عبداللہ کشمیری
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 08، 2012
- پیغامات
- 576
- ری ایکشن اسکور
- 1,657
- پوائنٹ
- 186
مقرّینِ نبوّتِ خضر علیہ السلام کے دلائل !
ابن کثیر رحمہ اللہ البدایة والنّھایة میں لکھتے ہیں کہ قصّہ ( خضر و موسیٰ علیہما السلام ) کا سیاق کئی وجوہ سے ان کی نبوت پر دلالت کرتا ہیں ۔
۱۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : ((فوجدا عبدا من عبادنا آتيناه رحمة من عندنا وعلمناه من لدنا علما۔ کھف ۶۵ ))
ترجمہ:تو ان دونو نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسکو ہم نے اپنی طرف سے رحمت عطا کی اور اپنی طرف سے اسکو ایک علم سکھایا ،،
( صاف اور ظاہر سی بات ہے کہ جب اللہ تعالیٰ یہ فرمائے کہ میں نے کسی کو اپنی طرف سے ایک خاص علم سکھایا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اس نے اس کو وحی کے ضریعے وہ علم سکھایا ہوگا ۔
۲۔ موسیٰ علیہ السلام کا خضر علیہ السلام سے یہ کہنا :::هل أتبعك على أن تعلمن مما علمت رشدا قال إنك لن تستطيع معي صبرا وكيف تصبر على ما لم تحط به خبرا قال ستجدني إن شاء الله صابرا ولا أعصي لك أمرا قال فإن اتبعتني فلا تسألني عن شيء حتى أحدث لك منه ذكرا ::
اگر وہ صرف ایک ولی ہوتے، نبی نہ ہوتے تو موسیٰ علیہ السلام اس سے اسطرح مخاطب نہ ہوتے اور نا ہی موسیٰ علیہ السلام اسکو ایسا جواب دیتے ۔ بلکہ موسیٰ علیہ السلام نے تو ان کا ساتھ مانگا تاکہ وہ اس علم کو حاصل کرلے جو اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر خضر علیہ السلام کو دیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نہیں دیا اگر وہ نبی نہ ہوتے تو معصوم بھی نہ ہوتے اور نا ہی موسیٰ علیہ السلام کو ۔ جو کہ ایک عظیم المرتبہ نبی، بزرگ ترین رسول اور معصوم الخطا ہیں ۔ کسی ولی کے علم کی زیادہ طلب اور کوئی بڑی خواہش ہوتی جو کہ معصوم الخطا بھی نہ ہو ۔ اور نا ہی وہ اس کے پاس جانے اور اس سے معلومات لینے کا ارادہ کرتے جب کہ انہونے اس کی تلاش میں زمانے کا بڑا حصّہ صرف کیا ہیں ( ۸۰ سال ) ۔ پھر جب وہ ان سے ملے تو تواضع و انکساری اختیار کی اور ان کو (خضر علیہ السلام کو ) تعظیم دی اور کسی استفادہ کرنے والے کی صورت میں ان کے ساتھ ہولے ۔ یہ سب کچھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ایک نبی ہے جن پر اسی طرح وحی کی جاتی تھی جس طرح خود موسیٰ علیہ السلام پر وحی کی جاتی تھی اور ان کو ایسے دینی علوم اور اسرار نبوت سے سرفراز کیا گیا جن کے بارے بنو اسرائیل کے بزرگ ترین نبی موسیٰ کلیم اللہ کو بھی باخبر نہیں کیا ۔ اور اس طور سے خضر علیہ السلام کی نبوت پو دلیل پیش کی گئی ۔
۳۔ بے شک خضر علیہ السلام نے اس لڑکے کو مار ڈالنے کی جو جسارت کی وہ یونہی نہیں کی بلکہ اس وحی کیوجہ سے کی جو مالک کائنات اور علیم و خبیر نے انکی طرف وحی کی ۔ اور یہ بات ان کی نبوت پر ایک مستقل دلیل اور ان کی عصمت ( معصوم عن الخطاء) ہونے پر ایک واضح حجت ہیں۔ کیونکہ کسی ولی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ محض اس بناء پر انسانو کو مارڈالنے پر آمادہ ہوجائے جو اس کا دل کہے کیونکہ ولی کا قلب ومزاج معصومیت کا موجب نہیں ہوتا ۔ جبکہ اس سے خطاء و غلطی کے سرزد ہونے پر سبھی کا اتفاق ہے ۔ اور جب خضر علیہ السلام نے ایسے لڑکے کو ماڈالنے کا اقدام کیا جو جوانی کو نہیں پہونچا تھا اپنی اس علم کے مطابق جب وہ بڑا ہوگا تو وہ کفر کرے گا اور اپنے والدین کو بھی اپنے ساتھ ان کی شدید محبت کی وجہ سے کفر پر آمادہ کرے گا تو وہ دونو بھی اس پر ( کفر پر) اس کے پیچھے چلیں گے ۔ اس کے ( خضر علیہ السلام ) کے اس کام نے ایک عظیم مصلحت کو اجاگر کیا جو کہ اسکی ( لڑکے کی ) زندگی میں بڑھ جاتی اسکے والدین کو کفر میں گرفتار ہونے اور اس بچے کو سزا ہونے سے بچانے کی خاطر تھی ۔ یہ ان کی نبوت پر دلالت کرتی ہے اور اس بات پر بھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کی عصمت کے سلسلے میں مؤید تھے۔
