• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حقیقت خضر علیہ السلام !!!!

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
مقرّینِ نبوّتِ خضر علیہ السلام کے دلائل !

ابن کثیر رحمہ اللہ البدایة والنّھایة میں لکھتے ہیں کہ قصّہ ( خضر و موسیٰ علیہما السلام ) کا سیاق کئی وجوہ سے ان کی نبوت پر دلالت کرتا ہیں ۔
۱۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : ((فوجدا عبدا من عبادنا آتيناه رحمة من عندنا وعلمناه من لدنا علما۔ کھف ۶۵ ))
ترجمہ:تو ان دونو نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسکو ہم نے اپنی طرف سے رحمت عطا کی اور اپنی طرف سے اسکو ایک علم سکھایا ،،
( صاف اور ظاہر سی بات ہے کہ جب اللہ تعالیٰ یہ فرمائے کہ میں نے کسی کو اپنی طرف سے ایک خاص علم سکھایا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اس نے اس کو وحی کے ضریعے وہ علم سکھایا ہوگا ۔
۲۔ موسیٰ علیہ السلام کا خضر علیہ السلام سے یہ کہنا :::هل أتبعك على أن تعلمن مما علمت رشدا قال إنك لن تستطيع معي صبرا وكيف تصبر على ما لم تحط به خبرا قال ستجدني إن شاء الله صابرا ولا أعصي لك أمرا قال فإن اتبعتني فلا تسألني عن شيء حتى أحدث لك منه ذكرا ::
اگر وہ صرف ایک ولی ہوتے، نبی نہ ہوتے تو موسیٰ علیہ السلام اس سے اسطرح مخاطب نہ ہوتے اور نا ہی موسیٰ علیہ السلام اسکو ایسا جواب دیتے ۔ بلکہ موسیٰ علیہ السلام نے تو ان کا ساتھ مانگا تاکہ وہ اس علم کو حاصل کرلے جو اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر خضر علیہ السلام کو دیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نہیں دیا اگر وہ نبی نہ ہوتے تو معصوم بھی نہ ہوتے اور نا ہی موسیٰ علیہ السلام کو ۔ جو کہ ایک عظیم المرتبہ نبی، بزرگ ترین رسول اور معصوم الخطا ہیں ۔ کسی ولی کے علم کی زیادہ طلب اور کوئی بڑی خواہش ہوتی جو کہ معصوم الخطا بھی نہ ہو ۔ اور نا ہی وہ اس کے پاس جانے اور اس سے معلومات لینے کا ارادہ کرتے جب کہ انہونے اس کی تلاش میں زمانے کا بڑا حصّہ صرف کیا ہیں ( ۸۰ سال ) ۔ پھر جب وہ ان سے ملے تو تواضع و انکساری اختیار کی اور ان کو (خضر علیہ السلام کو ) تعظیم دی اور کسی استفادہ کرنے والے کی صورت میں ان کے ساتھ ہولے ۔ یہ سب کچھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ایک نبی ہے جن پر اسی طرح وحی کی جاتی تھی جس طرح خود موسیٰ علیہ السلام پر وحی کی جاتی تھی اور ان کو ایسے دینی علوم اور اسرار نبوت سے سرفراز کیا گیا جن کے بارے بنو اسرائیل کے بزرگ ترین نبی موسیٰ کلیم اللہ کو بھی باخبر نہیں کیا ۔ اور اس طور سے خضر علیہ السلام کی نبوت پو دلیل پیش کی گئی ۔
۳۔ بے شک خضر علیہ السلام نے اس لڑکے کو مار ڈالنے کی جو جسارت کی وہ یونہی نہیں کی بلکہ اس وحی کیوجہ سے کی جو مالک کائنات اور علیم و خبیر نے انکی طرف وحی کی ۔ اور یہ بات ان کی نبوت پر ایک مستقل دلیل اور ان کی عصمت ( معصوم عن الخطاء) ہونے پر ایک واضح حجت ہیں۔ کیونکہ کسی ولی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ محض اس بناء پر انسانو کو مارڈالنے پر آمادہ ہوجائے جو اس کا دل کہے کیونکہ ولی کا قلب ومزاج معصومیت کا موجب نہیں ہوتا ۔ جبکہ اس سے خطاء و غلطی کے سرزد ہونے پر سبھی کا اتفاق ہے ۔ اور جب خضر علیہ السلام نے ایسے لڑکے کو ماڈالنے کا اقدام کیا جو جوانی کو نہیں پہونچا تھا اپنی اس علم کے مطابق جب وہ بڑا ہوگا تو وہ کفر کرے گا اور اپنے والدین کو بھی اپنے ساتھ ان کی شدید محبت کی وجہ سے کفر پر آمادہ کرے گا تو وہ دونو بھی اس پر ( کفر پر) اس کے پیچھے چلیں گے ۔ اس کے ( خضر علیہ السلام ) کے اس کام نے ایک عظیم مصلحت کو اجاگر کیا جو کہ اسکی ( لڑکے کی ) زندگی میں بڑھ جاتی اسکے والدین کو کفر میں گرفتار ہونے اور اس بچے کو سزا ہونے سے بچانے کی خاطر تھی ۔ یہ ان کی نبوت پر دلالت کرتی ہے اور اس بات پر بھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کی عصمت کے سلسلے میں مؤید تھے۔
۴۔ جب خضر علیہ السلام نے سبھی سرزد ہونے والے کاموں کی توجیہ موسیٰ علیہ السلام کے سامنے بیان کی اور انکے سامنے اپنی معاملے کی حقیقت واضح کرکے رکھدی تو اس سب کے بعد فرمایا ( رحمة من ربک وما فعلته عن أمری ) ترجمہ : یہ آپ کے رب کی طرف سے ایک رحمت ہیں اور مینے یہ سب کچھ خود اپنی طرف سے نہیں کہا : یعنی مینے یہ سب کچھ اپنی مرزی و خواہش سے نہیں کیا بلکہ مجھے اس کا حکم دیا گیا اور اس سلسلے میں مجھ پر وحی کی گئی ہیں ( البدایة والنّھایة ، ج:۱، ص: ۳۷۸)
حافظ اب حجر رحمہ اللہ اپنی کتاب الزھر النضری کے ؛ باب ماور دفی کونه نبیا ؛؛ میں رقمطراز ہیں :: کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بیان کرتے ہوئے اپنے پیغام میں یوں کہا( وما فعلتة عن امری) اور یہی میرا خیال ہے کہ اس نے اس کام کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا اور حقیقت تو یہی ہے کہ وہ بلا واسطہ حکم تھا ۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ کوئی دوسرا نبی رہا ہو جس کا اللہ نے ذکر نہیں کیا ۔ بگر یہ قول سمجھ سے باہر ہے ، اور اس بات کی بھی کوئی گنجائش نہیں کہ ایسا کام خضر علیہ السلام نے الہام ہونے کہ وجہ سے کئے ہو ں۔ کیونکہ نبی کے بغیر کسی سے بھی وحی طور پر ایسے کام انجام دینا ممکن نہیں جیسے کہ انہونے انجام دئے ، جیسے کہ کسی نفس کو قتل کرنا ۔ اور انسانوں کو ڈبو دینے کی کگار پر کھڑا کرنا۔
لیکن اگر ہم کہتے ہے کہ وہ نبی ہیں تو اس میں کوئی الجھاؤ نہیں ہے ( اور یہ بات بھی غور کرنے کی ہے) کہ ایک ایسا شخص جو نبی نہیں ہے وہ نبی سے زیادہ علم والا کیسے ہوسکتا ہے ؟ حالانکہ نبی ﷺ نے حدیث صحیح میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ( کیوں نہیں ہمارا بندہ خضر ہے )۔
علّامہ العراق نے اس آیت کی تفسیر ( آتیناہ رحمةمن عندنا ) کے سلسلے میں بیان کرتے ہوئے تین قول ذکر کئے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ فرماتے ہے ( والجمھور علی أنھا الوحی والنبوة، وقد اطلقت علی ذالک فی مواضع من القرآن، وأرج ذلک ابن أبی حاتم عن ابن عباس والمنصور ما علیه الجمھور ، وشواھدہ من الآیات والأخبار کثیرة بجموعھا یکاد یحصل الیقین ،، ( روح المعانی ، ج؛ ۵، ص: ۹۳۔۹۷ )
ترجمہ: اور جمہور علما کا یہ کہنا ہے کہ (رحمة) سے مراد وحی اور نبوت ہے ۔ اور قرآن کریم میں بہت ساری جگہوں پر اس سے یہی معنی مراد لیا گیا ہے ۔ ابن ابی حاتم اور منصور نے ابن عباس رضی اللہ عنہا سئ یہی نقل کیا ہے ۔ آیات کریم اور احادیث سے اس کے بہت سارے شواہد ملتے ہیں جنکے مجموعہ سے یقین ملتا ہے۔
رہی بات انکی ( خضر علیہ السلام ) زندگی اور وفات تو اس سلسلے میں بھی اختلاف موجود ہے لیکن دلائل انکی وفات ثابت کرتی ہے اور اکثر محدثین کرام کا یہی ماننا ہے۔ کیونکہ ایسی کوئی بھی صحیح دلیل وارد نہیں ہوئی ہے ۔ رہے خواب و خیالات تو عقیدہ اور احکام کے مسائل کے سلسلے میں انکی طرف توجہ نہیں دی جاسکتی اور اگر بلفرض خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو انکے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے، ان کی پیروی کرنے ، انکے سامنے جہاد کرنے اور ان کی دعوت کو پہونچانے میں تاخیر کرتے اور یہ اللہ تعالیٰ کیا ایک ایس عہد و پیمان ہے جو اس نے تمام انبیاء اور رسولوں سے لیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ((وإذ أخذ اللـه ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب وحكمة ثم جاءكم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به ولتنصرنه قال أأقررتم وأخذتم على ذلكم إصري قالوا أقررنا قال فاشهدوا وأنا معكم من الشاهدين ؛؛ سورة آل عمران ۸۱ ))
ترجمہ : اور جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب و حقمت عطا کروں پھر تمارے پاس کوئی رسول آئے جو اس چیز کی تصدیق کرلے جو ( پہلے ہی ) تمہارے پاس ہو تو تم اس (نبی) پر ضرور ایمان لانا اور ضور اس کی مدد کرنا ۔ کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو؟ اور اس پر میرا وعدہ لیتے ہو ؟ انہو (نبیوں) نے کہا : ہم اقرار کرتے ہے تو (اللہ تعالیٰ) نے فرمایا پھر گواہ رہو اور میں بھی اس بات و اقرار پر تمارے ساتھ گواہ ہوں ،،۔
جمہور محققین یہ مانتے ہے کہ خضر علیہ السلام وفات پا چکے ہے۔ وہ کہتے ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو نبی ﷺ کے پاس انکا آنا ، ان پر ایمان لانا ، اور ان کی اتباع کرنا ان پر لازم بن جاتا ۔ تاکہ وہ امت محمد ﷺ کے جملہ افراد میں سے بن جاتے ، اور اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ رہتا ۔ یہ ذرا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو ہی دیکھے جب وہ آخر زمان میں نزول فرمائیگے تو وہ اسی پاکیزہ شریعت کت ضریعے فیصلے و حکومت کرینگے اس ذرہ برابر باہر نہیں نکلیں گے ، اور اس سے دور جانا ان کے لئے ممکن نہیں ہوگا ۔ حالانکہ وہ پانچ اولالعزیم رسولوں میں سے ایک ہیں۔ بنو اسرائیل کے خاتم الانبیاء ہے ۔ نبی رحمت ﷺ سے روایت منقول ہے کہ انہونے فرمایا (( لو کان موسی حیابین اظھرکم ما حل له الا ان یتبعنی )) ترجم: اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو میری اتباء کے بغیر ان کے پاس کوئی چارہ نہ ہوتا ۔ [مسند احمد ح: ۱۴۶۳۱ ]
محققین فرماتے ہے : کہ یہ طے شدہ بات ہے کہ کسی صحیح یا حسن سند سے جس سے دل مطمعئن ہوسکے یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ ( خضر علیہ السلام ) رسول ﷺ کے ساتھ کسی بھی دن ملو ہو اور نا ہی وہ جنگوں میں کسی ایک جنگ میں انکے ساتھ شریک ہوئے ۔ جنگ بدر کو ہی لیجئے ۔ سادق المصدوق اپنے رب سے مدد اور کافروں کے خلاف فتح کی دعائیں مانگتے ہوئے کہتے ہیں ( اللھم ان تھلق ھٰذہ العصابة من لاتعبد بعدھا فی الأرض ) ترجمہ : اے میرے معبود اگر توں اس مٹھی بھر جماعت ( مسلمانوں ) کو ہلاک کردے تو اس کے بعد پوری زمین میں تیری عبادت نہ ہوگی ۔[ صحیح مسلم ،ح : ۱۷۶۳، سنن الترمذی ،ح: ۳۰۸۱ ، البدایةوالنھایة واللفظ له]
اور یہ مٹھی بھر جماعت اس روز اس میں مسلمانوں اور ملائکہ کی بڑی بڑی قدآور شخصیات موجود تھے یہاں تک کہ جبرئیل علیہ السلام بھی جیسے کہ حسان بن ثابت ؓ اپنے قصیدے کے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہا جاتا ہیں کہ عربوں کے کہے ہوئے اشعر میں یہ سب سے فخریہ شعر ہے
وبشیر بدر اِذیرد وجوھھم
جبریل تحت لو ائنا و محمد

