کیا حقوق العباد صرف بندے(جس کی حق تلفی کی گئی ہو) کے معاف کرنے سے ہی معاف ہوں گے؟ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی شرک کے علاوہ تمام گناہ معاف کر دے گا تو کیا اس میں حقوق العباد بھی شامل ہے؟؟؟
مثلاً اگر اللہ سبحانہ وتعالی ایک مؤحد بندہ جس کو معاف کر دیتا ہے اور جنت میں داخل کرنا چاہتا ہے لیکن اس بندے نے کسی بندے (مسلمان ،کافر) کی حق تلفی کی ہے وہ بندہ (مسلمان یا کافر) اسے معاف کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو کیا اللہ سبحانہ وتعالی اسے جہنم میں پھینک دیں گے؟؟ کیونکہ بہت مرتبہ سُنا ہے جب تک اگلا بندہ اسے معاف نہ کرے اللہ سبحانہ وتعالی بھی اُسے معاف نہیں کرے گا تو اس صورت میں کیا ہو گا؟؟ کیونکہ بہت سے لوگ اس بات کو دلیل بنا کر یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ حقوق اللہ تو اللہ سبحانہ وتعالی معاف کر دے گا بیشک وہ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے لیکن حقوق العباد جب تک بندہ (جس کی حق تلفی کی گئی ہو) نہیں چاہے گا تب تک معاف نہیں ہوں گے۔اور جب کسی کو نماز کی دعوت دی جائے تو سب سے پہلے یہی بات سننے کی ملتی ہے پہلے حقوق العباد پورے کرو پھر حقوق اللہ کی بات کرنا یعنی (اللہ سبحانہ وتعالی نے تو معاف کر دینا ہے بندوں نے نہیں)تو میں اس سلسلے میں تھوڑاسا کنفیوز ہوں آپ سب اہل علم بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس کا مفصل جواب دیں
اگر صورتحال اس طرح ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوئی ہے کہ اللہ معاف کرنا چاہتا ہے اور بندہ کہتا ہے میں نے نہیں کرنا تو اگر یہ کہا جائے کہ اللہ اسے معاف نہیں کرے گا جب تک اسے اگلا بندہ نہ معاف کرے تو پھر انسان کی مشیت کو اللہ کی مشیت پر غالب تسلیم کرنا پڑے گا جو کہ صریحاً کفر ہے اگر کہا جائے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اسے پھر بھی معاف کر دے گا پھر اس بات کو جھوٹ کہنا پڑے گا کہ حقوق العباد تب ہی معاف ہوں گے جب بندہ چاہے گا
اسی تناظر میں چند سوالات ہیں اُمید ہےاہل علم راہنمائی فرمائیں گے۔
(1) کیا حقوق العباد توبہ سے معاف نہیں ہوتے؟؟ یا اُس بندے (جس کی حق تلفی کی گئی ہو) نے جب تک معاف نہیں کرنا تب تک معاف نہیں ہوں گے اگر وہ اپنی زندگی میں اُ س سے معافی نہ مانگ سکا ہو تو کیاقیامت کے دن اسے معافی کا موقع دیا جائے گا؟
(2) اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے “آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز،روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں گھسیٹ کر پھینک دیا جائے گا” (رواہ مسلم)
اس حدیث میں حقوق العباد کی بابت جہنم کی وعید سنائی گئی ہےاس کا صحیح مفہوم کیا ہے مثلاً اگر کسی بندے نے جان بوجھ کر کسی کی حق تلفی کی ہے تو جب تک وہ اُسے معاف نہیں کرے گا تب تک اللہ سبحانہ وتعالی اسے جہنم میں ہی رکھے گا ؟؟
(3) کیا اس حدیث کی سندصحیح ہے؟؟اگر درست ہے تو اس کا کیا معنی ہو گا ؟؟ اگر اس نے کسی کافر کے ساتھ زیادتی کی ہو گی اُس کا حق تلف کیا ہو گا؟ ظاہری بات ہے اُسے تو جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا نا؟؟؟ یہ حدیث تو دو مسلمانوں کے متعلقہ ہے جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا حق تلف کرتا ہے یہی وہ کسی کافر کے ساتھ کرے تو اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا؟؟
