• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہری نماز میں کبھی سورہ ’’لھب‘‘ نہیں پڑھی ،وجہ؟

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
جہاں تک میری معلومات ہیں اس کے مطابق کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہراً فرض نماز میں ’’ سورہ لھب‘‘ کی تلاوت نہیں فرمائی، وجہ اس کی یہ ہے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کے خلاف تھی اور نہ ہی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے لیے بددعاء فرمائی ،بددعاء کرنے میں انتقام کی جھلک پائی جاتی ہے جس میں ذاتی اغراض پائے جاتےہیں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےتمام افعال و اعمال رب کی خوشنودی اور دین کی سربلندی کے لیے ہوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تمام مخلوق کے لیے باعث رحمت تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ’’ وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘تو اس لیے کسی کے لیے بددعاء کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت کے خلاف تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کے لیے بد دعاء کرنا وہ بھی نماز کی حالت میں جس میں بندہ اپنے رب سے انتہائی قریب ہوتا ہے ایسے موقعہ پر اور باتوں کو چھوڑ کر کسی کے لیے بددعاء کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے رحیم و خلیق ذات اقدس کے مقام کے خلاف تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی جہری نماز میں ’’ سورہ لھب ‘‘ کی تلاوت نہیں فرمائی ، اس لیے اس عمل میں ہم لوگوں کے لیے دعوت ہے کہ ہم امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوٰی کرنےوالے اور خود کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کا دعویٰ کرنے والے اس سنت کو کیوں بھول رہے ہیں اور رات دن ہم ایک دوسرے کو منافق گمراہ فاسق ملعون کہتے ہیں اورایک دسرے کو سب وشتم کرتے ہیں شرمندہ کرتے ہیں تذلیل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے دلوں کو چھلنی کرتے ہیں یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ۔ اس لیے ہمیں یاد رکھنا چاہئے! کوئی اگر ہمیں برا کہہ رہا ہے کہنے دیں ہمیں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ کرنا ہے اس جیسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئے جیسا فریق مخالف استعمال کرتا ہے۔ ہمیں صرف رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل سامنے رکھنا چاہئے ۔ کوئی بات غلط کہہ دی ہو تو نظر انداز فرمائیں شکریہ! فقط واللہ اعلم بالصواب
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام علیکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کوئی بات غلط کہہ دی ہو تو نظر انداز فرمائیں شکریہ!
کہنا چاہئے کہ اگر کوئی غلط بات ہو تو اصلاح فرمائیں، نظر انداز کرنے سے نہ تو اصلاح ہو سکے گی اور نہ ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا ہو سکے گا۔

جہاں تک میری معلومات ہیں اس کے مطابق کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہراً فرض نماز میں ’’ سورہ لھب‘‘ کی تلاوت نہیں فرمائی، وجہ اس کی یہ ہے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کے خلاف تھی
اولاً: کیا قرآن کریم کی کوئی سورت، کوئی آیت، کوئی لفظ (اللہ رب العٰلمین کا کلام) اخلاقِ کریمانہ کے مخالف (العیاذ باللہ، اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں) ہو سکتا ہے؟

ثانیاً: کیا آپ نبی کریمﷺ سے قرآن کریم کی ہر ہر آیت یا سورت کی جہری فرض نماز میں تلاوت ثابت کر سکتے ہیں؟؟؟ جس کی بناء پر آپ یہ دعویٰ کریں کہ نبی کریمﷺ نے باقی 113 سورتوں کی تو جہری فرض نمازوں میں تلاوت فرمائی، سورۂ لہب نہیں فرمائی اور اس کی وجہ آپ کے نزدیک فلاں تھی؟؟؟

ثالثاً: آپ کے نزدیک نبی کریمﷺ نے اس کی تلاوت جہری نماز میں اس لئے نہیں فرمائی کہ یہ اخلاقِ کریمہ کے مخالف تھا تو کیا آپ امت کو نماز میں اس کی قراءت اجازت دیتے ہیں؟؟؟

رابعاً: اگر یہ سورت ۔ نعوذ باللہ، ثم نعوذ باللہ ۔ اخلاقِ کریمانہ کے مخالف ہے تو پھر جہری نماز تو چھوڑئیے اس کے علاوہ بھی اس کی قراءت یا تعلیم وتعلّم نہیں ہونا چاہئے۔ کیا آپ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے کبھی یہ سورت نہیں پڑھی نہ ہی صحابہ کرام﷢ کو سکھائی۔

