باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
قرآن یاد کرنے اور اس کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے والے لوگوں کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ قرآن و حدیث میں اس بارے میں جو مذکور ہے اس پر ان شاء اللہ پھر بات ہو گی۔ اس وقت میں آپ کے سامنے ایک شخص کی سچی داستان بیان کرنا چاہتا ہوں جسے اللہ تعالیٰنےقرآن کریم یاد کرنے کی سعادت کچھ یوں نصیب فرمائی تھی کہ اس نے گھر بیٹھے کتاب اللہ کو حفظکر لیا۔
مضان المبارک کی پہلی رات امام صاحب نے اعلان کیا کہ اس دفعہ ان کی بجائے فلاں شخص کا بیٹا تروایحپڑھا رہا ہےجو کسی کو بتائے بغیر گھر میں بیٹھ کر حفظکرتا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی کوشش میںبرکت دیتے ہوئے اسے مکمل حفظ قرآن کی سعادت نصیب فرما دی ہے۔ اس اچانک خبر نے بہت سے لوگوں کو متعجب اور متردد کر دیا لیکن امام صاحب کے احترام میں سب خاموش رہے۔ رمضان المبارک کے اختتام پر ختم قرآن کے موقع پر امام صاحب کے قول کی سچائی وہ خود دیکھ چکے تھے، کئی لوگ فرط جذبات سے آبدیدہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کی مدد کس طرح فرمائی اور بظاہر مشکل دکھائی دینے والا یہ کام اس نے کس طرح سرانجام دیا، اس کی کہانی اسی کی زبانی سنیے،
"رمضان المبارک کی آخری راتیں تھیں اور ہم مسجد میں معتکف تھے۔ نالہ نیم شب میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ مجھے قرآن کریم زبانی یاد کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔ دعا کرتے ہوئے دل میں خیال آیا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے سکول چھوڑکر مدرسے کا رخ کرنا پڑے گا جو بظاہر ممکن نظر نہیںآ رہا تھا۔
بہرحال اللہ پر توکل کرتے ہوئے اور اس کی رحمت سے امید رکھتے ہوئے ایک پاکٹ سائز قرآن خریدا۔ اور انتیسویں پارے میں سورۃ الحاقۃ یاد کرنے کا آغاز کیا۔ اس وقت میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جب پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بجتی تو استاد صاحب کے آنے تک ایک دو آیت قرآن کریم سے دیکھ کر یاد کرنے کی کوشش کرتا۔ جو آیات دن بھر میں یاد ہو جاتیں انہیں سکول سے گھر جاتے ہوئے دہرا لیا جاتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورۃ الحاقۃ ختم ہو گئی اور سورۃ المعارج کا آغاز کیا اور چند ہی ماہ میں انتیسواں پارہ یاد ہو گیا۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ میں اپنے چھوٹے ماموں کو یہ پارہ سنا رہا ہوں اور وہ مجھے کہہ رہے ہیں کہ کوشش کر کے کچھ مزید سورتیں یاد کر لو۔
محلے کی مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد قرآن کریم کی دو یا تین آیات کا لفظی ترجمہ اور مختصر تفسیر سکھائی جاتی تھی۔ بڑوں کی دیکھا دیکھی ہم بچے بھی وہاں بیٹھ جاتے۔ اللہ کی توفیق سے کچھ عرصے بعد قرآن کریم کے معانی کی کچھ سمجھ آنے لگی۔ اسی دوران ایک قریبی رشتے دار نے امام حرم الشیخ عبدالرحمٰن السدیس کی تلاوت قرآن کا سیٹ ہدیہ کیا۔ الشیخ سدیس کی تلاوت سن کر یوں محسوس ہوتا گویا قرآن دل پر نازل ہو رہا ہے۔ ایک ایک سورت بار بار سننے کو جی کرتا۔الشیخ سدیس نے 1414 ھجری میں صلاۃ التراویح میں سورۃ الزمر کی تلاوت اتنے خوبصورت انداز سے کی تھی کہ سورت کا مضمون سیدھا دل پر اثر کرتا ہے، اس تلاوت کو میں دن میں کئ بار سننے کے بعد بھی سَیر نہیںہوتا تھا۔ (یہ تلاوت یہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے)
