتے جس طرح آپ کی زندگی میں لیتے تھے، تو وہ ضرور کہتے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا یزید بن اسود رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں کا کیونکر وسیلہ دیں اور ان کے وسیلے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے کے برابر کر دیں جو کہ ساری مخلوقات سے افضل اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ جب صحابہ کرام میں سے کسی نے ایسا نہیں کہا اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں وہ آپ کی دعا اور سفارش کا وسیلہ پیش کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ کسی اور کی دعا اور سفارش کا وسیلہ اختیار کرتے تھے، تو ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کے نزدیک نیک شخص کی دعا کا وسیلہ جائز تھا، اس کی ذات کا نہیں۔“
[مجموع الفتاوٰي:285،284/1]
علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (م : ۷۳۱۔۷۹۲ ھ) فرماتے ہیں :
وإنما كانوا يتوسلون في حياته بدعائه، يطلبون منه أن يدعو لهم، وهم يؤمنون على دعائه، كما في الاستسقاء وغيره، فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عمر رضي الله عنه – لما خرجوا يستسقون -: اللهم ! إنا كنا إذا أجدبنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا. معناه: بدعائه ھو ربه، وشفاعته، وسؤاله، ليس المراد أنا نقسم عليك به, أو نسألك بجاهه عندك, إذ لو كان ذلك مراداً، لكان جاه النبي صلى الله عليه وسلم أعظم وأعظم من جاه العباس
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کی دعا کا وسیلہ اختیار کرتے تھے، یعنی آپ سے دعا کی درخواست کرتے تھے اور آپ کی دعا پر آمین کہتے تھے۔ استسقاء (بارش طلبی کی دعا) وغیرہ میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو بارش طلب کرنے کے لیے باہر نکل کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یوں کہا: اے اللہ ! پہلے ہم جب خشک سالی میں مبتلا ہوتے تو اپنے نبی کا وسیلہ اختیار کرتے تھے۔ اب ہم تیری طرف اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں۔ یعنی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تجھ سے ہمارے لیے دعا و سفارش کریں گے۔ آپ کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا اللہ تعالیٰ کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی قسم دی جائے یا ان کے مقام و مرتبے کے وسیلے سے مانگا جائے۔ اگر یہ طریقہ جائز ہوتا تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و منزلت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ شان و منزلت سے بہت بہت زیادہ تھی۔۔۔“
[شرح العقيدة الطحاوية، ص:۲۳۸،۲۳۷]
جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب (م : ۱۲۹۲۔۱۳۵۲ ھ) لکھتے ہیں :
قوله: اللھم! كنا نتوسل إليك بنبينا صلى الله عليه وسلم، ليس فيه التوسل المعھود الذي يكون بالغائب حتي قد لا يكون به شعور أصلا، فيه توسل السلف، وھو أن يقدم رجلا ذاوجاھة عند الله تعالىٰ ويأمره أيدعو لھم، ثم يحيل عليه في دعائه، كما فعل بالعباس رضي الله عنه عم النبي صلى الله عليه وسلم، ولو كان فيه توسل المتأخرين لما احتاجوا إلي إذھاب العباس رضي الله عنه معھم ولكفي لھم التوسل بنبيھم بعد وفاته أيضا، أو بالعباس رضي الله عنه مع عدم شھوده معھم
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بارش کے موقع پر دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! ہم پہلے تجھے اپنے نبی کا وسیلہ پیش کرتے تھے …. ان الفاظ میں اس رائج طریقہ توسل کا ذکر نہیں جس میں کسی غائب شخص کا وسیلہ دیا جاتا ہے جسے اس بات کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اس کا وسیلہ پکڑ رہا ہے۔ اس حدیث میں تو سلف صالحین کے طریقہ توسل کا اثبات ہے۔ سلف کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کسی مقرب الٰہی شخص کو آگے کرتے اور عرض کرتے کہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں۔ پھر وہ اس سفارش کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے۔ جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا۔ اگر اس حدیث میں بعد والے لوگوں کے وضع کردہ طریقہ توسل کا ذکر ہوتا تو پھر صحابہ کرام کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ پڑتی اور ان کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ ہی کا وسیلہ کافی ہوتا یا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی عدم موجودگی میں ان کے نام کا وسیلہ دے دیا جاتا۔“
[فيض الباري:379/2]
ثابت ہوا کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے توسل والی حدیث سے توسل بالذات والاموات کا بالکل اثبات نہیں ہوتا۔
توحید ڈاٹ کام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
انبیاء و اولیاء کے توسل سے دعا مانگنے کا حکم