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم آقائے دوجہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ اچانک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے ہیں حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے والے دانت نمودار ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس بات نے ہنسایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! میری امت کے دو آدمی رب العزت کی بارگاہ میں گھٹنوں کے بل پیش ہوتے ہوئے دکھائے گئے ہیں ان میں سے ایک نے کہا اے رب! میرے اس ظالم بھائی سے میرے ظلم کا حساب لے کر دیں اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا تو اپنے ظالم بھائی سے کیا چاہتا ہے حالانکہ اس کے پاس نیکیوں میں سے کچھ نہیں بچا(یعنی اس کے پاس تو صرف گناہ ہی ہیں ) ؟ تو اس نے عرض کیا یارب! میرے گناہ ہی اس پر لاد دیں یہ ذکر کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے پھر فرمایا یہ دن بہت بڑا ہوگا لوگ اس کے محتاج ہوں گے کہ ان کے گناہوں کے بوجھ اٹھا دئیے جائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ اس مطالبہ کرنے والے کو فرمائیں گے اپنی نظر اٹھا اور دیکھ وہ نظر اٹھا کر دیکھے گا اور کہے گااے رب! میں سونے کے شہر اور سونے کے محلات دیکھ رہا ہوں لئو لئو کے تاج سجائے ہوئے ہیں یہ کس نبی کیلئے ہیں یا کس صدیق کیلئے ہیں یا یہ کس شہید کیلئے ہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جو اس کی قیمت دے گا وہ اس کیلئے ہیں۔وہ عرض کریگا یارب ان کا کون مالک بن سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو اس کا مالک بنے گا وہ عرض کریگا کس عمل کی وجہ سے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اپنے اس بھائی کو معاف کردینے سے۔وہ عرض کرےگا یارب! میں نے اس کو معاف کیا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ چلو اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو اور اس کو بھی جنت میں لے جاؤ۔یہ حدیث بیان فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسی لیے اللہ سے تقویٰ اختیار کرو اور آپس میں صلح کے ساتھ رہو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان صلح چاہتے ہیں۔(حاکم وقال صحیح الاسناد)
مثلاً اگر اللہ سبحانہ وتعالی ایک مؤحد بندہ جس کو معاف کر دیتا ہے اور جنت میں داخل کرنا چاہتا ہے لیکن اس بندے نے کسی بندے (مسلمان ،کافر) کی حق تلفی کی ہے وہ بندہ (مسلمان یا کافر) اسے معاف کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو کیا اللہ سبحانہ وتعالی اسے جہنم میں پھینک دیں گے؟؟ کیونکہ بہت مرتبہ سُنا ہے جب تک اگلا بندہ اسے معاف نہ کرے اللہ سبحانہ وتعالی بھی اُسے معاف نہیں کرے گا تو اس صورت میں کیا ہو گا؟؟ کیونکہ بہت سے لوگ اس بات کو دلیل بنا کر یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ حقوق اللہ تو اللہ سبحانہ وتعالی معاف کر دے گا بیشک وہ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے لیکن حقوق العباد جب تک بندہ (جس کی حق تلفی کی گئی ہو) نہیں چاہے گا تب تک معاف نہیں ہوں گے۔اور جب کسی کو نماز کی دعوت دی جائے تو سب سے پہلے یہی بات سننے کی ملتی ہے پہلے حقوق العباد پورے کرو پھر حقوق اللہ کی بات کرنا یعنی (اللہ سبحانہ وتعالی نے تو معاف کر دینا ہے بندوں نے نہیں)تو میں اس سلسلے میں تھوڑاسا کنفیوز ہوں آپ سب اہل علم بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس کا مفصل جواب دیں
اگر صورتحال اس طرح ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوئی ہے کہ اللہ معاف کرنا چاہتا ہے اور بندہ کہتا ہے میں نے نہیں کرنا تو اگر یہ کہا جائے کہ اللہ اسے معاف نہیں کرے گا جب تک اسے اگلا بندہ نہ معاف کرے تو پھر انسان کی مشیت کو اللہ کی مشیت پر غالب تسلیم کرنا پڑے گا جو کہ صریحاً کفر ہے اگر کہا جائے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اسے پھر بھی معاف کر دے گا پھر اس بات کو جھوٹ کہنا پڑے گا کہ حقوق العباد تب ہی معاف ہوں گے جب بندہ چاہے گا