پس اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو اس جھنڑے کے نیچے کھڑا ہونا ان کے لئے اعلیٰ ترین مقام اور انکے غزوات میں سب سے عظیم غزوہ ہوتا ۔
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے أدلة میں سے کہ خضر علیہ السلام دنیا میں باقی نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی بیان کیا ہے (( وما جعلنا لبشر من قبلك الخلد )) سورة الأنبياء ۳۴ ۔ترجمہ : اور ہم نے آپ سے پہلے کسی نشر کے لئے ابدی زندگی نہیں بنائی ،،
اگر خضر علیہ السلام موھود ہوتے تو ان کے لئے ہمیشہ کی زندگی ہوتی ۔ جب کہ مزکورہ آیت مبارکہ کسی انسان کے لئے ہمیشہ کی زندگی سے انکار کرتی ہے ۔ اور اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی (( واذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب ))
ابن عباس ؓ فرماتے ہے ،، اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بیجا مگر اس سے یہ عہد لیا کہ اگر محمد ﷺ کو بیجا جائے اور نبی زندہ ہو تو وہ نبی ضرور ان پر ایمان لائے اور ضرور ان کی مدد کرے ۔ بخاری نے اس کو بیان کیا ہے ۔
پس خضر علیہ السلام اگر نبی ہے یا ولی ۔ تو وہ بھی اس میثاق و عہد میں داخل ہیں ۔ اور اگر وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زندہ ہوتے تو ان کی بہترین حالت یہ ہوتی کہ وہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اس چیز پر ایمان لاتے جو ان کی طرف نازل کیا گیا اور ان کی مدد فرماتے کہ کہاں کوئی دشمن ان تک نہ پہونچے پائے ۔ کیونکہ اگر وہ ولی تھے تو صدیق ان سے افضل ہے اور اگر وہ نبی ہے تو موسیٰ علیہ السلام ان سے افضل ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں جابر بن عبداللہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس زات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ ، اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا ،، یہ وہ بات ہے جو یقینی ہے اور دین سے یہ حقیقتا معلوم ہوتی ہے ۔ آیت کریم اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تمام کے تمام انبیاع بالفرض اگر رسولاللہ ﷺ کے زمانے میں مقلف اور زندہ مان لئے جائے تو وہ سب انکے پیروکار ہوتے اور ان کے اوامر کے تحت اور ان کی شریعت میں داخل ہوتے ۔ جیسے کہ معراج کی رات کو جب نبی ﷺ ان کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوئے تو ان سب پر اس کو فوقیت دی گئی ۔ اور جب وہ سب ان کے ساتھ بیت المقدس کی طرف اتر آئے اور نماز کا وقت ہوا تو جبرئیل علیہ السلام نے انکو اللہ کے حکم کے مطابق امامت کرنے کے لئے کہا ۔ تو انہونے ﷺ کی حکمرانی اور ٹھرنے کی جگہ میں سبھی انبیاع کو نماز پڑھائی ۔ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہی امام اعظم ہیں۔ وہی تعظیم دی ہوئی ختم الرسول ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور سلامتی ہو ان پر اور ان سب پر ۔ یہاں پر اب جوزی رحمہ اللہ کا کلام اختصار کے ساتھ ختم ہوا ۔
حافظ ابو الخطاب فرماتے ہے : کہ نبی ﷺ کے ساتھ ان کے مل بیٹھنے ، اور اہل بیت کے لئے انکا دلاسہ دینا تو ان روایتوں کے طرق میں کوئی بھی چیز اور کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے اور موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نبی کے ساتھ انکی ملاقات ثابت نہیں ہے ۔ اور اہل نقل اس بات پر متفق ہے کہ وہ سبھی رواتیں جو ان کی حیاتِ جاوداں کے سلسلے میں وارد ہوئی ہے ان میں سے کچھ بھی صحیح نہیں ہیں ۔
اور ہاں جو باتیں بعض بزرگوں سے وجود میں آئی ہے تو وہ ایسی باتیں ہے جن پر تعجب اور حیرانگی کا ہی اظہار کیا جاسکتا ہیں ۔ کہ کیسے ایک عقل مند شخس کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ کسی ایک ایسے بزرگ شخص سے ملے جس کو وہ جانتا ہی نہیں تو وہ بزرگ شخص اس سے کہہ دے کہ میں فلاں ہوں ( یعنی میں خضر ہوں تو وہ اس کو صحیح مانلے اور تصدیق کرلے ۔
ابراہیم الحربی سے خضر علیہ السلام کی عمر کے بارے سوال کیا گیا اور یہ بھی کہ وہ باقی ہے ؟
انہونے جواب دیا : جو کسی غائب شخص لے متعلق باتیں بنائے تو اس نے اس کے ساتھ انساف نہیں کیا ۔ اور یہ بات لوگوں کے درمیان صرف شیطان نے ڈالدی ۔
امام بخاری سے خضر اور الیاس علیہما السلام کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ دونو زندہ ہے ؟ تو امام بخاری رحمہ اللہ نے جواب دیا : ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟ حالانکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے : ( لایبقی علی راس مئة سنة من ھو الیوم علی ظھرالأرض أحد ) جو لوگ آج دنیا میں جی رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی صدی کے اختتام پر باقی نہیں رہے گا ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے یہی سوال کیا گیا تو انہونے فرمایا : اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان پر واجب تھا کہ وہ نبی ﷺ کے پاس آتے اور انکے سامنے جہاد کرتے اور ان سے سیکھتے جب کہ نبی ﷺ نے بدر کے دن فرمایا : اے اللہ اگر تو ں اس مٹھی بھر جماعت کو ہلاک کر دیگا تو زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی ،، یہ جماعت تین سو تیرہ افراد پر مشتمل تھی جنکے اسماء مع ولدیت اور قبائل کے جانے پہچانے ہیں ۔ تو اس وقت خضر علیہ السلام کہاں تھے ؟
تقی الدین ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ نے بعض علاقوں میں جن و انسان کے دکھائی دئے جانے کے سلسلے میں اپنے بعض فتاوی میں فرمایا : اور ایسے ہی وہ لوگ جو کبھی کبھار خضر علیہ السلام کو دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہے وہ ایک جن ہے جسکو انہونے دیکھا ہے اور اس کو کئی ایسے لوگوں نے دیکھا ہے جن کو میں جانتا ہوں ۔ وہ کہتے ہیں کہ مینے خضر علیہ السلام کو دیکھا ہے در حقیقت وہ جن کے ساتھ بیٹھتا ہے جس سے اس نے خود کو دیکھنے والے مسلمانوں پر خلط ملط کیا ۔۔
صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم میں سے کسی نے یہ بیان نہیں کہا کہ اس نے خضر علیہ السلام کو دیکھا اور نا ہی یہ کہا کہ وہ خضر علیہ السلام نبی ﷺ کے پاس آئے ۔ کیونکہ صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین علم اور مرتبہ میں اس سے برتر تھے کہ شیطان ان پر اس معاملے کو مشکوک بناتا ۔ ہاں لیکن انکے بعد بہت ساروں پر اس نے اس معاملے کو مشتبہ بنایا۔ تو ان میں سے وہ کسی کے سامنے نبی کی شکل میں نمودار ہوتا اور کہتا : کہ میں خضر ہوں اور وہ درحقیقت وہ شیطان ہوتا ۔ جیسے کہ بہت سارے لوگ اپنے مردے کو آتے جاتے دیکھتے ہے ۔ وہ اس کے ساتھ بہت سارے امور ، معاملات اور ضروریات کے بارے میں باتیں کرتا ہے ۔ تو وہ اس کو وہی مردہ تصور کرتا ہے حالانکہ وہ شیطان ہوتا ہے جو اس کی شکل و صورت اختیار کرتا ہے ۔۔۔۔۔ ،، تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام اختصار کے ساتھ یہیں پہ ختم ہوتا ہے ۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ عقلی دلیلوں سے دس ۱۰ وجود کے بنا پر یہ بیان کرتے ہے کہ خضر علیہ السلام دنیا میں موجود نہیں ہے ۔ وہ فرماتے ہے ۔
۱۔ جس نے انکی زندگی ثابت کی وہ کہتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی ذریت اسی کی پشت سے ہیں اور اس کا کہنا درجہ ذیل اسباب کی بناء پر غلط ہے ۔
(الف) کہ اس وقت اس کی عمر بوحسنا مؤرخ کی کتاب میں زکر کے مطابق چھ ہزار ( ۶۰۰۰ ) سال ہیں اور انسانوں کے حق میں عام تور پر ایسا ہونا بعید ہے ۔
(ب) اگر کسی ذریت اسی کی پشت سے ہو یا اس کی اولاد کی چوتھی پشت سے ہو جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہے اور یہ کہ وہ ذوالقرنین کا وزیر رہا ہو تو وہ مخلوق ہماری جیسی مخلوق نہیں تھی بلکہ وہ لمبائی اور چوڑائی میں ہم سے زیادہ تھے ۔ سحیحین میں ابو ہریرہ ؓ کی رسول اللہ ﷺ سے منقول روایت ہے کہ انہونے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ان کی لمبائی ساٹھ (۶۰) گز تھی اور اس کے بعد انسان کا قد گھٹتا رہا ، اور جس کسی نے بھی خضر علیہ السلام کو دیکھا ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس نے انکو بڑی عظیم جسامت میں دیکھا حالانکہ وہ اولین لوگوں میں سے ہے ۔
( ج ) اگر خجر علیہ السلام ۔ نوح علیہ السلام سے پہلے تھے تو وہ ضرور انکے ساتھ کشتی میں سوار ہوجاتے مگر کسی نے بھی اس چیز کا ذکر نہیں کیا ہے ۔
( ح ) علماء اس بات پر متفق ہے کہ نوح علیہ اسلام جب کشتی سے اتر آئے تو وہ سب لوگ وفات پاگئے جو انکو ساتھ تھے پھر سنکی نسل بھی مرگئی ۔ اور نوح علیہ السلام کی نسل کے بغیر کوئی بھی نہ بچا ۔ اس بات کی دلیل اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہے (( وجعلنا ذریته ھم الباقین )) ترجمہ : اور ہم نے اسی کی ذریت کو باقی رہنے والے بنادیا ۔؛؛
یہ بات ایسے شخص کی بات کو جھٹلاتا ہے جو کہتا ہے کہ خضر علیہ السلام ۔ نوح علیہ السلام سے پہلے تھے ۔
( د ) اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ کوئی انسان ولادت سے لیکر زمانے کے آخر تک ( قیامت تک ) زندہ رہ سکتا ہے اور اس کی ولادت نوح علیہ السلام سے پہلے ہوئی ہو تو یہ عظیم ترین آیات اور عجائب میں سے ہوتا اور قرآن کریم میں اس کا ذکر بہت ساری جگہوں میں آتا ۔ کیونکہ یہ ربوبیت کی عظیم ترین نشانیوں میں ہوتا ۔ جب کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے شخص ( نوح علیہ السلام ) کا ذکر فرمایا ہے جس کو اس نے ساڑھے نو سو سال ( ۹۵۰ ) کی زندگی عطا فرمائی اور اسکو ایک آیت اور نشانی قرار دیا تو پھر اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جس کو اس نے قیامت تک کی زندگی دے دی ہو۔ اور اسی لئے بعض علماء نے کہا : کہ یہ بات ( حیات خضر علیہ السلام ) صرف شیطان نے لوگوں کے اندر ڈالدی ہے ۔
( ذ ) خضر علیہ السلام کے حیات ہونے کی بات کہنا اللہ پر بغیر علم کے کوئی بات کہنا ہے ۔ اور قرآن آیت کے مطابق ایسا کرنا حرام ہے ۔ یہ دوسری چیز تو واضح ہے لیکن پہلی بات ( یعنی خضر علیہ السلام کی حیات ) تو حقیقتا اگر انکی زندگی واقی طے شدہ ہوتی تو ضرور قرآن آیت یا سنت یا اجماع امت اس پر دلالت کرتے ۔ کتاب اللہ کو ہی لیجئے اس میں کہاں خضر علیہ السلام کی حیات کے بارے میں ذکر ہے ؟ سنت رسول ﷺ کو ٹٹولئے کہاں پر اس میں کوئی ایسا فرمان ہے جو اس بات پر کسی بھی طرح سے دلالت کرے ؟ اور یہ علماء امت ہیں کیا ان کا ان کی حیات پر اجماع ثابت ہے ؟
( ز ) جو لوگ انکے حیات ہونے کی بات لہتے ہے انکی انتہا جسکو وہ تھامے ہوئے ہے ایسی بیان کردہ حقایتیں ہیں جنہیں کوئی شخص بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے خضر علیہ السلام کو دیکھا اور بس ! کتنی حیران کن بات ہیں ؟ کیا خضر علیہ السلام کی کوئی پہچان ہے جسکے ذریعے اسکو دیکھنے والا شخص پہچان لینا ہے ؟ ان میں سے اکثر لوگ اس کے یہ کہنے سے دھوکے میں آجاتے ہیں ؛؛ کہ میں خضر ہوں ،، اور طے شدہ بات ہے کہ یہ بات ( کہ میں خضر ہوں ) اللہ کی جانب سے بغیر کسی قطعی برھان و دلیل کے تصدیق کرنا مناسب نہیں ہے ۔ دیکھنے والے کو یہ کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ اس کو یہ خبر دینے والا سچا ہے جھوٹ نہیں بول رہا ہے ۔
( ھ ) خضر علیہ السلام نے موسیٰ بن عمران کلیم اللہ علیہ السلام سے علیحدگی اختیار کی اور انکے ساتھ نہیں رہے اور ان سے کہا (( ھذٰا فراق بینی و بینک )) یہی میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے ؛؛
کیسے موسیٰ علیہ السلام جیسے شخص سے اپنی جدائی پر خوش ہوسکتے ہیں اور پھر شریعت سے دور ناداں و جاہل لوگوں سے ملاقاتیں کرتے پھریں جو نہ جمعہ ، نا ہی جماعت ، اور نہ کسی علمی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں ، نہ شریعت میں سے انکو کسی چیز کا علم ہوتا ہے ۔ اور ہر ایک ان میں سے یہی کہتا ہے ،، کہ خضر علیہ السلام نے ایسا فرمایا ۔ یا خضر علیہ السلام میرے پاس آئے ، یا خضر علیہ السلام نے وصیعت کی ،، تعجب ہے اس خضر علیہ السلام پر کہ کلیم اللہ کو تو چھوڑ دیتے ہے اور جاہلوں و نادانوں کے ساتھیوں اور ایسے لوگوں جو نہ وضو کا طریقہ اور نا ہی نماز کا طریقہ جانتے ہے ، کے در پر چلے جاتے ہیں !۔

ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے : کہ امام نووی رحمہ اللہ اور اسکے علاوہ دوسرے علماء نے انکے ( خضر علیہ السلام ) آج تک اور پھر قیامت تک زندہ ہونے اور رہنے کے سلسلے میں دو قول بیان کئے ہیں وہ کہتے ہے : ابن الصّلاح نے ان کی حیات کی بات کی ہے اور اس بارے میں سلف اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بہت سارے آثار و حقایتیں بیان کی ہیں اور اس کا ذکر بعض احادیث میں بھی آیا ہے لیکن ان میں کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے ۔ ان حدیثوں میں سے سب سے زیادہ مشہور تعزیت کی حدیث ہے مگر اس کی سند ضعیف ہے ۔ ( تفسیر اب کثیر ج ۳ ص ۹۹ )

ابوالحسین بن المنادی ایسے شخص کی بات کو بہت برا سمجھتے جو یہ کہتا ، کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں ؛۔ ( روح المعانی ،ج: ۱۰، ص: ۳۲۰ )

امام و محدّث شیخ محمد بن السید درویش فرماتے ہیں ،؛ انکی زندگی کے سلسلے میں کوئی ایسی دلیل وارد نہیں ہوئی ہے جس پر اعتماد کیا جاسکے ۔؛؛ ( بحوالہ ، أسنی مطالب ، ص: ۷۹۶ )

أسنی المطالب ،، کے مؤلف فرماتے ہیں : سنت نبویہ میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جو یہ بتائے خضر علیہ السلام زندہ ہے یا وہ مرچکے ہے۔ انکی زندگی کے بارے میں کوئی چیز صحیح نہیں اور نا ہی ہر سال الیاس علیہ السلام کے ساتھ ان کی ملاقات کرنے کے بارے میں کوئی چیز درست ہے اس صورت میں تو یہ لازمی ہوگا کہ الیاس علیہ السلام بھی زندہ ہیں جبکہ اہل اسلام میں سے کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی۔،، ( بحولہ ، أسنی المطالب، ص ۷۹۸ ،)