۴۔ جب خضر علیہ السلام نے سبھی سرزد ہونے والے کاموں کی توجیہ موسیٰ علیہ السلام کے سامنے بیان کی اور انکے سامنے اپنی معاملے کی حقیقت واضح کرکے رکھدی تو اس سب کے بعد فرمایا ( رحمة من ربک وما فعلته عن أمری ) ترجمہ : یہ آپ کے رب کی طرف سے ایک رحمت ہیں اور مینے یہ سب کچھ خود اپنی طرف سے نہیں کہا : یعنی مینے یہ سب کچھ اپنی مرزی و خواہش سے نہیں کیا بلکہ مجھے اس کا حکم دیا گیا اور اس سلسلے میں مجھ پر وحی کی گئی ہیں ( البدایة والنّھایة ، ج:۱، ص: ۳۷۸)
حافظ اب حجر رحمہ اللہ اپنی کتاب الزھر النضری کے ؛ باب ماور دفی کونه نبیا ؛؛ میں رقمطراز ہیں :: کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بیان کرتے ہوئے اپنے پیغام میں یوں کہا( وما فعلتة عن امری) اور یہی میرا خیال ہے کہ اس نے اس کام کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا اور حقیقت تو یہی ہے کہ وہ بلا واسطہ حکم تھا ۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ کوئی دوسرا نبی رہا ہو جس کا اللہ نے ذکر نہیں کیا ۔ بگر یہ قول سمجھ سے باہر ہے ، اور اس بات کی بھی کوئی گنجائش نہیں کہ ایسا کام خضر علیہ السلام نے الہام ہونے کہ وجہ سے کئے ہو ں۔ کیونکہ نبی کے بغیر کسی سے بھی وحی طور پر ایسے کام انجام دینا ممکن نہیں جیسے کہ انہونے انجام دئے ، جیسے کہ کسی نفس کو قتل کرنا ۔ اور انسانوں کو ڈبو دینے کی کگار پر کھڑا کرنا۔
لیکن اگر ہم کہتے ہے کہ وہ نبی ہیں تو اس میں کوئی الجھاؤ نہیں ہے ( اور یہ بات بھی غور کرنے کی ہے) کہ ایک ایسا شخص جو نبی نہیں ہے وہ نبی سے زیادہ علم والا کیسے ہوسکتا ہے ؟ حالانکہ نبی ﷺ نے حدیث صحیح میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ( کیوں نہیں ہمارا بندہ خضر ہے )۔
علّامہ العراق نے اس آیت کی تفسیر ( آتیناہ رحمةمن عندنا ) کے سلسلے میں بیان کرتے ہوئے تین قول ذکر کئے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ فرماتے ہے ( والجمھور علی أنھا الوحی والنبوة، وقد اطلقت علی ذالک فی مواضع من القرآن، وأرج ذلک ابن أبی حاتم عن ابن عباس والمنصور ما علیه الجمھور ، وشواھدہ من الآیات والأخبار کثیرة بجموعھا یکاد یحصل الیقین ،، ( روح المعانی ، ج؛ ۵، ص: ۹۳۔۹۷ )
ترجمہ: اور جمہور علما کا یہ کہنا ہے کہ (رحمة) سے مراد وحی اور نبوت ہے ۔ اور قرآن کریم میں بہت ساری جگہوں پر اس سے یہی معنی مراد لیا گیا ہے ۔ ابن ابی حاتم اور منصور نے ابن عباس رضی اللہ عنہا سئ یہی نقل کیا ہے ۔ آیات کریم اور احادیث سے اس کے بہت سارے شواہد ملتے ہیں جنکے مجموعہ سے یقین ملتا ہے۔
رہی بات انکی ( خضر علیہ السلام ) زندگی اور وفات تو اس سلسلے میں بھی اختلاف موجود ہے لیکن دلائل انکی وفات ثابت کرتی ہے اور اکثر محدثین کرام کا یہی ماننا ہے۔ کیونکہ ایسی کوئی بھی صحیح دلیل وارد نہیں ہوئی ہے ۔ رہے خواب و خیالات تو عقیدہ اور احکام کے مسائل کے سلسلے میں انکی طرف توجہ نہیں دی جاسکتی اور اگر بلفرض خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو انکے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے، ان کی پیروی کرنے ، انکے سامنے جہاد کرنے اور ان کی دعوت کو پہونچانے میں تاخیر کرتے اور یہ اللہ تعالیٰ کیا ایک ایس عہد و پیمان ہے جو اس نے تمام انبیاء اور رسولوں سے لیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ((وإذ أخذ اللـه ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب وحكمة ثم جاءكم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به ولتنصرنه قال أأقررتم وأخذتم على ذلكم إصري قالوا أقررنا قال فاشهدوا وأنا معكم من الشاهدين ؛؛ سورة آل عمران ۸۱ ))
