حقیقت اسلام کیا ہے؟
ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ عیسائیوں کا روزہ ہمارے روزوں سے مختلف ہوا کرتا تھا، اور یہودیوں کے ہاں نماز کی صورت کچھ اور ہوا کرتی تھی اور عبادت کے کچھ اور طریقے رائج تھے وغیرہ وغیرہ. لیکن پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ تمام انبیاء کا دین اسلام تھا، کیوں؟؟
ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ اسلام کے آغاز میں وہ تمام فرائض اس طرح سے لاگو نہ تھے جیسا کہ آج ہم ادا کرتے ہیں، مثلا روزے مدینہ منورہ میں آکر فرض ہوئے، زکوۃ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا اور نماز بھی معراج پر اس حالت اور اوقات کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عنایت کی گئی.ان سب سے بھی پہلے اسلام کیا تھا؟؟
اس کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کا شدید ترین مشکلات اور مصائب سے اٹا ہوا دور بھی یہی مکی دور تھا، جب بلال اور عمار بن یاسر ، خباب بن ارت اور عثمان ابن عفان جیسی ہستیاں پہار کی سی استقامت کے ساتھ لرزہ خیز مظالم کا سامنا خندہ پیشانی سے کیا کرتے تھے، کیوں؟؟
اور تو اور مشرکین مکہ بھی مسئلے کے حل کی طرف آنا بھی اپنی توہین خیال کرتے ہوئے مرنے مارنے پر تو امادہ تھے لیکن چند الفاط منہ سے نکالنا انہیں گوارا نہ تھا. . . .لاالہ الا اللہ !!! کیوں؟؟
میرے بھائیو اور بہنو!اسلام کی اولین اساس، بنیاد، اور حقیقت ....لاالہ الا اللہ ہے
اسی حقیقت کی بنیاد پر انبیاء کا دین ایک تھا،یہی ان کی پہچان تھی کہ اسی حقیقت کو وہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ بیان کرتے تھے، اور اسی حقیقت کو تسلیم کرنے کی دعوت، اسی کو اچھی طرح دل و دماغ میں اتارنے اور پوری زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنا ان کا منشور تھا..... یہی حقیقت نماز روزہ حج زکوۃ سے بھی پہلے تھی، اسی کے لیے ہر نبی کے ماننے والوں نے ہر مشکل برداشت کی، اور اسی کا انکار کرنے والوں نے ان پر ہر عذاب مسلط کر کے دیکھ لیا ....!!!
یقینا یہ چند الفاظ نہ تھے، روح سے عاری وہ الفاظ جو آج ہم ادا کرتے ہیں، یہ اپنی اصلی روح کے ساتھ نظام زندگی کو بدل کر رکھ دینے والی حقیقت تھی جسے لاالہ الا اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے
یہاں پر سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کا ایک اقتباس دینا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ حقیقت اور "ظاہری صورت" کا فرق نکھر کر سامنے آجائے اور حقیقتِ اسلام کی اس گفتگو کا مدعا اور اہمیت بھی واضح ہو جائے ،فرماتے ہیں::
""صورت اور حقیقت میں بہت بڑا فرق ہے::
ایک چیز کی ایک صورت ہوتی ہے اور ایک حقیقت ، ان دونوں میں بہت بڑی مشابہت کے باوجود بہت بڑا فرق بھی ہوتا ہے ، آپ روزہ مرہ کی زندگی میں صورت او رحقیقت اور ان کے فرق سے خوب واقف ہیں ۔ میں اس کی دو مثالیں دیتا ہوں، آپ نے مٹی کے پھل دیکھے ہوں گے جو بالکل اصلی پھل معلوم ہوتے ہیں، لیکن صورت وحقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہے ، اصل آم کوئی اور چیز ہے اور مٹی کا نقلی آم کوئی اور چیز ، مٹی کے آم میں نہ اصلی آم کا ذائقہ ہے، نہ خوشبو، نہ رس، نہ نرمی، نہ اس کی خاصیتیں، صرف آم کی شکل ہے او راس کا رنگ وروغن، اس لیے اس کو آم کہیں گے، مگر مٹی کا آم، یہ مٹی کا آم دیکھنے بھرکا ہے، نہ کھانے کا ،نہ سونگھنے کا ،نہ ذائقہ ،نہ خوشبو۔
آپ مردہ عجائب خانہ میں گئے ہوں گے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ وہاں سب درندے اور سب جانور موجود ہیں ، شیر بھی ہے اور ہاتھی بھی ،تیندوا بھی اور چیتا بھی، مگر بے حقیقت، بھُس بھری ہوئی کھالیں، جن میں نہ کوئی جان ہے ،نہ طاقت شیر ہے، مگر نہ اس کی آواز ہے، نہ غصہ، نہ طاقت ہے، نہ ہیبت۔
