کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
حفاظت ِ حدیث کے مختلف ذرائع
خطاب : حافظ عبدالرحمن مدنی
مرتب : حافظ مبشر حسین لاہوری
زیر نظر مضمون میں اس اعتراض کا تسلی و تشفی بخش جواب دیتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی(سنت)کس طرح محفوظ ہوئی؟’’ احادیث چونکہ آنحضرت ﷺ کے دور میں لکھی نہ گئی تھیں، اس لئے یہ قابل حجت نہیں۔ کیونکہ جب کوئی چیز ضبط ِکتابت میں آجائے تو وہ محفوظ ہوجاتی ہے جبکہ ضبط ِکتابت سے محروم رہنے والی چیز آہستہ آہستہ محو ہوکر اپنا وجودکھوبیٹھتی ہے۔ لہٰذااحادیث کا باقاعدہ کوئی وجود نہیں اور دورِ حاضر میں جن کتابوں کو کتب ِاحادیث سے موسوم کیا جاتا ہے، یہ عجمی سازش کا نتیجہ ہیں۔‘‘
صحابہ کرامؓ جب رسول کریم ﷺ کی زندگی کے شب و روز تابعین کے سامنے پیش کرتے تو چونکہ وہ آنحضرت ﷺ کی زندگی کے بارے میں خبر دیتے تھے، اس لئے ایک طرف تو ان کی یہ خبر (حدیث) دین کے لئے بنیاد متصور ہوگی اور دوسری طرف صحابہ کرامؓ کی بیان کردہ خبر ہی ہمارے لئے حجت ہوگی کیونکہ اللہ کے رسولؐ کی ساری زندگی انہی صحابہ کرامؓ کے درمیان بسر ہوئی ہے۔ لہٰذا صحابہ کرامؓ کا آنحضرت ﷺ کی زندگی کے بارے میں کوئی خبر دینا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔(فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَا اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا) (البقرۃ:۱۳۷) ’’اگریہ (یہود و نصاریٰ) اس طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم (صحابہ ؓ) ایمان لائے ہو تو پھر یہ ہدایت پاجائیں گے۔‘‘
صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین کے دور میں بھی تقریباً وہی حالات غالب رہے جو رسولِ کریم ﷺ کی زندگی میں تھے۔ پھر ان کے بعد تبع تابعین کے دور میں بھی یہی اجتماعی رنگ غالب تھا۔ اگر صحابہ کرامؓ، تابعین عظام اور تبع تابعین کے اَدوار کو تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سلسلہ ۲۲۰ھ تک چلتا رہا جب کہ یہ تبع تابعین کے دور کا تقریباً اختتام تھا اور تبع تابعین تک کے اَدوار ہی کو خیرالقرون (بہترین اَدوار) سے موسوم کیا جاتا ہے۔آنحضرت ﷺ کی زندگی کے دو پہلو ہیں :انفرادی اور اجتماعی۔ آپؐ کی زندگی کا اجتماعی پہلو صحابہ کرامؓ کے ساتھ مل کر ہی واضح ہوسکتا ہے اور اسے آپؐ نے ’’ما أنا علیہ وأصحابی‘‘ کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے۔ اس اعتبار سے رسولِ کریم ﷺ کے دور کا معاشرہ آپؐ کی اجتماعی زندگی کا تصور پیش کرتا ہے۔ اور جب رسولِ کریم ﷺ فوت ہوگئے تو فوری طور پر یہ معاشرہ اپنی حالت تبدیل نہیں کربیٹھا۔ اگرچہ تھوڑے بہت اختلافات بھی رونما ہوئے مگر یہ ایک فطری عمل ہے۔ اس لئے مجموعی طور پر رسولِ کریم ﷺ کی زندگی کا عمومی اور اجتماعی پہلو آپؐ کی وفات کے بعد من و عن صحابہ کرامؓ میں موجود رہا۔
یاد رہے کہ جس طرح صحابہ کرامؓ زندگیاں گزارتے رہے، اسی طرح تابعین نے ان کی اتباع کی اور تابعین کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو دیکھتے ہوئے تبع تابعین نے اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھالنے کی پوری کوشش کی۔ حتیٰ کہ اگر کبھی کوئی خرابی، بدعملی یا کوتاہی نظر آتی تو فوراً ٹوک کر کہہ دیا جاتا کہ رسولِ اکرم ﷺ کا عمل تو اس طرح تھا۔ جیسا کہ ایک مرتبہ ابن مسعودؓ نے دیکھا کہ لوگ گٹھلیوں پر وِرد کررہے ہیں تو انہوں نے اس پر تعجب اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
گویا صحابہ کرامؓ نے رسولِ کریم ﷺ کی باتوں کا اتنا خیال رکھا کہ گٹھلیوں کے استعمال کو ’بدعت‘ کہہ کر اس سے روکا اور اس عمل کو ناپسند کیا۔ رسولِ کریم ﷺ کا معاشرہ تین نسلوں تک غالب رہا اور پھر اس معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں اور بگاڑ دَر آئے۔ اس لئے تبع تابعین کے بعد والے دور یا معاشرے کو معیاری دور یا معیاری معاشرہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔’’ويحکم يا أمة محمد ما أسرع هلکتکم، هؤلاء صحابة نبيکم متوافرون وهذه ثيابه لم تبل واٰنيته لم تکسر … أَو مفتتحوا باب ضلالة‘‘ (مسند دارمی، کتاب العلم (المقدمۃ) باب فی کراہیۃ أخذ الرأی، رقم ۲۱۵)
’’اے امت ِمحمد! تم پر افسوس کہ تم کتنی جلدی ہلاکت کی طرف جارہے ہو حالانکہ ابھی تو تم میں صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور اللہ کے نبیؐ کے کپڑے بھی ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپؐ کے برتن ابھی ٹوٹے ہیں … کیا تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو؟‘‘