ترجمہ : اور جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب و حقمت عطا کروں پھر تمارے پاس کوئی رسول آئے جو اس چیز کی تصدیق کرلے جو ( پہلے ہی ) تمہارے پاس ہو تو تم اس (نبی) پر ضرور ایمان لانا اور ضور اس کی مدد کرنا ۔ کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو؟ اور اس پر میرا وعدہ لیتے ہو ؟ انہو (نبیوں) نے کہا : ہم اقرار کرتے ہے تو (اللہ تعالیٰ) نے فرمایا پھر گواہ رہو اور میں بھی اس بات و اقرار پر تمارے ساتھ گواہ ہوں ،،۔
جمہور محققین یہ مانتے ہے کہ خضر علیہ السلام وفات پا چکے ہے۔ وہ کہتے ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو نبی ﷺ کے پاس انکا آنا ، ان پر ایمان لانا ، اور ان کی اتباع کرنا ان پر لازم بن جاتا ۔ تاکہ وہ امت محمد ﷺ کے جملہ افراد میں سے بن جاتے ، اور اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ رہتا ۔ یہ ذرا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو ہی دیکھے جب وہ آخر زمان میں نزول فرمائیگے تو وہ اسی پاکیزہ شریعت کت ضریعے فیصلے و حکومت کرینگے اس ذرہ برابر باہر نہیں نکلیں گے ، اور اس سے دور جانا ان کے لئے ممکن نہیں ہوگا ۔ حالانکہ وہ پانچ اولالعزیم رسولوں میں سے ایک ہیں۔ بنو اسرائیل کے خاتم الانبیاء ہے ۔ نبی رحمت ﷺ سے روایت منقول ہے کہ انہونے فرمایا (( لو کان موسی حیابین اظھرکم ما حل له الا ان یتبعنی )) ترجم: اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو میری اتباء کے بغیر ان کے پاس کوئی چارہ نہ ہوتا ۔ [مسند احمد ح: ۱۴۶۳۱ ]
محققین فرماتے ہے : کہ یہ طے شدہ بات ہے کہ کسی صحیح یا حسن سند سے جس سے دل مطمعئن ہوسکے یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ ( خضر علیہ السلام ) رسول ﷺ کے ساتھ کسی بھی دن ملو ہو اور نا ہی وہ جنگوں میں کسی ایک جنگ میں انکے ساتھ شریک ہوئے ۔ جنگ بدر کو ہی لیجئے ۔ سادق المصدوق اپنے رب سے مدد اور کافروں کے خلاف فتح کی دعائیں مانگتے ہوئے کہتے ہیں ( اللھم ان تھلق ھٰذہ العصابة من لاتعبد بعدھا فی الأرض ) ترجمہ : اے میرے معبود اگر توں اس مٹھی بھر جماعت ( مسلمانوں ) کو ہلاک کردے تو اس کے بعد پوری زمین میں تیری عبادت نہ ہوگی ۔[ صحیح مسلم ،ح : ۱۷۶۳، سنن الترمذی ،ح: ۳۰۸۱ ، البدایةوالنھایة واللفظ له]
اور یہ مٹھی بھر جماعت اس روز اس میں مسلمانوں اور ملائکہ کی بڑی بڑی قدآور شخصیات موجود تھے یہاں تک کہ جبرئیل علیہ السلام بھی جیسے کہ حسان بن ثابت ؓ اپنے قصیدے کے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہا جاتا ہیں کہ عربوں کے کہے ہوئے اشعر میں یہ سب سے فخریہ شعر ہے
وبشیر بدر اِذیرد وجوھھم
جبریل تحت لو ائنا و محمد
پس اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو اس جھنڑے کے نیچے کھڑا ہونا ان کے لئے اعلیٰ ترین مقام اور انکے غزوات میں سب سے عظیم غزوہ ہوتا ۔
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے أدلة میں سے کہ خضر علیہ السلام دنیا میں باقی نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی بیان کیا ہے (( وما جعلنا لبشر من قبلك الخلد )) سورة الأنبياء ۳۴ ۔ترجمہ : اور ہم نے آپ سے پہلے کسی نشر کے لئے ابدی زندگی نہیں بنائی ،،
اگر خضر علیہ السلام موھود ہوتے تو ان کے لئے ہمیشہ کی زندگی ہوتی ۔ جب کہ مزکورہ آیت مبارکہ کسی انسان کے لئے ہمیشہ کی زندگی سے انکار کرتی ہے ۔ اور اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی (( واذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب ))
ابن عباس ؓ فرماتے ہے ،، اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بیجا مگر اس سے یہ عہد لیا کہ اگر محمد ﷺ کو بیجا جائے اور نبی زندہ ہو تو وہ نبی ضرور ان پر ایمان لائے اور ضرور ان کی مدد کرے ۔ بخاری نے اس کو بیان کیا ہے ۔