اور نہ ہی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے لیے بددعاء فرمائی، بددعاء کرنے میں انتقام کی جھلک پائی جاتی ہے جس میں ذاتی اغراض پائے جاتےہیں
کئی احادیث مبارکہ میں نبی کریمﷺ سے بد دُعا کرنا ثابت ہے۔ صحیحین میں سیدنا ابن مسعود﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے قریش کے سات لعنتی سرداروں (ابو جہل، عتبہ، شیبہ، ولید بن عتبہ، اُمیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور ایک اور لعنتی جس کا راوی بھول گئے) کیلئے بد دُعا فرمائی۔
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية

اسی طرح صحیحین میں سیدنا انس﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک مہینہ نماز فجر کی دوسری رکعت کے رکوع کے بعد قنوتِ نازلہ کرائی جس میں آپ عرب کے بعض قبیلوں پر بد دُعا فرماتے رہے جنہوں نے چالیس یا ستّر صحابہ کرام﷢ کو شہید کر دیا تھا۔
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية

اسی طرح دیگر قرآن کریم میں دیگر رسل وانبیاء کرام (مثلاً نوح وموسیٰ) ﷩ سے بد دعا کرنا ثابت ہے:
﴿ وَقالَ نوحٌ رَ‌بِّ لا تَذَر‌ عَلَى الأَر‌ضِ مِنَ الكـٰفِر‌ينَ دَيّارً‌ا ٢٦ إِنَّكَ إِن تَذَر‌هُم يُضِلّوا عِبادَكَ وَلا يَلِدوا إِلّا فاجِرً‌ا كَفّارً‌ا ٢٧ ﴾ ۔۔۔ سورة نوح
﴿ وَقالَ موسىٰ رَ‌بَّنا إِنَّكَ ءاتَيتَ فِر‌عَونَ وَمَلَأَهُ زينَةً وَأَموٰلًا فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا رَ‌بَّنا لِيُضِلّوا عَن سَبيلِكَ ۖ رَ‌بَّنَا اطمِس عَلىٰ أَموٰلِهِم وَاشدُد عَلىٰ قُلوبِهِم فَلا يُؤمِنوا حَتّىٰ يَرَ‌وُا العَذابَ الأَليمَ ٨٨ ﴾ ۔۔۔ سورة يونس


رات دن ہم ایک دوسرے کو منافق گمراہ فاسق ملعون کہتے ہیں اورایک دسرے کو سب وشتم کرتے ہیں شرمندہ کرتے ہیں تذلیل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے دلوں کو چھلنی کرتے ہیں یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ۔ اس لیے ہمیں یاد رکھنا چاہئے! کوئی اگر ہمیں برا کہہ رہا ہے کہنے دیں ہمیں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ کرنا ہے اس جیسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئے جیسا فریق مخالف استعمال کرتا ہے۔
اس بارے میں آپ سے اتفاق ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَقُل لِعِبادى يَقولُوا الَّتى هِىَ أَحسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيطـٰنَ يَنزَغُ بَينَهُم ۚ إِنَّ الشَّيطـٰنَ كانَ لِلإِنسـٰنِ عَدُوًّا مُبينًا ٥٣ ﴾ ۔۔۔ سورة الإسراء
﴿ ادفَع بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ فَإِذَا الَّذى بَينَكَ وَبَينَهُ عَدٰوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِىٌّ حَميمٌ ٣٤ وَما يُلَقّىٰها إِلَّا الَّذينَ صَبَر‌وا وَما يُلَقّىٰها إِلّا ذو حَظٍّ عَظيمٍ ٣٥ ﴾ ۔۔۔ سورة فصلت


تو بھائی اس کیلئے ان اور ان جیسی دیگر نصوص سے استدلال فرمائیں لیکن ازراہِ کرم اللہ تعالیٰ (جو ہر طرح کی صفت نقص سے پاک ہیں) کو بد اخلاق ثابت نہ کریں!
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
بیشک آپ نے درست فرمایا لیکن ذاتی اغراض کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعاء نہیں فرمائی ۔امیر کے سامنے ماتحت ہوتے ہیں جن کی دیکھ بھال اور خیر خواہی ایک امیر کا اولین فریضہ ہوتا ہے ۔جب مشرکین نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر زندگی کو تنگ کردیا اور حیوانیت کی تمام حدود کو پار کر گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبور ہوکر بد دعاء فرمائی ۔اور میرا مطمح نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی طور پر (جہاں تک فی الوقت میری یاد داشت ساتھ دے رہی) کسی کے لیے بددعاء نہیں فرمائی ۔وگرنہ اس آیت کریمہ کا کیا مطلب ہوگا ’’ وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘
جہاں تک ’’سورہ لھب‘‘ کا معاملہ ہے یہ قصار سورتوں میں سے ہے اور نماز میں یہ قصار سورتیں بمقابلہ طوال اور اوساط کے زیادہ تلاوت کی جاتی ہیں اور جہاں تک میری معلومات ہیں فرض نماز میں ’’سورہ لھب‘‘ کی تلاوت نہیں فرمائی اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت شریفہ تھی: اور جہاں تک دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کا معاملہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سب پر ہر اعتبار سےفوقیت حاصل ہے۔
اس کے علاوہ مجھے اپنی بات پراصرار بھی نہیں ہے ۔اپنی اپنی نظر ہے میری نظر یہیں تک پہونچ پائی ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