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے مولانا مفتی محمد شفیع کی معارف القرآن سورۃ الانعام میں دیکھا ہے کہ انہوں نے انبیاء و اولیاء کے توسل کو جائز قرار دیا ہے یعنی ان کے وسیلے سے دعا کرنی۔تو ان کا قول صحیح ہے یا غلط؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد
ولا حول ولا قوةالا باللہ۔

احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ نبی علیہ السلام اللہ سے دعا کرتے ہوئے اس کے اسماء و صفات کے ساتھ وسیلہ پکڑتے تھے۔

اور (بخاری :1/302) اور (مسلم:2/353) نے ان تین آدمیوں کی حدیث روایت کی جو غار میں داخل ہوئے تھے(اور بھاری پتھر کی وجہ سے غار کا دھانہ بند ہو گیا تھا)

تو انہوں نے اپنے صالح اعمال کے ساتھ توسل کیا تھا‘اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انبیاء اور صالحین کی دعاؤں کا ذکر کیا ہے ‘ تو ان میں سے کسی بھی دعا میں توسل بالذات کا ذکر نہیں اگر اچھی بات ہوتی تو ہمارے رب ہمیں ضرور بتاتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور تنبیہ فرماتے۔ بلکہ صحیح بخاری :(1/137)اور (مشکوٰۃ :1/132) میں ثابت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ بارش کے لیے عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کرواتے خود دعا فرماتے اور عباس رضی اللہ عنہ بھی دعا کرتے اگر توسل بذوات الانبیاء جائز ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس سے غافل نہ رہتے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابتَغوا إِلَيهِ الوَسيلَةَ وَجـٰهِدوا فى سَبيلِهِ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ٣٥﴾...سورة المائدة
(مسلمانوں ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو اور اس کس راہ میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو)

صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور سے لیکر آج تک معاصر مبتدعین کے علاوہ تمام مفسرین متفق ہیں کہ اس آیت میں جس توسل کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد ایمان ‘عمل صالح اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے ساتھ توسل مراد ہے۔

اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ آیت کا معنی صالحین کے وسیلے سے اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے‘جیسے کہ (فیض الباری:(2/379) میں ہے‘(منھاج التأسیس: ص 157) میں ہے کہ علماء میں سے کسی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صالحین کے ساتھ ان کے غیاب میں اور ان کے مرنے کے بعد توسل اور استغفار جائز ہے‘نہ ہی دعاؤں میں اس قسم کی کسی بات کو اچھا سمجھا ہو ‘دعا عبادۃ کا مغز ہے اور عبادت کی بنیاد توقیف اور اتباع پر ہے اس طرح (شرح عقیدہ طحا ویہ ص:262) میں مذکور ہے۔

امام ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے (فتح الباری:2/413) میں عباس رضی اللہ عنہ کی دعا ذکر کی ہے اور زبیر بن بکار نے’’انساب‘‘ میں اس واقعہ میں سیدناعباس رضی اللہ عنہ نے جو دعا کی تھی بیان کی ہے وہ اپنی سند سے بیان کرتے ہیں ‘عمر رضی اللہ عنہ نے جب عباس رضی اللہ عنہ سے استسقاء کروائی تو انہوں نے یہ دعا کی : ’’اے اللہ کوئی بھی مصیبت بغیر گناہ کے نہیں اترتی اور یہ مصیبت توبہ ہی سے دور ہوتی ہے اور قوم نے مجھے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ داری کی وجہ سے تیری طرف متوجہ کیا ہے گناہ والے یہ ہاتھ تیری بارگاہ میں اٹھے ہوئے ہیں اور ہمارے ماتھے توبے کے ساتھ تیرے سامنے جھکے ہوئے ہیں‘ہم پر بارش برسا دے‘‘۔

(در مختار:5/254) میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں اللہ سے اسی کے ہی وسیلے سے دعا کرنی چاہیے۔

