• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حفیظ جالندھری: شخصیت اور کارنامے

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ابو الاثر حفیظ جالندھری. پاکستان سے تعلق رکھنے والے نامور شاعر اور نثرنگار تھے۔آپ 14 جنوری 1900 کو پیدا ہوے.آپ کا قلمی نام ابولاثر تھا. پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی۔ ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔ آزادی کے وقت 1947ء میں لاہور آ گئے۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی، مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پوری کیا۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنا لی۔21 دسمبر 1982 کو آپ وفات ا گۓ.اس وقت آپ کی عمر 82 سال تھی.
ابو الاثرحفیظ جالندھری پاکستان کے قومی شاعر تھے۔ مگر ان کی مقبولیت بھارت میں کم نہیں تھی۔ تقسیم ملک سے قبل ہی وہ اپنی ادبی حیثیت منوا چکے تھے۔ ان کی دوسری شناخت ”شاہنامہ اسلام“ کے تناظر میں اسلامی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا شعری حوالہ ہے۔ انہوں نے ثقافتی اکتساب کے حوالوں سے اعلیٰ اور ارفعیٰ اور افضل ہستیوں کی ایسی شعری پیکر تراشی کی کہ ان کی تخلیق بر صغیر ہندو پاک میں اپنی نوعیت کی واحد تخلیق قرار پائی۔
حفیظ جالندھری کی شاعری کی تیسری خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کیے۔ شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ” ابھی تو میں جوان ہوں“ کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیوں کہ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیااور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔
حفیظ جالندھری بہر حال اردو کے شعری ادب میں قابل ذکر حیثیت کے مالک ہیں اور انہوں نے اردو شاعری کو جو کچھ دیا ہے اس کا اردو ادب میں نمایاں مقام ہے۔ انہوں نے اپنی تخلیقات میں چار جلدوں میں شاہنامہ اسلام، نغمہ زاد ‘ سوز و ساز، تلخابہ شریں اور چراغ سحر چھوڑے۔
حوالہ : اردو نوٹ پیڈ
ان کے نام سے ایک فیس بک پیج بھی ہے ، ان کے ساتھ رابطہ کریں ، شاید کوئی رہنمائی کرسکیں ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء یا شیخ!
 
شمولیت
جولائی 04، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
31
عمر بھائی اگر اردو لکھیں گے تو بہتر سمجھ میں آئیگا۔ مہربانی
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
ان کے نام کے ساتھ ایک واقعہ یاد ہے ۔امجد اسلام امجد کے منہ سے سنا تھا ۔ مسکراہٹ کے ساتھ مفہوم نقل کرتا ہوں۔
’’حفیظ جالندھری ایک بار ٹرین میں سفر کر رہے تھے ۔۔۔ان کے سامنے والی سیٹ پر ایک صاحب موجود تھے ۔ حفیظ جالندھری مشہور شاعر تھے ۔ان کے دل میں ۔۔۔طلب آئی کہ یہ صاحب مجھے پہچان نہیں رہے ۔۔۔ورنہ خوش ہوتے کہ مشہور شخصیت کے ساتھ سفر کر رہا ہوں ۔۔۔۔
آخر کچھ دیر بعد خود ہی ان سے مخاطب ہوکر ۔۔آہستہ آہستہ اپنا تعارف کرانے کے لئے ۔۔۔اپنا نام بتایا۔۔۔میرانام حفیظ جالندھری ہے ۔۔۔
یہ سنتے ہی ۔۔۔وہ صاحب سیٹ سے اٹھے اور گرمجوشی سے ان کی طرف بڑھے ۔۔۔
حفیظ جالندھری ۔۔۔دل میں خوشی محسوس کر ہی رہے تھے کہ ۔۔۔کہ ان صاحب نے گلے ملتے ہوئے کہا ۔۔۔
’’بڑی خوشی ہوئی ۔۔۔۔۔کہ ۔۔۔۔آپ بھی جالندھر کے ہیں ‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بلا کافی نہ تھی اک زندگی کی
دوبارہ یاد فرمایا گیا ہوں

مجھے تو اس خبر نے کھودیا ہے
سنا ہے میں کہیں پایا گیا ہوں

حفیظ اہل زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ایک مضمون ملا ہے ،پیش خدمت ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حفیظ جالندھری کی شاعری ۔۔۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے!
رضوان احمد
پٹنہ
January 24, 2009

ابو الاثرحفیظ جالندھری پاکستان کے قومی شاعر تھے۔ مگر ان کی مقبولیت بھارت میں کم نہیں تھی۔ تقسیم ملک سے قبل ہی وہ اپنی ادبی حیثیت منوا چکے تھے۔ ان کی دوسری شناخت ”شاہنامہ اسلام“ کے تناظر میں اسلامی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا شعری حوالہ ہے۔ انہوں نے ثقافتی اکتساب کے حوالوں سے اعلیٰ اور ارفعیٰ اور افضل ہستیوں کی ایسی شعری پیکر تراشی کی کہ ان کی تخلیق بر صغیر ہندو پاک میں اپنی نوعیت کی واحد تخلیق قرار پائی۔

حفیظ جالندھری کی شاعری کی تیسری خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کیے۔ شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ” ابھی تو میں جوان ہوں“ کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیوں کہ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔

لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیااور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔ غنائیہ کے سبب زبردست رچاؤ ہے۔ ان کے کچھ اشعار تو آج کے حالات کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ ان کی حیثیت ماوراے عصر ہے:

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

آخر کوئی صورت تو بنے خانہٴ دل کی
کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے

مجھے شاد رکھنا کہ ناشاد رکھنا
مرے دیدہ و دل کو آباد رکھنا
ملیں گے تمہیں راہ میں بت کدے بھی
ذرا اپنے اللہ کو یاد رکھنا

عشق نہ ہو تو واقعی موت نہ ہو تو خودکشی
یہ نہ کرے تو آدمی آخر کار کیا کرے

حفیظ جالندھری سے میری چند ملاقاتیں اس وقت ہوئیں جب وہ 1976ء میں بھارت تشریف لائے۔ ان کا قیام دہلی میں اپنی منہ بولی بیٹی اور مشہور صحافی و ادیبہ منورما دیوان کے گھر پر تھا۔ منورما دیوان کے شوہر معروف ادیب دیوان بریندر ناتھ ظفر پیامی میرے دوستوں میں تھے۔ میں جب ان کے گھر پر حفیظ جالندھری صاحب سے ملنے کے لیے گیا تو انہوں نے ان سے میرا تعارف بڑے جان دار الفاظ میں کروایا۔ حفیظ صاحب بہت ہی پر تپاک انداز میں ملے اور دیر تک شعر و سخن کی باتیں کرتے رہے۔

اس کے بعد وہ ایک مشاعرے میں پٹنہ بھی تشریف لائے۔ ان کی آمد سے استفادہ کرتے ہوئے ریاستی گورنر جگن ناتھ کوشل نے، جو اردو شاعری کے بے حد قدر داں اور حفیظ صاحب کے شاعری کے مداح تھے، حفیظ کے اعزاز میں ایوانِ گورنرمیں ایک بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا اور ان کے تعارف میں پر زور تقریر کی۔

پاکستان میں اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی اور حفیظ صاحب چند وجوہات سے اس حکومت سے بہت شاکی تھے۔ تقریر میں تو اس کا اظہا رنہیں کیا لیکن اشعار میں کافی ہدف ملامت بنایا۔ انہوں نے مشاعرے میں جو اشعار پڑھے ان میں سے چند مجھے یاد ہیں:

ہم جس مقام پر ہیں وہاں سب مزے میں ہیں
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں سب مزے میں ہیں
یہ بوم، چغد، زاغ و زغن، پیشہ ورنقیب
نوبت درِ مزارِ شہاں سب مزے میں ہیں

شاد عظیم آباد ی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے شاد کی مشہور غزل ”کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں“ کی زمین میں بھی ایک غزل سنائی تھی۔ جس کا مقطع تھا:

حفیظ اہل ادب کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں

موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے حفیظ صاحب سے ایک تفصیلی انٹر ویو کیا تھا۔ وہ بار بار حکومت وقت کو ہدف بناتے تھے او ر ہم عصر شعرا پر بھی زبردست تنقید کرتے تھے۔ خاص طور سے فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی ان کے نشانے پر تھے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ فیض اور ان کے کچھ ہم نشینوں نے اپنے قلم روس کے ہاتھوں بیچ دیے ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کے جی بی کے کچھ اہم اشخا ص نے ان سے بھی رابطہ کیا تھا اور بڑی رقم دینے کی پیش کش کی تھی، مگر انہوں نے اپنا قلم فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔

اس وقت حفیظ صاحب عمر کی اس منزل میں تھے کہ انہیں ذرا ذرا سی بات پر غصہ آجاتا تھا اگر میں کریدنے کے لیے کچھ سوال کرتا تھا تو وہ غصے میں آکر ہلکی باتیں بولنے لگتے تھے۔

حفیظ جالندھری بہر حال اردو کے شعری ادب میں قابل ذکر حیثیت کے مالک ہیں اور انہوں نے اردو شاعری کو جو کچھ دیا ہے اس کا اردو ادب میں نمایاں مقام ہے۔ ان کے بہت سے اشعار سہلِ ممتنع کی حیثیت رکھتے ہیں:

دل ابھی تک جواں ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے
تلخ کر دی ہے زندگی اس نے
کتنی میٹھی زبان ہے پیارے

تمہیں نہ سن سکے اگر قصہٴ غم سنے گا کون
کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے

یوں میں نے جیتی الفت کی بازی
اک بار کھیلا سو بار ہارا
ناکامیِ عشق یا کامیابی
دونوں کا حاصل خانہ خرابی
ان کا بہانہ بر جستہ گوئی
اپنا تبسم حاضر جوابی

ہر قدم جس کو نئی چال نہ چلنی آئے
وہ تو رہزن بھی نہیں راہنما کیا ہو گا

آنے والے کسی طوفاں کا رونا رو کر
نا خدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا

گزرے ہوئے زمانے کااب تذکرہ ہی کیا
اچھا گزر گیا بہت اچھا گزر گیا

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں تو ڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

کہو تو راز حیات کہہ دوں حقیقت کائنات کہہ دوں
وہ بات کہہ دوں کہ پتھروں کے دلوں کو بھی آب آب کر دے

حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ءکو جالندھر میں پیدا ہوئے تھے اور 21دسمبر 1982کو لاہور میں انتقال فرمایا۔ انہوں نے اپنی تخلیقات میں چار جلدوں میں شاہنامہ اسلام، نغمہ زاد ‘ سوز و ساز، تلخابہ شریں اور چراغ سحر چھوڑے۔ ان کی شعری کائنات چھ دہائیوں پر محیط ہے اور ان کا یہ دعویٰ درست ہے:

شعر وادب کی خدمت میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی باتیں نہیں
----------------------------------------------------------------------------شکریہ : وایس آف امریکا اردو سروس
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
باتیں حفیظ جالندھری کی
حفیظ صاحب کسی کے رعب اور دبدبے میں ہرگز نہیں آتے تھے اور نہ ہی کسی پر چوٹ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے۔ سب بڑے بڑوں کو ڈانٹ پلا دیتے۔ سیدضمیر جعفری اور عزیز ملک نے جو حفیظ کے بہت قریب رہے ہیں، مجھے کئی واقعات سنائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی کو اپنے سے بڑا نہ سمجھتے۔ کسی کی قصیدہ گوئی اور خوشامد کرنا تو درکنار وہ کسی سے جھک کر ملنا بھی کسرِشان سمجھتے۔

چاہے کوئی بہت بڑا سرکاری افسر ہو یا کوئی وزیر، وہ اپنا مقام و مرتبہ اس سے اوپر ہی سمجھتے اور اسی کے مطابق گفتگو کرتے۔ البتہ چھوٹوں سے ان کا رویہ محبت اور شفقت والا ہوتا اور عام آدمی سے برابر کی سطح پر بات کرتے۔

کس میں جرأت تھی جو وزرا سے کرسیاں خالی کرواتا جب خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل تھے تو حیدرآباد میں کُل پاکستان مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ مشاعرے کی صدارت خواجہ ناظم الدین صاحب نے کرنی تھی۔ سیدضمیرجعفری راوی ہیں کہ مشاعرہ گاہ میں جانے سے قبل سبھی شاعر دوسرے ہال میں عشائیے کی دعوت میں جمع تھے۔ کھانے کے بعد سبز قہوے کا دور چلا۔ اتنے میں اعلان ہوا کہ گورنر جنرل تشریف لایا چاہتے ہیں۔ شعرائے کرام سے درخواست کی گئی کہ مشاعرہ گاہ میں تشریف لے جا کر اپنی نشستیں سنبھال لیں۔