اگر خضر علیہ اسلام رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زندہ ہوتے تو ان کہ افضل ترین حالت یہ ہوتی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتھ ہوتے کیونکہ اگر تمام انبیاء بھی زندہ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ کہ اتباع ان سبھی پر لازم ہوتی ۔ اور رہے خضر علیہ السلام تو ایسی کوئی صحیح نص وارد نہیں ہوئی ہے جو ہمیں یہ بتائے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے ملے ہو ۔ اور اگر وہ موجود ہوتے تو وہ ضرور رسولاللہ ﷺ سے قرآن و سنت کہ تبلیغ کرتے اور یہ اللہ کے بندوں میں سے انبیاء و صالحین کا سب سے افضل عمل ہے ۔کچھ ایسی صحیح احادیث مبارکہ ہے جن میں رسول اللہ ﷺ کا ایک معجزہ ذکر ہوا ہیے جب انکو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے غیب میں سے ایک چیز کے بارے میں مطلع فرمایا : رسول اللہ ﷺ فرماتے ہے (( تمہاری جو یہ رات گزری پس بے شک صدی کے آخر تک ان لوگوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا جو آج سطح زمین پر جی رہے ہے ۔ ( صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ ، باب ، لاتأ تی مائة سنة منھا لایبفی نحن ھو علی ظھر الأ رض ۔ ح : ۲۵۳۷ ،، و رواہ ابو دائود و الترمذی و أ احمد )

صحیح احادیث میں کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جو آج ان کے زندہ ہونے پر دلالت کرے ۔ پس خضر علیہ السلام اگچہ انہونے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ نہ پایا جیسا کہ غالب گمان ہے جو کہ قوت میں قطیعت کے درجہ کو پہنچاتا ہے پھر کوئی اشکال نہیں رہتا ۔ اور اگر انہونے ان کا زمانہ پا بھی لیا ہو لیکن آج وہ مفقول ہیں موجود نہیں ۔ کیونکہ وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کے عموم داخل ہیں اس کی بنیاد انکو علیحدہ خصوصیت دینے والی دلیل کی عدم موجودگی ہیں ۔ یہاں تک کہ یہ کسی ایسی صحیح دلیل سے ثابت نہ ہوجائے جسکو قبول کرنا واجب بن جائے ۔ واللہ اعلم ( الخضر بین الواقع والتھویل نقلا عن البدایہ و النھایہ لابن کثیر ، ج۱ ،ص ۳۳۶ )
صحیح نصوص کے پاس بھی ہتھیار ڈالدینا ہی زیادہ محفوظ اور انساف پسندی ہے ۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ جو شخص خوابوں اور کشف پر اعتماد کرکے نصوص کو چھوڑ دیتا ہے وہ ضرور خرافات میں پڑے گا ، اور اپنی زندگی کو ایک بڑے وہم میں بدل ڈالے گا ۔ اور جو شخص روحانی عالم سے ٹکریے ۔ وہ بھی اسی طرح کم خطرے والی بات نہیں ہے اور جماعت صوفیہ خضر علیہ السلام کے وجود اور آج تک انکے زندہ باقی رہنے پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اس بارے میں انہونے بہت سارے قصے اور حکایتیں بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہے کہ وہ ( صوفی ) ان سے ملتے ہیں ، انکے ساتھ مشورے کرتے ہے ، وہ انکی مجلسوں میں آتے ہے اور وہ اسکا استقبال کرتے ہے جیسے کہ ابن آدھم ، بشر الحافی معروف الکرنی ، جنید ( بغدادی ) اور ابن عربی کی مثال ہے ۔

ابن عربی اپنی کتاب ۔ التذکاری میں کہتے ہے : کہ وہ خضر سے ملے اور انہونے خضر علیہ السلام اس کو صوفیت کا لبادہ پہنایا ۔ یہ سب کچھ مکہ مکرمہ میں حجرأسود کے مقابل انجام پایا ۔ اور انہونے اس سے مقامات شیخ ( یعنی اہل تصوف ) کی قدم بوسی کا احد لیا ۔ حالانکہ وہ اس لبادے کو خضر علیہ السلام کے ہاتھوں پہنانے میں ڈانواڈول تھے یہاں تک کہ خضر علیہ السلام نے ان کو یہ جانکاری دی کہ انہونے خود اسکو فیوض و برکات کے منبع مدینہ مشرفہ میں رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارکہ سے پہنایا ہے ۔ ( التذکاری ،ص ۳۰۴ )

اور وہ باتیں جن کو بعض لاعلم نادان تصوف کے شکار لوگ پھیلاے اور عام کرتے ہیں در حقیقت وہ شیطانی خیالات اور بیہودہ باتیں ہے ۔ اور کوئی مسلمان کیسے اس بات کو جائز قرار دے سکتا ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کو ثابت کرے جسکے بارے میں اس کو کوئی علم نہ ہے ۔ حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر مسلمان سے یہ بات کہتا ہے ( ولا تقف ما ليس لك به علم إن السمع والبصر والفؤاد كل أولئك كان عنه مسئولا ،، سورة الإسراء ۳۶ )
ترجمہ : اور تم ایسی باتوں کے پیچھے نہ پڑو جن کے بارے میں تم کو کچھ بھی معلوم نہیں ۔ بے شک کان ،آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سب سے پوچھا جائے گا ۔
بہت سارے علماع کا یہ ماننا ہے کہ خضر علیہ السلام رحلت فرما چکے ہیں ۔ ان میں یہ لوگ شامل ہے : امام بخاری ، ابراھیم الحربی ، ابو الحسن بن المنادی ، اب الجوزی ، ابن حزم الظاہری ، ابو بکر بن العربی ، علی بن موسیٰ الرضی ، قاضی ابو لیعلی ، ابو یعلی بن الفراء ، ابو طاہر العبادی ، ابو حیان الاندسی ۔

اور آخر میں یہی کہنا چاہیں گے کہ یہ جو ہم نے بیان کیا ہے یہ اس شخص کے لئے آخری حد نہیں ہیں جو زیادہ جانکاری اور اس مسئلے میں جس میں اٹکلی بہت زیادہ ہوئی ہیں ۔ علماء اعلام کے اقوال کی حقیقت کو پرکھنا چاہے ۔ بے شک اٹکل اور گمان حق کے آگے کوئی فائدہ نہیں دیتا اور ہر مسلمان کو جان لینا چاہئے کہ وہ اپنے ہر قول و عمل کو انجام دینے میں کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنے کا پابند ہیں اور اس بات کا بھی پابند ہے کہ وہ باطل پرستوں کے اندازوں ، مقلدین کے دعووں اور جھوٹوں کے بہکاوے کی طرف مائل نہ ہو ۔

مزید جانکاری کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے :
۱ عجلة المنتظر فی شرح حالة الخضر ،، یہ امام اب جوزی کی تالیف ہے ابن جوزی نے یہ کتاب عبدالمغیث کی کتاب کے رد میں لکھی ہیں اسی طرح شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی ان کی وفات کے بارے میں ایک جزء لکھا ہیے جیسے کہ ان کے شاگرد ابن قیم نے اپنے رسالہ ۔ اسماء مؤلفات ابن تیمیة مین اس کو بیان کیا ہے ۔ اس رسالہ کو دمشق میں ۱۳۸۷ھ میں الجمع العلمی نے چھپایا ہے ۔

اسی طرح علی القاری نے بھی اسی مسئلے کے بارے میں ایک جز لکھا ہے جسکا نام انہونے کشف الحذر عن أمر الخضر رکھا ہے ۔ یہ کتاب روس کے پرانے شہر قازان علاقے میں چھپ چکی ہے۔

حافظ الحجر رحمہ اللہ نے ، الاصابة میں خضر علیہ السلام کے متعلق لمبی تألیف لکھی ہے اور مسئلے میں بیان شدہ خبروں کا مناقشہ کیا ہے ۔ حافظ بن حجر نے ، فتح الباری میں بھی اس پر لمبی چوڑی بحث کی ہے ۔ جیسے ابن کثیر نے البدایة والنھایة میں اس کے متعلق وسیع بحث کی ہیں ۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
زیارت قبور !

جس طرح کہ اسلام نے قبروں کو سجدہ گاہیں بنا کر ان پر نماز پڑھنے ، یا ان کو پختہ بنانے نے ، ان پر تختیاں لگانے ، ان کو روندنے ، ان کے پاس ذبح کرنا یا ان پر عمارت بنانے سے منع کیا ہے ٹھیک اسی طرح اسلام اسلام میں زیارت کرنے کو مباح قرار دیا ۔ مسلمانوں کو نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کے لئے زیارت قبور کا حکم دیا ۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں : جان لو کہ انبیاء اور دوسرے سارے مسلمانوں کی قبرو کی زیارت دو طرح کی ہے ۔

۱۔ زیارة شرعیة
۲۔ زیارة بدعیة

زیارة شرعیة : زیارت شرعیہ کا مقصد ان پر سلام بیجنا اور ان کے لئے دعا کرنا ہے ۔ جیسے کہ صحیح حدیث میں بریدہ رضی اللہ عنہ منقول ہے وہ فرماتے ہے : رسول اللہ ﷺ ان کو سکھاتے تھے کہ جب وہ قبروں کی طرف نکلا کرے تو یہ کہا کرے ( السلام علیکم أھل الدیار من المؤمنین والمسلمین ،و إﻧﺎ إن ﺷﺎء اﷲ ﺑﮐم ﻻﺣﻘون، أنتم لنافرط ، و نحن لکم تبع ، نسال اللہ ولکم العافیة )
ترجمہ ؛ اے مؤمنوں اور مسلمانوں میں سے مدفون لوگو تم پر اللہ کی سلامتی ہو بے شک ہم بھی تم سے ملنے والے ہے تم ہم سے پہلے چلے گئے ہو اور ہم تمارے پیچھے پیچھے آنے والے ہے ہم اپنے اور تمارے لئے اللہ سے عافیت مانگتے ہیں ۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہے ؛ زیارت شرعیہ جسکو رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے لئے سنت قرار دیا وہ مردے پر سلام اور اسکے لئے دعا کرنے پر مشتمل ہے۔ اس کے جنازے پر دعا کے مانند ۔ پس جنازے کی نماز پڑھنے والے کا ارادہ میت کے لئے مغفرت ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی دعا سے میت پر رحم فرماتا ہے ۔ اور خود اس شخص کو ( میت کے لئے دعا کرنے والا ) اسکی دعاؤں پر اجر دیتا ہے ۔ اسی طرح اس شخص کو اجر ملتا ہے جو مشروع طریقہ پر قبر کی زیارت کرتا ہے ۔ انکو سلام کہتا ہے اور انکے لئے دعا مانگتا ہے ۔ اس کی دعا کی وجہ سے ان پر رحم کیا جاتا ہے اور اس کو ان کے ساتھ احسان کرنے کے سبب اجر دیا جاتا ہے ۔ ( مجموع الفتاوی الکبری ۔ ج ۴ )

زیارت بدعیہ یہ ہے کہ وہ ( مسلمان ) انکی زیارت مشرکوں کے انداز میں کرے ۔ یا اس انداز میں جس کو بدعتی لوگ مردوں کی دعا کے لئے اختیار کرتے ہے۔ ان سے اپنی حاجتیں طلب کرکے یا یہ اعتقاد رکھے کہ ان میں سے کسی کی قبر کے پاس دعا مانگنا مسجدوں اور گھروں میں دعا مانگنے سے زیادہ افضل ہے۔ یہ اللہ پر انکے ذریعے قسم کھانا اور اللہ تعالیٰ سے ان کے ضریعے ( واسطے ) سوال کرنا اور مانگنا ایک مشروع معاملہ ہے جو دعا کی اجابت کا ضریعہ ہے ۔ تو اس جیسی زیارت بدعت ہے جس سے منع کیا گیا ہے ، اور ایسی زیارت قطعی طور پر نبی ﷺ کی سنت نہیں ہے ۔ اور نا ہی اس امت کے سلف الصالحین میں سے اور نا امت کے ائمہ کرام میں سے کسی نے ایسی زیارت قبور کو ٹھیک سمجھا ہے ۔ بلکہ ایسی زیارت ان لوگوں کا عمل ہے جن کی کوشش اس دنیاوی زندگی میں بے کار ہوئی حالانکہ وہ سمجھتے ہے کہ وہ بہترین کام کررہے ہیں

کتنی بہترین بات ہے جس کسی نے بھی کہی ہے کہ زیارت قبور جیسی بھی ہو نبی ﷺ سے ثابت کیفیت کے مطابق سنت مشروعہ ہے لیکن وہ مدفون لوگوں سے مدد طلب کرنا چاہے وہ جو بھی ہو اور انکو اس غرض پکارنا ، دور یا نزدیک سے حاجات کو پورا کرنے کو ان سے طلب کرنا انکے لئے نزر ماننا ، قبروں کو پختہ کرنا ، ان پر پردے لٹکانا ، انکو روشن کرنا ، ان پر ہاتھ پھیر کر خود پر ملنا ، اللہ کے سوا کسی کی قسم کھانا اور اس سے ملتی جلتی بدعات کی چیزیں ایسے گناہ کبیرہ ہے جن کی مخالفت کرنا واجب ہے اور عملوں کے لئے سداللزیعتہ کی تعبیر نہیں کی جائیگی ۔

اللہ جل وعلا فرماتے ہے :(( وما خلقت الجن ولانس الالیعبدون )) ترجمہ : اور میں نے جن اور انسان کو صرف اسلئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں ۔؛؛

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عبادر کو صرف اس صورت میں عبادت نام دیا جاسکتا ہے جب اسکے ساتھ توحید ہو جیسے کہ نماز کو صرف اس وقت نماز کہا جائے گا جب وہ طہارت کے ساتھ ہو ۔ پس جب عبادت میں شرک شامل ہوجائے تو وہ فاسد ہوجاتی ہے جیسے کہ حدیث جب وہ طہارت میں داخل ہوجائے ۔ اور جب شرک عبادت میں مل جاتا ہے تو وہ عبات کو بگاڑ دیتا ہے ، عمل کو ضائع کر دیتا ہے اور وہ شرک کرنے والا جہنم میں ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہوجاتا ہے ۔ ( ان اللہ لا یغفران یشرک به ویغفر مادون ذالک لمن یشاء )

محقق ابن القیم جوزی فرماتے ہیں : عبادت دو اصلوں کو ایک ساتھ مجع کرتی ہے (۱) انتہائی درجے کی محبت (۲) انتہائی درجے کا سر تسلیم خم ۔ عرب کہتے ہے : طریق معبد ، أی ، مذلّل ؛؛ ایسا راست جو بہت زیادہ چلنے سے ہموار ہوگیا ہو ۔ اور تعبّد کہتے ہیں بہت زیادہ خضوع اور اپنے آپکو حقیر بنایا اس کیلئے جس کو وہ محبت کرتا ہو ۔
جاری ہے ان شاءاللہ​
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
! خضر علیہ السلام کے آثار کیطرف منسوب شعبدے​