کہنا چاہئے کہ اگر کوئی غلط بات ہو تو اصلاح فرمائیں، نظر انداز کرنے سے نہ تو اصلاح ہو سکے گی اور نہ ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا ہو سکے گا۔



اولاً: کیا قرآن کریم کی کوئی سورت، کوئی آیت، کوئی لفظ (اللہ رب العٰلمین کا کلام) اخلاقِ کریمانہ کے مخالف (العیاذ باللہ، اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں) ہو سکتا ہے؟

ثانیاً: کیا آپ نبی کریمﷺ سے قرآن کریم کی ہر ہر آیت یا سورت کی جہری فرض نماز میں تلاوت ثابت کر سکتے ہیں؟؟؟ جس کی بناء پر آپ یہ دعویٰ کریں کہ نبی کریمﷺ نے باقی 113 سورتوں کی تو جہری فرض نمازوں میں تلاوت فرمائی، سورۂ لہب نہیں فرمائی اور اس کی وجہ آپ کے نزدیک فلاں تھی؟؟؟

ثالثاً: آپ کے نزدیک نبی کریمﷺ نے اس کی تلاوت جہری نماز میں اس لئے نہیں فرمائی کہ یہ اخلاقِ کریمہ کے مخالف تھا تو کیا آپ امت کو نماز میں اس کی قراءت اجازت دیتے ہیں؟؟؟

رابعاً: اگر یہ سورت ۔ نعوذ باللہ، ثم نعوذ باللہ ۔ اخلاقِ کریمانہ کے مخالف ہے تو پھر جہری نماز تو چھوڑئیے اس کے علاوہ بھی اس کی قراءت یا تعلیم وتعلّم نہیں ہونا چاہئے۔ کیا آپ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے کبھی یہ سورت نہیں پڑھی نہ ہی صحابہ کرام﷢ کو سکھائی۔


کئی احادیث مبارکہ میں نبی کریمﷺ سے بد دُعا کرنا ثابت ہے۔ صحیحین میں سیدنا ابن مسعود﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے قریش کے سات لعنتی سرداروں (ابو جہل، عتبہ، شیبہ، ولید بن عتبہ، اُمیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور ایک اور لعنتی جس کا راوی بھول گئے) کیلئے بد دُعا فرمائی۔
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية

اسی طرح صحیحین میں سیدنا انس﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک مہینہ نماز فجر کی دوسری رکعت کے رکوع کے بعد قنوتِ نازلہ کرائی جس میں آپ عرب کے بعض قبیلوں پر بد دُعا فرماتے رہے جنہوں نے چالیس یا ستّر صحابہ کرام﷢ کو شہید کر دیا تھا۔
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية

اسی طرح دیگر قرآن کریم میں دیگر رسل وانبیاء کرام (مثلاً نوح وموسیٰ) ﷩ سے بد دعا کرنا ثابت ہے:
﴿ وَقالَ نوحٌ رَ‌بِّ لا تَذَر‌ عَلَى الأَر‌ضِ مِنَ الكـٰفِر‌ينَ دَيّارً‌ا ٢٦ إِنَّكَ إِن تَذَر‌هُم يُضِلّوا عِبادَكَ وَلا يَلِدوا إِلّا فاجِرً‌ا كَفّارً‌ا ٢٧ ﴾ ۔۔۔ سورة نوح
﴿ وَقالَ موسىٰ رَ‌بَّنا إِنَّكَ ءاتَيتَ فِر‌عَونَ وَمَلَأَهُ زينَةً وَأَموٰلًا فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا رَ‌بَّنا لِيُضِلّوا عَن سَبيلِكَ ۖ رَ‌بَّنَا اطمِس عَلىٰ أَموٰلِهِم وَاشدُد عَلىٰ قُلوبِهِم فَلا يُؤمِنوا حَتّىٰ يَرَ‌وُا العَذابَ الأَليمَ ٨٨ ﴾ ۔۔۔ سورة يونس



