- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
حقیقت ایمان و کفر
جب یہ مقرر ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء صرف مومن اور متقی ہوتے ہیں تو چونکہ لوگ ایمان و تقویٰ میں باہم تفاوت رکھتے ہیں، اسی نسبت سے وہ ولایت میں بھی متفاوت ہوں گے ہیں جیسا کہ اولیاء الشیطان ،کفر و نفاق میں باہم متفاوت ہیں، اسی کے مطابق اللہ کی عداوت میں کم و بیش درجہ پر ہوتے ہیں۔ ایمان اور تقویٰ کی اساس اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر ایمان لانا ہے جس کا جامع اور لب لباب ختم المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہے۔ سو اُن پر ایمان لانا اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبروں اور کتابوں پر ایمان لانا ہے اور کفر و نفاق کی اصل یہ ہے کہ پیغمبروں اور ان کے لائے ہوئے احکام سے انکار کر دیا جائے اور یہی وہ کفر ہے جس کی بنا پر اس عقیدہ کے حامل کو آخرت میں عذاب ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خبر دی ہے کہ وہ کسی کو عذاب نہیں دیتا جب تک کہ اس کے پاس رسالت نہ پہنچ جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا ﴿١٥﴾ بنی اسرائیل
اور فرمایا:’’اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیتے کہ جب تک پیغمبر نہ بھیج لیں۔‘‘
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ﴿١٦٣﴾ وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ﴿١٦٤﴾ رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٦٥﴾ النساء
اہل دوزخ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ہم نے تمہاری طرف وحی کی جیسا کہ ہم نے نوح اور دیگر نبیوں کی طرف وحی کی جو کہ انکے بعد تھے اور جس طرح ہم نے ابراہیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، اسحق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام اور اولاد یعقوب علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام ، ایوب علیہ السلام ، یونس علیہ السلام ، ہارون علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام کی طرف بھیجی تھی اور دائود کو ہم نے زبور کتاب عنایت کی۔ بعض پیغمبروں کے قصے ہم نے تم سے بیان کر دئیے اور بعض پیغمبروں کے حالات ہم نے تمہارے سامنے بیان نہیں کیے اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے باتیں کیں اور خوب کیں۔ سب پیغمبروں کو جنت کی خوشخبری دینے والے اور برے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے والے بنا کر بھیجا تاکہ پیغمبروں کے آجانے کے بعد لوگوں کو اللہ پر کسی الزام کا موقع باقی نہ رہے اور وہ غالب، حکمت والا ہے۔‘‘
كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ ﴿٨﴾ قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ ﴿٩﴾ الملک
اس آیت نے یہ خبر دی کہ جب بھی کسی گروہ کو پھینکا جائے گا تو وہ لوگ اقرار کریں گے کہ ان کے پاس ڈرانے والا آیا تھا اور انہوں نے اسے جھٹلایا تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ دوزخ میں صرف وہ جماعت ڈالی جائے گی جس نے ڈرانے والے (نبی) کی تکذیب کی ہو۔’’جب بھی اس دوزخ میں کوئی جماعت جھونکی جائے گی تو اس کے دربان اس جماعت سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ کہیں گے ہاں آیا لیکن ہم نے اسے جھٹلا دیا اور کہہ دیا کہ اللہ نے کوئی چیز نازل نہیں کی تم ضرور بڑی گمراہی میں پڑے ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو مخاطب کر کے فرمایا:
لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٨٥﴾ ص
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو ابلیس کی پیروی کرنے والوں سے بھر دے گا اور جب جہنم بھر جائے گی تو اس میں اور کسی کی گنجائش نہ ہوگی۔ اس لیے جہنم میں صرف وہ لوگ داخل ہوں گے جو شیطان کی پیروی کریں گے۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کا کوئی گناہ نہ ہوگا وہ دوزخ میں داخل نہ ہوگا کیونکہ وہ اس جماعت سے ہوگا جس نے شیطان کی پیروی نہیں کی اور گناہ گار نہیں بنا اور اس سے پہلے یہ ذکر آچکا ہے کہ دوزخ میں صرف وہ لوگ داخل ہوں گے۔ جن پر پیغمبروں کے ذریعے سے حجت پوری ہوچکی ہے۔’’میں ضرور جہنم کو تجھ سے اور تیری پیروی کرنے والوں سے بھروں گا۔‘‘
الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