جب كوئى شخص اپنى بيوى كو شرعی طریقہ سےتيسرى طلاق بھى دے دے تو وہ اس كے ليے حرام ہو جاتى ہے اور اس وقت حلال نہيں ہو گى جب تك وہ كسى اور خاوند سے نكاح نہ كر لے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
قال الله تعالى : ( فَ
إِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ ) البقرة/230
﴿ اور اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے تو اب اس كے ليے حلال نہيں جب تك كہ وہ عورت اس كے علاوہ كسى دوسرے سے نكاح نہ كر لے ﴾البقرۃ ( 230 ).
یہ تو شرعی نکاح ہے ،جو آباد رکھنے کیلئے کیا جاتا ہے ،ہاں اگر کسی سبب سے اس نکاح سے طلاق ہوجائے یا خاوند فوت تو بعد عدت پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے ؛
جبکہ اس کے الٹ پہلے خاوند جس نے طلاق دی ہے اس سے دوبارہ نکاح کیلئے ایک وقتی اور جعلی نکاح رچایا جاتا ہے ،جس کا مقصد خاوند کے ساتھ زندگی گزارنا نہیں ،بلکہ محض پہلے خاوند کیلئے حلال کرنا مقصود ہوتا ہے ،اس لئے یہ نکاح شرعاً جائز نہیں ،
چھٹی صدی کے نامور محدث اور فقیہ امام
أبو محمد موفق الدين عبد الله الشهير بابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ)
فرماتے ہیں:
فصل: فإن شرط عليه التحليل قبل العقد، ولم يذكره في العقد ونواه في العقد أو نوى التحليل من غير شرط فالنكاح باطل أيضا. قال. إسماعيل بن سعيد: سألت أحمد عن الرجل يتزوج المرأة، وفي نفسه أن يحللها لزوجها الأول، ولم تعلم المرأة بذلك. قال: هو محلل، إذا أراد بذلك الإحلال، فهو ملعون. وهذا ظاهر قول الصحابة - رضي الله عنهم - وروى نافع، عن ابن عمر، أن رجلا قال له: امرأة تزوجتها، أحلها لزوجها، لم يأمرني، ولم يعلم. قال: لا، إلا نكاح رغبة، إن أعجبتك أمسكها، وإن كرهتها فارقها
اگر شادی کرنے والے پر عقد نکاح سے قبل یہ شرط رکھی کہ تم سے یہ نکاح اس عورت کو (پہلے خاوند کیلئے) حلال کرنے کیلئے کیا جارہا ہے ،اور عقد نکاح میں اس شرط کا ذکر نہ بھی ہو بلکہ محض اس نیت سے نکاح کیا جائے ، یا عقد نکاح سے پہلے یہ حلالہ کی شرط نہ ہو بلکہ صرف حلالہ کی نیت سے نکاح کردیا جائےتو بھی یہ نکاح باطل ہے ،(یعنی نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ) اور ایسا نکاح کرنے والا ملعون ہے ؛
اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ظاہر قول بھی یہی ہے ،
اور جناب نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ میں نے ایک عورت سے اس نیت سے نکاح کیا تاکہ وہ پہلے خاوند کیلئے حلال ہوجائے ،جبکہ اس نے مجھے اس نکاح کیلئے نہیں کہا اور نہ ہی اس کے علم میں ہے ، تو کیا یہ نکاح اور تحلیل درست ہے ؟ فرمایا نہیں شرعی نکاح وہی ہے جو رغبت سے کیا جائے ،اگر عورت اسے پسند آئے تو اسے اپنی زوجیت میں باقی رکھے ،اور اگر ناپسند ہو تو علیحدگی کرلے ،
امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی کسی عورت سے اس نیت سے نکاح کرتا ہے کہ یہ پہلے خاوند کیلئے حلال ہوجائے ،جبکہ اس عورت کو اس کے اس ارادے کا علم بھی نہ ہو ،تو امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا یہ نکاحِ حلالہ ہے (جو شرعاً باطل نکاح ہے )
امام ابن قدامہؒ لکھتے ہیں :
وجملته أن نكاح المحلل حرام باطل، في قول عامة أهل العلم؛ منهم الحسن والنخعي، وقتادة، ومالك، والليث، والثوري، وابن المبارك، والشافعي، وسواء قال: زوجتكها إلى أن تطأها. أو شرط أنه إذا أحلها فلا نكاح بينهما، أو أنه إذا أحلها للأول طلقها
( "المغني" (7/ 138).
ترجمہ :
نکاحِ حلالہ اکثر اہل علم کے قول کے مطابق حرام اور باطل ہے ، حلالہ کو باطل کہنے والوں میں امام حسن بصریؒ ،امام ابراہیم نخعیؒ ،امام قتادہؒ ،امام مالکؒ ،امام لیث بن سعدؒ ،امام سفیان ثوریؒ ،امام عبداللہ بن مبارکؒ ،امام شافعیؒ جیسے نامور مشاہیر ائمہ کرام ہیں " (دیکھئے المغنی لابن قدامہؒ ،جلد7 ص180 )
اور اس نكاح ميں جو اسے اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كرے گا شرط يہ ہے كہ وہ نكاح صحيح ہو، چنانچہ مؤقت يعنى وقتى اور كچھ مدت كے ليے نكاح ( جسے نكاح متعہ بھى كہا جاتا ہے ) يا پھر پہلے خاوند كے ليے بيوى كو حلال كرنے كے ليے نكاح كر كے پھر طلاق دے دينا ( يعنى نكاح حلالہ ) يہ دونوں حرام اور باطل ہيں، عام اہل علم كا يہى قول ہے، اور اس سے عورت اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال نہيں ہو گى.
ديكھيں: المغنى ( 10 / 49 - 50 ).
نكاح حلالہ كى حرمت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى صحيح احاديث سے ثابت ہے.
وقد روى أبو داود (2076) أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :
(لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ) وصححه الألباني في صحيح أبي داوود .
ابو داود ميں حديث مروى ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
"
اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2076 )
اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.
والْمُحَلِّلَ هو من تزوجها ليحلها لزوجها الأول . وَالْمُحَلَّلَ له هو زوجها الأول .
المحلل: وہ شخص ہے جو حلالہ كرتا ہے تا كہ بيوى اپنے خاوند كے ليے حلال ہو جائے.
المحلل لہ: اس كا پہلا خاوند.
وروى ابن ماجة (1936) عن عقبة بن عامر رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :
(أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالتَّيْسِ الْمُسْتَعَارِ ؟ قَالُوا : بَلَى ، يَا رَسُولَ اللَّهِ . قَالَ : هُوَ الْمُحَلِّلُ ، لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ) وحسنه الألباني في صحيح سنن ابن ماجة .
اور سنن ابن ماجہ ميں سیدناعقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:"
كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتا ًليے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟صحابہ كرام نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ ضرور بتائيں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1936 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.