شمشاد صاحب کا مؤقف بیان کر کے آپ خود ہی اس پر عمل کر لیتے تو بہتر ہوتا۔ موکنگ کرنا کچھ دیر ایک طرف رکھ دیں، اور
یہ موکنگ نہیں بلکہ صحیح لفظ استعمال کریں تو پھر ٹیزنگ تھی۔لیکن یہ ٹیزنگ بھی محض ابتسامہ کے طورپر تھی۔
مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے
کچھ بتائیں کہ معاشرے میں سدھار کیسے لایا جائے۔
کیاہمارامعاشرہ صرف طلاق کے حوالہ سے بگاڑ کاشکار ہے یاپھر معاشرہ اپنی بنیاد میں ہی بگڑاہواہے۔اگرہم یہ مان لیں کہ معاشرہ میں جوبگاڑہے وہ محض طلاق وغیرہ کے تعلق سے ہے تواس کا حل نہایت آسان ہے لیکن اگراس کو تسلیم کریں کہ معاشرہ کی جوبنیاد خصوصااسلامی اورایمانی بنیاد ہونی چاہئے وہ کھوکھلی ،بے بنیاد اورمتزلزل ہے توپھراس کیلئے دوسرے حل تلاش کرنے پڑیں گے۔
اس پر تو سب ہی متفق ہیں کہ لوگوں کو شریعت کا درست علم دیا جانا چاہئے، اور انہیں طلاق کا شرعی طریقہ سکھلایا جانا چاہئے۔ لیکن معاشرے کی جہالت، صدیوں کی سینہ بہ سینہ روایت، دین سے دوری، ہم سب کے سامنے ہے۔ حلالہ کا مسئلہ مرد کے لئے انا اور غیرت کا ہے تو عورت کے لئے بھی زندگی بھر کی پشیمانی، کرب اور تذلیل کا باعث ہے۔ جبکہ آپ بھی جانتے ہی ہوں گے اور وہ ویڈیوز بھی دیکھ رکھی ہوں گی جن میں حلالہ والے مسئلے کو کیسے ایکسپلائٹ کیا جاتا ہے۔ آپ کی نظر میں اس کا حل آخر کیا ہے؟
آپ کو ایک بات واضح کردوں جوآپ نے مرد کی اناوغیرت اورعورت کی پشیمانی اورتذلیل کے بارے میں کہاہے۔ جب کسی کی غیرت پر زد اورضرب پڑتی ہے توکیاوہ پشیمان نہیں ہوتا کیااس کی تذلیل نہیں ہوتی ؟؟؟؟؟حقیقت یہ ہے کہ یہ عورت سے زیادہ مرد کیلئے پشیمانی اورتذلیل کا موقعہ ہے کیونکہ طلاق اس نے دی ہے اپنی عزت اپنے ہاتھوں سے اس نے ہی گنوائی ہے۔
دوسری بات حلالہ کے تعلق سے عرض کروں۔
حلالہ کیلئے عورت کی رضامندی بھی اتنی ہی لازمی ہے جتنی کہ مرد کی رضامندی۔احناف کے یہاں شادی کے بعد عورت کی رضامندی کھلے لفظوں میں لینی لازمی ہے جب تک عورت اپنے منہ سے حلالہ والے نکاح پر "ہاں"نہیں کرے گی تب تک نکاح منعقد نہیں ہوگااورجب نکاح ہی نہیں ہوگا توپھر حلالہ ہوہی نہیں سکتا۔لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ حلالہ کے تعلق سے عورت بھی "ہاں"کہنے میں اتنی ہی قصوروار ہے جتناکہ مرد ہے۔
ہاں چونکہ طلاق ثلاثہ دینے میں ساراقصور مرد کاہی ہوتاہے لہذا اس معاملے میں عورت بے قصور اورمجبور ہے لیکن اس کے بعد نکاح کیلئے راضی ہونے میں عورت کومجبورنہیں کہاجاسکتااوراگرمعاشرتی دبائو،بچوں کی ذمہ داریاں وغیرہ کو مجبوری بنایاجائے تومرد بھی اتناہی مجبور ثابت ہوتاہے اس اضافی ذمہ داری کے ساتھ کہ اس نے طلاق ثلاثہ بیک مجلس دے کر گناہ کاارتکاب کیاہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔
فقہائے احناف اس ضمن میں کچھ نہیں کر سکتے؟ مطلب حنفی مسلک میں دیگر مسالک کے فتاویٰ پر عمل کرنے کی لچک تو موجود ہے۔ فقہائے ثلاثہ کا مؤقف آپ جو بیان کر رہے ہیں، شاید وہ بھی کسی حد تک درست ہو۔ موجودہ دور میں تو سعودی علماء (جنہیں احناف حنبلی قرار دیتے ہیں) ان کا فتویٰ یہ ہے:
http://islamqa.com/ur/ref/109245