بعض اسلامی ممالک میں شعبدہ باز اور جھوٹے صوفیہ اور انکے علاوہ دوسرے باطل عقائد رکھنے والوں نے بہت ساری خروافات ایجاد کی ہیں جنکو انہنونے جھوٹ اور بہتان کے طور پر خضر علیہ السلام اور انکے علاوہ دوسرے لوگوں کی طرف منسوب کیا ہے اور ان پر قبے تعمیر کئے ہیں تاکہ وہ انکے لئے لوگوں کا مال ہڑپنے اور اسکو غلط طریقے سے کھانے کی راہ ہموار کرسکیں جس کی وجہ سے کم عقل اور نادان لوگ ان وثنیات پر جاتے ہیں جوکہ ؛ آثار خضر ؛ کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ وہ بڑے خشوع کے ساتھ انکے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان پتھروں سے اپنے بیماروں کی شفا اور اپنے دور رہنے والوں کی واپسی کے خواستگار ہوتے ہیں ۔ اور ان سے اپنی بانجھ عورتوں کے حاملہ ہونے کی دعائیں مانگتے ہیں ۔ انکے لئے نزریں مانتے ہیں ، انکے سامنے بکریوں کے بچے ذبح کرتے ہیں ۔ انکے ستونوں پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور انکو خوشبو سے معطّر کرتے ہیں اس سوچ کے ساتھ کہ وہ ایک ایسے واجب عمل کو انجام دے رہے ہیں جس سے مقصد پورا ہوگا ۔ اور وہ نہیں جان پاتے ہیں کہ یہی وہ شرک ہے جس سے انسان اسفل السافلین میں لڑھکتا جاتا ہے جیسے کہ اللہ کا فرمان ہیں (( ومن يشرك باللـه فكأنما خر من السماء فتخطفه الطير أو تهوي به الريح في مكان سحيق ۔سورة الحج ۳۱)) ترجمہ : اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گرگیا تو پرندے اسکو اچک لیں یا ہوا اس کو کسی پستی کی جگہ میں پھینک دے ،،

اور یہ وہ چیز ہے کہ جس میں پائی جائے تو وہ جنت میں داخل ہونے سے محروم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
(( إنه من يشرك باللـه فقد حرم اللـه عليه الجنة ومأواه النار وما للظالمين من أنصار۔ سورة مائدة))
ترجمہ : جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ۔
ان سبھی قطعی اور باطل کو مٹانے والی ادلّہ کے ہوتے ہوئے بھی ہم بہت سارے مسلم ممالک میں یہاں وہاں ہر طرف ایسے لوگوں کے بہت سارے قبے بکھرے دیکھتے ہیں جنکی عوام میں شہرت ہوتی ہے اور ایسی عجیب و غریب حکایات ہوتی ہیں جنکی وجہ سے سادہ لوح لوگ اس بات پہ آمادہ ہوجاتے ہیں کہ یہ واقعی ہی خضر علیہ السلام کے آثار ہیں ۔ یا ابو زیدان یا ابو ھیثم الجرانی شیعی ، یا ابو محیتہ یا نبی صالح علیہ السلام کے آثار ہیں ۔ اسطرح وہ ان کو منسوب کرتے ہیں ( یعنی ان قبوں اور ان آثار کو مختلف لوگوں ، بزرگوں کا جتلاتے ہیں ) یا صعصعتہ ، ابن سلومان ، حسین بن علی رضی اللہ عنھا ، احمدالبدوی اور سیدہ زینب کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ عجوبات میں سے تو یہ ہیں کہ زینب ہیں تو ایک مگر انکی تین تین قبریں ہیں ۔ ایک مصر میں دوسری سوریا میں اور تیسری عراق میں ۔ حسین کی بھی ایک سے زیادہ قبریں ہیں جسطرح کہ رفاعی کی بہت ساری قبریں ہیں اور یہ عام لوگوں میں جہالت اور غباوت (کند ذہنی) پر دلالت کرتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر ( وہ سوچ سکتے تھے ) ایک ہیں آدمی کی کئی کئی قبریں کیسے ہوسکتی ہیں ؟
اور ہم مقام عدن میں عیدوس اور ابوالعلی شمال یمن میں أھدل، عائشہ ، سکینہ اور ابوالعباس ، کربلا میں علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ بہت سارے لوگ جن سے خرافیوں اور بہتان بازوں کا تعلق ہے ، کو بھلا نہیں سکتے بلکہ ہم نے تو بڑی مصیبت اور شرک اکبر پایا جس سے کہ ابن قیم نے اپنے نونیہ قصیدے میں یہ کہتے ہوئے ڈرایا :

والشرك فاحذره فشرك ظاهر۔۔۔۔ذا القسم ليس بقابل الغفران
اور تم شرک سے ڈرو پس شرک مختلف اقسام کے ساتھ ظہور پزیر ہے مغفرت کے قابل نہیں ہوسکتا

وهو اتخاذ ند للرحمن أيا۔۔۔۔۔کان من حجر و من إنسان
اور وہ (شرک) رحمٰن کا ساتھی بنا لینا ہے چاہے وہ کوئی پٹھر یا انسان ہو

يدعوه أو يرجوه ثم يخافه۔۔۔۔۔۔ ويحبه كمحبة الديان
اسکو پکارتا ہے، اس سے امیدیں وابستہ کرتا ہے اور اس ڈرتا ہے اور اسے محبت دیتا ہے جیسے بدلہ دینے والے (اللہ) سے محبت کرتا ہے

واذا ذکرت اللہ توحید رأیت۔۔۔۔۔۔ وجوھھم مکسوفة الألوان
اور جب تم صرف تنہا اللہ کو یاد کروگے تم انکے چہروں کے رنگ پھیکے پڑتے دیکھو گے

واللہ ماشموا روئح دینة۔۔۔۔۔۔۔۔ یاز کمة أعیت طبیب زمان
قسم اللہ کی! وہ اسکے دین کی مشک بھی نہ سونگھ سکے اے زکام زدہ شخص ! تونے زمانے کے طبیب کو تھکا دیا ۔

اور معاملے کی سنگینی کے باوجود یہ قبے اکثر مسلم شپروں میں پھیلے ہوئے ہیں اور اکثر مسلمان شرک اکبر میں گرفتار ہوگئے ہیں ۔ والعیاذباللہ ۔ میں نے مصر میں بہت ساری عورتوں کو ان قبروں کا طواف کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے اپنے ان ساتھیوں میں سے ایک سے پوچھا جو میرے تھے کہ یہ عورتیں کیا کررہی ہیں ؟ اس نے جواد دیا کہ یہ ان قبروں کا طواف کررہی ہیں : میں نے پوچھا کیوں ؟ اس نے کہا : کہ انکا اعتقاد ہیں کہ یہ مدفون لوگ مانگنے والوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ میں أزھر کے شہر میں ان لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر بہت غمگین ہوا اور مجھے امام مجدد محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت سے پہلے نجد کی حالت یاد آگئی ۔ جہاں جدی عورت کھجور کے درخت کے تنے سے لپت کر کہتی تھی: اے نروں کے نر! میں سال بیتنے سے پہلے بچہ چاہتی ہوں ۔ میں نے اپنے اس سفر کے دوران بہت سارے مردوں ، عورتوں اور علماء سوء کو قبروں کے ارد گرد طواف کرتے، انکا قبروں کیلئے نزر کئے گئے جانوروں کے گوشت اور مٹھائیاں مانٹتے اور ان قبروں کے قبوں پر سبز جھنڑے بلند دیکھا ہے حالانکہ ان مسلم مملاک کی حکومتوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ شرک کے ذرائع کو بند کرنے ( سدّاللذریعة ) اور لوگوں کے عقائد کو کفروالحاد اور زیغ وضلال سے بچانے کیلئے ان قبّوں کو تہس نہس کردیتیں، اور انکی یہ بھی ذمہ داری تھی کہ وہ لوہے کے ہاتھ سے ان جحوٹوں اور گرے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں پر وار کریں جو عامتہ الناس کیلئے شرک وہ گمراہی کو سجاتے سنوارتے ہیں اور فساد و بگاڑ کو عام کرتے ہیں ۔ اور بہت سارے مسلمانوں کی عقل وفہم پر وہ ایک چھاپ ڈالنے میں کامیاب ہوچکے ہیں یہاں تک کی وہ ( مسلمان) ان کے جھوٹ کے پلندوں پر ان کی پیروی کرنے پو آمادہ ہوچکے ہیں ۔

مسلمان علماء پر دعوت و تبلیغ کے فریضہ کی ذمہ داری ہے اور لوگوں کو انکے دین حق سے بیرہ ور کرے اور حق کو باطل سے واضح اور صاف کرنے کی ذمہ داری ہے ۔ کیونکہ وہ توحید کی حفاظت میں انبیاء کے وارث سنت رسولﷺ کے محافظ اور ان بدعات و خرافات اور فضول باتوں پر کاری ضرب لگانے والے ہیں ۔ جو مسلمان لوگوں کی عقلوں میں پنپ چکے ہیں اور انکی زندگی کو ایک بری توہم پرستی میں بدل دیا ہے۔ اور وہ ایسے بن گئے ہیں جیسے کہ بقول شاعر :
اذا ما جھل خم فی بلاد رأیت أسودھا مسخت قرودا
ترجمہ: جب کسی شہر میں جہالت ڈیرے ڈالتی ہے تو میں نے اس کے شیروں کو بندروں میں بدلتے دیکھا ہیں ۔

میں عرش عظیم کے رب اللہ تبارک وتعالیٰ سے یہی مانگتا ہوں کہ وہ ان قبور اور قبروں کیلئے جنکی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، کسی ایسے شخص کو بھیجے جو انکو تہس نہس کرے، انکو مٹادے اور مسلم ممالک کو انکے شر سے پاک کرے بے شک وہ سننے اور قبول کرنے والا ہے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
خضر علیہ السلام کے گمان کردہ آثار کی زیارت کرنیوالوں میں سے چند کے ساتھ گفتگو !

سید قطب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کبھی کبھار اللہ کے ساتھ پوجے جانے والے معبود اس سیدھے سادھے طریقے پر نہ پوجے جاتے ہوں جسکو مشرکین اختیار کرتے ہیں کیونکہ شرکاء مختلف پوشیدہ شکلوں میں بھی ہوتے ہیں ۔ کبھی تو وہ کسی بھی شکل میں اللہ کے بغیر کسی سے بھی امیدیں وابستہ کرنے ، کسی بھی صورت میں اللہ کے سوا کسی سے ڈرنے اور کسی سے بھی مشکل صورت میں اللہ کے سوا کسی سے نفع یا نقصان کا اعتقاد رکھنے کی صورت میں ہسکتا ہے۔

امام مجدد محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے نواقض اسلام بیان کرکے ان کے دس چیزوں میں محدود کیا ہیں جیسے کہ وہ آگے آئے گا ۔ عقیدہ کی وضاحت اور اس کو سمجھنے کی آسانی کے باوجود بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے اسلام کے آسان ترین معاملات سمجھنے میں نادانی کرتے ہیں ۔ آپ کے ثامنے میں وہ مکالہ پیش کررہا ہوں جو میرے اور ان بہنوں میں سے ایک کے درمیان ہوا جو بار بار خجر علیہ السلام کے آثار کی زیارت کیلئے آتی جاتی رہتی ہیں ۔ میں نے اس بہن کو مٹھائیوں کے کچھ ہدئے اٹھائے ہوئے دیکھا تاکہ اسکو خضر علیہ السلام کی قبر کے پاس لوگوں میں بانٹ سکے :

سوال: اے بہن ! آپ اس جگہ کیا کررہی ہیں ؟
جواب : میں خضر علیہ السلام کی زیارت کرنے آئی ہوں ۔

سوال: خضر علیہ السلام کون ہیں ؟
جواب : میں انکو نہیں جانتی مگر بعض لوگوں نے مجھ سے کہا کہ وہ اللہ کے بندوں میں سے ایک نیک بندے ہیں۔

سوال: آپ کے یہاں آنے کی کیا وجہ ہیں ؟ اور آپ چاہتی کیا ہیں ؟
جواب: بہت زمانہ بیت گیا حالانکہ میں بچہ جننے کی خواہش مٰین بہت سارے ڈاکٹروں کے پاس علاج کرتی رہی ۔ میں تو بس بچہ چاہتی ہوں ۔ مگر ڈاکٹروں سے کوئی فائدہ نہ ہوا تو بعض بزرگوں نے مجھ سے کہا : کہ تم خضر علیہ السلام کے قبر پر چلی جاؤ، اس کے پاس قربت حاصل کرلے تو تم پیٹ سے رہو گی ۔ کیونکہ کسی نے ان کے مقبرے کا ارادہ نہیں کیا کہ وہ اسکو نامراد کریں ۔

سوال: کیا یہ آپ کی خضر علیہ السلام کی پہلی زیارت ہیں ؟
جواب: نہیں اس سے پہلے بہت بار آچکی ہوں ۔

سوال: کیا وہ حمل حاصل ہوگیا جس کی آپ کو تمنا ہے ؟
جواب: نہیں ! ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔

سوال: میں آپ کو اپنے ہاتھوں میں یہ مٹھائیاں تھامے دیکھ رہا ہوں ایسا کیوں ؟
جواب: میں اسکو خضر علیہا سلام کیلئے ہدیہ کے طور پر لائی ہوں کیونکہ یہ انکے لئے نزر مانی تھی۔

سوال: کیا آپ نہیں جانتیں قربان اور نزر ونیاز صرف ایک تنہا اللہ کیلئے ہی ہوتے ہیں جسکا کوئی شریک نہیں۔ اور ( کیا آپ نہیں جانتی ) کہ ذبح ، نزریں اور اللہ کے سوا کسی اور کی قربت مانگنا ایسا بڑا شرک ہے جو عمل کو تباہ و برباد کردیتا ہے ؟

جواب: میں نہیں جانتی کیونکہ نہ مین پڑھی اور ناہی لکھتی ہوں لیکن میں نے ایک بزرگ سے سنا وہ مجھے مشورہ دے رہے تھے اور میرا خیال ہے کہ وہ دین کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔اے میری بہیں !یہ چیزیں جن کو گمان کردہ قبر کی زیارت کرنے والے اسکے بھینٹ چڑھاتے ہیں انکو اسی بزرگ جیسے لوگ اٹھاتے ہیں جس کا آپنے مجھ سے ذکر کیا ۔ وہ تو ایسے پلے پلائے لوگ ہیں جو لوگوں کا مال غلظ طریقوں سے تھاتے ہیں اور بہت سارے مسلامانوں کی عقل و فہم کو بیکار کردیتے ہیں ۔( اے بہن! ) آپ اپنے معاملے پر غور کیجئے اور اپنے اسلام کی حفاظت کیجئے اور جان لیجئے کہ مانگنے والوں کی حاجتوں کو پورا کرنے والا رب العالمین کے سوا اور دوسرا کوئی نہیں ۔ اللہ فرماتا ہے ۔ (( الذي خلقني فهو يهدين ٧٨ والذي هو يطعمني ويسقين ٧٩ وإذا مرضت فهو يشفين ٨٠ والذي يميتني ثم يحيين ٨١ والذي أطمع أن يغفر لي خطيئتي يوم الدين ٨٢)) سورة الشعراء
ترجمہ : جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے (79) اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا۔؛؛
میری ان آیات مبارکہ کو پڑھنے کے بعد جو وہ سن رہیں تھی میں نے اس سے یہ کہا کہ وہ اس جیسے معاملے کو دوبارہ انجام نہ دے ۔ وہ اپنے رب سے معافی کی خواستگار ہوئی۔ میں اکو چھوڑ کر رب تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے ہوئے اپنی راہ ہولیا کہ وہ میرے ان ناصحانہ کلمات کو خالص اپنی ذات کیلئے قبول فرمائے ۔

میں ایک ایسے شخص سے بھی ملا جو ایک بکری کو اس خیالی نشان خضر کی طرف کھینچے لئے جارہا تھا ۔ میں اسکے سامنے کھڑا ہوگیا اور اسکو سلام کیا تو اسنے سلام کا جواب دیا ۔ میں نے اس سے کہا کہ میں آپ سے چند سوال پوچھنا چاہتا ہوں تو اس نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا ۔ پوچھئے میں حاضر خدمت ہوں ۔

سوال: میں دیکھ رہا ہوں آپ اس بکری کو کھنچے چلے جارہے ہیں، آپ اسکو کہاں گھسیٹے جارہے ہیں؟
جواب: میں اسکو آستان کی طرف لئے جارہا ہوں اور وہاں میں اسکو اسکے سامنے ذبح کروں گا ۔

سوال: کس لئے ؟
جواب: شاید کی وہ میرے بیمار کو ٹھیک کردے ۔

سوال: کیا آپ کا بیٹا بیمار ہے؟
جواب: ہاں! میرا بیٹا دو سال سے فالج زدہ ہے۔ اور وہ بستر پر پڑا ہوا ہے۔

سوال: آپ اسکو لیکر ہسپتال کیوں نہیں چلے جاتے ؟
جواب: میں اسکو تمام ہسپتالوں میں لے گیا مگر میں نے علاج نہیں پایا۔

سوال: کیا اس قبر کے پاس شفاء ملجاتی ہے؟
جواب: شفاء تو اللہ کے پاس ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ اس قبر والے کے پاس جاؤ ۔ کیونکہ وہ اولیاء میں سے ایک ولی ہیںاسکے پاس ایک بکری ذبح کرو پھر اسکی طرف وسیلہ اختیار کرو ۔

سوال: کیا آپ اس ولی کو جانتے ہیں؟
جواب: نہیں ۔

سوال: کیا آپ محتاجی کی زندگی گزارتے ہیں؟
جواب: ہاں !