اس بارے میں آپ سے اتفاق ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَقُل لِعِبادى يَقولُوا الَّتى هِىَ أَحسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيطـٰنَ يَنزَغُ بَينَهُم ۚ إِنَّ الشَّيطـٰنَ كانَ لِلإِنسـٰنِ عَدُوًّا مُبينًا ٥٣ ﴾ ۔۔۔ سورة الإسراء
﴿ ادفَع بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ فَإِذَا الَّذى بَينَكَ وَبَينَهُ عَدٰوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِىٌّ حَميمٌ ٣٤ وَما يُلَقّىٰها إِلَّا الَّذينَ صَبَر‌وا وَما يُلَقّىٰها إِلّا ذو حَظٍّ عَظيمٍ ٣٥ ﴾ ۔۔۔ سورة فصلت


تو بھائی اس کیلئے ان اور ان جیسی دیگر نصوص سے استدلال فرمائیں لیکن ازراہِ کرم اللہ تعالیٰ (جو ہر طرح کی صفت نقص سے پاک ہیں) کو بد اخلاق ثابت نہ کریں!
السلام علیکم ،
اللہ آپ کو جزا دے انس بھائی۔بے حد خوبصورت اور عمدہ دلائل سے وضاحت کی ہے آپ نے۔یقیناً تمام قرآن پڑھنے اور نصیحت حاصل کرنے کےلیے ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام علیکم
بیشک آپ نے درست فرمایا لیکن ذاتی اغراض کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعاء نہیں فرمائی ۔امیر کے سامنے ماتحت ہوتے ہیں جن کی دیکھ بھال اور خیر خواہی ایک امیر کا اولین فریضہ ہوتا ہے ۔جب مشرکین نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر زندگی کو تنگ کردیا اور حیوانیت کی تمام حدود کو پار کر گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبور ہوکر بد دعاء فرمائی ۔اور میرا مطمح نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی طور پر (جہاں تک فی الوقت میری یاد داشت ساتھ دے رہی) کسی کے لیے بددعاء نہیں فرمائی ۔وگرنہ اس آیت کریمہ کا کیا مطلب ہوگا ’’ وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی! پہلی حدیث مبارکہ جو میں نے پیش کی تھی وہ صحیح بخاری ومسلم کی حدیث ہے:
کئی احادیث مبارکہ میں نبی کریمﷺ سے بد دُعا کرنا ثابت ہے۔ صحیحین میں سیدنا ابن مسعود﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے قریش کے سات لعنتی سرداروں (ابو جہل، عتبہ، شیبہ، ولید بن عتبہ، اُمیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور ایک اور لعنتی جس کا راوی بھول گئے) کیلئے بد دُعا فرمائی۔
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية
اس میں نبی کریمﷺ نے اپنے پر زیادتی کرنے والی مشرکین کیلئے ہی بد دُعا فرمائی تھی۔ ان بدبختوں پر جنہوں نے دورانِ سجدہ نبی کریمﷺ - فداہ ابی وامی - پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی تھی۔

اگر آپ کہیں کہ چونکہ نبی کریمﷺ ’رحمۃ للعالمین‘ ہیں اس لئے آپﷺ نے کبھی کسی پر بد دعا نہیں فرمائی تو جب آپ کو اقرار ہے کہ دیگر انبیاء﷩ نے بد دعا فرمائی تو کیا وہ اپنی امتوں کیلئے رحمت نہیں تھے ؟؟؟ میرے بھائی! ظالم کیلئے بد دُعا رحمت کے منافی نہیں۔

جہاں تک ’’سورہ لھب‘‘ کا معاملہ ہے یہ قصار سورتوں میں سے ہے اور نماز میں یہ قصار سورتیں بمقابلہ طوال اور اوساط کے زیادہ تلاوت کی جاتی ہیں اور جہاں تک میری معلومات ہیں فرض نماز میں ’’سورہ لھب‘‘ کی تلاوت نہیں فرمائی اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت شریفہ تھی
یہ تب ثابت ہوگا جب تک یہ ثابت کریں گے کہ نبی کریمﷺ نے جہری نمازوں میں باقی 113 سورتوں کی تلاوت فرمائی تھی اور اس سورت کو قصدًا چھوڑ دیا تھا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جہاں تک دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کا معاملہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سب پر ہر اعتبار سےفوقیت حاصل ہے۔
نبی کریمﷺ کو بحیثیت مجموعی تمام انبیاء کرام﷩ پر فضیلت ہے۔ لیکن ہر ہر وصف کے متعلق یہ کہنا محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم) سیدنا یوسف﷤ کو نصف حسن دیا گیا:
« أعطى يوسف شطر الحسن»
الراوي: أنس بن مالك المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1481
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط مسلم