ابن عابد ین کہتے ہیں یعنی اس کی ذات ‘اسماء اور صفات کے وسیلے سے اور بحق انبیاء و رسل اور اولیاء کو مکروہ سمجھا۔جن روایات سے وہ استدلال کرتے ہیں ہم انصاف کے ساتھ اس پر اجمالی کلام کرتے ہیں تاکہ تیرے لیے حق واضح ہو جائے‘اور دین قویم میں مزخرف روایات اور غیر صریح دلائل کے ساتھ کوئی شک میں نہ ڈال سکے۔

پہلی دلیل:نا بینا کی حدیث جسے ترمذی وغیرہ نے نکالا ہے‘اور (مشکوٰۃ:1/769‘رقم:2695) میں بھی ہے اور صاحب مشکوٰۃ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے متاخرین میں جو اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں درست نہیں اور اس حدیث سے جو توسل بالاشخاص کے لیے استدلال کرتے ہیں وہ بھی درست نہیں یہ تو توسل بدعاء الصالح کی دلیل ہے۔

جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے (القاعدۃ الجلیلۃ )اور (التوسل والوسیلہ) میں اس کی تشریح کی ہے‘اور (فتاوٰی:1/158) میں بھی اس کی خوب شرح کی ہے۔

دوسری دلیل: اعرابی کی روایت جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آ کر آپ کے ساتھ توسل کرتے ہوئے کہا’’اے اس میدان میں دفن ہونے والوں میں سب سے بڑے اور بہتر‘‘اس کو عتبی نے بغیر سند کے ذکر کیا ہے‘بعض محمد بن حرب ھلالی سے روایت کرتے ہیں بغض کسی اور سے امام بیہقی نے اندھیری سند کے ساتھ شعب الایمان میں ذکر کیا ہے۔اس کی سند منقطع اور اندھیرے گپ والی ہے‘اسی طرح جاہل اعرابی کا عمل دلیل نہیں بن سکتا جیسے(الصارم المنکی ص:202) (فتح المنان ص :352) (منھاج التأسیس ص:169) اور (التبیان ص :178) میں ہے۔

تیسری دلیل:بخاری کی حدیث جو پہلے ذکر ہوئی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ سے استسقاء کروائی تو اس حدیث سے شر کی توسل کے لیے استدلال کرنا روسیا مبتدعین کے عجائبات میں سے ہے اگر توسل بالذات اس سے ثابت ہوتا صحابہ رضی اللہ عنہ کو ہرگز نہ چھوڑتے جو قریب ہی تھے –سارے ان کی قبر کے پاس جا کر ان کے توسل کرتے لیکن وہ انہیں چھوڑ کر عباس کے پاس آتے یہ تو لن کے حق میں کہا ں ان کے خلاف دلیل ہے جیسے فیض الباری :(2/37) میں ہے –

چوتھی دلیل :اور اسی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جب انہوں نے یزید بن اسود سے استسقاء کروائی تھی ،جیسے (تاریخ ابن عساکر (1/18-151) میں صحیح سند سے اور (اصابہ:3/634) میں ہے –اور اسی طرح ضحاک بن قیس نے بھی یزید بن الاسود سے دعا کروائی تھی جیسے ابن عساکر ہی نے روایت کیا ہے تو یہ سب کچھ بارش کی دعا ہی تھی – تو سل بالذات تو نہ تھا کہ انہوں نے کہا ہو – اے اللہ میں اس کے جاہ ومرتبہ اور اس کے وسیلے سے سوال کرتا ہو کہ ہماری یہ مصیبت دور فرما،یہ انہوں نے کبھی نہیں کیا –

پانچوین دلیل:وہی ورایت جو گزر چکی بروایت (حاکم :3،334)(فتح الباری :2-399) عمر رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ انہوں نے جب عباس رضی اللہ عنہ سے استسقاء کروائی تو کہا ’’لوگو !رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کرو اور انہیں اللہ کے پاس وسیلہ بناؤ –لیکن ان کی سند میں اضطراب ہے اور اس میں داؤد بن عطا نامی راوی متروک ہے جیسے امام ذہبی نے کہا ہے اور اس میں ساعدہ بن عبید اللہ المزنی راوی مجہول ہے جیسے کہ شیخ البانی کی کتاب التوسل میں ہے -

چھٹی حدبث:اور وہ استدلال کرتے عثمان بن جنیف کی حدیث کے ساتھ جس نے ایک شخص کو ضریر البصرہ والی سکھلاتی تھی تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس کی حاجت پوری کردی تھی –(طبرانی صغیر :ص:103)(کبیر:3/12۔1۔2)

لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ،اس میں شبیب بن سعید ہے جو ضعیف ہے اس حدیث کو ابن السنی نے ص:322) اور (حاکم نے:1/526) پر نکالا ہے لیکن اس قصے کے بغیر تو اس حدیث میں دوسری علت ہوئی-

تفصیل کے لیے دیکھیں (کتاب التوسل للالبانی اور مجموعۃ الفتاوی ٰ:(1/115)-

ساتویں دلیل :استدلال کرتے ہیں (ابن ماجہ :1/778)اور (احمد:3/21) کی حدیث ہے جس کے لفظ یہ ہیں :جو گھر سے نماز کے لیے نکلے اور کہے اے اللہ اس حق کے ساتھ تجھ سے مانگتا ہوں جو مانگنے والوں کا تجھ پر ہے –الحدیث-

اس میں عطیہ عوفی ہے جو ضعیف ہے (السلسلہ :رقم :24) اور وہ مدلس ہے اور عن کے ساتھ روایت کرتا ہے اور یہ قبیح تدلیس کے ساتھ مشہور ہے ۔

اس حدیث کو (ابن السنی :رقم :82 )دوسری سند کے ساتھ روایت کرتا ہیں جس میں وزاع ہے اور وہ کذاب ہے ۔

آٹھویں دلیل:ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث سے استدلال کرتے ہیں (بحق السائلین علیک )لیکن وہ حدیث بھی بہت ضعیف ہے ۔جیسے (مجمع :10/117 )میں ہے اور کہا ہے کہ اس میں فضالہ بن جبیر ہے اور اس کے ضعف پر اتفاق ہے ۔میں کہتا ہوں :بلکہ وہ متھم ہے ‘ابن حبان نے اسے متھم کہا ہے ‘ابن عدی نے کامل میں کہا ہے کہ اس کی ساری حدیثیں غیر محفوظ ہیں ۔

نویں دلیل :استد لال کرتے ہیں انس بن مالک کی حدیث سے جس میں نبیﷺنے علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ کے لیے جو فوت ہو گئی تھیں یہ دعا فرمائی :(بحق نبیک و الانبیاء الذین من قبلی).

(ھیثمی نے 9/ 257 )میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے کبیر اور اوسط میں روایت کیا ہے اس میں روح بن صلاح ہے اور اس میں ضعف ہے ۔الشیخ نے کہا ہے کہ ابو نعیم نے اسے (الحلیہ :3/221)میں روایت کیا ہے اس سند کے ساتھ اور روح کو عدی اور عام علماء نے ضعیف کہا ہے ‘ابن حبان اور حاکم نے اس کی تو ثیق کی ہے لیکن دونوں کا تساھل معروف ہے ۔

پہلی وجہ :اس حدیث کا دارمدار امیہ پر ہے اور حدیث مرسل ہے کیوں کہ امیہ کا صحابی ہونا ثابت نہیں اور نہ ہی روایت کرنا ۔(اصابہ:1/133)۔

دوسری وجہ :استفتاح سے مراو ان کی دعا کے ساتھ ابتداء ہے جیسے کہ (نسائی:2 /15)کی صحیح حدیث میں ہے ‘اس لفظ کے ساتھ ‘اللہ اس امت کی مدد فرماتا ہے ان کے ضعیفوں کے ساتھ یعنی ان کی دعا ‘نماز اور اخلاص کے ساتھ ۔(ترغیب منذری :1/54)۔

گیارھویں دلیل:آدم علیہ السلام نے محمد ﷺ کے ساتھ توسل کیا لیکن یہ حدیث موضوع ہے (طبرانی صغیر :ص :207)(مجمع الزوائد :8/253)(حاکم :2/615‘3۔333)(الضعیفہ :1/38‘رقم :25)اور یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے (العبیان )۔

بارھویں دلیل :حدیث کہ وسیلہ پکڑو میرے جا ہ کے ساتھ اللہ کے پاس میرا جاہ (مرتبہ )بڑا ہے جو وارد ہے اس لفظ کے ساتھ’’ جب تم اللہ سے مانگو تو میرے جاہ کے مانگو میرا جاہ اللہ کے پاس بڑا ہے ‘‘یہ خبر باطل ہے کتب حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں ۔(السلسلہ :رقم : 22)۔

