• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حق کی راہ میں ثابت قدمی ہی کامیابی ہے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
649
ری ایکشن اسکور
197
پوائنٹ
77
حق کی راہ میں ثابت قدمی ہی کامیابی ہے

از قلم : مفتی اعظم حفظہ اللہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اسلام کو اس کے اہم افراد کے قتل سے کبھی فرق نہیں پڑتا، نہ اس کی جماعت کو اس سے کبھی دبایا جا سکا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اس قافلے کا ہر فرد نکلا ہی اسی مقصد کے لیے ہے کہ وہ اس راہ میں قتل ہو جائے، نہ کہ اس لیے کہ وہ خود کو بچانا چاہتا ہے۔

سو اس جذبے کی وجہ سے ان کو کبھی فرق نہیں پڑا کہ کون قتل ہوا، کہاں قتل ہوا، کتنے قتل ہوئے، کیونکہ ان کے لیے تو یہ ایک معمول کی بات ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جو قتل ہوا، اس کا مشن ہی اس راہ میں جان دینا تھا، اور اب جو اس کی جگہ لے گا، اس کا بھی یہی مشن ہے۔ اور جب یہ قتل ہوگا تو اس کے بعد کوئی اور، پھر کوئی اور، پھر کوئی اور۔
اور یوں یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زندگی میں آپ کے نہایت اہم ترین کمانڈر بے دریغ اس راہ میں قربان ہوئے، لیکن آپ نے نہ تو یہ فرمایا کہ اس سے اسلام کو نقصان ہو رہا ہے، چلو باقی سب احتیاط کر لو، یا مصلحت کے تحت اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جاؤ۔ بلکہ آپ اور زیادہ اس راہ میں قتل ہونے کی ترغیب دلاتے تھے اور خود بھی اسی راہ میں بار بار قتل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک ہی جنگ میں 12 ہزار اعلیٰ ترین جنگجو اور کمانڈر قتل ہوئے، لیکن نہ اس سے اس جماعت کو کوئی فرق پڑا، نہ ان کا سفر ایک لمحے کے لیے رکا، نہ انہوں نے کوئی پروا کی۔ پھر اس کے بعد بھی ہر معرکے میں سینکڑوں، ہزاروں قتل ہوتے رہے، اور ان کی جگہ نئے آتے رہے۔ اور یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے اور قیامت تک یونہی چلتا چلا جائے گا۔

کیونکہ اس امت کو تو اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران میں واضح فرما دیا ہے کہ کوئی قائد، کوئی کمانڈر، کوئی خلیفہ تو کیا، اگر خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی قتل ہو جائیں تو تمہیں کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے، اور اگر کوئی اس راہ سے پیچھے ہٹا تو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔

اس امت کی جتنی کمزوری ہوئی ہے، جتنی تباہی ہوئی ہے، جتنے اس پر ظلم و وحشت کے پہاڑ توڑے گئے، جو اس کی حالت ہوئی، وہ شخصیات کے قتل سے نہیں، نظریات کے قتل سے ہوئی ہے۔ اس کے خلیفہ کے قتل سے نہیں، عقیدے کے قتل سے ہوئی۔ جب بھی حکمت، مصلحت، احتیاط کے نام پر عقیدے پر سودے بازی ہوئی، امت کی تباہی مزید بڑھتی گئی۔