گانے سننے والوں کی زبان پر گانے جاری ہوتے ہیں لیکن اگر قرآن کریم سمجھ کر سنا جائے تو اس کا مزہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی کشش رکھی ہے کہ ایک مرتبہ اس لذت کو چکھ لیں پھر کسی گانے والے بدکار کی آواز آپ کے کانوں کو نہیں بھائے گی۔ سدیس صاحب کی کیسٹس کی بکثرت اور بتکرار سماعت کے ذریعےاللہ تعالیٰ نے 15 پارے یاد کرا دیے۔ تب کالج کے امتحانات کے بعد فراغت میسر تھی، کچھ اضافی وقت لگانے سے چند ہی ماہ میں بقیہ 15 پارے بھی مکمل ہو گئے۔ الحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔ و لا حول و لا قوۃ الا باللہ "
اس تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کو یاد کرنے والوں کےلیے میں چند تجاویز پیش کرتا ہوں۔
مضان المبارک کی پہلی رات امام صاحب نے اعلان کیا کہ اس دفعہ ان کی بجائے فلاں شخص کا بیٹا تروایحپڑھا رہا ہےجو کسی کو بتائے بغیر گھر میں بیٹھ کر حفظکرتا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی کوشش میںبرکت دیتے ہوئے اسے مکمل حفظ قرآن کی سعادت نصیب فرما دی ہے۔ اس اچانک خبر نے بہت سے لوگوں کو متعجب اور متردد کر دیا لیکن امام صاحب کے احترام میں سب خاموش رہے۔ رمضان المبارک کے اختتام پر ختم قرآن کے موقع پر امام صاحب کے قول کی سچائی وہ خود دیکھ چکے تھے، کئی لوگ فرط جذبات سے آبدیدہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کی مدد کس طرح فرمائی اور بظاہر مشکل دکھائی دینے والا یہ کام اس نے کس طرح سرانجام دیا، اس کی کہانی اسی کی زبانی سنیے،
"رمضان المبارک کی آخری راتیں تھیں اور ہم مسجد میں معتکف تھے۔ نالہ نیم شب میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ مجھے قرآن کریم زبانی یاد کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔ دعا کرتے ہوئے دل میں خیال آیا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے سکول چھوڑکر مدرسے کا رخ کرنا پڑے گا جو بظاہر ممکن نظر نہیںآ رہا تھا۔
بہرحال اللہ پر توکل کرتے ہوئے اور اس کی رحمت سے امید رکھتے ہوئے ایک پاکٹ سائز قرآن خریدا۔ اور انتیسویں پارے میں سورۃ الحاقۃ یاد کرنے کا آغاز کیا۔ اس وقت میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جب پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بجتی تو استاد صاحب کے آنے تک ایک دو آیت قرآن کریم سے دیکھ کر یاد کرنے کی کوشش کرتا۔ جو آیات دن بھر میں یاد ہو جاتیں انہیں سکول سے گھر جاتے ہوئے دہرا لیا جاتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورۃ الحاقۃ ختم ہو گئی اور سورۃ المعارج کا آغاز کیا اور چند ہی ماہ میں انتیسواں پارہ یاد ہو گیا۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ میں اپنے چھوٹے ماموں کو یہ پارہ سنا رہا ہوں اور وہ مجھے کہہ رہے ہیں کہ کوشش کر کے کچھ مزید سورتیں یاد کر لو۔