تیرھویں دلیل :وہ حدیث جس کو ابن حجر نے (فتح الباری :2/397)میں نقل کیا ہے جس کی عبارت یہ ہے ’’ روایت کیا ہے ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ مالک الدار سے جو عمر رضی اللہ عنہ کے خازن تھے ۔ وہ کہتے ہیں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگوں پر قحط آیا ۔ایک آدمی رسول اللہ ﷺکی قبر کے پاس آیا اور کہنے لگا :اے اللہ کے رسول اپنی امت کے لیے بارش طلب فرمائیں وہ تو ہلاک ہو گئے تو شخص کو خواب میں کہا گیا :عمر کے پاس جاؤ....الحدیث۔

سیف نے فتوح میں روایت کیا ہے جس نے خواب دیکھا تھا وہ بلال بن الحارث نامی ایک صحابی تھے ۔ یہ حدیث متعدد وجوہ سے توسل کے لیے حجت نہیں :

پہلی وجہ:بعض علماء نے کہا ہے کہ مالک الدار مجہول ہے‘بناء پر توثیق کے جیسے کہ معروف ہے وہ شخص نبیﷺ کی قبر کے پاس آیا تھا وہ مجہول ہے اور سیف نے الفتوح میں کہا ہے کہ وہ بلال تھے‘اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ سیف کذاب اور قابل حجت نہیں پس جہالت اپنے حال پر رہی۔

دوسری وجہ:اس کا باب توسل سے تعلق نہیں کیونکہ اس نے یہ نہیں کہا کہ میں نبیﷺ کے وسیلے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں‘بلکہ یہ نبیﷺ سے سوال کرنت ہے یہ دوسرا مسئلہ ہےاور وہ یہ کہ کیامردوں سے دعا مانگنا جائز ہے؟تو ہم کہتے ہیں‘علماء تو درکنار کسی بھی مسلمان کے نزدیک یہ جائز نہیں‘مردوں سے دعا مانگنا شرک محض ہے۔

تیسری وجہ:یہ مخالق ہے اس چیز کا جو شرع سے ثابت ہے اور وہ ہے آسمان سے بارش کے لیے استسقاء کے وقت نماز پڑھنی مستحب ہے جو احادیث میں تواتر سے ثابت ہے اور نبیﷺ نے ایسے وقت میں انبیاء اور صالحین کی قبروں پر آ کر دعائیں مانگنا مشروع نہیں کہا‘کیا مسلمان ہونے کے بعد تمھیں وہ کفر کا حکم دیں گے۔

(ھیثمی نے مجمع الزوائد:3/125) میں کہا ہے کہ مالک الدار کو نہیں پہچانتا۔

(ابن حزم نے الجرح والتعدیل :4/213) میں اس کا ذکر کر کے کوئی جرح و تعدیل نہیں کی تو یہ اس کی جہالت پر دلالت کرتا ہے۔

چوتھی وجہ:یہ خواب ہے جو حجت نہیں۔

چودھویں دلیل:حدیث جز ابو الجوزاء سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اہل مدینہ سخت قحط سے دو چار ہوئے لوگوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکا یت کی تو آپ نے کہا نبیﷺ کی قبر جا کر دیکھو اور اس کے اوپر آسمان کی طرف چھت کھولدو تاکہ قبر اورآیمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے‘راوی کہتا ہے انہوں نے اسی طرح کیا تو ہم پر خوب بارش ہوئی یہاں تک کہ گھاس اُگی اور اونٹ کھا کھا کے اتنے موٹے ہو گئے کہ چربی چڑھ گئی اوراس سال کا عام الفتق نام پڑ گیا۔

اس حدیث کے حجت نہ ہونے کی متعدد وجو ہ ہیں:

پہلی وجہ:عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں نبیﷺ کے گھر کی چھت میں سوراخ نہیں تھا۔

دوسری وجہ:اس کی سند میں سعید بن زید ہے او ر اس میں ضعف ہےاور اس میں ابو نعمان ہے جو محمد بن الفضل ہے عارم کے نام سے معروف تھا یہ مختلط تھا۔

تیسری وجہ:اس حدیث میں ابو الجوزاء جس نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا۔