اس کی ایک مثال آپ دو گروہوں سے لگا لیں۔ عراق و شام میں سیاہ پرچم والے بے دریغ قتل گاہوں کی طرف دوڑتے تھے۔ ان کے اعلامی امراء، ماہرین، انجینئرز، ڈاکٹرز، علمائے کرام، سب ایک دوسرے سے بڑھ کر اس کی طرف لپکتے، اور اکثر بارودی گاڑیوں پر پہلا نمبر حاصل کرنے پر حریص ہوتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے کئی درجن محاذ ہمیشہ گرم ہوتے، جس پر ان کے سپاہی اگلے محاذوں پر دھڑا دھڑ قتل ہوتے تھے۔ سو ان سب کو ملا کر ان کا بہت زیادہ خون بہا، بہت زیادہ ان کے افراد کی قربانی ہوئی، اور ایسا لگا جیسے سب ہی ایک سال میں ختم ہو جائیں گے۔ لیکن پھر کیا وہ قتل سے ختم ہو گئے؟ کیا ان کے ماہرین، قائدین، کمانڈرز، اعلامیوں کے قتل سے ان کا خاتمہ ہوا؟ بلکہ وہ تو آج پہلے سے بھی زیادہ مقامات اور ولایات میں موجود ہیں۔

دوسری طرف جہاد کے یہودیوں (القاعدہ) والوں نے وزیرستان میں یہ پالیسی بنائی کہ ہمارے ماہرین، قائدین اور کارکنان بہت قیمتی ہیں، ان کو قتل سے بچانا چاہیے، ورنہ بہت نقصان ہو جائے گا۔ اس پالیسی کے تحت انہوں نے وزیرستان میں ہونے والے آپریشنز میں کسی جنگ میں حصہ نہیں لیا بلکہ وزیرستانیوں کو آگے کر دیتے تھے اور خود دوسرے علاقے میں منتقل ہو جاتے تھے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ قبائلی چونکہ ان پڑھ عام سے جنگجو ہیں، ان کے قتل سے کوئی نقصان نہیں ہوتا، لیکن ہمارے لوگ قیمتی ہیں، ان کو خطروں کی جگہ سے دور رہنا چاہیے اور ان کو بچانا چاہیے۔ اور اسی پالیسی اور نظریے کے تحت انہوں نے اپنے عقیدے پر سمجھوتہ کر لیا۔ وہ ذلت کے ساتھ ایران کے ہاں بھی پناہ گزین ہوئے، باطل قوتوں سے بھی سازباز کی، توحید اور شرعی احکام کو بھی معطل کیا، کیونکہ ان کے خیال میں یہ سب بعد کی باتیں ہیں، سب سے پہلے اپنے قائدین اور تنظیم کو بچانا چاہیے۔

لیکن ان کی ان تمام تر بزدلی اور احتیاط کا کیا نتیجہ نکلا؟ کیا وہ بچ گئے؟ ان کے تمام قائدین بھی قتل ہوئے، ماہرین بھی قتل ہوئے، تنظیم کا بھی دنیا بھر سے صفایا ہو گیا، اور آخرت بھی ہاتھ سے گئی۔ وہ جو پشتو میں کہتے ہیں کہ "دیوث بہ ہم شی مڑ بہ ہم شی" (یعنی بے غیرتی بھی اختیار کر لو گے، پھر مارے بھی جاؤ گے)۔

سو ایک نے عقیدے کو بچایا اور قتل کی پروا نہیں کی، اس کا عقیدہ بھی بچا، جماعت بھی بچ گئی۔
دوسرے نے تنظیم اور شخصیات کو بچایا اور عقیدے کی پروا نہیں کی، اس کا عقیدہ بھی نہیں بچا، تنظیم اور شخصیات بھی نہیں بچیں۔

اس لیے مسلمانوں کو ہمیشہ اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ کہیں ہم اپنے عقیدے پر مصلحت تو اختیار نہیں کر رہے؟ سمجھوتہ تو نہیں کر رہے؟ کہیں ہم اپنے موقف اور عقیدے سے پیچھے تو نہیں ہٹے؟ کہیں ہم نے توحید اور شریعت پر سودے بازی تو نہیں کی؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔ جتنے بھی قائدین یا افراد کا قتل ہوتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ساتھ ہے، اور اس کو موت نہیں آتی، وہ ہمیشہ زندہ ہے، اور وہ اس کی جگہ اور لے آئے گا۔ اور موحدین کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا، چاہے ان کے دو ہی افراد باقی بچیں۔

وما علینا الا البلاغ
 
Top