محلے کی مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد قرآن کریم کی دو یا تین آیات کا لفظی ترجمہ اور مختصر تفسیر سکھائی جاتی تھی۔ بڑوں کی دیکھا دیکھی ہم بچے بھی وہاں بیٹھ جاتے۔ اللہ کی توفیق سے کچھ عرصے بعد قرآن کریم کے معانی کی کچھ سمجھ آنے لگی۔ اسی دوران ایک قریبی رشتے دار نے امام حرم الشیخ عبدالرحمٰن السدیس کی تلاوت قرآن کا سیٹ ہدیہ کیا۔ الشیخ سدیس کی تلاوت سن کر یوں محسوس ہوتا گویا قرآن دل پر نازل ہو رہا ہے۔ ایک ایک سورت بار بار سننے کو جی کرتا۔الشیخ سدیس نے 1414 ھجری میں صلاۃ التراویح میں سورۃ الزمر کی تلاوت اتنے خوبصورت انداز سے کی تھی کہ سورت کا مضمون سیدھا دل پر اثر کرتا ہے، اس تلاوت کو میں دن میں کئ بار سننے کے بعد بھی سَیر نہیںہوتا تھا۔ (یہ تلاوت یہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے)
گانے سننے والوں کی زبان پر گانے جاری ہوتے ہیں لیکن اگر قرآن کریم سمجھ کر سنا جائے تو اس کا مزہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی کشش رکھی ہے کہ ایک مرتبہ اس لذت کو چکھ لیں پھر کسی گانے والے بدکار کی آواز آپ کے کانوں کو نہیں بھائے گی۔ سدیس صاحب کی کیسٹس کی بکثرت اور بتکرار سماعت کے ذریعےاللہ تعالیٰ نے 15 پارے یاد کرا دیے۔ تب کالج کے امتحانات کے بعد فراغت میسر تھی، کچھ اضافی وقت لگانے سے چند ہی ماہ میں بقیہ 15 پارے بھی مکمل ہو گئے۔ الحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔ و لا حول و لا قوۃ الا باللہ "
اس تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کو یاد کرنے والوں کےلیے میں چند تجاویز پیش کرتا ہوں۔
بشکریہ : عبداللہ حیدر - پاک نیٹ تھریڈ1۔ عربی زبان سے کم از کم اتنی واقفیت پیدا کریں کہ آیت کا مفہوم سمجھ میں آ جائے۔ صرف و نحو میں مہارت حاصل کرنا ضروری نہیں، بس اتنی استعداد کافی ہو گی کہ سادہ عربی عبارت کا مطلب سمجھ میں آ جائے ۔ اپنی آسانی کے مطابق تین یا چھے مہینے کا ٹارگٹ مقرر کیجیے۔اس مسئلے کا آسان حل یوں ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم کے پہلے تین یا پانچ پاروں کو ترجمے اور تفسیر سے پڑھ لیجیے اور لفظی ترجمہ یاد کرنے کی کوشش کریں۔ پانچ پاروں کا لفظی ترجمہ یاد ہو جائے تو ان شاءاللہ باقی قرآن کریم کی کچھ نہ کچھ سمجھ آنے لگے گی۔
2۔ جس سورت کو یاد کرنے کا ارادہ ہو، اسے ترجمے اور تفسیر سے دوبارہ پڑھ لیں۔ اس میں بیان کی گئی باتوں پر تدبر کریں۔
3۔ کسی اچھے قاری کی آواز میں چند بار سورت کی تلاوت سنیں۔ (میں الشیخ سدیس کی تلاوت تجویز کرتا ہوں)۔
4۔ اس مرحلے پر سورت کا اجمالی خاکہ، اس کے مضامین اور الفاظ کے کچھ نقوش آپ کے ذہن نشین ہو چکے ہوں گے۔ ابتدائی آیات کو یاد کریں اور یاد کی ہوئی آیات کی تعداد میں بتدریج اضافہ کرتے چلے جائیں۔
5۔ اٹھتے بیٹھے، چلتے پھرتے، سفر کے دوران اور جب بھی موقع ملے یاد کیے ہوئے حصے کو دہراتے رہیں۔
6۔ امکانی غلطی سے بچنے کے لیے یاد کیے ہوئے حصے کو سنانا مفید ہے۔ ایسا نہ ہو سکے تو ٹیپ ریکارڈر یا کمپیوٹر میں اپنی تلاوت ریکارڈ کر لیں اور پھر مصحف کھول کر اسے سن لیں۔
7۔ سب سے اہم کام اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہے کہ وہ اس منزل کو آپ کے لیے آسان کر دے۔ اس سے صبر اور توفیق مانگتے رہیے۔اپنے اندر مستقل مزاجی اور ہمت جیسی صفات کو پروان چڑھائیے۔ مایوسی کو قریب نہ آنے دیجیے۔ گناہوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کیجیے۔