پس خضر علیہ السلام اگر نبی ہے یا ولی ۔ تو وہ بھی اس میثاق و عہد میں داخل ہیں ۔ اور اگر وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زندہ ہوتے تو ان کی بہترین حالت یہ ہوتی کہ وہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اس چیز پر ایمان لاتے جو ان کی طرف نازل کیا گیا اور ان کی مدد فرماتے کہ کہاں کوئی دشمن ان تک نہ پہونچے پائے ۔ کیونکہ اگر وہ ولی تھے تو صدیق ان سے افضل ہے اور اگر وہ نبی ہے تو موسیٰ علیہ السلام ان سے افضل ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں جابر بن عبداللہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس زات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ ، اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا ،، یہ وہ بات ہے جو یقینی ہے اور دین سے یہ حقیقتا معلوم ہوتی ہے ۔ آیت کریم اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تمام کے تمام انبیاع بالفرض اگر رسولاللہ ﷺ کے زمانے میں مقلف اور زندہ مان لئے جائے تو وہ سب انکے پیروکار ہوتے اور ان کے اوامر کے تحت اور ان کی شریعت میں داخل ہوتے ۔ جیسے کہ معراج کی رات کو جب نبی ﷺ ان کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوئے تو ان سب پر اس کو فوقیت دی گئی ۔ اور جب وہ سب ان کے ساتھ بیت المقدس کی طرف اتر آئے اور نماز کا وقت ہوا تو جبرئیل علیہ السلام نے انکو اللہ کے حکم کے مطابق امامت کرنے کے لئے کہا ۔ تو انہونے ﷺ کی حکمرانی اور ٹھرنے کی جگہ میں سبھی انبیاع کو نماز پڑھائی ۔ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہی امام اعظم ہیں۔ وہی تعظیم دی ہوئی ختم الرسول ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور سلامتی ہو ان پر اور ان سب پر ۔ یہاں پر اب جوزی رحمہ اللہ کا کلام اختصار کے ساتھ ختم ہوا ۔
حافظ ابو الخطاب فرماتے ہے : کہ نبی ﷺ کے ساتھ ان کے مل بیٹھنے ، اور اہل بیت کے لئے انکا دلاسہ دینا تو ان روایتوں کے طرق میں کوئی بھی چیز اور کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے اور موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نبی کے ساتھ انکی ملاقات ثابت نہیں ہے ۔ اور اہل نقل اس بات پر متفق ہے کہ وہ سبھی رواتیں جو ان کی حیاتِ جاوداں کے سلسلے میں وارد ہوئی ہے ان میں سے کچھ بھی صحیح نہیں ہیں ۔
اور ہاں جو باتیں بعض بزرگوں سے وجود میں آئی ہے تو وہ ایسی باتیں ہے جن پر تعجب اور حیرانگی کا ہی اظہار کیا جاسکتا ہیں ۔ کہ کیسے ایک عقل مند شخس کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ کسی ایک ایسے بزرگ شخص سے ملے جس کو وہ جانتا ہی نہیں تو وہ بزرگ شخص اس سے کہہ دے کہ میں فلاں ہوں ( یعنی میں خضر ہوں تو وہ اس کو صحیح مانلے اور تصدیق کرلے ۔
ابراہیم الحربی سے خضر علیہ السلام کی عمر کے بارے سوال کیا گیا اور یہ بھی کہ وہ باقی ہے ؟
انہونے جواب دیا : جو کسی غائب شخص لے متعلق باتیں بنائے تو اس نے اس کے ساتھ انساف نہیں کیا ۔ اور یہ بات لوگوں کے درمیان صرف شیطان نے ڈالدی ۔
امام بخاری سے خضر اور الیاس علیہما السلام کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ دونو زندہ ہے ؟ تو امام بخاری رحمہ اللہ نے جواب دیا : ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟ حالانکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے : ( لایبقی علی راس مئة سنة من ھو الیوم علی ظھرالأرض أحد ) جو لوگ آج دنیا میں جی رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی صدی کے اختتام پر باقی نہیں رہے گا ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے یہی سوال کیا گیا تو انہونے فرمایا : اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان پر واجب تھا کہ وہ نبی ﷺ کے پاس آتے اور انکے سامنے جہاد کرتے اور ان سے سیکھتے جب کہ نبی ﷺ نے بدر کے دن فرمایا : اے اللہ اگر تو ں اس مٹھی بھر جماعت کو ہلاک کر دیگا تو زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی ،، یہ جماعت تین سو تیرہ افراد پر مشتمل تھی جنکے اسماء مع ولدیت اور قبائل کے جانے پہچانے ہیں ۔ تو اس وقت خضر علیہ السلام کہاں تھے ؟