حقیقت کے مقابلہ میں صورت کی شکست::
اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صورت کبھی حقیقت کے قائم مقام نہیں ہو سکتی ، صورت سے حقیقت کے خواص کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے، صورت کبھی حقیقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی، صورت کبھی حقیقت کا بوجھ سنبھال نہیں سکتی، جب صورت کسی حقیقت کے مقابلے میں آئے گی، اس کو شکست کھانا پڑے گی، جب صورت پر کسی حقیقت کا بوجھ ڈالا جائے گا صورت کی پوری عمارت زمین پر آرہے گی۔
صورت اور حقیقت کا یہ فرق ہر جگہ نمایاں ہو گا۔ ہر جگہ صورت کو حقیقت کے سامنے پسپا ہونا پڑے گا۔ یہاں تک کہ عظیم سے عظیم اور مہیب سے مہیب صورت اگر حقیر سے حقیر حقیقت کے مقابلہ میں آئے گی تو اس کو مغلوب ہونا پڑے گا۔ اس لیے ہر چھوٹی سے چھوٹی حقیقت ہر بڑی سے بڑی صورت کے مقابلہ میں زیادہ طاقت رکھتی ہے ، حقیقت ایک طاقت ہے، ایک ٹھوس وجود ہے ، صورت ایک خیال ہے ، دیکھیے! ایک چھوٹا سا بچہ اپنے کمزور ہاتھ کے اشارہ سے ایک بھُس بھرے مردہ شیر کو دھکا دے سکتا ہے ، اس کو زمین پر گرا سکتا ہے، اس لیے کہ بچہ خواہ کتنا ہی کمزور سہی ایک حقیقت رکھتا ہے، شیر اس وقت صرف صورت ہی صورت ہے ، بچہ کی حقیقت شیر کی صورت پر آسانی سے غالب آجاتی ہے۔
سید صاحب کا یہ پورا مضمون ہی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے.
ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ عیسائیوں کا روزہ ہمارے روزوں سے مختلف ہوا کرتا تھا، اور یہودیوں کے ہاں نماز کی صورت کچھ اور ہوا کرتی تھی اور عبادت کے کچھ اور طریقے رائج تھے وغیرہ وغیرہ. لیکن پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ تمام انبیاء کا دین اسلام تھا، کیوں؟؟
ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ اسلام کے آغاز میں وہ تمام فرائض اس طرح سے لاگو نہ تھے جیسا کہ آج ہم ادا کرتے ہیں، مثلا روزے مدینہ منورہ میں آکر فرض ہوئے، زکوۃ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا اور نماز بھی معراج پر اس حالت اور اوقات کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عنایت کی گئی.ان سب سے بھی پہلے اسلام کیا تھا؟؟
اس کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کا شدید ترین مشکلات اور مصائب سے اٹا ہوا دور بھی یہی مکی دور تھا، جب بلال اور عمار بن یاسر ، خباب بن ارت اور عثمان ابن عفان جیسی ہستیاں پہار کی سی استقامت کے ساتھ لرزہ خیز مظالم کا سامنا خندہ پیشانی سے کیا کرتے تھے، کیوں؟؟
اور تو اور مشرکین مکہ بھی مسئلے کے حل کی طرف آنا بھی اپنی توہین خیال کرتے ہوئے مرنے مارنے پر تو امادہ تھے لیکن چند الفاط منہ سے نکالنا انہیں گوارا نہ تھا. . . .لاالہ الا اللہ !!! کیوں؟؟
میرے بھائیو اور بہنو!اسلام کی اولین اساس، بنیاد، اور حقیقت ....لاالہ الا اللہ ہے
اسی حقیقت کی بنیاد پر انبیاء کا دین ایک تھا،یہی ان کی پہچان تھی کہ اسی حقیقت کو وہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ بیان کرتے تھے، اور اسی حقیقت کو تسلیم کرنے کی دعوت، اسی کو اچھی طرح دل و دماغ میں اتارنے اور پوری زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنا ان کا منشور تھا..... یہی حقیقت نماز روزہ حج زکوۃ سے بھی پہلے تھی، اسی کے لیے ہر نبی کے ماننے والوں نے ہر مشکل برداشت کی، اور اسی کا انکار کرنے والوں نے ان پر ہر عذاب مسلط کر کے دیکھ لیا ....!!!