جب شعراء جناب حفیظ جالندھری کی قیادت میں مشاعرہ ہال میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ جو کرسیاں سٹیج پر شعرائے کرام کے لیے رکھی گئی ہیں، ان پر وزرائے کرام اور دوسرے سربرآوردہ معززین براجمان ہیں۔ صدر مشاعرہ کی کرسی کے علاوہ اور کوئی خالی نہیں۔

شعراء تو سٹیج کے قریب پہنچ کر رُک گئے مگر حفیظ سیدھے اوپر جا پہنچے اور شعراء کی نشستوں پر قابض وزرائے کرام سے بآوازِبلند فرمایا ’’جناب! یہ کرسیاں خالی کرکے سٹیج سے نیچے تشریف لے جائیں۔‘‘ وہ پہلے تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ جب حفیظ صاحب نے اپنا مطالبہ دہرایا اور اس اثنا میں کچھ اور شاعر بھی حفیظ صاحب کی اقتدا میں سٹیج پر جا پہنچے تو ان حضرات کو اٹھتے ہی بنی۔ نیچے ہال میں بھی کوئی نشست خالی نہ تھی۔

خیر منتظمین نے دوڑ بھاگ کرکے پہلی قطار کے آگے ایک اور صف لگائی۔ ابھی یہ اکھاڑ پچھاڑ جاری ہی تھی کہ صدر مشاعرہ جناب خواجہ ناظم الدین تشریف لے آئے۔ اس اثنا میں شعرائے کرام اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ سیدضمیرجعفری بتاتے ہیں کہ حفیظ صاحب نے سٹیج پر وزرائے کرام کو عالی جاہ یا سر جیسے الفاظ سے خطاب نہیں کیا اور نہ انھیں ہنستے مسکراتے ہوئے جھک کر سلام کہا۔ اگر وہ کرسیاں خالی نہ کرواتے تو منتظمین مشاعرہ میں سے کسی کی اتنی جرات نہ تھی جو وزیروں کو جا کر کہتا کہ کرسیاں خالی کردیں اور پھر اس پر فوری عمل بھی کرواتا۔

منتظمین میں ہمت اور سلیقہ ہوتا تو وہ پہلے ہی کسی کو سٹیج پر نہ بیٹھنے دیتے اور وزراء کے لیے نیچے پہلی صف میں نشستیں خالی رکھتے۔

کس حکیم نے مشاعرے میں آنے کا کہا تھا؟
ستمبر ۱۹۶۸ء میں چٹاگانگ میں ایک کل پاکستان مشاعرے کا اہتمام ہوا۔ میں ان دنوں چٹاگانگ میں ہی تعینات تھا اور اس مشاعرے میں موجود تھا۔ سامعین کی پہلی صف میں ایک بڑا افسر اپنی بیگم کے ساتھ بیٹھا تھا۔ معلوم نہیں کیا مسئلہ تھا، وہ میاں بیوی آپس میں لڑجھگڑ رہے تھے۔

ان کی کھسر پُھسر مشاعرے میں خلل ڈال رہی تھی مگر وہاں کوئی ایسا نہ تھا جو ا نھیں یہ کہتا کہ براہِ کرم خاموشی اختیار کریں اور لوگوں کو مشاعرہ سننے دیں۔ بطور آخری شاعر حفیظ صاحب مائیک پر تشریف لائے اور اپنے مخصوص ترنم میں مشہور غزل کا مطلع سنایا:

فردوس کی طہور بھی آخر شراب ہے
مجھ کو نہ لے چلو مری نیت خراب ہے

حفیظ صاحب ابھی مطلع پڑھ ہی رہے تھے کہ ان میاں بیوی کی کھسر پُھسر پھر گونجی۔ حفیظ صاحب رک گئے اور ان صاحب کی طرف اشارہ کرکے کہا ’’جب مشاعرے میں بیٹھنے کی تمیز نہیں تو کیا تمھیں کسی حکیم نے کہا تھا کہ مشاعرے میں آئو۔‘‘ یہ سُن کر اس کی بیگم تو فوراً اٹھ کر چلی گئی۔ چند لمحوں بعد وہ صاحب بھی اُٹھے اور سر

جھکائے چپ چاپ رخصت ہوگئے۔
شاعر ہوں، سیکشن آفیسر نہیں

بشکریہ اردو ڈائجسٹ
 
Top