تقی الدین ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ نے بعض علاقوں میں جن و انسان کے دکھائی دئے جانے کے سلسلے میں اپنے بعض فتاوی میں فرمایا : اور ایسے ہی وہ لوگ جو کبھی کبھار خضر علیہ السلام کو دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہے وہ ایک جن ہے جسکو انہونے دیکھا ہے اور اس کو کئی ایسے لوگوں نے دیکھا ہے جن کو میں جانتا ہوں ۔ وہ کہتے ہیں کہ مینے خضر علیہ السلام کو دیکھا ہے در حقیقت وہ جن کے ساتھ بیٹھتا ہے جس سے اس نے خود کو دیکھنے والے مسلمانوں پر خلط ملط کیا ۔۔
صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم میں سے کسی نے یہ بیان نہیں کہا کہ اس نے خضر علیہ السلام کو دیکھا اور نا ہی یہ کہا کہ وہ خضر علیہ السلام نبی ﷺ کے پاس آئے ۔ کیونکہ صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین علم اور مرتبہ میں اس سے برتر تھے کہ شیطان ان پر اس معاملے کو مشکوک بناتا ۔ ہاں لیکن انکے بعد بہت ساروں پر اس نے اس معاملے کو مشتبہ بنایا۔ تو ان میں سے وہ کسی کے سامنے نبی کی شکل میں نمودار ہوتا اور کہتا : کہ میں خضر ہوں اور وہ درحقیقت وہ شیطان ہوتا ۔ جیسے کہ بہت سارے لوگ اپنے مردے کو آتے جاتے دیکھتے ہے ۔ وہ اس کے ساتھ بہت سارے امور ، معاملات اور ضروریات کے بارے میں باتیں کرتا ہے ۔ تو وہ اس کو وہی مردہ تصور کرتا ہے حالانکہ وہ شیطان ہوتا ہے جو اس کی شکل و صورت اختیار کرتا ہے ۔۔۔۔۔ ،، تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام اختصار کے ساتھ یہیں پہ ختم ہوتا ہے ۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ عقلی دلیلوں سے دس ۱۰ وجود کے بنا پر یہ بیان کرتے ہے کہ خضر علیہ السلام دنیا میں موجود نہیں ہے ۔ وہ فرماتے ہے ۔
۱۔ جس نے انکی زندگی ثابت کی وہ کہتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی ذریت اسی کی پشت سے ہیں اور اس کا کہنا درجہ ذیل اسباب کی بناء پر غلط ہے ۔
(الف) کہ اس وقت اس کی عمر بوحسنا مؤرخ کی کتاب میں زکر کے مطابق چھ ہزار ( ۶۰۰۰ ) سال ہیں اور انسانوں کے حق میں عام تور پر ایسا ہونا بعید ہے ۔
(ب) اگر کسی ذریت اسی کی پشت سے ہو یا اس کی اولاد کی چوتھی پشت سے ہو جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہے اور یہ کہ وہ ذوالقرنین کا وزیر رہا ہو تو وہ مخلوق ہماری جیسی مخلوق نہیں تھی بلکہ وہ لمبائی اور چوڑائی میں ہم سے زیادہ تھے ۔ سحیحین میں ابو ہریرہ ؓ کی رسول اللہ ﷺ سے منقول روایت ہے کہ انہونے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ان کی لمبائی ساٹھ (۶۰) گز تھی اور اس کے بعد انسان کا قد گھٹتا رہا ، اور جس کسی نے بھی خضر علیہ السلام کو دیکھا ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس نے انکو بڑی عظیم جسامت میں دیکھا حالانکہ وہ اولین لوگوں میں سے ہے ۔
( ج ) اگر خجر علیہ السلام ۔ نوح علیہ السلام سے پہلے تھے تو وہ ضرور انکے ساتھ کشتی میں سوار ہوجاتے مگر کسی نے بھی اس چیز کا ذکر نہیں کیا ہے ۔
( ح ) علماء اس بات پر متفق ہے کہ نوح علیہ اسلام جب کشتی سے اتر آئے تو وہ سب لوگ وفات پاگئے جو انکو ساتھ تھے پھر سنکی نسل بھی مرگئی ۔ اور نوح علیہ السلام کی نسل کے بغیر کوئی بھی نہ بچا ۔ اس بات کی دلیل اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہے (( وجعلنا ذریته ھم الباقین )) ترجمہ : اور ہم نے اسی کی ذریت کو باقی رہنے والے بنادیا ۔؛؛