یقینا یہ چند الفاظ نہ تھے، روح سے عاری وہ الفاظ جو آج ہم ادا کرتے ہیں، یہ اپنی اصلی روح کے ساتھ نظام زندگی کو بدل کر رکھ دینے والی حقیقت تھی جسے لاالہ الا اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے
یہاں پر سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کا ایک اقتباس دینا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ حقیقت اور "ظاہری صورت" کا فرق نکھر کر سامنے آجائے اور حقیقتِ اسلام کی اس گفتگو کا مدعا اور اہمیت بھی واضح ہو جائے ،فرماتے ہیں::
""صورت اور حقیقت میں بہت بڑا فرق ہے::
ایک چیز کی ایک صورت ہوتی ہے اور ایک حقیقت ، ان دونوں میں بہت بڑی مشابہت کے باوجود بہت بڑا فرق بھی ہوتا ہے ، آپ روزہ مرہ کی زندگی میں صورت او رحقیقت اور ان کے فرق سے خوب واقف ہیں ۔ میں اس کی دو مثالیں دیتا ہوں، آپ نے مٹی کے پھل دیکھے ہوں گے جو بالکل اصلی پھل معلوم ہوتے ہیں، لیکن صورت وحقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہے ، اصل آم کوئی اور چیز ہے اور مٹی کا نقلی آم کوئی اور چیز ، مٹی کے آم میں نہ اصلی آم کا ذائقہ ہے، نہ خوشبو، نہ رس، نہ نرمی، نہ اس کی خاصیتیں، صرف آم کی شکل ہے او راس کا رنگ وروغن، اس لیے اس کو آم کہیں گے، مگر مٹی کا آم، یہ مٹی کا آم دیکھنے بھرکا ہے، نہ کھانے کا ،نہ سونگھنے کا ،نہ ذائقہ ،نہ خوشبو۔
آپ مردہ عجائب خانہ میں گئے ہوں گے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ وہاں سب درندے اور سب جانور موجود ہیں ، شیر بھی ہے اور ہاتھی بھی ،تیندوا بھی اور چیتا بھی، مگر بے حقیقت، بھُس بھری ہوئی کھالیں، جن میں نہ کوئی جان ہے ،نہ طاقت شیر ہے، مگر نہ اس کی آواز ہے، نہ غصہ، نہ طاقت ہے، نہ ہیبت۔
حقیقت کے مقابلہ میں صورت کی شکست::
اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صورت کبھی حقیقت کے قائم مقام نہیں ہو سکتی ، صورت سے حقیقت کے خواص کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے، صورت کبھی حقیقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی، صورت کبھی حقیقت کا بوجھ سنبھال نہیں سکتی، جب صورت کسی حقیقت کے مقابلے میں آئے گی، اس کو شکست کھانا پڑے گی، جب صورت پر کسی حقیقت کا بوجھ ڈالا جائے گا صورت کی پوری عمارت زمین پر آرہے گی۔
صورت اور حقیقت کا یہ فرق ہر جگہ نمایاں ہو گا۔ ہر جگہ صورت کو حقیقت کے سامنے پسپا ہونا پڑے گا۔ یہاں تک کہ عظیم سے عظیم اور مہیب سے مہیب صورت اگر حقیر سے حقیر حقیقت کے مقابلہ میں آئے گی تو اس کو مغلوب ہونا پڑے گا۔ اس لیے ہر چھوٹی سے چھوٹی حقیقت ہر بڑی سے بڑی صورت کے مقابلہ میں زیادہ طاقت رکھتی ہے ، حقیقت ایک طاقت ہے، ایک ٹھوس وجود ہے ، صورت ایک خیال ہے ، دیکھیے! ایک چھوٹا سا بچہ اپنے کمزور ہاتھ کے اشارہ سے ایک بھُس بھرے مردہ شیر کو دھکا دے سکتا ہے ، اس کو زمین پر گرا سکتا ہے، اس لیے کہ بچہ خواہ کتنا ہی کمزور سہی ایک حقیقت رکھتا ہے، شیر اس وقت صرف صورت ہی صورت ہے ، بچہ کی حقیقت شیر کی صورت پر آسانی سے غالب آجاتی ہے۔
سید صاحب کا یہ پورا مضمون ہی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے.