• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حقوق العباد کیسے معاف ہوں گے؟؟؟

ahmed

رکن
شمولیت
جنوری 01، 2012
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
38
کیا حقوق العباد صرف بندے(جس کی حق تلفی کی گئی ہو) کے معاف کرنے سے ہی معاف ہوں گے؟ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی شرک کے علاوہ تمام گناہ معاف کر دے گا تو کیا اس میں حقوق العباد بھی شامل ہے؟؟؟

مثلاً اگر اللہ سبحانہ وتعالی ایک مؤحد بندہ جس کو معاف کر دیتا ہے اور جنت میں داخل کرنا چاہتا ہے لیکن اس بندے نے کسی بندے (مسلمان ،کافر) کی حق تلفی کی ہے وہ بندہ (مسلمان یا کافر) اسے معاف کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو کیا اللہ سبحانہ وتعالی اسے جہنم میں پھینک دیں گے؟؟ کیونکہ بہت مرتبہ سُنا ہے جب تک اگلا بندہ اسے معاف نہ کرے اللہ سبحانہ وتعالی بھی اُسے معاف نہیں کرے گا تو اس صورت میں کیا ہو گا؟؟ کیونکہ بہت سے لوگ اس بات کو دلیل بنا کر یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ حقوق اللہ تو اللہ سبحانہ وتعالی معاف کر دے گا بیشک وہ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے لیکن حقوق العباد جب تک بندہ (جس کی حق تلفی کی گئی ہو) نہیں چاہے گا تب تک معاف نہیں ہوں گے۔اور جب کسی کو نماز کی دعوت دی جائے تو سب سے پہلے یہی بات سننے کی ملتی ہے پہلے حقوق العباد پورے کرو پھر حقوق اللہ کی بات کرنا یعنی (اللہ سبحانہ وتعالی نے تو معاف کر دینا ہے بندوں نے نہیں)تو میں اس سلسلے میں تھوڑاسا کنفیوز ہوں آپ سب اہل علم بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس کا مفصل جواب دیں

اگر صورتحال اس طرح ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوئی ہے کہ اللہ معاف کرنا چاہتا ہے اور بندہ کہتا ہے میں نے نہیں کرنا تو اگر یہ کہا جائے کہ اللہ اسے معاف نہیں کرے گا جب تک اسے اگلا بندہ نہ معاف کرے تو پھر انسان کی مشیت کو اللہ کی مشیت پر غالب تسلیم کرنا پڑے گا جو کہ صریحاً کفر ہے اگر کہا جائے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اسے پھر بھی معاف کر دے گا پھر اس بات کو جھوٹ کہنا پڑے گا کہ حقوق العباد تب ہی معاف ہوں گے جب بندہ چاہے گا

اسی تناظر میں چند سوالات ہیں اُمید ہےاہل علم راہنمائی فرمائیں گے۔

(1) کیا حقوق العباد توبہ سے معاف نہیں ہوتے؟؟ یا اُس بندے (جس کی حق تلفی کی گئی ہو) نے جب تک معاف نہیں کرنا تب تک معاف نہیں ہوں گے اگر وہ اپنی زندگی میں اُ س سے معافی نہ مانگ سکا ہو تو کیاقیامت کے دن اسے معافی کا موقع دیا جائے گا؟

(2) اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے “آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز،روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں گھسیٹ کر پھینک دیا جائے گا” (رواہ مسلم)

اس حدیث میں حقوق العباد کی بابت جہنم کی وعید سنائی گئی ہےاس کا صحیح مفہوم کیا ہے مثلاً اگر کسی بندے نے جان بوجھ کر کسی کی حق تلفی کی ہے تو جب تک وہ اُسے معاف نہیں کرے گا تب تک اللہ سبحانہ وتعالی اسے جہنم میں ہی رکھے گا ؟؟