یہ بات ایسے شخص کی بات کو جھٹلاتا ہے جو کہتا ہے کہ خضر علیہ السلام ۔ نوح علیہ السلام سے پہلے تھے ۔
( د ) اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ کوئی انسان ولادت سے لیکر زمانے کے آخر تک ( قیامت تک ) زندہ رہ سکتا ہے اور اس کی ولادت نوح علیہ السلام سے پہلے ہوئی ہو تو یہ عظیم ترین آیات اور عجائب میں سے ہوتا اور قرآن کریم میں اس کا ذکر بہت ساری جگہوں میں آتا ۔ کیونکہ یہ ربوبیت کی عظیم ترین نشانیوں میں ہوتا ۔ جب کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے شخص ( نوح علیہ السلام ) کا ذکر فرمایا ہے جس کو اس نے ساڑھے نو سو سال ( ۹۵۰ ) کی زندگی عطا فرمائی اور اسکو ایک آیت اور نشانی قرار دیا تو پھر اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جس کو اس نے قیامت تک کی زندگی دے دی ہو۔ اور اسی لئے بعض علماء نے کہا : کہ یہ بات ( حیات خضر علیہ السلام ) صرف شیطان نے لوگوں کے اندر ڈالدی ہے ۔
( ذ ) خضر علیہ السلام کے حیات ہونے کی بات کہنا اللہ پر بغیر علم کے کوئی بات کہنا ہے ۔ اور قرآن آیت کے مطابق ایسا کرنا حرام ہے ۔ یہ دوسری چیز تو واضح ہے لیکن پہلی بات ( یعنی خضر علیہ السلام کی حیات ) تو حقیقتا اگر انکی زندگی واقی طے شدہ ہوتی تو ضرور قرآن آیت یا سنت یا اجماع امت اس پر دلالت کرتے ۔ کتاب اللہ کو ہی لیجئے اس میں کہاں خضر علیہ السلام کی حیات کے بارے میں ذکر ہے ؟ سنت رسول ﷺ کو ٹٹولئے کہاں پر اس میں کوئی ایسا فرمان ہے جو اس بات پر کسی بھی طرح سے دلالت کرے ؟ اور یہ علماء امت ہیں کیا ان کا ان کی حیات پر اجماع ثابت ہے ؟
( ز ) جو لوگ انکے حیات ہونے کی بات لہتے ہے انکی انتہا جسکو وہ تھامے ہوئے ہے ایسی بیان کردہ حقایتیں ہیں جنہیں کوئی شخص بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے خضر علیہ السلام کو دیکھا اور بس ! کتنی حیران کن بات ہیں ؟ کیا خضر علیہ السلام کی کوئی پہچان ہے جسکے ذریعے اسکو دیکھنے والا شخص پہچان لینا ہے ؟ ان میں سے اکثر لوگ اس کے یہ کہنے سے دھوکے میں آجاتے ہیں ؛؛ کہ میں خضر ہوں ،، اور طے شدہ بات ہے کہ یہ بات ( کہ میں خضر ہوں ) اللہ کی جانب سے بغیر کسی قطعی برھان و دلیل کے تصدیق کرنا مناسب نہیں ہے ۔ دیکھنے والے کو یہ کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ اس کو یہ خبر دینے والا سچا ہے جھوٹ نہیں بول رہا ہے ۔
( ھ ) خضر علیہ السلام نے موسیٰ بن عمران کلیم اللہ علیہ السلام سے علیحدگی اختیار کی اور انکے ساتھ نہیں رہے اور ان سے کہا (( ھذٰا فراق بینی و بینک )) یہی میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے ؛؛
کیسے موسیٰ علیہ السلام جیسے شخص سے اپنی جدائی پر خوش ہوسکتے ہیں اور پھر شریعت سے دور ناداں و جاہل لوگوں سے ملاقاتیں کرتے پھریں جو نہ جمعہ ، نا ہی جماعت ، اور نہ کسی علمی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں ، نہ شریعت میں سے انکو کسی چیز کا علم ہوتا ہے ۔ اور ہر ایک ان میں سے یہی کہتا ہے ،، کہ خضر علیہ السلام نے ایسا فرمایا ۔ یا خضر علیہ السلام میرے پاس آئے ، یا خضر علیہ السلام نے وصیعت کی ،، تعجب ہے اس خضر علیہ السلام پر کہ کلیم اللہ کو تو چھوڑ دیتے ہے اور جاہلوں و نادانوں کے ساتھیوں اور ایسے لوگوں جو نہ وضو کا طریقہ اور نا ہی نماز کا طریقہ جانتے ہے ، کے در پر چلے جاتے ہیں !۔
ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے : کہ امام نووی رحمہ اللہ اور اسکے علاوہ دوسرے علماء نے انکے ( خضر علیہ السلام ) آج تک اور پھر قیامت تک زندہ ہونے اور رہنے کے سلسلے میں دو قول بیان کئے ہیں وہ کہتے ہے : ابن الصّلاح نے ان کی حیات کی بات کی ہے اور اس بارے میں سلف اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بہت سارے آثار و حقایتیں بیان کی ہیں اور اس کا ذکر بعض احادیث میں بھی آیا ہے لیکن ان میں کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے ۔ ان حدیثوں میں سے سب سے زیادہ مشہور تعزیت کی حدیث ہے مگر اس کی سند ضعیف ہے ۔ ( تفسیر اب کثیر ج ۳ ص ۹۹ )
ابوالحسین بن المنادی ایسے شخص کی بات کو بہت برا سمجھتے جو یہ کہتا ، کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں ؛۔ ( روح المعانی ،ج: ۱۰، ص: ۳۲۰ )
امام و محدّث شیخ محمد بن السید درویش فرماتے ہیں ،؛ انکی زندگی کے سلسلے میں کوئی ایسی دلیل وارد نہیں ہوئی ہے جس پر اعتماد کیا جاسکے ۔؛؛ ( بحوالہ ، أسنی مطالب ، ص: ۷۹۶ )
أسنی المطالب ،، کے مؤلف فرماتے ہیں : سنت نبویہ میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جو یہ بتائے خضر علیہ السلام زندہ ہے یا وہ مرچکے ہے۔ انکی زندگی کے بارے میں کوئی چیز صحیح نہیں اور نا ہی ہر سال الیاس علیہ السلام کے ساتھ ان کی ملاقات کرنے کے بارے میں کوئی چیز درست ہے اس صورت میں تو یہ لازمی ہوگا کہ الیاس علیہ السلام بھی زندہ ہیں جبکہ اہل اسلام میں سے کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی۔،، ( بحولہ ، أسنی المطالب، ص ۷۹۸ ،)
اگر خضر علیہ اسلام رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زندہ ہوتے تو ان کہ افضل ترین حالت یہ ہوتی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتھ ہوتے کیونکہ اگر تمام انبیاء بھی زندہ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ کہ اتباع ان سبھی پر لازم ہوتی ۔ اور رہے خضر علیہ السلام تو ایسی کوئی صحیح نص وارد نہیں ہوئی ہے جو ہمیں یہ بتائے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے ملے ہو ۔ اور اگر وہ موجود ہوتے تو وہ ضرور رسولاللہ ﷺ سے قرآن و سنت کہ تبلیغ کرتے اور یہ اللہ کے بندوں میں سے انبیاء و صالحین کا سب سے افضل عمل ہے ۔کچھ ایسی صحیح احادیث مبارکہ ہے جن میں رسول اللہ ﷺ کا ایک معجزہ ذکر ہوا ہیے جب انکو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے غیب میں سے ایک چیز کے بارے میں مطلع فرمایا : رسول اللہ ﷺ فرماتے ہے (( تمہاری جو یہ رات گزری پس بے شک صدی کے آخر تک ان لوگوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا جو آج سطح زمین پر جی رہے ہے ۔ ( صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ ، باب ، لاتأ تی مائة سنة منھا لایبفی نحن ھو علی ظھر الأ رض ۔ ح : ۲۵۳۷ ،، و رواہ ابو دائود و الترمذی و أ احمد )
صحیح احادیث میں کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جو آج ان کے زندہ ہونے پر دلالت کرے ۔ پس خضر علیہ السلام اگچہ انہونے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ نہ پایا جیسا کہ غالب گمان ہے جو کہ قوت میں قطیعت کے درجہ کو پہنچاتا ہے پھر کوئی اشکال نہیں رہتا ۔ اور اگر انہونے ان کا زمانہ پا بھی لیا ہو لیکن آج وہ مفقول ہیں موجود نہیں ۔ کیونکہ وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کے عموم داخل ہیں اس کی بنیاد انکو علیحدہ خصوصیت دینے والی دلیل کی عدم موجودگی ہیں ۔ یہاں تک کہ یہ کسی ایسی صحیح دلیل سے ثابت نہ ہوجائے جسکو قبول کرنا واجب بن جائے ۔ واللہ اعلم ( الخضر بین الواقع والتھویل نقلا عن البدایہ و النھایہ لابن کثیر ، ج۱ ،ص ۳۳۶ )
صحیح نصوص کے پاس بھی ہتھیار ڈالدینا ہی زیادہ محفوظ اور انساف پسندی ہے ۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ جو شخص خوابوں اور کشف پر اعتماد کرکے نصوص کو چھوڑ دیتا ہے وہ ضرور خرافات میں پڑے گا ، اور اپنی زندگی کو ایک بڑے وہم میں بدل ڈالے گا ۔ اور جو شخص روحانی عالم سے ٹکریے ۔ وہ بھی اسی طرح کم خطرے والی بات نہیں ہے اور جماعت صوفیہ خضر علیہ السلام کے وجود اور آج تک انکے زندہ باقی رہنے پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اس بارے میں انہونے بہت سارے قصے اور حکایتیں بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہے کہ وہ ( صوفی ) ان سے ملتے ہیں ، انکے ساتھ مشورے کرتے ہے ، وہ انکی مجلسوں میں آتے ہے اور وہ اسکا استقبال کرتے ہے جیسے کہ ابن آدھم ، بشر الحافی معروف الکرنی ، جنید ( بغدادی ) اور ابن عربی کی مثال ہے ۔