ان کے متعلق فرمانِ باری ہے:
﴿ فَلَمّا رَ‌أَينَهُ أَكبَر‌نَهُ وَقَطَّعنَ أَيدِيَهُنَّ وَقُلنَ حـٰشَ لِلَّـهِ ما هـٰذا بَشَرً‌ا إِن هـٰذا إِلّا مَلَكٌ كَر‌يمٌ ٣١ ﴾ ۔۔۔ سورة يوسف
ان عورتوں نے جب اسے دیکھا تو بہت بڑا جانا اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے، اور زبان سے نکل گیا کہ حاشاللہ! یہ انسان تو ہرگز نہیں، یہ تو یقیناً کوئی بہت ہی بزرگ فرشتہ ہے (31)

بعض انبیاء کرام﷩ کو بعض امتیازات حاصل ہیں، مثلاً سیدنا آدم﷤ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کا باپ بنایا، انہیں اپنے ہاتھوں نے پیدا فرمایا، مسجود ملائکہ بنایا۔ سیدنا ابراہیم﷤ کو اللہ تعالیٰ نے امام ﴿إني جاعلك للناس إماما﴾ اور اپنا خلیل بنایا، موسیٰ﷤ کلیم اللہ ہیں، سيدنا داؤد﷤ کو حسن صوت اور زبور کے ساتھ فضیلت عطا کی، سیدنا عیسیٰ﷤ کو اللہ تعالیٰ نے خاص معجزات اور نشانیاں دیں اور روح القدس سے ان کی مدد کی۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ تِلكَ الرُّ‌سُلُ فَضَّلنا بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ ۘ مِنهُم مَن كَلَّمَ اللَّـهُ ۖ وَرَ‌فَعَ بَعضَهُم دَرَ‌جـٰتٍ ۚ وَءاتَينا عيسَى ابنَ مَر‌يَمَ البَيِّنـٰتِ وَأَيَّدنـٰهُ بِر‌وحِ القُدُسِ ٢٥٣ ﴾ ۔۔۔ البقرة
یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض وه ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں، اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات عطا فرمائے اور روح القدس سے ان کی تائید کی۔

﴿ وَرَ‌بُّكَ أَعلَمُ بِمَن فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَر‌ضِ ۗ وَلَقَد فَضَّلنا بَعضَ النَّبِيّـۧنَ عَلىٰ بَعضٍ ۖ وَءاتَينا داوۥدَ زَبورً‌ا ٥٥ ﴾ ۔۔۔ الإسراء
آسمانوں وزمین میں جو بھی ہے آپ کا رب سب کو بخوبی جانتا ہے۔ ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر بہتری اور برتری دی ہے اور داؤد کو زبور ہم نے عطا فرمائی ہے (55)