سوال: آپ اس بکری کی قیمت کہاں سے لائے ؟
جواب: قسم بخدا میرے دوست ! میں نے کچھ بھائی بندوں سے رقم ادھار لی تاکہ میں اسکو خرید سکوں۔

سوال: کیا آپ نہیں جانتے یہی شرک ہیں؟ ( کیا آپ نہیں جانتے ) کہ اللہ کے سوا کسی اور کیلئے ذبح کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے؟
جواب: نہیں ۔

سوال: کیا آپ نہیں جانتے ایسے کرنے کی وجہ سے اللہ آپ کی چالیس دنو کی نماز قبول نہیں کرے گا ؟
جواب: نہیں ۔

سوال: پھر آپ ایسے شرکیہ کام کیوں کرتے ہیں؟
جواب: اس لئے کہ میں ایسا آدمی ہوں جو امور دینکے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ ہاں بعض علماء نے مجھ سے کہا کہ اولیاء کے پاس جاؤ۔ ان کا قرب حاصل کرو کیونکہ وہ خالق اور مخلوق کے بیچ درمیانہ دار ہیں۔

میں نے اس شخص سے کہا : یہ کسی شیطان صفت کی بات ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ہے بلکہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: (( ولا تدع من دون اللـه ما لا ينفعك ولا يضرك فإن فعلت فإنك إذا من الظالمين ۱٠٦ سورة يونس )) ترجمہ: اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (( من مات وھو یدعو من دون اللہ ندا دخل النار )) جو اس حالت میں مرجائے کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور شریک کو پکارتا ھو تو وہ جہنم میں داخل ہوگا ۔ ( صحیح بخاری ، کتاب التفسیر ، ح: ۴۴۹۷)
اور جان لے میرے بھائی ! جس نےآپ کو اکسایا آپ کو دھوکہ دیا ہے اور آپ پر آپ کے دین کو مشکوک بنادیا۔
بے شک اسلام میں اللہ کے سوا کسی سے مدد مانگنا اور ایسی چیزوں کو وسیلہ بنانا جن کا حکم نہیں ہے قطعی جائز نہیں ہے ۔ اللہ کافرمان ہے (( إياك نعبد وإياك نستعين )) اور نبی ﷺ کا فرمان ہے (( واذا سألت فاسأل اللہ، واذا استعنت فاستعن باللہِ )) [سنن الترمذی ، ح: ۲۵۱۶] ترجمہ: اور جب تم مانگو تو اللہ ہی سے مانگو، اور جب مدد چاہو تو اللہ ہی سے مدد چاہو۔؛؛

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اللہ کی طرف توسل اور قربت حاصل کرنے کیلئے مشروع راہ واضح کردی ہے حاجتیں اور ضرورتیں پوری کرنے کے بارے میں فرمایا: (( وللہ الاسمآء الحسنیٰ فادعوہ بھا)) اور اللہ کے بہت ہی اچھے نام ہیں پس تم لوگ اسے انہیں ناموں کے زریعے پکارو(الاعراف ۱۸۰)
اور اللہ کا فرمان ہے (( يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللـه وابتغوا إليه الوسيلة )) تجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اسکا تقرب تلاش کرو۔؛؛

اور اے میرے بھائی ! آپ یہ بکری لے آئے ہیں اسکو غیراللہ کے لئے ذبح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تو شرک اکبر ہے۔ اللہ کی پناہ! کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان نہیں سنا ؟ ( لعن اللہ من ذبح لغیر اللہ ) ’[ صحیح مسلم ،کتاب الأضاحی، باب:تحریم الذبح لغیر اللہ،ح: ۱۹۷۸] ترجمہ : اللہ کی لعنت ہے اس شخص پر جو اللہ کے بغیر کسیکے لئے ذبح کرے ۔
اور یہ جس سے آپ مدد مانگ رہے ہیں یہ طاغوت ہیں ایک شیطانی مجسمہ ہے۔ مومن اس سے برتر ہےکیونکہ وہ جانتا ہے کہ استعانت صرف ایک اللہ سے ہے اور قرآن نے اس شخص کے خلاف واضح دلیل دی ہیں جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے (( والذین یدعون من دون اﷲ لایخلقون شیئا وھم یخلقون اموات غیراحیاء وما یشعرون ایان یبعثون )) ترجمہ: اور جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہین کر سکتے ہیں بلکہ وہی پیدا کئے جاتے ہیں۔ وہ مردے ہیں زندہ نہیں ہیں اور وہ نہیں جانتے کب دوبارہ اٹھائے جائینگے۔ سورة النحل

اس کے بعد کہ اس شخص نے اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا فرمان سن لیا تو اس کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے اور اس نے سمجھ لیا کہ بعض دجّالوں اور جھوتوں کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا گیا تھا ۔ جوکہ لوگوں کے لئے شرک کو مزین کرتے ہیں ۔ تو اس نے اپنے رب سے بخشش مانگی اور کہا: جب تک میں زندہ ہوں میں ایسا کام دوبارہ نہیں کرون گا ۔ پھر میرا شکریہ ادا کیا اور چلا گیا ۔

اگر ہم موجودہ دور میں عالم اسلام کی حالت پر غور کریں ، سوائے جس پر میرا رب رحم فرمائے، تو ہمارہ نظر بہت ساری ایسی چیزوں پر پڑے گی جو نئی بنائی ہوئی اور بدعات ہیں جنکو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اور اگر ہم ان بدعتیوں کو آزاد اور انکے باطل اعتقاد پر ہی چھوڑ دیں تو وہ لوگوں کو اسلامی شہروں میں دوبارہ وثنیت (بت پرستی ) اور شرک کی طرف لوٹا دیں گے اور قدیم جاہلیت کے بت نئے سرے سے وجود میں آئیں گے۔ اور عالم اسلام میں چمکتے سونے اور دمکتی چاندی یا قوت و جواہرات والے کتنے بت خانے ہیں! جن کے مجاور ، مرید اور انکے دوست واحباب گمان کرتے ہیں کہ یہ قبر یا مشہد یا مزار یا یہ گنبد فلاں ولی یا فلاں نبی کا ہیے ۔ اور اگر صاحب قبر کوئی نبی یا ولی ہی تو کیا یہ جائز ہے کہ ہم اس کی قبر کو اونچا کریں ، اسکو سجائے ، شمعدانو کے ذریعے اسکو جگمگ کرائیں، اس پر سجدہ گاہ بنائیں یا اس پر مسجدیں بناڈالیں ؟ جب کہ اس کا طواف ، اس سے استغاثہ ، اسکو پکارنا ، اسکو وسیلہ اور اس سے علی کریم کے سامنے درمیانہ داری کا اعتقاد رکھنا حرام ہو ِ ہاں! ایسا تب ہی ممکن ہوسکتا ہیں جب شرک اور بت پرستی کی طرف واپسی اور جاہل نفوس کو شرک سے بھردینے کی صریح دعوت ہو۔ عالم اسلام کے عام مسلمان کیا کرسکتے ہیں جب ایسے کاموں کی اچھائی اور بڑائی ظاہر کرنے کے لئے تصّوف کے میگزین کا اجراء ہوتا ہے؟ اور آپ اسکو اٰل رسول ﷺ کی محبت کی انتہا پر سمجھتے ہوں۔ زندیق درویش اور فاسق علماء ( ان میگزین میں ) لکھتے رہتے ہوں اور بعض اسلامی ملکوں میں منبروں اور محفلوں میں ایسے کاموں کی اچھائی اور عظمت کی خاطر خطبے دئیے جاتے ہوں اور آپ کسی ایسے شخص کے بارے میں نہ سنتے اور نہ پڑھتے ہوں جو اس صریح مت پرستی کی مخالفت کرے اور اسکے آڑے آئے ۔ ہاں جس پر میرا رب رحم کرے ( وہ ایسے درویشوں اور فاسق علماء کی صریح وثنیت کی مخالفت کرتا ہے )۔ مومن اپنے دلوں میں درد دائم کی کڑواہٹ محسوس کرتے ہیں اور ان خرافات کے پھیلنے اور عام ہونے پر کھول اٹھتے ہیں ۔ اور ایسے بھی ملک ہیں جو کسی قبر پر رکھنے کیلئے سونے کے بنے بت منتقل کرنے کی خاطر باضابطہ ہوائی جہاز بھیجتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کیا یہی اسلام ہے ؟
کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ شرک بہت بڑی بات ہیں اور بے شک جو لوگ خرافات کو عام کرتے ہیں ، ان پر یقین رکھتے ہیں اور من گھڑت باتیں پھیلاتے ہیں تو اس میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ پر بہٹ بڑا جھوٹ ، بہتان اور افتراء ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، (( فمن أظلم ممن افترى على اللـه كذبا أو كذب بآياته۔ سورة الأعراف ۳۷ )) ترجمہ : اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے؟ جو اللہ پر جھوٹ موٹ بہتان باندھے یا اس کی آیات کو جھٹلائے۔‘‘ پھر اللہ جل وعلا فرماتا ہے۔ (( ويوم القيامة ترى الذين كذبوا على اللـه وجوههم مسودة ، سورة الزمر ۶۰ )) ترجمہ: اور قیامت کے دن آپ ان لوگوں کو دیکھیں گے جنھونے اللہ پر جھوٹ باندھا کہ ان کے چہرے سیاہ ہوں گے ۔‘‘

مجدّد امام محمد بن عبدالوہاب رحمه اللہ نے کتاب و سنت کی ادلہ کے ساتھ نواقض اسلام بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:’’ جان لو کہ نواقض اسلام دس باتیں ہیں:

۱۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں شریک ٹھہرانا ۔ اللہ کا فرمان ہے (( ان اللہ لایغفر ان یشرک به و یغفر ما دون ذالک لمن یشاء ‘‘ سورة النساء )) ترجمہ : بے شک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اسکے علاوہ وہ دوسرے ( گناہوں ) کو بخش دے گا جس کو وہ چاہے ۔ و قال تعالی (( إنه من يشرك باللـه فقد حرم اللـه عليه الجنة ومأواه النار وما للظالمين من أنصار‘’ سورة المائدة )) ترجمہ : جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ۔‘‘ اور اس سے شرک سے مراد ذبح لغیر اللہ بھی ہے جیسے کہ کوئی شخص جن یا قبر کیلئے ذبح کرے۔
۲۔ جو اپنے اور اللہ کے بیچ میں درمیانہ دار بنائے انکو پکارے، ان سے سفارش کا طلبگار بنے اور ان پر بھروسہ کرے یہ اجماعا کفر ہے۔
۳۔ جو مشرکوں کو کافر قرار نہ دے یا انکے کفر میں شک کرے یا انکے مزہب کو صحیح مانے تو یہ بھی کفر ہے ۔
۴۔ جو یہ اعتقاد رکھے کہ نبی ﷺ کے طریقہ کے سوا کسی اور کا طریقہ زیادہ مکمل ہے یا انکے حکم و فیصلے سے کسی اور کا حکم و فیصلہ زیادہ بہتر ہے جیسے کہ کوئی شخص طاغوت کے فیصلے کو انکے فیصلے پر ترجیح دے تو وہ کافر ہے۔
۵۔ جس نے ان چیزوں میں سے کسی بھی چیز کے ساتھ بغض رکھا جسکو لیکر نبی ﷺ آئے وہ کافر ہیں پھر چاہے وہ اس پر عمل بھی کیوں نی کرے ۔
۶۔ جو دین اسلام کی کسی بھی چیز کا یا اس کے ثواب وعقاب کا مزاق اڑائے تو وہ کفر ہے اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے (( قل أباللـه وآياته ورسوله كنتم تستهزئون ۶۵ لا تعتذروا قد كفرتم بعد إيمانكم ۶۶ ۔ سورة التوبة )) ترجمہ : آپ کہہ دیجئے ( قیامت کے روز ان سے پوچھا جائے گا ) کہ کیا تم اللہ ، اس کی آیات اور اسکے رسول کا مزاق اڑاتے تھے ؟ اب کوئی صفائی پیش نہ کرو تم نے تو اپنے ایمان کے بعد (پھر کفر کیا ) ۔
۷۔ جادو ۔ اور اسی میں سے ’’ صرف ‘‘( کسی شخص کو کسی چیز سے یا کام سے پھیر دینا ) اور ’ عطاف ‘ ( کسی کے ذہن و دماغ میں کسی چیز کیلئے ہمدردی و محبت پیدا کرنے کی کوشش ) بھی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے (( وما يعلمان من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر ۱۰۲’ سورة البقرة )) ترجمہ : اور وہ دونو ( ہاروت اور ماروت ) کسی کو ( جادو ) نہیں سکھاتے تھے یہاں تک کہ کہہ نی دیتے بے شک ہم ایک آزمائش ہیں پس تم ( یہ سیکھ کر ) کفر نہ کرو ۔
۸۔ مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی مدد و معانت کرنا۔ دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے (( ومن يتولهم منكم فإنه منهم إن اللـه لا يهدي القوم الظالمين ۵۱ ’ سورة المائدة ‘ )) ترجمہ :’’ اور تم میں سے جو انکی پشت پناہی کرے گا تو بے شک وہ ان ہی میں سے ہے بے شک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا ۔‘‘
۹۔ جسکا یہ اعتقاد ہو کہ کچھ لوگوں کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ شریعت محمدی ﷺ سے الگ رہیں جیسے کہ خضر علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کی شریعت سے الگ تھے تو ایسا اعتقاد رکھنے والا کافر ہے۔
۱۰۔ اللہ تعالیٰ کے دین کے ساتھ روگردانی وہ اسطرح کہ نہ اسکو سیکھتا ہے اور نہ اس پر عمل کرتا ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے (( ومن أظلم ممن ذكر بآيات ربه ثم أعرض عنها ۚ إنا من المجرمين منتقمون ۲۲ ’ سورة السجدة )) ترجمہ : ’’ کون اس شخص سے زیادہ بڑا ظالم ہے جسکو اللہ کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جائے پھر وہ ان سے روگردانی کرے۔ بے شک ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔ ‘‘
اور ان تمام نواقض اسلام کے سلسلے میں مزاح اڑانے والے ، زیادتی کرنے والے اور اللہ کے سوا کسی کا خود رکھنے والے ، سوائے جس کو مجبور کیا جائے ، کےدرمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ یہ سب کی سب باتیں خطرے میں عظیم تر ہیں اور اکثر الوقوع چیزیں ہیں تو مسلمانوں کیلئے یہی مناسب ہے کہ ان سے بچیں۔ اور ان چیزوں کے اپنے آپ پر واقع ہونے سے ڈریں۔
ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں ان چیزوں سے جو اسکے غضب اور دردناک عزاب کو واجب کردیں اور اسکی مخلوق میں سب سے بہترین اور افضل ذات محمد ﷺ پر اللہ تعالیٰ درودو سلام بھیجے ۔