(3) کیا اس حدیث کی سندصحیح ہے؟؟اگر درست ہے تو اس کا کیا معنی ہو گا ؟؟ اگر اس نے کسی کافر کے ساتھ زیادتی کی ہو گی اُس کا حق تلف کیا ہو گا؟ ظاہری بات ہے اُسے تو جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا نا؟؟؟ یہ حدیث تو دو مسلمانوں کے متعلقہ ہے جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا حق تلف کرتا ہے یہی وہ کسی کافر کے ساتھ کرے تو اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا؟؟

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم آقائے دوجہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ اچانک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے ہیں حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے والے دانت نمودار ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس بات نے ہنسایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! میری امت کے دو آدمی رب العزت کی بارگاہ میں گھٹنوں کے بل پیش ہوتے ہوئے دکھائے گئے ہیں ان میں سے ایک نے کہا اے رب! میرے اس ظالم بھائی سے میرے ظلم کا حساب لے کر دیں اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا تو اپنے ظالم بھائی سے کیا چاہتا ہے حالانکہ اس کے پاس نیکیوں میں سے کچھ نہیں بچا(یعنی اس کے پاس تو صرف گناہ ہی ہیں ) ؟ تو اس نے عرض کیا یارب! میرے گناہ ہی اس پر لاد دیں یہ ذکر کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے پھر فرمایا یہ دن بہت بڑا ہوگا لوگ اس کے محتاج ہوں گے کہ ان کے گناہوں کے بوجھ اٹھا دئیے جائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ اس مطالبہ کرنے والے کو فرمائیں گے اپنی نظر اٹھا اور دیکھ وہ نظر اٹھا کر دیکھے گا اور کہے گااے رب! میں سونے کے شہر اور سونے کے محلات دیکھ رہا ہوں لئو لئو کے تاج سجائے ہوئے ہیں یہ کس نبی کیلئے ہیں یا کس صدیق کیلئے ہیں یا یہ کس شہید کیلئے ہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جو اس کی قیمت دے گا وہ اس کیلئے ہیں۔وہ عرض کریگا یارب ان کا کون مالک بن سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو اس کا مالک بنے گا وہ عرض کریگا کس عمل کی وجہ سے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اپنے اس بھائی کو معاف کردینے سے۔وہ عرض کرےگا یارب! میں نے اس کو معاف کیا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ چلو اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو اور اس کو بھی جنت میں لے جاؤ۔یہ حدیث بیان فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسی لیے اللہ سے تقویٰ اختیار کرو اور آپس میں صلح کے ساتھ رہو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان صلح چاہتے ہیں۔(حاکم وقال صحیح الاسناد)
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

محترم جہاں تک حقوق العباد اور حقوق الله کی معافی کا تعلق ہے - تو اس کا تعلق الله کی حکمت و قدرت سے ہے - الله کا فرمان کہ : " شرک کے علاوہ تمام گناہ معاف کر دے گا"
إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ افْتَرَى إِثْماً عَظِيماً ۔ (النساء 4:48)
بے شک اللہ تعالیٰ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے سوا جو کچھ ہے، جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔

اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ شرک کے گناہ کا وبال اتنا شدید ہے کہ جس کی معافی کی الله کے ہاں کوئی گنجائش نہیں - البتہ شرک کے علاوہ باقی گناہوں کی معافی کی گنجائش ضرور ہے - لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ الله ان کو بغیر فیصلہ کیے معاف کردے -قرآن میں اللّہ وتبارک اعلی کا ارشاد ہے :

وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ - بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ سوره تکویر ٨-٩
اور جب (زمین) میں زندہ درگور ہونے والی لڑکی سے پوچھا جائے- بتاؤ کہ کس جرم پر قتل گئی تھی؟؟
اس آیت کے مفہوم اور اس یوم آخرت کے دن کی نزاکت پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے- ایک انسان جس نے کسی پر ظلم و زیادتی کی ہو گی- اس سے اس کے گناہ کی باز پرس نہیں ہو گی بلکہ جس پر اس نے ظلم کیا ہو گا اس سے پوچھا جائے گا کہ تم بتاؤ کہ تم پر کس نے اور کیوں ظلم کیا؟؟؟ اب یہ اس مظلوم پر ہو گا کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور ظالم کو معاف کرتا ہے یا پھر اس ظالم کی نیکیاں سمیٹ کر جنّت کا حقدار بن جاتا ہے- یہ الله کا بنایا ہوا ایک قانون ہے اور اسی قانون کے تحت الله قیامت کے دن فیصلہ فرماے گا -اللہ کا ارشاد پاک ہے کہ :

أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ -وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ-وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ- ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ- سوره النجم ٣٨-٤١
(اس دن) کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور انسان کو وہی ملے گا جس کے لیے اس نے محنت کی ہوگی۔ اور اس کی یہ محنت بہت جلد دیکھی جائے گی۔ پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

یعنی الله رب العزت اس بنیاد پر کسی کو بغیر سزا کے نہیں بخشے گا - جب تک کہ اس کے اعمال کی جانچ نہ کرلی جائے -خاص کر کے جب ان اعمال کا تعلق حقوق العباد سے ہو- ہم ؛نام نہاد مسلمانوں کا حال بھی یہود و نصاریٰ سے زیادہ مختلف نہیں ہے -

یہودی ہمارے جیسے ہی غلط تصورات کا شکار تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اول تو انہیں عذاب دیں گے نہیں اور اگر اپنے عدل کی لاج رکھنے اور مخلوق خدا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اگر آگ میں ڈالا گیا تو چند دن بعد انہیں باہر نکال لیا جائے گا ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنا دو ٹوک فیصلہ سنادیا۔ فرمایا:

وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَيَّاماً مَعْدُودَةً قُلْ أَاتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ۔ بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔ (البقرہ 2:80-81)
اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو: کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمھیں کچھ علم نہیں۔ کیوں نہیں،جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

اور ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے شرک نہیں کیا تو کیا ہوا - باقی گناہ تو معاف ہو سکتے ہیں اگر ہمیں عذاب ہوا بھی تو چند دنوں پر مشتمل ہو گا-

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ روزِ قیامت اللہ کے حضور کسی کے بارے میں کسی قسم کی سفارش کی کوئی گنجائش نہیں سوائے اس کے کہ رحمن اس بات کی اجازت دے ۔خدا کے اذن کے بعد دوسری چیز یہ ہے کہ بات کہنے والا بھی وہ بات کہے جو خلافِ عدل نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ ہر کسی کے حق میں سفارش نہیں ہوسکتی بلکہ جس کے حق میں اجازت ہو گی صرف اسی کے بارے میں بات ہوگی۔ اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس کے حق میں الله سفارش قبول کرے گا اور کس کے حق میں سفارش قبول کرنے سے انکار ہوجاے گا - فرمان باری تعلیٰ
ہے -

يَوْمَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلاً ۔ (طہ 20:109)

اس دن شفاعت نفع نہ دے گی۔ سوائے خدائے رحمان جس کو اجازت دے اور جس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے۔

یعنی شفاعت کی اجازت دینے یا نہ دینے کا سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کسی کے حق میں اجازت نہ دے تو کس کی مجال ہوگی کہ وہ کچھ کہہ سکے۔

رہا معامله اس بات کہ اگر کوئی مسلمان کسی کافر کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو اس کے ساتھ الله کیا سلوک کرے گا - تو شرک کا کبیرہ گناہ کرنے کے سبب اس کافر کا نامہ اعمال تو خالی ہو گیا - البتہ اس کا فیصلہ الله کے اس قانون کے مطابق ہوگا کہ :

قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا سوره النساء
کہہ دو دنیا کا فائدہ تھوڑا ہے اور آخرت پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے اور ایک تاگے کے برابر بھی تم سے بے انصافی نہیں کی جائے گی-
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
جزاک اللہ خیراً جواد بھائی
@اسحاق سلفی بھائی اوپر حاکم کی روایت جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس کا حکم بتا دیں کیا یہ روایت صحیح ہے؟
@عبدالرحمن لاہوری ، @عبدہ بھائی آپ کیا فرماتے ہیں اس کے متعلق
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
@اسحاق سلفی بھائی اوپر حاکم کی روایت جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس کا حکم بتا دیں کیا یہ روایت صحیح ہے؟
محترم بھائی آپ کی مسئولہ حدیث مستدرک حاکم میں درج ذیل سند و متن سے موجود ہے :
حدثنا أبو منصور محمد بن القاسم العتكي ، ثنا أبو عبد الله محمد بن أحمد بن أنس القرشي ، ثنا عبد الله بن بكر السهمي ، أنبأ عباد بن شيبة الحبطي ، عن سعيد بن أنس ، عن أنس بن مالك رضي الله عنه ، قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس إذ رأيناه ضحك حتى بدت ثناياه ، فقال له عمر: ما أضحكك يا رسول الله بأبي أنت وأمي ؟ قال: " رجلان من أمتي جثيا بين يدي رب العزة ، فقال أحدهما: يا رب خذ لي مظلمتي من أخي ، فقال الله تبارك وتعالى للطالب: فكيف تصنع بأخيك ولم يبق من حسناته شيء ؟ قال: يا رب فليحمل من أوزاري " قال: وفاضت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبكاء ، ثم قال: " إن ذاك اليوم عظيم يحتاج الناس أن يحمل عنهم من أوزارهم ، فقال الله تعالى للطالب: " ارفع بصرك فانظر في الجنان فرفع رأسه ، فقال: يا رب أرى مدائن [ص:40] من ذهب وقصورا من ذهب مكللة باللؤلؤ لأي نبي هذا أو لأي صديق هذا أو لأي شهيد هذا ؟ قال: هذا لمن أعطى الثمن ، قال: يا رب ومن يملك ذلك ؟ قال: أنت تملكه ، قال: بماذا ؟ قال: بعفوك عن أخيك ، قال: يا رب فإني قد عفوت عنه ، قال الله عز وجل: فخذ بيد أخيك فأدخله الجنة " فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك: " اتقوا الله وأصلحوا ذات بينكم فإن الله تعالى يصلح بين المسلمين "
(مستدرک حاکم ، حدیث نمبر :8781 )

قال المنذري: رواه الحاكم والبيهقي في البعث كلاهما عن عباد بن شيبة الحبطي عن سعيد بن أنس عنه. وقال الحاكم: صحيح الإسناد! كذا قال اهـ.
فاستنكر المنذري تصحيح الحاكم له، وكذا تعقبه الذهبي فقال: عباد ضعيف، وشيخه لا يعرف اهـ.
وقال ابن كثير: إسناد غريب، وسياق غريب، ومعنى حسن عجيب اهـ.
وقال البوصيري في إتحاف الخيرة: رواه أبو يعلى الموصلي بسند ضعيف؛ لضعف سعيد بن أنس وعباد بن شيبة اهـ. والحديث ضعفه الألباني جدا.



والله أعلم.
یعنی : امام منذری فرماتے ہیں :اس روایت کو حاکم اور بیہقی نے روایت کیا اور دونوں کی سند میں ۔۔ عباد بن شيبة ۔۔ہے ،اس کے باوجود حاکم اس کو صحیح کہا ہے !
گویا اس طرح علامہ منذری نے حاکم کی تصحیح کو غلط قرار دیا ۔اور علامہ الذہبی نے بھی اس کا تعاقب کیا ہے اور کہا ہے کہ : عباد بن شيبة ۔ضعیف ہے، اور اس کا شیخ مجہول ہے ۔
اور علامہ البوصیری ؒ نے اتحاف الخیرہ میں اور علامہ الالبانی نے ضعیف الترغیب میں اسے بہت ضعیف کہا ہے ۔

(http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=134615 )
 
Last edited:
Top