لیکن بحیثیت مجموعی نبی کریمﷺ تمام انبیاء کے سردار ہیں، اور سب سے افضل ہیں۔ فرمانِ نبویﷺ ہے:
أنا سيِّدُ ولدِ آدمَ يومَ القيامةِ ولا فخرَ ، وبيدي لِواءُ الحمدِ ولا فخرَ ، وما مِن نبيٍّ يَومئذٍ آدمَ فمَن سِواهُ إلَّا تحتَ لِوائي ، وأَنا أوَّلُ مَن ينشقُّ عنهُ الأرضُ ولا فخرَ ، قالَ : فيفزعُ النَّاسُ ثلاثَ فزعاتٍ ، فَيأتونَ آدمَ ، فيقولونَ : أنتَ أبونا آدمُ فاشفَع لَنا إلى ربِّكَ ، فيقولُ : إنِّي أذنبتُ ذنبًا أُهْبِطتُ منهُ إلى الأرضِ ولَكِن ائتوا نوحًا ، فيأتونَ نوحًا ، فيقولُ : إنِّي دَعَوتُ علَى أهْلِ الأرضِ دَعوةً فأُهْلِكوا ، ولَكِن اذهبوا إلى إبراهيمَ ، فيأتونَ إبراهيمَ فيقولُ : إنِّي كذبتُ ثلاثَ كذباتٍ ، ثمَّ قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ : ما منها كذبةٌ إلَّا ما حلَّ بِها عن دينِ اللَّهِ. ولَكِن ائتوا موسَى ، فيأتونَ موسَى ، فيقولُ : إنِّي قد قتلتُ نفسًا ، ولَكِن ائتوا عيسَى ، فيأتونَ عيسَى ، فيقولُ : إنِّي عُبِدتُ مِن دونِ اللَّهِ ، ولَكِن ائتوا محمَّدًا صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ قالَ : فَيأتوني فأنطلِقُ معَهُم - قالَ ابنُ جُدعانَ : قالَ أنسٌ : فَكَأنِّي أنظرُ إلى رسولِ اللَّهِِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ - قالَ : فآخذُ بحلقةِ بابِ الجنَّةِ فأُقَعقِها فيُقالُ : مَن هذا ؟ فيُقالُ : محمَّدٌ فيفتَحونَ لي ، ويُرحِّبونَ بي ، فيقولونَ : مرحبًا ، فأخِرُّ ساجدًا ، فيُلهِمُني اللَّهُ منَ الثَّناءِ والحمدِ ، فيُقالُ لي : ارفَع رأسَكَ وسَلْ تُعطَ ، واشفَعْ تُشَفَّع ، وقُلْ يُسمَعُ لقَولِكَ ، وَهوَ المقامُ المحمودُ الَّذي قالَ اللَّهُ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث:الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3148
خلاصة حكم المحدث: صحيح


والله تعالیٰ اعلم!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام علیکم
محترم اس بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیجئے گاوہ کیا فرماتی ہیں
فقط والسلام
بھائی! عجیب بات ہے کہ میں آپ کو صحیح حدیث مبارکہ پیش کررہا ہوں کہ نبی کریمﷺ نے بد دُعا فرمائی ہے اور آپ ہیں کہ اس پر غور ہی نہیں کر رہے؟ کیا یہ احادیث قابل حجت نہیں ہیں؟

مجھے نہیں معلوم کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاں فرمایا ہے کہ نبی کریمﷺ نے کبھی بد دعا نہیں فرمائی؟ اگر آپ کے علم میں ہے تو پہیلیاں بھجوانے کی بجائے بتا دیں!
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
بھائی! عجیب بات ہے کہ میں آپ کو صحیح حدیث مبارکہ پیش کررہا ہوں کہ نبی کریمﷺ نے بد دُعا فرمائی ہے اور آپ ہیں کہ اس پر غور ہی نہیں کر رہے؟ کیا یہ احادیث قابل حجت نہیں ہیں؟
مجھے نہیں معلوم کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاں فرمایا ہے کہ نبی کریمﷺ نے کبھی بد دعا نہیں فرمائی؟ اگر آپ کے علم میں ہے تو پہیلیاں بھجوانے کی بجائے بتا دیں!
السلام علیکم
نہیں محترم عجیب بات نہیں ہے بلکہ مقصد یہ بتانا تھا کہ آپ کے اس فرمان:
نبی کریمﷺ کو بحیثیت مجموعی تمام انبیاء کرام﷩ پر فضیلت ہے۔ لیکن ہر ہر وصف کے متعلق یہ کہنا محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم) سیدنا یوسف﷤ کو نصف حسن دیا گیا:
« أعطى يوسف شطر الحسن»
الراوي: أنس بن مالك المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1481
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط مسلم

ان کے متعلق فرمانِ باری ہے:
﴿ فَلَمّا رَ‌أَينَهُ أَكبَر‌نَهُ وَقَطَّعنَ أَيدِيَهُنَّ وَقُلنَ حـٰشَ لِلَّـهِ ما هـٰذا بَشَرً‌ا إِن هـٰذا إِلّا مَلَكٌ كَر‌يمٌ ٣١ ﴾ ۔۔۔ سورة يوسف
ان عورتوں نے جب اسے دیکھا تو بہت بڑا جانا اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے، اور زبان سے نکل گیا کہ حاشاللہ! یہ انسان تو ہرگز نہیں، یہ تو یقیناً کوئی بہت ہی بزرگ فرشتہ ہے (31)
کے بارے میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ اچھا جواب اور کوئی نہیں دے سکتا۔
اس بارے میں میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ:
خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ؛اَنَا اَمْلَحُ وَاَخِیْ یُوْ سُفُ اَصْبَحَ(مدراج النبوۃ جلد اول، ص۵، و توریخ حبیب الہٰ، ص ۱۵۷)میں ملیح ہوں اور میرے بھائی یوسف علیہ السلام خوب گورے تھے۔سب جانتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام اپنے حسن و جمال میں بے مثال تھے، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ان سے زیادہ ملاحت رکھتا ہوں۔ثابت ہوا کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم یوسف علیہ السلام سے زیادہ خو بصورت تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کے ملاحظہ کرنے والے صحابہ کیا فرماتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی شے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھی۔گویا آفتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہر ے میں اتر آیا ہے۔(رواہ التر مذ ی ، مشکوۃ، ص۱۵۸)
حسن یوسف ،دم عیسی ٰ ،ید بیضاء داری ۔۔۔۔۔۔۔۔آنچہ خوباں ہمہ دارند توتنہاداری
اور شاعرِ رسول اللہ حضرت حسان ابن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں بیان کیا:

وَأَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَر قط عَيْنِي
وَأَجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلُد النِّسَاءُ
خُلِقْتُ مُبَرَّأً مِنْ كُلِّ عَيْبٍ
کَأنَّكَ قَدْ خُلِقْتُ کَمَا تَشَاء
آپ جیسا حسین میری آنکھ نے نہیں دیکھا ، آپ جیسا جمال والا کسی ماں نے نہیں جنا ، آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے ، آپ ایسے پیدا ہوئے جیسے آپ نے خود اپنے آپ کو چاہا ہو۔
اورحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تو فرمایا کرتے تھے:

أمین مصطفےٰ بالخیر یدعو
کضوء البدر زایلہ الظلام​
ترجمہ : آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) امانت دار ہیں،چنیدہ ہیں،خیر کی دعوت دیتے ہیں، جیسے چودھویں رات کے چاندکی روشنی سے تاریکیاں دور ہوجاتی ہیں۔
اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ،زھیر بن ابی سلمیٰ کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے
لو کنت من شيء سوی البشر
کنت مضيء لیلۃ البدر​
اگر آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) بشر کے علاوہ کوئی اور چیز ہوتے،تو چودھویں رات کو روشن کر نے والے ہوتے۔
اور رہی یہ بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعاء فرمائی جس کا سبب یہ واقعہ تھا
جب یہ ( آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ میں جائے تو گردن پر رکھ دے ( چنانچہ اس کام کو انجام دینے کے لیے ) ان میں سے سب سے زیادہ بدبخت شخص اٹھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک پر یہ غلاظتیں ڈال دیں ، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ہی کی حالت میں سر رکھے رہے ، مشرکین ( یہ دیکھ کر ) ہنسے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہونے لگے ،ایک شخص ( غالباً ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے ، وہ ابھی بچی تھیں ، آپ رضی اللہ عنہا دوڑتی ہوئی آئیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب بھی سجدہ ہی میں تھے، پھر ( حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ) ان غلاظتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سے ہٹایا اور مشرکین کو برا بھلا کہا، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر کے فرمایا ’’ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر ، یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر ، یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر ، پھر نام لے کر کہا اے اللہ ! عمرو بن ہشام ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ولید بن عتبہ ، امیہ بن خلف ، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ ابن ولید کو ہلاک کر ۔
اس واقعہ سے دو بات معلوم ہوئیں ایک تو ان کمبختوں نے نماز کا استہزاء اڑایا۔ اور پھر دوران نماز یہ حرکت کی تو ظاہر ہے جو بندگی میں رخنہ اندازی کا سبب بنی اور یہ رخنہ اندازی ہی بددعاء کا اصل سبب ہے تو یہ عمل بھی ذاتی نہ ہوا بلکہ مخل عبادت ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ ہوا اور عبادت خالصتاً للہ ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا مشہور واقعہ ہے کہ دشمن کو چھوڑ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب ۔ بات کو یہیں ختم کرتا ہوں اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا مخل ہو اور بات کہیں کی کہیں نکل جائے ۔ میں عرض کرچکا ہوں مجھے اپنی بات پر اصرار نہیں ہے اگر آپ کے پاس کچھ معلومات ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں میں جہری طور پر ’’سورہ لہب‘‘ پڑھی ہے تو سمجھ لیجئے گا میں رجوع کرچکا ہوں۔ ادھر ادھر جانا بیکار ہے شکریہ!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام علیکم
نہیں محترم عجیب بات نہیں ہے بلکہ مقصد یہ بتانا تھا کہ آپ کے اس فرمان:

کے بارے میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ اچھا جواب اور کوئی نہیں دے سکتا۔
اس بارے میں میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ:
خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ؛اَنَا اَمْلَحُ وَاَخِیْ یُوْ سُفُ اَصْبَحَ(مدراج النبوۃ جلد اول، ص۵، و توریخ حبیب الہٰ، ص ۱۵۷)میں ملیح ہوں اور میرے بھائی یوسف علیہ السلام خوب گورے تھے۔سب جانتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام اپنے حسن و جمال میں بے مثال تھے، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ان سے زیادہ ملاحت رکھتا ہوں۔ثابت ہوا کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم یوسف علیہ السلام سے زیادہ خو بصورت تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کے ملاحظہ کرنے والے صحابہ کیا فرماتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی شے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھی۔گویا آفتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہر ے میں اتر آیا ہے۔(رواہ التر مذ ی ، مشکوۃ، ص۱۵۸)
حسن یوسف ،دم عیسی ٰ ،ید بیضاء داری ۔۔۔۔۔۔۔۔آنچہ خوباں ہمہ دارند توتنہاداری

اور شاعرِ رسول اللہ حضرت حسان ابن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں بیان کیا:

وَأَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَر قط عَيْنِي
وَأَجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلُد النِّسَاءُ
خُلِقْتُ مُبَرَّأً مِنْ كُلِّ عَيْبٍ
کَأنَّكَ قَدْ خُلِقْتُ کَمَا تَشَاء

آپ جیسا حسین میری آنکھ نے نہیں دیکھا ، آپ جیسا جمال والا کسی ماں نے نہیں جنا ، آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے ، آپ ایسے پیدا ہوئے جیسے آپ نے خود اپنے آپ کو چاہا ہو۔
اورحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تو فرمایا کرتے تھے:

أمین مصطفےٰ بالخیر یدعو
کضوء البدر زایلہ الظلام​

ترجمہ : آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) امانت دار ہیں،چنیدہ ہیں،خیر کی دعوت دیتے ہیں، جیسے چودھویں رات کے چاندکی روشنی سے تاریکیاں دور ہوجاتی ہیں۔
اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ،زھیر بن ابی سلمیٰ کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے
لو کنت من شيء سوی البشر
کنت مضيء لیلۃ البدر​

اگر آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) بشر کے علاوہ کوئی اور چیز ہوتے،تو چودھویں رات کو روشن کر نے والے ہوتے۔
اور رہی یہ بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعاء فرمائی جس کا سبب یہ واقعہ تھا
جب یہ ( آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ میں جائے تو گردن پر رکھ دے ( چنانچہ اس کام کو انجام دینے کے لیے ) ان میں سے سب سے زیادہ بدبخت شخص اٹھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک پر یہ غلاظتیں ڈال دیں ، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ہی کی حالت میں سر رکھے رہے ، مشرکین ( یہ دیکھ کر ) ہنسے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہونے لگے ،ایک شخص ( غالباً ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے ، وہ ابھی بچی تھیں ، آپ رضی اللہ عنہا دوڑتی ہوئی آئیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب بھی سجدہ ہی میں تھے، پھر ( حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ) ان غلاظتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سے ہٹایا اور مشرکین کو برا بھلا کہا، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر کے فرمایا ’’ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر ، یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر ، یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر ، پھر نام لے کر کہا اے اللہ ! عمرو بن ہشام ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ولید بن عتبہ ، امیہ بن خلف ، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ ابن ولید کو ہلاک کر ۔
اس واقعہ سے دو بات معلوم ہوئیں ایک تو ان کمبختوں نے نماز کا استہزاء اڑایا۔ اور پھر دوران نماز یہ حرکت کی تو ظاہر ہے جو بندگی میں رخنہ اندازی کا سبب بنی اور یہ رخنہ اندازی ہی بددعاء کا اصل سبب ہے تو یہ عمل بھی ذاتی نہ ہوا بلکہ مخل عبادت ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ ہوا اور عبادت خالصتاً للہ ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا مشہور واقعہ ہے کہ دشمن کو چھوڑ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب ۔ بات کو یہیں ختم کرتا ہوں اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا مخل ہو اور بات کہیں کی کہیں نکل جائے ۔ میں عرض کرچکا ہوں مجھے اپنی بات پر اصرار نہیں ہے اگر آپ کے پاس کچھ معلومات ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں میں جہری طور پر ’’سورہ لہب‘‘ پڑھی ہے تو سمجھ لیجئے گا میں رجوع کرچکا ہوں۔ ادھر ادھر جانا بیکار ہے شکریہ!
وما علينا إلا البلاغ

كل حزب بما لديهم فرحون
 
Top