اسی تناظر میں چند سوالات ہیں اُمید ہےاہل علم راہنمائی فرمائیں گے۔
(1) کیا حقوق العباد توبہ سے معاف نہیں ہوتے؟؟ یا اُس بندے (جس کی حق تلفی کی گئی ہو) نے جب تک معاف نہیں کرنا تب تک معاف نہیں ہوں گے اگر وہ اپنی زندگی میں اُ س سے معافی نہ مانگ سکا ہو تو کیاقیامت کے دن اسے معافی کا موقع دیا جائے گا؟
(2) اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے “آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز،روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں گھسیٹ کر پھینک دیا جائے گا” (رواہ مسلم)
اس حدیث میں حقوق العباد کی بابت جہنم کی وعید سنائی گئی ہےاس کا صحیح مفہوم کیا ہے مثلاً اگر کسی بندے نے جان بوجھ کر کسی کی حق تلفی کی ہے تو جب تک وہ اُسے معاف نہیں کرے گا تب تک اللہ سبحانہ وتعالی اسے جہنم میں ہی رکھے گا ؟؟
(3) کیا اس حدیث کی سندصحیح ہے؟؟اگر درست ہے تو اس کا کیا معنی ہو گا ؟؟ اگر اس نے کسی کافر کے ساتھ زیادتی کی ہو گی اُس کا حق تلف کیا ہو گا؟ ظاہری بات ہے اُسے تو جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا نا؟؟؟ یہ حدیث تو دو مسلمانوں کے متعلقہ ہے جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا حق تلف کرتا ہے یہی وہ کسی کافر کے ساتھ کرے تو اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا؟؟
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم آقائے دوجہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ اچانک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے ہیں حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے والے دانت نمودار ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس بات نے ہنسایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! میری امت کے دو آدمی رب العزت کی بارگاہ میں گھٹنوں کے بل پیش ہوتے ہوئے دکھائے گئے ہیں ان میں سے ایک نے کہا اے رب! میرے اس ظالم بھائی سے میرے ظلم کا حساب لے کر دیں اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا تو اپنے ظالم بھائی سے کیا چاہتا ہے حالانکہ اس کے پاس نیکیوں میں سے کچھ نہیں بچا(یعنی اس کے پاس تو صرف گناہ ہی ہیں ) ؟ تو اس نے عرض کیا یارب! میرے گناہ ہی اس پر لاد دیں یہ ذکر کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے پھر فرمایا یہ دن بہت بڑا ہوگا لوگ اس کے محتاج ہوں گے کہ ان کے گناہوں کے بوجھ اٹھا دئیے جائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ اس مطالبہ کرنے والے کو فرمائیں گے اپنی نظر اٹھا اور دیکھ وہ نظر اٹھا کر دیکھے گا اور کہے گااے رب! میں سونے کے شہر اور سونے کے محلات دیکھ رہا ہوں لئو لئو کے تاج سجائے ہوئے ہیں یہ کس نبی کیلئے ہیں یا کس صدیق کیلئے ہیں یا یہ کس شہید کیلئے ہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جو اس کی قیمت دے گا وہ اس کیلئے ہیں۔وہ عرض کریگا یارب ان کا کون مالک بن سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو اس کا مالک بنے گا وہ عرض کریگا کس عمل کی وجہ سے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اپنے اس بھائی کو معاف کردینے سے۔وہ عرض کرےگا یارب! میں نے اس کو معاف کیا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ چلو اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو اور اس کو بھی جنت میں لے جاؤ۔یہ حدیث بیان فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسی لیے اللہ سے تقویٰ اختیار کرو اور آپس میں صلح کے ساتھ رہو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان صلح چاہتے ہیں۔(حاکم وقال صحیح الاسناد)