چوتھی وجہ:اگر یہ حدیث ثابت ہو بھی جائے تو اس میں توسل نہیں بلکہ اس میں قبر کو آسمان کی طرف ظاہر کرنا ہے تاکہ اللہ کے فضل و احسان سے بارش ہو۔تو کیا انہوں نے کو ئی توسل بالذات کیا؟ہمارا ان مبتدعین کے ساتھ نزاع اس دعا میں ہے جس میں توسل بالذات ہو اور اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں۔

مراجعہ کریں (التوسل انواع و احکامہ :للشیخ ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ)۔

پندرھویں دلیل: وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں:

﴿وَكانوا مِن قَبلُ يَستَفتِحونَ عَلَى الَّذينَ كَفَر‌وا فَلَمّا جاءَهُم ما عَرَ‌فوا كَفَر‌وا ...٨٩﴾...سورة البقرة
کہ کہتے ہیں ‘’’وہ کہا کرتے تھے ہم بحق نبیﷺ تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہماری مدد فرما‘‘(قرطبی)۔

جواب اسکا یہ ہے کہ یہ آیت تین تاویلوں کا احتمال رکھتی ہے جسے علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں ذکر کیا ہے تو احتمال کے ہوتے ہوئے استدلال نہیں ہو سکتا‘اور اسی طرح اکثر مفسرین یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیے سے کس نبی کو بھیج کر ان کی مدد کرنے کا سوال کرتے تھے تاکہ اس کی معیت میں کفار سے قتال کریں۔

اور ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہودیوں کی یہ دعا اللہ تعالیٰ نے قبول نہیں فرمائی کیونکہ یہودی اکثر زمانے میں مغلوب ہی رہے ہیں۔اگر تم یہ کہو کہ ہم سے پہلے لوگوں کی شریعت ہمارے لیے بھی شریعت ہے تو ہم کہتے ہیں یہ علی الاطلاق صحیح نہیں ہے بلکہ ان کی وہ شریعت ہمارے لیے مشروع ہے جس کا ذکر مقام مذمت ہن ہو۔اور یہاں اس آیت میں ان کی قباحتوں ‘بدعتی دعاؤں اور کفری افعال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تردید فرمائی ہے ‘تو وسیلہ بالذات کے باب میں کوئی صریح دلیل نہیں بلکہ سب کی سب مجمل اور نا قابل استدلال واہی احادیث ہیں۔

اور جو مولوی رشید احمد نے(احسن الفتاوٰی1/332) میں مطلق وسیلے کے جواز کے دلائل ذکر کئے ہیں خواہ وسیلہ بالذوات ہو یا وسیلہ بالاعمال الصالحہ خواہ اس سے ہو یا کسی اور سے یہ سب حماقت پر مبنی استدلالات ہیں جس کا علم سے دور کا واسطہ نہیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ الدین الخالص
ج1ص96
محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
شیخ @اسحاق سلفی بھائی سے نظر ثانی وتصحیح کی درخواست ہے۔
استسقاء میں سیدنا عباس سےوسیلہ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا، فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا. قال: فيسقون .
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب قحط پڑ جاتا تو سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ (کی دعا) کے وسیلہ سے بارش طلب کیا کرتے تھے۔ دعا یوں کرتے تھے: اے اللہ ! بے شک ہم تجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی میں ان کی دعا) کا وسیلہ پیش کر کے بارش طلب کیا کرتے تھے تو تو ہمیں بارش دیتا تھا اور اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات کے بعد ان) کے چچا (کی دعا) کو وسیلہ بنا کر بارش طلب کرتے ہیں (یعنی ان سے دعا کرواتے ہیں)، لہٰذا اب بھی تو ہم پر بارش نازل فرما۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں بارش عطا ہو جاتی تھی۔ [صحيح البخاري:137/1،ح:1010]

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۶۶۱۔۷۲۸ھ) اس حدیث کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں :
وذلك أن التوسل به في حياته، ھو أنھم كانو يتوسلون به، أي يسألون أن يدعو الله، فيدعو لھم، ويدعون فيتوسلون بشفاعته ودعائه
وسیلہ کی یہ صورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارکہ میں اس طرح تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے دعا کی درخواست کرتے اور پھر خود بھی دعا کرتے۔ یوں اس طریقہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور وسیلہ حاصل کرتے تھے۔ [مختصر الفتاوي المصرية، ص:194]

◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م : ۷۷۳۔۸۵۲ھ) لکھتے ہیں :
ويستفاد من قصة العباس رضي الله عنه من استحباب الاستشفاع بأھل الخير وأھل بيت النبوة
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے قصہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خیر و بھلائی والے لوگوں، اہل صلاح و تقویٰ اور اہل بیت سے سفارش کروانا مستحب ہے۔ [فتح الباري:497/2]

اس کے بعد علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فتح الباری میں نقل فرماتے ہیں کہ:
وَقَدْ بَيَّنَ الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ فِي الْأَنْسَابِ صِفَةَ مَا دَعَا بِهِ الْعَبَّاسُ فِي هَذِهِ الْوَاقِعَةِ وَالْوَقْتَ الَّذِي وَقَعَ فِيهِ ذَلِكَ فَأَخْرَجَ بِإِسْنَادٍ لَهُ أَنَّ الْعَبَّاسَ لَمَّا اسْتَسْقَى بِهِ عُمَرُ قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَمْ يَنْزِلْ بَلَاءٌ إِلَّا بِذَنْبٍ وَلَمْ يُكْشَفْ إِلَّا بِتَوْبَةٍ وَقَدْ تَوَجَّهَ الْقَوْمُ بِي إِلَيْكَ لِمَكَانِي مِنْ نَبِيِّكَ وَهَذِهِ أَيْدِينَا إِلَيْكَ بِالذُّنُوبِ وَنَوَاصِينَا إِلَيْكَ بِالتَّوْبَةِ فَاسْقِنَا الْغَيْثَ فَأَرْخَتِ السَّمَاءُ مِثْلَ الْجِبَالِ حَتَّى أَخْصَبَتِ الْأَرْضَ وَعَاشَ النَّاسُ
انساب و حدیث کے مشہور امام زبیؒر بن بکار (172ھ ۔256ھ) نے "الانساب " میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں استسقاء میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی دعاء کی تفصیل بیان کی ہے جو اس واقعہ میں انہوں نے کی تھی کہ :''اے اللہ! بلائیں اور مصیبتیں گناہوں کی وجہ سے ہی نازل ہوتی ہیں اوریہ مصائب و مشکلات (تیری بارگاہ میں خلوص قلب سے) توبہ کرنے سے ہی ٹلتی ہیں۔ اسوقت مصیبت و مشکل سے نجات کیلئے اہل ایمان میرے ساتھ تیرے حضور سوالی بن کر پیش ہوئے ہیں ، انہوں نے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے تعلق کی بنا پر مجھے دعاء کیلئے تیرے حضور پیش کیا ہے، اور ہمارے یہ گناہ گار ہاتھ تیری بارگاہ میں اُٹھے ہوئے ہیں اور ہماری پیشانیاں توبہ کے لیے (تیری بارگاہ میں) جھکی ہوئی ہیں۔ پس تو ہمیں باش عطا فرما۔'' (ان کی یہ دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ اُسی وقت) پہاڑوں کی طرح بادل اُمڈ آئے اور زمین خوب سرسبز وشاداب ہوگئی اور لوگوں کو ایک نئی زندگی مل گئی۔۔۔۔۔۔))))
لیکن یہ جھوٹی روایت ہے۔
اس کو گھڑنے والا محمد بن سائب کلبی ہے جو کہ ’’متروک‘‘ اور کذاب ہے۔

نیز اس میں ابوصالح راوی بھی ’’ضعیف‘‘ اور مختلط ہے۔ اس کی سند میں اور بھی خرابیاں موجود ہیں۔
تاریخ دمشق لابن عساکر میں اس روایت کی اسناد یوں درج ہے :
أخبرنا أبو القاسم علي بن إبراهيم نا أبو الحسن رشأ بن نظيف أنا الحسن بن إسماعيل أنا أحمد بن مروان نا محمد بن موسى البصري نا محمد بن الحارث عن المدائني عن الكلبي عن أبي صالح (6) أن العباس بن عبد المطلب يوما استسقى به عمربن الخطاب قال لما فرغ عمر من دعائه قال العباس اللهم انه لم ينزل بلاء من السماء إلا بذنب ولا يكشف إلا بتوبة وقد توجه بي القوم إليك لمكاني من نبيك (صلى الله عليه وسلم) وهذه أيدينا إليك بالذنوب ونواصينا بالتوبة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top