تو کیا مسلمان اللہ کے قانون کیطرف دوڑے چلے آئینگے ؟ اسکی کتاب اور اسکے نبی ﷺ کی سنت کو لازم پکڑیں گے ؟ ان بدعات و منکرات کو چھوڑ دیں گے جن میں وہ گرفتار ہیں اور جن کی اللہ کے دین میں کوئی بنیاد نہیں ؟ بلکہ وہ شیاطین انس و جن کے وسوسے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی خالص اطاعت اور اسکی خالص وحدانیت سے دور کرسکیں ۔ بے شک رشد و ہدایت والی اسلامی پکڑ، دینی امور کی سمجھ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی ان چیزوں میں پڑنے سے بچاؤ کی بہترین ضمانت ہے جن میں پڑنے سے اللہ تعالیٰ ناراض پوتا ہے اور اسکے غصّہ اور سزا کو لے آتی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اپنے سیدھے راستے کی اور اپنے دین قویم کے وظائف پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور انکو اپنے رسول ﷺ کی ملت پر ثابت قدم رکھے ۔

جاری ہے ان شاءاللہ ۔۔​
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
اللہ کے انبیاء صرف اللہ تعالیٰ کو ہی پکارتے ہیں​

انبیاء علیھم الصلاة والسلام کی بات کریں تو وہ صرف اور صرف تنہا ویکتا رب العزت کو ہی پکارتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نوح علیہ السلام کے بارے میں خنر دیتے ہوئے فرماتا ہے (( ولقد أرسلنا نوحا إلى قومه إني لكم نذير مبين ۲۵ أن لا تعبدوا إلا اللـه إني أخاف عليكم عذاب يوم أليم ۲۶ ’ سورة هود ‘ )) ترجمہ :’’ بتحقیق ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا ( انہونے ان سے کہا ) بے شک میں تمہاتے لئے ایک کھلا ڈرانے والا ہوں ۔ کہ تم صرف اللہ کی عبادت کرو ، بے شک میں تم پر ایک دن ( قیامت ) کے درد ناک عزاب سے ڈرتا ہوں ۔‘‘

صالح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا (( وإلى ثمود أخاهم صالحا قال يا قوم اعبدوا اللـه ما لكم من إله غيره ۶۱ ’ سورة هود )) ترجمہ :’’ اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالحؑ کو بھیجا اُس نے کہا "اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُ س کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔‘‘

اور شعیب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا (( وإلى مدين أخاهم شعيبا قال يا قوم اعبدوا اللـه ما لكم من إله غيره ۸۴ ’ سورة هود ‘ )) ترجمہ : ’’ اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا اُس نے کہا "اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ۔ ‘‘

اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بتلاتے ہوئے فرمایا (( قال فرعون وما رب العالمين ٢٣ قال رب السماوات والأرض وما بينهما إن كنتم موقنين ٢٤ ’ سورة الشعراء ‘ )) ترجمہ : ’’ فرعون نے کہا "اور یہ رب العالمین کون ہے؟" موسیٰؑ نے جواب دیا "آسمان اور زمین کا رب، اور اُن سب چیزوں کا رب جو آسمان اور زمین کے درمیان ہیں، اگر تم یقین کرسکو ۔‘‘

اور عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا (( إن اللـه ربي وربكم فاعبدوه هذا صراط مستقيم ٥١ ’ سورة آل عمران ‘ )) ترجمہ :’’ اللہ میرا رب بھی ہے او ر تمہارا رب بھی، لہٰذا تم اُسی کی بندگی اختیار کرو، یہی سیدھا راستہ ہے"

اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمدﷺ کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگوں سے کہہ دیں (( يا أيها الناس اعبدوا ربكم الذي خلقكم والذين من قبلكم لعلكم تتقون ٢١ ’ سورة البقرة ‘ )) ترجمہ :’’ اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے والے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بنو ۔‘‘

اور بنیادی قائدہ یہ ہیں کہ ہر قسم کی عبادت صرف یکتا و تنہا اللہ کے لئے ہے اور یہ کہ تمام انبیاء ایک ہی معبود کے اثبات کیلئے مبعوث کئے گئے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں (( ولقد بعثنا في كل أمة رسولا أن اعبدوا اللـه واجتنبوا الطاغوت ۳۶ ’ سورة النحل ‘ )) ترجمہ : ’’ اور تحقیق ہم نے ہر امت کے اندر ایک رسول مبعوث کیا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے بچو"
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
خضر علیہ السلام کے متعلق جھوٹی احادیث !​

بہت ساری حدیثیں ہیں جو بنائی گئی ہیں اور رسول اللہ ﷺ کیطرف منسوب کی گئی ہیں اور خود رسول اللہ ﷺ ان گھڑی ہوئی اور اسرائیلی روایات سے بری ہیں۔
ان احادیث کا مقصد مسلمانوں کی صفوں کے درمیان بدعات اور خرافات کو بڑھاوا دینا ہے۔ مگر اللہ جل وعلا ایسے مردآہن پیدا کئے جنہوں نے اس بات کو سچ کردکھایا جسکا انہونے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا ۔ انہونے ان جھوٹی احادیث کو کھول کر رکھ دیا کہ پوری صورت ھمارے لئے واضح ہوجائے اور ہم اپنا بچاؤ کر لیں۔
خضر علیہ السلام کے لوگوں کے ساتھ ملاقات کی روداد بیان کرنے والی روایات کو ذکر کرنے کے بعد ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ یہ روایات اور حکایات ہی ان لوگوں کی بنیاد ہیں جو آج تک انکی زندگی مانتے ہیں ۔ ان میں سے تمام مرفوع حدیثیں بہت زیادہ ضعیف ہیں ان جیسی ضعیف احادیث سے دین میں کوئی دلیل اور حجت قائم نہیں ہوتی اور حکایات تو ان میں سے اکثر ضعیف سند کی شکار ہیں اور ان کی انتہا اور حد یہ ہے کہ وہ اس شخص کی حد تک صحیح ہیں جو صحابی یا اسکے علاوہ کسی دوسرے شخص سے جو معصوم نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے خطا ممکن ہے ۔‘‘ واللہ اعلم ( البدایه و النھایه ، ج: ۱ ص: ۳۳۴ )
ابن جوزی رحمہ اللہ نے جھوٹی احادیث اور جو حدیثیں صوفیہ کے واسطے سے لوگوں کے درمان گھس آئیں پر رد کرنے کا بیڑا اٹھا لیا جیسے کہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ تحقیق شیخ ابوالفرج ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ عجالة المنتظر فی شرح حالة الخضر ‘‘ میں اس سلسلے کی مرفوع روایات و احادیث کا سارا زنگ اتار دیا اور واضح کردہا کہ وہ سبھی روایات موضوع اور من گھڑت ہیں ۔ اور وہ آثار جو صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین، تابعین اور انکے بعد والوں سے ثابت ہیں۔ تو انہونے ( ابن الجوزی نے ) انکی سندوں کا ضعف انکی حالت بیان کرنے اور انکے راویوں کی عدم شناخت کے ذریعے واضح کردیا۔ انہونے بہترین نقد کیا ہے۔ اور یہی وہ جھوٹی احادیث ہیں اور وہ احادیث بھی جو خضر علیہ السلام کی الیاس علیہ السلام اور انکے علاوہ دوسرے لوگوں سے ملاقات بیان کرتی ہیں ۔

ابن جوزی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ الموضوعات ‘‘ کے جلد اور صفحہ نمبر ۱۹۰۔ ۱۹۹ پر رقمطراز ہیں، وہ ان احادیث کو ذکر کرتے ہیں جو اس بارے میں منقول ہیں کہ خضر و الیاس علیھم السلام ہر سال ملتے ہیں:
أﻧﺑﺄﻧﺎ ھبة اللہ بن محمد بن الحصین قال أﻧﺑﺄﻧﺎ ابو طالب بن غیلان قال حدثنا ابراھیم المزکی قال حدثنا محمد ابن اسحاق بن خزیمة قال حدثنا محمد بن أحمد بن زبدا قال حدثنا عمرو بن عاصم عن الحسن بن رزین عن ابن جریج عن عطاء عن ابن عباس قال : ولا أعلمه الا مرفوعا الی النبی صلی اللہ علیه وسلم قال :’’ يلتقي الخضر وإلياس عليهما الصلاة والسلام كل عام بالموسم بمنى فيحلق كل واحد منهما رأس صاحبه ویتفرقان عن ھذہ الکلمات: بسم الله ما شاء الله لایسوق الخیر الا اللہ ، ماشاءاللہ لا یصرف السوء الا اللہ ، ماشاءاللہ ما یکون من نعمة فمن اللہ، ماشاءاللہ لاحول ولا قوة إلا بالله۔‘‘
قال ابن عباس :’’ من قالھا حین یصبح و حین یمسی قل یوم و لیلة ثلاث مرات عوفی من الغرق والحرق والسرق و أحبسة ، قال: ومن الشیطان و السلطان ومن الحیة و العقرب حتی یصبح و یمسی ‘‘۔
طریق اٰخر لھذا الحدیث : أﻧﺑﺄنا عبدالوھاب بن المباک قال أﻧﺑﺄنا محمد بن المظفر قال أﻧﺑﺄنا أحمد بن محمد العتیقی قال أﻧﺑﺄنا یوسف بن الدخیل قال حدثنا ابو جعفر العقیلی قال حدثنا محمد بن الحسن والخضر بن داود قال حدثنا محمد بن أحمد بن زبدا قال حدثنا عمرو بن عاصم قال حدثنا الحسن بن رزین قال حدثنا ابن جریج عن عطاء عن ابن عباس عن النبی ﷺ قال :’’ یلتقی الخضر و الیاس فی کل موسم فاذا أرادا أن یقترقا افترقا علی ھذہ الکلمات : بسم الله ما شاء الله لایسوق الخیر الا اللہ ، ماشاءاللہ لا یصرف السوء الا اللہ ، ماشاءاللہ ما بکم من نعمة فمن اللہ، ماشاءاللہ لاحول ولا قوة إلا بالله ، فمن قالھا اذا أمسی أمن من الحرق، والغرق ۔[ السرق ] والشرق حتی یصبح ، ومن قالھا حین یصیح ثلاث مرات أمن من الحرق والغرق والشرق [ السرق ] حتی یمصی ‘‘ ۔

