محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِہٖ شَئًْا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَۨا۳۶ۙ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ وَيَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُوْنَ مَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۰ۭ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّہِيْنًا۳۷ۚ وَالَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ وَمَنْ يَّكُنِ الشَّيْطٰنُ لَہٗ قَرِيْنًا فَسَاۗءَ قَرِيْنًا۳۸ وَمَاذَا عَلَيْہِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَھُمُ اللہُ۰ۭ وَكَانَ اللہُ بِہِمْ عَلِيْمًا۳۹ اِنَّ اللہَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ۰ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَنَۃً يُّضٰعِفْھَا وَيُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِيْمًا۴۰
۱؎ ان آیات میں خدا سے لے کر غلام تک کے ساتھ صحیح تعلق رکھنے کی تلقین ہے کہ جہاں اللہ کی عبادت کرو، وہاں اس کا مظاہرہ تمہارے اعمال سے بھی ہو۔
۲؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے معنی یہ ہیں کہ اس میں کسی ریاکاری کو دخل نہ ہو اور نہ کوئی شیطانی جذبہ اس میں کارفرماہو۔
خالصتاً اللہ کے لیے، اللہ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق خرچ کیا جائے ۔اگرخدا پر یقین نہ ہو اورآخرت سے دل لرزاں نہ ہو تو یاد رکھیے کوئی عمل قابل قبول نہیں۔
۳؎ خدا ئے تعالیٰ اس درجہ رؤف ورحیم ہے کہ باوجود حق واختیار کے وہ کسی کی حق تلفی نہ کرے گا اورنیکیوں کو بڑھاتا رہے گا اوراپنی طرف سے اجر عظیم عنایت فرمائے گا۔ یعنی وہ ہمہ احسان وجمال ہے ، ہمارے گناہوں کو بنظر ترحم دیکھے گا اورہماری حسنات کو بہ نگاہِ فضل وامتنان۔بات یہ ہے کہ اس کی شان کریمی بہرحال آمادہ بخشش ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کا ایک بھی بندہ جہنم میں جائے ۔ یہ نیکیوں کو بڑھانا اورگناہ کی تکفیر تو بہانے ہیں اور وسائل وذرائع اپنی آغوش رحمت میں لینے کے اور ظاہر ہے جب تک وہ زائداز استحقاق فضل وعنایات سے کام نہ لے، عاصی وگناہگار انسان کے لیے نجات کی کیا امید ہوسکتی ہے۔ اس کی نعمتیں اس قدر وسیع وبے حد ہیں کہ ساری زندگی کی عبادتیں اورریاضتیں ''شکریہ'' کے مرتبے سے آگے نہیں بڑھتیں۔ پھر یہ اس کا کتنا بڑااحسان ہے کہ وہ ہماری حقیر ''خدمات'' کو درخورِ اعتنا جانتا ہے اورہمیں بخشش عام کا مستحق قرار دیتا ہے
{وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ} جو تمہارے قبضۂ ملک میں ہوں{مُخْتَالٌ} متکبر۔ {فَخُوْرٌ} شیخی بگھارنے والا۔
اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین اور قرابتیوں اوریتیموں اورمحتاجوں سے اور قریبی ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اور پاس بیٹھنے والے اور مسافر اور لونڈی غلام سے نیکی کرو۔ خدا کسی اترانے والے اور بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔۱؎ (۳۶)وہ جو بخل کرتے اور لوگوں کو بخل سکھلاتے ہیں اورجو کچھ اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے اسے چھپاتے ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے رسوائی کا عذاب تیار کررکھا ہے۔(۳۷) اورجو اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اوروہ اللہ اورآخری دن پر ایمان نہیں رکھتے اور جس کا ساتھی شیطان ہوا، اس کا بہت برا ساتھی ہوگیا۔(۳۸) اوراگر وہ اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان لاتے اور جو ہم نے دیا ہے خرچ کرتے تو ان کا کیا نقصان ہوجاتا اور اللہ ان کو جانتا ہے ۔۲؎(۳۹) بے شک اللہ ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا اوراگرنیکی ہوتو اس کو دوچند کردیتا ہے اوراپنی طرف سے بڑا ثواب دیتا ہے۔۳؎(۴۰)
حقوق اللہ ادا نہ کرنے والا حقوق العباد بھی ادا نہیں کر سکتا
۱؎ ان آیات میں خدا سے لے کر غلام تک کے ساتھ صحیح تعلق رکھنے کی تلقین ہے کہ جہاں اللہ کی عبادت کرو، وہاں اس کا مظاہرہ تمہارے اعمال سے بھی ہو۔
۲؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے معنی یہ ہیں کہ اس میں کسی ریاکاری کو دخل نہ ہو اور نہ کوئی شیطانی جذبہ اس میں کارفرماہو۔
خالصتاً اللہ کے لیے، اللہ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق خرچ کیا جائے ۔اگرخدا پر یقین نہ ہو اورآخرت سے دل لرزاں نہ ہو تو یاد رکھیے کوئی عمل قابل قبول نہیں۔
۳؎ خدا ئے تعالیٰ اس درجہ رؤف ورحیم ہے کہ باوجود حق واختیار کے وہ کسی کی حق تلفی نہ کرے گا اورنیکیوں کو بڑھاتا رہے گا اوراپنی طرف سے اجر عظیم عنایت فرمائے گا۔ یعنی وہ ہمہ احسان وجمال ہے ، ہمارے گناہوں کو بنظر ترحم دیکھے گا اورہماری حسنات کو بہ نگاہِ فضل وامتنان۔بات یہ ہے کہ اس کی شان کریمی بہرحال آمادہ بخشش ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کا ایک بھی بندہ جہنم میں جائے ۔ یہ نیکیوں کو بڑھانا اورگناہ کی تکفیر تو بہانے ہیں اور وسائل وذرائع اپنی آغوش رحمت میں لینے کے اور ظاہر ہے جب تک وہ زائداز استحقاق فضل وعنایات سے کام نہ لے، عاصی وگناہگار انسان کے لیے نجات کی کیا امید ہوسکتی ہے۔ اس کی نعمتیں اس قدر وسیع وبے حد ہیں کہ ساری زندگی کی عبادتیں اورریاضتیں ''شکریہ'' کے مرتبے سے آگے نہیں بڑھتیں۔ پھر یہ اس کا کتنا بڑااحسان ہے کہ وہ ہماری حقیر ''خدمات'' کو درخورِ اعتنا جانتا ہے اورہمیں بخشش عام کا مستحق قرار دیتا ہے
حل لغات
{وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ} جو تمہارے قبضۂ ملک میں ہوں{مُخْتَالٌ} متکبر۔ {فَخُوْرٌ} شیخی بگھارنے والا۔