• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حقائقِ دینیہ و کونیہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حقائقِ دینیہ و کونیہ

بہت سے لوگوں پر حقائقِ امر یہ دینیہ ایمانیہ اور حقائقِ خلقیہ کونیہ قدریہ باہم مشتبہ ہوجاتے ہیں۔ (اوّل الذکر دین و ایمان کے ساتھ اور ثانی الذکر تقدیر و تکوین کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں) اور خلق و امر دونوں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ۰ۣ يُغْشِي الَّيْلَ النَّہَارَ يَطْلُبُہ حَثِيْثًا ۰ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰت بِاَمْرِہ ۰ۭ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ۵۴
الاعراف
''بے شک تمہارا پروردگار وہی اللہ ہے جس نے چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ پھر عرش پر مستوی ہوا۔ وہی رات کو دن کا پردہ بناتا ہے جو اس کے پیچھے لے کر چلی آتی ہے، اسی نے آفتاب و ماہتاب اور ستاروں کو پیدا کیا کہ یہ سب زیرِ فرمان الٰہی ہیں، سن رکھو کہ اللہ ہی کی خلق ہے اور اللہ ہی کا حکم۔ اللہ جو دنیا جہان کا پالنے والا ہے بابرکت ہے۔''
سو اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور اس کا پروردگار اور بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی خالق نہیں۔ا س کے سوا کوئی پالنے والا نہیں۔ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ جو حرکت و سکون معرضِ وجود میں آتی ہے، اس کے حکم، اسی کی تقدیر، اسی کی مشیئت، اسی کی قدرت اور اسی کے پیدا کرنے سے آتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسولوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ نیز اپنی اور اپنے پیغمبروں کی نافرمانی سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توحید و اخلاص کا حکم دیا اور اپنے ساتھ شرک کرنے سے منع کیا ہے چنانچہ سب سے بڑی نیکی توحید اور سب سے بڑی بدی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۰ۚ
النساء
''اللہ تعالیٰ یہ نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس سے کم درجے کے گناہ جس کو چاہے بخش دیتا ہے۔''
اور فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ ۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ ۰ۭ
البقرہ
''بعض لوگ اللہ کو چھوڑ کر اوروں کو معبود بناتے ہیں جن سے وہ ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہیے اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں۔''
صحیحین میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا ''یارسول اللہ! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے۔'' جناب محمد رسول اللہ نے فرمایا ''یہ کہ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرائے حالانکہ تجھے اس نے پیدا کیا ہے۔''۔ میں نے عرض کیا پھر کون سا؟ فرمایا ''یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کر ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائے گی۔'' میں نے عرض کیا پھر کون سا؟ فرمایا ''یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرے۔'' اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق اس آیت میں فرمائی ہے:
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ﴿٦٨﴾ يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا ﴿٦٩﴾ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٧٠﴾ وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّـهِ مَتَابًا ﴿٧١﴾
الفرقان
''اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں اور ناحق کسی شخص کو جان سے نہ ماریں کہ جسے اللہ نے حرام کر رکھا ہے اور نہ زنا کے مرتکب ہوں، اور جو مذکورہ بالا گناہوں کا ارتکاب کرے گا وہ اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتے گا۔ قیامت کے دن اسے دہرا عذاب دیا جائے گا اور ذلیل و خوار ہو کر اسی میں ہمیشہ رہے گا مگر جس نے توبہ کی، ایمان لایا اور نیک کام کیے، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔''
(بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ البقرہ و تفسیر سورۃ فرقان، رقم: ۴۷۶۱، مسلم، کتاب الایمان، باب کون الشرک اقبح الذنوب۔ رقم: ۲۵۸۔)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے عدل و احسان اور اقارب کو مالی امداد دینے کا حکم فرمایا اور بے حیائی، ناشائستگی اور ایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے منع کیا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ متقی، محسن، عادل بہت توبہ کرنے والے، پاک صاف رہنے والے لوگوں اور ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بہ صف کھڑے ہو کر جہاد کرتے ہوئے ایسے معلوم ہوتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ جس چیز سے اس نے منع کر دیا ہے، اس کا ارتکاب اسے بہت ناپسند ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نے سورۃ الاسرائیل میں فرمایا:
کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْھًا
اسرائیل
''ان سب باتوں میں جو بری باتیں ہیں، وہ تیرے پروردگار کو ناپسند ہیں۔''
اس سے پہلے شرک اور والدین کی نافرمانی سے منع فرمایا اور قرابت والوں کو ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا۔ اسراف سے بھی روکا اور بخل سے بھی۔ انہی کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْھًا
اسرائیل
''ان سب باتوں میں جو بری باتیں ہیں، وہ تیرے پروردگار کو ناپسند ہیں۔''
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا، اور اپنے بندو ںسے کفر پر راضی نہیں ہوتا۔ بندے کو حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمیشہ توبہ کیا کرے۔ چنانچہ فرمایا:
وَتُوْبُوْا اِلَی اللہِ جَمِیْعًااَیُّھَاالْمُؤْم ِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ
النور
''اے مومنو! سب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرو، تاکہ تم کو نجات ملے۔''
صحیح بخاری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
اَیُّھَا النَّاسُ تُوْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً
(بخاری ، کتاب الدعوات، باب استغفار النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الیوم واللیلۃ رقم: ۶۳۰۷، نسائی، عمل الیوم واللیلۃ۔)
''اے لوگو! اپنے پروردگار کی بارگاہ میں توبہ کرو، مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔''
صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
اِنَّہ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِیْ وَاِنِّیْ لَاسْتَغْفِرُ اللہَ فِی الْیَوْمِ مِائَۃَ مَرَّۃٍ
(مسلم، کتاب الذکر، باب استحباب الاستغفار والاستکثار رقم: ۶۸۵۸، ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی الاستغفار، رقم: ۱۵۱۵۔)
''یعنی میرے دل پر پردہ سا آجاتا ہے اور میں دن میں سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔''
سنن میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا ''کہ ہم شمار کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں سو مرتبہ (یا یہ کہا کہ سو سے زیادہ مرتبہ) کہا کرتے تھے۔
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
(ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی الاستغفار رقم: ۱۵۱۶، ترمذی کتاب الدعوات، باب مایقول اذا قام من مجلسہ، رقم: ۳۴۳۴، مسند احمد ۲؍۸۴۔)
''اے میرے پروردگار میرے گناہوں کو بخش دے۔ میری توبہ قبول فرما! بےشک تو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔''
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ بندے اپنے نیک اعمال استغفار پر ختم کیا کریں۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے سلام پھیرتے تھے تو تین مرتبہ استغفار پڑھا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اَنتَ السَّلَامُ وَمِنکَ السَّلَامُ تَبَارَکتَ یَا ذَاالجَلَالِ وَالاِکرَامِ
(مسلم ، کتاب المساجد، باب استحباب الذکر، ۱۳۳۴۔)
''اے اللہ تو سلام ہے اور تجھی سے سلامتی ہے، اے بزرگ اور بخشش والے تو بابرکت ہے۔''
جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث صحیح میں ثابت ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ۔
آل عمران
''اور سحر کے وقت استغفار کرنے والے ۔''
چنانچہ اس نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ رات کو نماز پڑھیں اور سحری کے وقت استغفار کیا کریں۔ اسی طرح سورة المزمل، جس کا نام سورة قیام اللیل بھی ہے، کا اختتام ان الفاظ پر کیا:
وَاسْتَغْفِرُوا اللہَ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔
المزمل
''اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔''
حج کے متعلق فرمایا:
فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ﴿١٩٨﴾ ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٩٩﴾
البقرہ
''پھر جب عرفات سے لوٹو تو مشعرالحرام میں ٹھہر کر اللہ کی یاد کرو اور اس کی یاد اس طریق پر کرو ، جو اللہ نے تم کو بتایا ہے اور اس سے پہلے تم ضرور گمراہوں میں سے تھے۔ پھر جس جگہ سے لوگ چلیں تم بھی وہیں سے چلو اور اللہ سے مغفرت چاہو۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔''
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ تبوک پر روانہ ہوئے، اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری غزوہ تھا، تو اس کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:
لَّقَد تَّابَ اللَّـهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١١٧﴾وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿١١٨﴾
التوبہ
''البتہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر پر بڑا ہی فضل کیا اور مہاجرین و انصار پر جنہوں نے تنگدستی کے وقت میں پیغمبر کا ساتھ دیا۔ جب کہ ان میں سے بعض کے دل ڈگمگا چلے تھے پھر اس نے ان پر اپنا فضل کیا، اس میں شک نہیں کہ اللہ ان سب پر نہایت درجے مہربان اور رحیم ہے اور ان تین پر بھی جن کا معاملہ التواء میں رکھا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب زمین باوجود فراخی کے ان پر تنگی کرنے لگی اور وہ اپنی جان سے بھی تنگ آگئے تھے اور سمجھ گئے کہ اللہ سے خود اسی کے سوا اور کوئی جائے پناہ نہیں۔ پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی تاکہ وہ توبہ کرتے رہیں، بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔''
اور یہ آیات آخر میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہیں۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے آخر یہ سورت نازل ہوئی:
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ ﴿١﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا ﴿٢﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿٣﴾
النصر
''جب اللہ کی مدد آپہنچی اور مکہ فتح ہوگیا اور تم نے لوگوں کو دیکھ لیا کہ اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل ہورہے ہیں تو تم اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہوجائو اور اس سے گناہ کی معافی مانگو۔ بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔''
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ وہ اپنے کام کو تسبیح و استغفار پر ختم کرے۔ صحیحین میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع وسجود میں قرآن کریم کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے یہ دُعا پڑھا کرتے تھے۔
سُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمدِکَ اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی
(بخاری، کتاب الاذان ، باب الدعاء فی الرکوع، رقم: ۷۹۴، ومسلم کتاب الصلاۃ، باب مایقال فی الرکوع والسجود رقم: ۱۰۸۵، مسند احمد ۴؍۴۳۔)
''اے اللہ ہمارے پروردگار! میں تیری تسبیح و تقدیس بیان کرتا ہوں اور تیری حمد بیان کرتا ہوں، اے اللہ مجھے بخش دے۔''
صحیحین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ وَجَھْلِیْ وَاِسْرَافِیْ فِیْ اَمْرِیْ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہ مِنِّیْ۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ھَزْلِیْ وَجِدِّیْ وَخَطَئِیْ وَعَمدِیْ وَکُلُّ ذٰلِکَ عِنْدِیْ۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَاقَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا اَسْرَرْتُ وَمَا اَعْلَنْتُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ
(بخاری، کتاب الدعوات باب قول النبی ، اغفرلی، مسلم ، کتاب الذکروالدعاء باب التعوذ من شرما عمل رقم: ۶۹۰۱، مسند احمد ۴؍ ۴۱۷۔)
''اے اللہ میری خطا معاف فرما اور میری جہالت اور میرے اسراف سے درگذر فرما اور اس بات سے درگذر فرما جو کہ تجھے میری نسبت زیادہ اچھی طرح معلوم ہے، اے اللہ! میری ہنسی مذاق کی باتوں اور مرے سوچے سمجھے ہوئے کاموں میں میری بھول چوک کے قصوروں اور میرے دیدہ و دانستہ گناہوں کو بخش دے، اللہ میرے ان تمام گناہوں کو بخش دے جو کہ میں نے پہلے کیے ہیں اور جو پیچھے کیے ہیں اور جو پوشیدگی میں کیے ہیں اور جو کھلم کھلا کیے ہیں، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔''
صحیحین میں ہے کہ سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے وہ دعا سکھا دیجیے جو میں نماز میں پڑھا کروں؟ فرمایا یہ پڑھا کرو:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔
''اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا، اپنی خاص مغفرت سے میرے گناہ بخش دے اور مجھ پر رحم فرما۔ بے شک تو بہت بخشنے والا مہربان ہے"
(بخاری، کتاب الاذان، باب الدعاء قبل السلام ۸۳۴، مسلم کتاب الذکر والدعاء باب الدعوات والتعوذ رقم: ۶۸۶۹۔)
سنن میں (مثلاً سنن ترمذی، سنن ابی دائود وغیرہ یعنی حدیث کی وہ کتابیں جو بخاری مسلم کے سوا ہیں۔) سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے وہ دعا سکھا دیجیے جو میں صبح و شام پڑھا کروں؟ فرمایا یہ پڑھا کرو۔
اَللّٰھُمَّ فَاطِرَالسَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ رَبَّ کُلِّ شَیْءٍ وَمَلِیْکَہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّالشَّیْطٰنِ وَشِرْکِہ وَاَنْ اَقْتَرِفَ عَلٰی نَفْسِیْ سُوْئً اَوْ اَجُرَّہ اِلٰی مُسْلِمٍ