ابن عربی اپنی کتاب ۔ التذکاری میں کہتے ہے : کہ وہ خضر سے ملے اور انہونے خضر علیہ السلام اس کو صوفیت کا لبادہ پہنایا ۔ یہ سب کچھ مکہ مکرمہ میں حجرأسود کے مقابل انجام پایا ۔ اور انہونے اس سے مقامات شیخ ( یعنی اہل تصوف ) کی قدم بوسی کا احد لیا ۔ حالانکہ وہ اس لبادے کو خضر علیہ السلام کے ہاتھوں پہنانے میں ڈانواڈول تھے یہاں تک کہ خضر علیہ السلام نے ان کو یہ جانکاری دی کہ انہونے خود اسکو فیوض و برکات کے منبع مدینہ مشرفہ میں رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارکہ سے پہنایا ہے ۔ ( التذکاری ،ص ۳۰۴ )
اور وہ باتیں جن کو بعض لاعلم نادان تصوف کے شکار لوگ پھیلاے اور عام کرتے ہیں در حقیقت وہ شیطانی خیالات اور بیہودہ باتیں ہے ۔ اور کوئی مسلمان کیسے اس بات کو جائز قرار دے سکتا ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کو ثابت کرے جسکے بارے میں اس کو کوئی علم نہ ہے ۔ حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر مسلمان سے یہ بات کہتا ہے ( ولا تقف ما ليس لك به علم إن السمع والبصر والفؤاد كل أولئك كان عنه مسئولا ،، سورة الإسراء ۳۶ )
ترجمہ : اور تم ایسی باتوں کے پیچھے نہ پڑو جن کے بارے میں تم کو کچھ بھی معلوم نہیں ۔ بے شک کان ،آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سب سے پوچھا جائے گا ۔
بہت سارے علماع کا یہ ماننا ہے کہ خضر علیہ السلام رحلت فرما چکے ہیں ۔ ان میں یہ لوگ شامل ہے : امام بخاری ، ابراھیم الحربی ، ابو الحسن بن المنادی ، اب الجوزی ، ابن حزم الظاہری ، ابو بکر بن العربی ، علی بن موسیٰ الرضی ، قاضی ابو لیعلی ، ابو یعلی بن الفراء ، ابو طاہر العبادی ، ابو حیان الاندسی ۔
اور آخر میں یہی کہنا چاہیں گے کہ یہ جو ہم نے بیان کیا ہے یہ اس شخص کے لئے آخری حد نہیں ہیں جو زیادہ جانکاری اور اس مسئلے میں جس میں اٹکلی بہت زیادہ ہوئی ہیں ۔ علماء اعلام کے اقوال کی حقیقت کو پرکھنا چاہے ۔ بے شک اٹکل اور گمان حق کے آگے کوئی فائدہ نہیں دیتا اور ہر مسلمان کو جان لینا چاہئے کہ وہ اپنے ہر قول و عمل کو انجام دینے میں کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنے کا پابند ہیں اور اس بات کا بھی پابند ہے کہ وہ باطل پرستوں کے اندازوں ، مقلدین کے دعووں اور جھوٹوں کے بہکاوے کی طرف مائل نہ ہو ۔
مزید جانکاری کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے :
۱ عجلة المنتظر فی شرح حالة الخضر ،، یہ امام اب جوزی کی تالیف ہے ابن جوزی نے یہ کتاب عبدالمغیث کی کتاب کے رد میں لکھی ہیں اسی طرح شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی ان کی وفات کے بارے میں ایک جزء لکھا ہیے جیسے کہ ان کے شاگرد ابن قیم نے اپنے رسالہ ۔ اسماء مؤلفات ابن تیمیة مین اس کو بیان کیا ہے ۔ اس رسالہ کو دمشق میں ۱۳۸۷ھ میں الجمع العلمی نے چھپایا ہے ۔
اسی طرح علی القاری نے بھی اسی مسئلے کے بارے میں ایک جز لکھا ہے جسکا نام انہونے کشف الحذر عن أمر الخضر رکھا ہے ۔ یہ کتاب روس کے پرانے شہر قازان علاقے میں چھپ چکی ہے۔
حافظ الحجر رحمہ اللہ نے ، الاصابة میں خضر علیہ السلام کے متعلق لمبی تألیف لکھی ہے اور مسئلے میں بیان شدہ خبروں کا مناقشہ کیا ہے ۔ حافظ بن حجر نے ، فتح الباری میں بھی اس پر لمبی چوڑی بحث کی ہے ۔ جیسے ابن کثیر نے البدایة والنھایة میں اس کے متعلق وسیع بحث کی ہیں ۔