ترجمہ : ابن عباس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اس کو مرفوع حدیث سمجھتا ہوں۔ انہونے فرمایا : کہ خضر اور الیاس علیھا السلام ہر سال آپس میں ملتے ہیں ان میں ہر ایک اپنے ساتھی کا سر مونڑتے ہیں اور یہ کلمات کہتے ہوئے وہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں: بسم اللہ ماشاء اللہ ، اللہ کے سوا کوئی بھی خیر نہیں لاتا ماشاء اللہ اللہ کے سوا کوئی بھی شر کو دور نہیں کرتا ماشاءاللہ جو بھی نعمت ہوتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔ ماشاءاللہ لاحول ولا قوة إلا بالله ۔
ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: جو ان کلمات کوہر دن و رات میں صبح و شام تین مرتبہ کہے وہ ڈوبنے ، جلنے ، چوری اور غلط خیالات سے بچایا جائے گا ۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ شیطان ، بادشاہ ، سانپ اور بچھو سے صبح سے شام اور شام سے صبح تل بچایا جائے گا ۔
یہی روایت ایک اور طریقے( سند )سے وارد ہوئی ہے۔ ابن عباس نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : خضر اور الیاس علیھا السلام ہر سال ملتے ہیں پھر جب وہ جدا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں تو یہ کلمات کہتے ہوئے علیحدہ ہوتے ہیں:’’ بسم اللہ ماشاء اللہ صرف اللہ ہی خیر و بھلائی لے آتا ہے اور صرف اللہ ہی برائی اور شر کو دور کرتا ہے۔ ماشاءاللہ لاحول ولا قوة إلا بالله ۔ پس جو شخص اسکو شام کے وقت کہے وہ صبح ہوئے تک جلنے غرق ہونے اور چوری سے محفوظ رہے گا ۔ اور جو ان کلمات کو صبح کے وقت تین دفعہ کہے گا وہ شام تک جلنے ، غرق ہونے اور چوری سے محفوظ رہے گا ۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
!خضر علیه السلام جبرئیل علیه السلام ومیکائیل علیه السلام و اسرافیل علیه السلام کی آپسی ملاقات کے سلسلے میں بیان کردہ روایتیں
أﻧﺑﺄﻧﺎ محمد بن عبدالملك قال أﻧﺑﺄﻧﺎ ابو بکر أحمد بن علی بن ثابت قال أخبرنی عبدالعزیز بن علی بن عطیة الحارثی قال حدثنا علی بن الحسن الجھجمی قال حدثنا ضمرة بن حبیب المقدسی قال حدثنا أبی قال حدثنا العلاء بن زیاد عن عبداللہ بن الحسن عن أبیه عن جدہ علی بن أبی طالب قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یجتمع فی کل یوم عرفة جبرئیل و میکائیل و اسرافیل والخضر فیقول جبریل : ماشاءاللہ لا قوة إلا بالله، فیرد میکائیل ، ماشاءاللہ کل نعمة فمن اللہ ، فیرد علیه اسرافئل، ماشاءاللہ الخیر کله بید اللہ ، فیرد علیه الخضر ، ماشاءاللہ، لا یصرف السوء الا اللہ ۔ ثم یتفرقون عن ھذہ الکلمات فلا یجتمعون الی قابل ذلک الیوم ۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (( فما من أحد یقول ھذہ الأربع مقالات حین یستیقظ من نومه الا و کل اللہ به أربعة من الملائکة یحفظونه، صاحب مقالة جبریل من بین یدیه، و صاحب مقالة میکائیل عن یمینه، و صاحب مقالة اسرافیل عن یسارہ، وصاحب مقالة الخضر من خلفه الی أن تغرب الشمس ؛ من کل آفة وعاھة و عدو و ظالم وحاسد ۔ قال رسول اللہ ﷺ : وما من أحد یقولھا فی یوم عرفة مائة مرة من قبل غروب الشمس، الا ناداہ اللہ تعالیٰ من فوق عرشه :أی عبدی قدأرضیتنی وقد رضیت عنک فسلنی ماشئت فبعزتی ماسئلت لأ عطینّك ))
ترجمہ: علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ ہر عرفہ کے دن جبرئیل ، میکائیل ، اسرافیل، اور خضر علیھم السلام ای جگی جمع ہوجاتے ہیں ، تو جبرئیل فرماتا ہے ’’ ماشاءاللہ لا قوة إلا بالل‘‘ میکائیل جواب میں فرماتا ہے ’’ ماشاءاللہ ہر قسم کا خیر اللہ کی طرف سے ہی ہوتا ہے‘‘ اس کے جواب میں اسرافیل فرماتا ہے ’’ ماشاء اللہ ہر قسم کا خیر اللہ کے ہاتھ میں ہیے ۔ پھر خضر علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ ماشاءالل، برائی کو صرف اللہ ہی دور کرتا ہے ان ہی کلمات کے ساتھ وہ الگ ہوتے ہیں پھر( اگلے سال ) اس دن کے آنے تک وہ کسی جگہ جمع نہیں ہوتے ‘‘ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جو بھی شخص یہ چار باتیں اپنی نیند سے جاگتے وقت کہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ چار فرشتے اسکی حفاظت کرنے کے لئے مقرر فرماتا ہیں۔ جبرئیل کی بات والا فرشتہ اسکے سامنے، میکائیل والا اس کی داہنی طرف ، اسرافیل کی بائیں طرف اور خضر کی بات والا اسکی پچھلی طرف آفتاب کے غروب ہونے تک ہر مصیبت، ہر مشکل، ہر دشمن، ہر ظالم اور ہر حسد کرنے والے سے حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ اور جو بھی شخص ان مقالات کو عرفہ کے دن سورج غروب ہونے سے پہلے سو مرتبہ ادا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے عرش کے اوپر سے پکارتا ہے کہ اے میرے بندے ! تونے مجھکو خوش کردیا پس مانگ لے مجھ سے جو تو چاہے۔ قسم ہے مجھے اپنی عزت کی جو تو مانگے گا میں ضرور تمہیں دوں گا۔‘‘
یہ سبھی حدیثیں جھوٹ کا پلندہ ہیں ( ابن جوزی رحمہ اللہ نے جو رواتیں اس سلسلے میں اپنی کتاب ’’ عجالة المنتظر فی شرح حالة الخضر ‘‘‘ میں ذکر کی ہیں، اور الموضوعات میں ان جھوٹی احادیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:’ یہ احادیث باطل ہیں ا۔ن میں سے پہلی روایت میں ’’ عبداللہ بن نافع ہے‘‘ ( آئیے دیکھتے ہیں کہ محدثین کرام اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں )
یحیٰ بن معین فرماتے ہیں: لیس نشئ
علی بن المدینی فرماتے ہیں: کہ یہ منکر حدیثیں بیان کرتا ہے۔
امام نسائی فرماتے ہیں:’’ وہ متروک الحدیث ہے‘‘
اس حدیث کی سند میں کیثر بن عبداللہ بھی ہے اور یہ کیثر بن عبداللہ بن عمروبن عوف المزنی ہے۔ امام احمد بن حنبل اسکے متعلق فرماتے ہیں:’’ لاٰیحدّث انه ‘‘ اس سے حدیثیں نہیں لی جاسکتی ۔ اور یہ بھی فرمایا:’’ لایساوی شیئا‘‘
یحیٰ بن معین فرماتے ہیں:’’ حدیثه لیس بشئ لا یکتب‘‘۔
امام نسائی اور امام داقطنی فرماتے ہیں:’’ ھو مترک الحدیث ‘‘
امام شافعی فرماتے ہیں:’’ ھو رکن من أرکان الکذب‘‘
ابو حاتم بن حبان فرماتے ہیں: کہ اس نے اپنے باپ سے اس کے باپ نے اس کے دادے سے ایک موضوع ( گھڑا ہوا ) نسخہ بیان کیا ہے جسکا کتابوں میں ذکر کرنا قطعی ٹھیک نہیں ہے اور ناہی اس سے روایت کرنا ٹھیک ہے سوائے یہ کہ تعجب کی بناء پر اس کو ذکر کیا جائے ۔
اور لیکن ابن المنادی کی سند سے بیان شدہ روایت’’ وضاح‘‘ اور اسکے علاوہ دوسرے لوگوں کیوجہ سے ایک فضول سی حدیث ہے۔ وہ منکر الا سناد اور سقیم المتن حدیث ہے۔ خضر علیہ السلام ہمارے درمیان پیغمبر بنا کر بھیجے گئے اور نہ کسی نے ایسا کہا۔
رہی حدیث جس میں خضر و الیاس علھما السلام کی باہمی ملاقات کاذکر ہے تو اس کی سند میں ’’ حسن بن رزین ‘‘ ہے۔
امام دار قطنی فرماتے ہیں:’’ کہ اس حدیث کو ابن جریج سے اس کے علاوہ کسی نے بھی بیان نہیں کیا ہے‘‘۔عقیلی لہتے ہیں : کہ کوئی بھی سند اور مرفوع روایت اسکی تائید نہیں کرتی، وہ مجہول ہے اور اس کی حدیث’’ غیر محفوظ‘‘ ہے۔ ابن المنادی کہتے ہیں: یہ روایت حسن بن رزین کیوجہ سے لغو ہے۔ اور خضر و الیاس اپنی راہ سدھار چکے ہے۔‘‘
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ میں کہتا ہوں کہ وہ حدیث جس میں انکے( خضر علیہ السلام ) جبرئیل کے ساتھ مل بیٹھنے کا تزکرہ ہے۔ تو اس میں کئی مجہول راوی ہیں جنکے حالات معلوم ہی نہیں ہیں ۔ اور بہت ساری ہوس پرست لوگ اس دھوکے میں آگئے کہ خضر علیہ السلام آج تک زندہ ہے اور وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ خضر علیہ السلام علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور عمر بن عبدالعزیز سے ملے اور نیکوکار لوگوں میں سے بہت ساروں نے انکو دیکھا ہے اور بعض لوگوں نے حدیثیں سن کر انکی علّتیں جانے بغیر کتاب تصنیف کردی جس میں ان احادیث کو ذکر کیا اور جن چیزوں کو نقل کیا انکی سندوں کے بارے میں کوئی پوچھ تاچھ نہیں کی۔ اور بات پھیلتی چلی گئی ۔ ہاں! مگر زہدو تقویٰ کا دکھاوا کرنے والی ایک جماعت یہ کہنے لگی: کہ ہم نے انکو دیکھا ہے اور اسکے ساتھ گفتگو کی ہے۔ کتنی تعجب خیز بات ہے کیا انکے پاس اس کے بارے میں علامت کوئی نشانی ہے جس کے ذریعے وہ اسکو پہچاتے ہیں؟ اور کیا کسی عقل مند کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ کسی ایسے شخص سے ملے جو اس سے کہے کہ میں خضر ہوں تو وہ فورا انکی تصدیق کرلے؟
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
علی رضی اللہ عنہ کی ان سے ملاقات کا بیان !

أﻧﺑﺄنا أبو منصور القزاز قال أﻧﺑﺄبا أبو بکر أحمد بن علی قال أخبرنی محمد بن الحسین الأزرق قال حدثنا أبو سھل أحمد بن محمد بن زیاد قال حدثنا أحمد بن حرب النیسابوری قال حدثنا عبداللہ بن الولید العدنی عن محمد بن الھروی عن سفیان الثوری عن عبداللہ بن محرز عن یزید بن الأصم عن علی بن ابی طالب أنه قال (( بینما أنا أطرف بالبیت اذ برجل متعلق یأ ستار الکعبة، وھو یقول: یا من لا یشغله سمع عن سمع، یا من لا تغلطه المسائل، یا من لا یتبرم یا لحاح الملحین أذقنی برد عفوك و حلاو ة رحمتك قلب: یا عبداللہ أعد الکلام قال: أوسمعته ؟ قلت: نعم۔ قال: والذی نفس الخضر بیدہ ۔ و کان الخضر ۔ ھؤ لاء لا یقول لھن عند دبر الصلاة المکتر بة [أحد] الا غفرت ذنوبه وان کانت مثل رمل عالج و عدد المطر و ورق الشجر))



ترجمہ: علی بن ابی طالب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: میں خانہ کعبہ کا طواف کررہا تھا کہ اسی دوران میں نے خانہ کعبہ کی غلافوں سے لٹکے ہوئے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا ۔ اے وہ ذات ! جسکو کوئی آواز کسی دوسری آواز سے غافل نہیں کرتی۔ اے وہ زات! جو اصرار کرنے والوں کے اصرار سے اکتا نہیں جاتا ۔ تو مجھے اپنے عفو و درگزر کی ٹھنڑک اور اپنی رحمت کی مٹھاس چکھا دے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے بندے ! ذرا پھر سے اپنا کلام دہرا اس نے کہا: کیا تم نے میری باتیں سن لی ؟ میں نے کہا : ہاں، تو انہونے کہا: قسم ہے اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں خضر کی جان ہے۔ وہ خضر علیہ السلام تھے ۔ یہ ایسے کلمات ہیں کہ کوئی بھی شخص جو انہیں ہر فرض نماز کے بعد بڑھے گا تو اس کے گناہ معاف کردئے جائینگے اگرچہ وہ جمے ہوئے ریت کے ڑھیر، بارش کے قطروں اور درخت کے پتوں کے مانند ہی ہوں۔‘‘
یہ حدیث صحیح نہیں ہے’ محمد بن الھروی ‘ مجہول راوی ہے، اور ابن محرز ’’ متروک ‘‘ ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوگوں ( محدثین کرام ) نے عبداللہ بن محرر ( محرز ) کی بیان کردہ احادیث کو چھوڑ دیا ہے۔ ابن منادی فرماتے ہیں : میں اس سے ملا ہوں اور ایک مینگنی مجھے اس سے زیادہ پسند ہے ۔

جاری ہے ان شاءاللہ۔۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ان سے ملاقات کا بیان !​

أﻧﺑﺄﻧﺎ اسماعیل بن أحمد قال أﻧﺑﺄﻧﺎ محمد بن ھبة اللہ الطبری قال أﻧﺑﺄﻧﺎ محمد بن الحسین بن الفضل قال أﻧﺑﺄﻧﺎ عبداللہ بن جعفر قال حدثنا یعقوب بن سفیان قال حدثنا محمد بن عبدالعزیز الرملی قال حدثنا ضمرة عن السری بن یحی عن ریاح بن عبیدہ قال (( رأیت رجلا یماشی عمر بن عبدالعزیز معتمد علی یدہ، فقلت فی نفسی ان ھذا الرجل خاف، فلما صلی قلت من الرجل الذی کان معك معتمدا علی یدك آنفا؟ قال: وقد رأیته یا ریاح؟ قلت: نعم، قال: انی لأراك رجلا صالحا ذاك أخی الخضر بشرنی أنی سألی وأعدل ))
ترجمہ: ریاح بن عبیدہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: میں نے ایک شخص کو عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ ساتھ انکے ہاتھ کا سہارا لیکر چلتے ہوئے دیکھا ۔ تو میں نے اپنے آپ سے کہا یہ شخص ڈرا ہوا ہے۔ جب جب عمر بن عبدالعزیز نے نماز پڑھی تو میں نے ان پوچھا کہ ابھی آپ کے ہاتھ کو تھامے ہوئے آپکے ساتھ کون شخص تھا۔ انہونے کہا: اے ریاح کیا تم نے اسے دیکھ لیا۔ میں نے کہا : ہاں۔ انہونے فرمایا : بے شک میں تمہیں ایک نیک انسان سمجھتا ہوں وہ میرا بھائی خضر علیہ السلام تھے ۔ انہونے مجھے ’’ولی‘‘ حکمران بننے اور عدل و انصاف کرنے کی بشارت دی۔‘‘
مسلمة عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ خضر علیہ السلام سے مل چکے ہیں ۔ ابو حسین بن منادی کہتے ہیں کہ مسلمة کی حدیث کو ایسا سمجھ جیسے اسکا وجود ہی نہ ہو اور ’’ریاح‘‘ کی حدیث تو ہوا جیسی ہی ہے۔ اور مزید کہتے ہیں کہ حسن بصری۔ سے بھی خضر کی موجودگی بیان کی گئی ہے اور اسکے علاوہ بھی دوسروں سے تلقین کی حالتیں ماخوذ ہے ۔