(مسند احمد، ۱؍۹۔۱۰۔۱۴، الادب المفرد، رقم الحدیث: ۱۲۰۲، النسائی عمل الیوم واللیلۃ۔)
''اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے غیب اور آشکارا کے جاننے والے ہر چیز کے پروردگار و مالک! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے میں اپنے نفس کی شر سے اور شیطان کی شر اور اس کے شرک سے تیرے پاس پناہ لیتا ہوں اور اس بات سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنی جان پر کسی برائی کا وبال لوں یا کسی دوسرے مسلمان کی طرف کھینچ لے جائوں۔''
جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ یہ دعا صبح و شام اور بستر پر لیٹتے وقت پڑھا کرو۔ ان آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی شخص کے لیے یہ خیال کرنا جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنے اور گناہوں کی معافی مانگنے سے مستغنی ہے بلکہ ہر شخص ہمیشہ کے لیے توبہ و استغفار کا محتاج ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ﴿٧٢﴾ لِّيُعَذِّبَ اللَّـهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٧٣﴾
الاحزاب
''اور اس بارِ امانت کو انسان نے اٹھا لیا۔ بے شک وہ اکھڑ اور بے سمجھ ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوںاورمنافق عورتوں ، مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے گا اور مومن عورتوں اور مردوں کی توبہ قبول کرے گا، اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔''
سو انسان ظالم اور جاہل ہے اور مومنین و مومنات کی غایت توبہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے نیک بندوں کے توبہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ان کو بخش دینے کا ذکر فرمایا ہے۔
صحیح بخاری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
''کوئی شخص اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا۔''
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ''یارسول اللہ کیا آپ بھی؟
'' فرمایا میں بھی جنت میں داخل نہ ہوسکوں گا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے مجھے ڈھانپ لے"
(بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت، رقم: ۵۶۷۳، مسلم کتاب صفات المنافقین، باب لن یدخل احدالجنۃبعملہ رقم: ۷۱۱۱۔)
یہ حدیث قرآن کریم کی اس آیت کی منافی نہیں ہے:
كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ ﴿٢٤﴾
الحاقہ
''گذشتہ ایام میں تم نے جو اعمال کیے ہیں، ان کے بسبب مزے سے کھائو اور پیو۔''
کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقابلہ و معاوضہ کی (با) کی نفی کی ہے، نہ کہ (با) سببیہ کی اور قرآن نے (با) سببیہ کا اثبات کیا ہے۔ کسی نے جو یہ کہا ہے کہ {اِذَا اَحَبَّ اللہُ عَبْدًا لَمْ تَضُرَّۃُ الذُّنُوْبُ} (جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو گناہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے) تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کے دل میں توبہ و استغفار کرنے کا خیال پیدا کر دیتا ہے اور وہ گناہوں پر اصرار نہیں کرتا۔ اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ گناہ اس شخص کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے، جو ان پر اصرار کرے۔ وہ گمراہ ہے کتاب و سنت اور اجماع سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین کا مخالف ہے بلکہ امرِ واقع یہ ہے کہ جو شخص ذرہ برابر نیکی کرے گا، اسے دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا، اسے بھی دیکھ لے گا اور اللہ کے جن بندوں کی مدح کی گئی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے اس قولِ مبارک میں مذکور ہیں:
وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ﴿١٣٣﴾ الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٣٥﴾
آل عمران
''اور اپنے پروردگار کی مغفرت اور جنت کی طرف لپکو جس کا پھیلائو اتنا بڑا ہے جیسے زمین و آسمان کا پھیلائو۔ سجی سجائی ان پرہیزگاروں کے لیے تیار ہے جو خوشحالی اور تنگدستی دونوں حالتوں میں اللہ کے نام خرچ کرتے اور غصے کو ضبط کرتے اور لوگوں کے قصوروں سے درگزر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور وہ لوگ جو ایسے نیک دل ہیں کہ بہ تقاضائے بشریت جب کوئی بے حیائی کا کام کر بیٹھتے ہیں یا کوئی بے جا بات کر کے اپنا یعنی اپنے دین کا کچھ نقصان کر لیتے ہیں تو اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے ہیں اور اللہ کے سوا اپنے بندوں کے گناہوں کا معاف کرنے والا ہے ہی کون اور جو اپنے کیے پر دیدہ و دانستہ اصرار نہیں کرتے۔''

الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 
Top