عن مالک قال: کنت مع رسول اللہ ﷺ خار جا عن جیال مکة اذأقبل شیخ متو کئا علی عکازہ فقالرسول اللہ ﷺ مشیة جنی ونغمته، فقال: أجل، فقال: من أی الجن أنت ؟ قال: أنا ھامة بن الھیم بن لاقبس بن ابلیس قال: لا أری بینك و بین ابلیس الا أبو ین قال : أجل، قال: کم أتی علیك ؟ قال: أکملت عمر الدنیا الا أقلھا کنت لیالی قتل ھابیل غلاما ابن أعوام أمشی علی الأ کام وأصید الھام آمر با فساد الطعام و أروش بین الناس واغری بینھم فقال رسول اللہ ﷺ : بئس عمل الشیخ المقوسم والفتی المتلوم قال: دعنی من اللوم ولھبل قدجرت تو بتی علی یدی نوح وکنت معه فیمن آمن معه المسلمین، فعاتبته فی دعائه علی قومه فبکی وأبکانی وقال : انی من النادمین وأعوذ بااللہ أن أکون من الجاھلین ، وکنت مع ابراھیم خلیل الرحمن لما القی فی النار فکنت بینه و بین المنجنیق حتی أخرجه اللہ منه ولقیت موسی بالمکان الأمین و کنت مع عیسی فقال لی عیسی بن مریم ان لقیت محمدا فاقرئه منی السّلام یا رسول اللہ ! قد بلّغت و آمنت بك ، فقال رسول اللہ ﷺ علی عیسی علیہ السلام وعلیك یا ھامة ، ما حاجتك ؟ فقال: موسیٰ ولّمنی التوراة و عیسی الانجیل فعلّمنی القرآن قال: عمر بن الخطاب فعلّمه رسول اللہ ﷺ عشر سور وقبض ولم ینعه الینا ولا أراہ الا حیا‘‘۔
ترجمہ: مالک سے روایت جب کہ میں مکہ کی پہاڑوں کے باہر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا کہ اچانک ایک بوڑھا شخص ایک چھڑی کا سہارا ہوئے سامنے آیا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ یہ تو کسی جن کی چال اور آواز ہے، تو اس ( بوڑھے شخص ) نے کہا بلکل : نبی ﷺ نے فرمایا : تم کس جن کی نسل سے ہو ؟ اس نے جواب دیا: میں ھامة بن ھیم بن الاقیس بن ابلیس ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: میں تمہارے اور ابلیس کے درمیان صرف دو واسطے دیکھتا ہوں ۔ اس نے کہا: بلکل : نبی ﷺ نے پوچھا تمہاری کیا عمر ہوئی ہے؟ اس نے کہا: میں نے پوری دنیا کی عمر پائی ہے سوائے تھوڑے عرصے کے ( یعنی جتنی اس دنیا کو وجود میں آئے وقت گزر چکا ہے اتنے عرصے سے میں اس دنیا میں موجود ہوں سوائے ابتدائی کچھ مدت کے ) ۔ جس زمانے میں ھابیل نے قتل کیا اس زمانے میں چند سال کا بچہ تھا۔ ٹیلوں پر دوڑتا، چھوٹے چھوٹے پرندوں کو شکار کرتا، کھانے کو بگاڑتا، لوگوں کے درمیان کمزوری پیدا کرنا اور انکے بیچ میں غلط فہمیاں پیدا کرتا رہتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو توڑنے بوڑھے اور بد اخلاقی پر قابل ملامت نوجوان کا عمل کتنا برا ہے! اس نے کہا: میری ملامت نہ کیجئے بے شک میں نے نوح علیہ السلام کے سامنے توبہ کی اور میں اسکے ساتھ ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے مسلمانوں میں سے انکے ساتھ ایمان لایا اور انہوں نے جب اپنی قوم پر بدعا کی تو میں نے انکی سرزنش کی وہ رو دئیے اور مجھے بھی رلا دیا (اسوقت) انہونے کہا: میں شرمسار ہوں اور یہ بھی کہا: میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں نادانوں میں سے ہوں۔ میں اللہ کے دوست ابراھیم علیہ السلام کے ساتھ بھی تھا جب انکو آگ میں ڈالا گیا۔ میں انکے اور جلتی آگ کے درمیان تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انکو اس سے نکال دیا ۔ میں موسیٰ علیہ السلام سے بھی مکان ۔طور۔ پر ملا۔ میں عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی تھا ۔ عیسیٰ بن مریم نے مجھ سے کہا: کہ اگر تم محمد ﷺ سے ملو انکو میری طرف سے سلام کہنا ، اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں نے سلام پہونچا دیا اور آپ پر ایمان لایا۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا: عیسیٰ پر سلام ہو اور تم پر بھی اے ھامتہ تمہاری ضرورت کیا ہے؟ اس نے کہا: کہ موسیٰ نے مجھکو تورات اور عیسیٰ نے انجیل سکھائی ۔ آپ ﷺ مجھے قرآن سکھا دیجئے ۔ عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں: کہ رسول اللہ ﷺ نے اسکو دس سورتیں سکھادئے اور انکی روح اس دارفانی سے کوچ کرگئی اور انہونے اس بوڑھے، جن کی موت کی خبر ہمیں نہ دی میں سمجھتا ہوں کہ وہ زندہ ہے۔‘‘
یہ موضوع روایت ہے۔ اسحاق بن بشرا لکاھلی۔ جو اس کی سند میں ہے۔ باتفاق کزاب اور وضّاع ہے۔ اور ابو سلمتہ ثقات ( راویوں ) سے ایسی باتیں بیان کرتا ہے جو انکی حدیث کا حصہ ہی نہیں ہوتیں۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ میں کہتا ہوں کہ حسن سے مروی ہے کہ خضر علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔
ابن منادی فرماتے ہیں: اہل کتاب سے نقل کیا گیا ہے کہ انہونے زندگی کا پانی ( آبِ حیات ) پی لیا مگر انکی اس بات کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا وہ کہتے ہیں: خضر علیہ السلام کے بارے میں سبھی خبریں دلوں کے ایسے بیکار خیالات ہیں جو دو باتوں سے کھالی نہیں ہوسکتے (۱) یا تو یہ باتیں لا پرواہی کی بناء پر بعض متاخر راویوں کی روایت میں داخل کی گئی ہوں (۲) یا پھر ان روایت کرنے والوں نے انکے موضوع اور بے اصل ہونے کو سمجھ لیا ہو لیکن پھر تعجب کے اظہار کیلئے انکو بیان کیا ہو۔ اور تحقیق کی مناسبت سے انکو انکی طرف منسوب کیا گیا۔ اور اکثر غافل اور دھوکے میں پڑے لوگ کہتے ہیں کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں حالانکہ ہمیشہ کی زندگی کسی انسان کے لئے نہیں ہوسکتی ۔
اللہ کا فرمان ہیں (( وما جعلنا لبشر من قبلك الخلد ۔ سورہ الأنبیاء ۳۴ )) ترجمہ: اور ہم نے آپ سے پہلے کسی انسان کیلئے ہمیشہ زندگی نہیں بنائی۔‘‘

ابن منادی فرماتے ہیں : ہمارے بعض اصحاب نے ابراہیم الحربی کے متعلق بتا یاکہ ان سے خضر علیہ السلام کی ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہونے اسکا انکار کیا اور کہا: کہ وہ بہت پہلے وفات پاچکے ہیں۔ اور انکے علاوہ بھی دوسرے سلف سے انکی زندگی کے بارے میں پوچھا گیا اور یہ کہ ہمارے زمانے کے لوگوں کی ایک جماعت انکو ( خضر علیہ السلام ) دیکھتے ہیں اور انکے بارے میں مختلف باتیں بیان کرتے ہیں۔ تو انہونے جواب دیا : جس نے کسی غائب پر احالہ کیا اس نے اسکے ساتھ انصاف نہیں کیا اور لوگوں کے درمیان یہ باتیں صرف شیطان نے ڈالی ہیں۔
وہ کہتے ہیں : کہ امام سیوطی رحمہ اللہ نے خضر علیہ السلام کے متعلق موضوع احادیث میں بات کہی ہے وہ ( سیوطی رحمہ اللہ ) اپنی کتاب’’ اللآ لی المصنوعة فی الاحادیث الموجوعة ‘‘ میں فرماتے ہیں :’’ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے تو انہوں نے اپنے پیچھے سے کچھ باتیں سنیں ایک کہنے والا کہہ رہا تھا :’’ اے اللہ ! مجھے صالحین کا ویسا شوق عطا کر جس حد تک تو نے انکو شوق عطا کیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے انس بن مالکؓ سے فرمایا جو کہ انکے ساتھ ہی تھے ۔’’ اے انس اس شخص کے پاس جاکر کہہ دے کہ رسول اللہ ﷺ آپ سے کہتے ہیں میرے لئے مغفرت کی دعا کریں۔ انسؓ نے اسکے پاس آکر پیغام پہونچا دیا ۔ تو اس شخص نے کہا : اے انسؓ تم اللہ کے رسول ﷺ کے قاصد ہو ؟ انسؓ نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: جاؤ اور رسول اللہ ﷺ سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے آپکو سارے انبیاء پر ایسے ہی فضیلت دی ہے جیسے کہ ماہ رمضان کو دوسرے مہینوں پر فضیلت دی۔ اور آپ کی امت کو دوسری امتوں پر اسطرح فضیلت دی ہے جیسے کہ جمعہ کے دن کو سارے دنوں پر فضیلت دی ہے۔ وہ سبھی دیکھنے چلے گئے تو وہ خضر علیہ السلام تھے۔ یہ حدیث موضوع ہے۔
انسؓ سے روایت ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے ہمیں گجر کی نماز پڑھائی پھر ہماری طرف رخ کر کے متوجہ ہوئے تو ان سے کہا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! اگر آپ ہمیں سلیمان بن داؤد علیھما السلام اور اس ہوا کے بارے میں جو انکے تابع تھی کچھ بتادیتے تو نبیﷺ نے فرمایا: ایک دن سلیمان بن داؤد علیھما السلام بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ہوا کو بلایا انہوں نے اسکو زمین کے ساتھ چپکنے کو کہا پھر ایک لگام منگا کر اسکے ذریعے ہوا کو لگام لگائی پھر ایک قالین منگایا اس کو ہوا کی سطح پر بچھایا پھر چار ہزار کرسیاں منگا کر اپنی داہنی طرف اور چار ہزار کرسیاں منگا کر اپنی بائیں طرف رکھوا دیں۔ اسکے بعد ان میں سے ہر چار ہزار کرسیوں پر اپنی قوم کے ایک ایک قبیلےکو بٹھایا پھر ہوا سے کہا کہ زمین سے الگ ہوجا وہ لگاتار ہوا میں اڑتے رہے، ہوا میں اڑنے کے دوراں انکا سامنا ایک ایسے شخص سے ہوا جو کھڑا تھا مگر اسکے پاؤں کے نیچے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نا ہی وہ کسی چیز کا سہارا لئے ہوئے تھا۔ وہ کہہ رہا تھا ’’ سبحان اللہ العلا الأ علی سبحان اللہ له مافی السمٰوٰت ومافی الأرض وما بینھما وما تحت الثری‘‘ تو سلیمان علیہ السلام نے اس سے کہا: ’’اے شخص! کیا تم فرشتوں میں سے ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں! سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: تو کیا جنّوں میں سے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، انہونے پوچھا : کیا انسان ہو؟ اس نے کہا : ہاں، انہونے پوچھا: تم نے یہ عزّت و کرامت اپنے رب سے کس بناء پر حاصل کی؟ اس نے کہا: میں ایک ایسے شہر میں رہتا تھا جہاں کے لوگ اللہ کا رزق کھاتے تھے اور اسکے سوا دوسروں کی عبادت کرتے تھے میں نے انکو اللہ پر ایمان لانے اور ’’ لا اله الا اللہ‘‘ کی گواہی دینے کی دعوت دی تو انہونے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی ۔ میں نے اللہ سے ایسی دعا مانگی جس نے مجھے اس جگہ پہونچا دیا جہاں آپ دیکھ رہے ہیں ۔ جیسے کہ آپ نے اپنے رب سے دعا مانگی کہ وہ آپکو ایسی سلطنت عطا کرے جسکو وہ آپ کے بعد کسی کو نہ دے ۔ سلیمان علیہ السلام نے اس سے پوچھا: تم کتنی مدت سے اس جگہ پر ہو ؟تین سال سے ۔ انہوں نے پوچھا : تمہارا کھانا پانی کہاں سے آتا ہیں؟ اس نے کہا: جب اللہ تعالیٰ کو میری بھوک کی انتھا کا علم ہوتا ہے تو وہ اس ہوا میں جی رہے کسی پرندے کو مامور فرماتا ہے جس کے منہ میں کھانے کی کوئی چیز ہوتی ہے، وہ( پرندہ) مجھے کھلاتا ہیں جب میں شکم سیر ہوتا ہوں تو اپنے ہاتھ سے اسکی طرف اشارہ کرتا ہوں تو وہ چلا جاتا ہے۔ اور جب اللہ تعالٰی کو میری انتہائی پیاس کا علم ہوجاتا ہے تو وہ کسی بادل کو مأمور کرتا ہے وہ بادل مجھ پر چھا جاتے ہے اور پانی میرے ہاتھوں میں لگاتار گرتا رہتا ہے۔ پھر جب میں سیراب ہوتا ہوں تو میں اپنے ہاتھ سے اسکی طرف اشارہ کرتا ہوں تو وہ چلا جاتا ہے ۔ سلیمان علیہ السلام رو دئیے یہاں تک کہ ساتوں آسمانوں اور عرش کو اٹھانے والے فرشتے انکے لئے رو دئیے۔ پھر انہوں نے فرمایا: اے اللہ تو پاک ہیں مومنین تیرے لئے کتنے معزّز ہیں ؟ کہ تو نے فرشتوں ،بارش اور بادلوں کو آدم کی نسل کے لئے خدمتگار بنادیا ۔ اللہ عزوجل نے اسکی طرف وحی کرکے فرمایا: اے سلیمان ! میں نے سارے آسمانوں اور ساری زمینوں میں کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو مجھے بنو آدم کے مومنین سے زیادہ پسند ہو جو میری اطاعت کرے گا اس کو میں اپنی جنت میں ٹھہراؤں گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اسکو میں اپنی جہنم میں جگہ دوں گا۔‘‘
یہ روایت موضوع ہے۔ اسکے اکثر راوی نامعلوم ہیں ابن قیس ( جو کہ اس حدیث کی سند کے ایک راوی ہیں ) تو ’’متروک‘‘ ہے اور خود ہی حدیثیں گھڑتا ہے۔ اور اس سے دلیل لینا ٹھیک نہیں ہے۔ عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دونوں سندیں ثابت نہیں ہیں اور اس حدیث کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ایسے ہی ’’المیزان‘‘ میں مصنف کتاب نے بیان کیا ہیں کہ یہ دونوں سندوں کے لحاظ سے باطل حدیث ہے۔
محقق ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہ سبھی حدیثیں جن میں خضر علیہ السلام اور ان کی زندگی کا تزکرہ ہے جھوٹ ہے اور انکی زندگی کے سلسلے میں وہ صحیح نہیں ہیں۔ جیسے کہ یہ حدیث کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تھے تو انہونے اپنے پیچھے سے کچھ باتیں سنیں صحابہ دیکھنے گئے تو وہ خضر علیہ السلام تھے۔ اور یہ حدیث کہ خضر و الیاس علیہما السلام ہر سال ملتے ہیں پھر ان دونوں میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کا سر مونڑتے ہے۔ اور یہ حدیث کی جبرئیل،میکائیل اور خضر علیہ السلام عرفہ کے مقام پر جمع ہوتے ہیں ( ایک لمبی گھڑی ہوئی حدیث ہے )
ابراھیم الحربی خضر علیہ السلام اور ان کی حیات جاوداں کے بارے میں پوچھے گئے تو انہونے فرمایا : جو کسی غائب شخص کے متعلق متضاد باتیں کرے اس نے انکے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔ اور یہ باتیں لوگوں کے درمیان صرف شیطان نے ڈالدی ہیں ۔

رسالہ یہیں ختم ہوجاتا ہے اللہ کی بے حد تعریفیں ہے
اور بے شمار درودو سلام ہوں خیرالانام ﷺ پر اور ان کے اہل عیال پر
آپ کا بھائی أحمد بن عبدالعزیز الحصین​
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
عرض ناشر

قرآن و سنت کی دعوت کو مسخ کرنے کے لئے بہت سی سازشیں کی گئیں ان میں سے ایک خطرناک سازش تصوف کی ایجاد اور ترویج بھی ہیں جس کے زریعے سے قرآن و سنت کی اصل دعوت کو غلط مفہوم میں تبدیل کردیا گیا بقول مولانا مسعود عالم ندوی تصوف افیوم اور گورکھ دھندہ کو پھیلانے کے لئے بہت سے زرائع ہیں اور ان میں سے ایک زریعہ خضر علیہ السلام کی داستان حیات ہیں جس کو شہرت دے کر امت کو کتاب و سنت کی دعوت سے باز رکھنا ہے اس جھوٹی کہانی کے زریعہ امت کو قرآن و سنت کی تعلیم سے ہٹایا گیا اور منہج صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دور کیا گیا ۔
میرے مشفق استاز محترم محمد سلیم المدنی نے ،، الخضر ،، کتاب کا ترجمہ کر کے عوام میں پھیلی اس گمراہی کے سدباب کے لئے ایک نئی تحقیقی کوشش پیش کی ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمارے استاز اور تمام علماء کرام سے زیادہ سے زیادہ دین کا کام لے اور اس سے شرف قبولیت عطا فرمائے آمین !!!
محمد حنیف وانی مکتبہ دارالسلام سرینگر کشمیر ۔۔۔​
-کتاب پڑھنے کا رادہ تھا ،عرض ناشر سے ہی محقق صاحب کی گوہر فشانی کا اندازہ ہو گیا۔بس مجبوراً سلام ہی کہنا پڑا۔کیونکہ یہی تو اللہ کا حکم ہے۔
 
Top