آپ لوگوں کو چاہئے کہ فقہ حنفی کے تعلق سے کوئی ایک موقف اختیار کریں اپ کی جماعت کا ہرشخص فقہ حنفی کے تعلق سے ایک نیااورمختلف نظریہ رکھتاہے۔آپ نے موجودہ حنفی علماء کی بات رکھی ہے۔ جب کبھی ہم ان حنفی علماء کی بات کو پیش کرتے ہیں توآپ ہی کی جانب سے جواب آتاہے کہ یہ لوگ مقلد ہیں مجتہد نہیں ہیں ان کی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ لیکن طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں شاید آپ ان ہم عصر حنفی علماء کو مجتہد تسلیم کرلیتے ہیں۔ چلوشکریہ کم ازکم اسی بہانے سے حنفی علماء کی قدرومنزلت توبڑھی آپ کی نظروں میں۔
جہاں تک بات سعودی علماء کی ہے توسعودی علماء بھی پورے کے پورے ابن تیمیہ کی رائے کے قائل نہیں ہیں۔ بلکہ بہت سارے اوراگرمیں غلط نہیں ہوں توبیشتر حنبلی علماء کی رائے یہی ہے اوررہی ہے کہ تین طلاق ایک مجلس کی تین ہی ہوتی ہے ایک نہیں۔ اس ضمن میں شیخ محمد بن ابراہیم جس کے شاگردوں میں ابن باز ابن عثیمین اوردیگر موجودہ سربرآورہ علماء ہیں کی رائے یہی ہے کہ تین طلاق ایک مجلس کی تین ہی ہوتی ہے اس ضمن میں انہوں نے محمد بن عبدالوہاب کی بات بھی نقل کی ہے کہ ہم نے پہلے ابن تیمیہ کی رائے پر فتوی دیاتھا لیکن بعد میں چل کر ائمہ اربعہ کی رائے علمی طورپر مضبوط نظرآئی۔
آخر گاؤں میں جمعہ کے بجائے ظہر کی ادائیگی کا مؤقف رکھنے اور اس پر دلائل رکھنے کے باوجود، علمائے احناف نے معاشرے کے بگاڑ کے پیش نظر گاؤں میں بھی نماز جمعہ کا فتویٰ دے رکھا ہے۔ یہ معاملہ اس سے کچھ ملتا جلتا نہیں؟ مطلب اس طلاق کے معاملے میں بھی لچک اختیار نہیں کی جا سکتی؟ یا آپ (علمائے احناف) کے خیال میں ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے کے دلائل سرے سے ناپید ہی ہیں؟ یا اصل مسئلہ یہ ہے ہی نہیں؟ کچھ اور ہے؟
کیاگائوں میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا فتوی معاشرے کے بگاڑ کے پیش نظر ہے یہی نئی بات معلوم ہوئی۔ شاید آپ کہناکچھ اورچاہ رہے تھے لیکن تعبیر میں غلطی کرگئے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ضرورت کے پیش نظر ہے نہ کہ معاشرے کے بگاڑ کے پیش نظر۔
کراچی ایک شہر ہے۔ کیااس میں کوئی ایسی مسجد ہے جہاں پورے کراچی کے مسلمان نماز پڑھ سکیں۔ لاہور میں کوئی مسجد اتنی وسعت رکھتی ہے جہاں پورے شہر کے مسلمان سماسکیں۔ یہی حال دیگر شہروں کا ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ آبادی اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ جمعہ کی نماز میں شہر کی بڑی سے بڑی مسجدیں صرف اپنے پاس پڑوس کے مسلمانوں کیلئے تنگی دامانی کا شکوہ کرتی ہیں اب اگراس میں سارے شہر کے مسلمان اجائیں توپھر سوچئے کیاحال ہوگا۔لہذا گائوں میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا فتوی ضرورت اورمجبوری بناء پر ہے کیونکہ گائوں والوں کیلئے ضروری ہوگاکہ وہ شہر جاکرنماز پڑھیں اورشہر کی مساجدمیں گائوں والوں کو سمونے کی وسعت نہیں ہے۔
اس موضوع پر ایک سیمینار کی کاروائی کتابی شکل میں شائع ہوئی ہے۔ جس میں کئی علمائے احناف نے بھی شرکت کی۔ سوائے ایک بریلوی عالم کے باقی سب نے قریب اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا تھا کہ موجودہ معاشرے کا یہ ایک بڑا المیہ ہے اور اس کا ایک متفقہ حل بھی پیش کیا گیا تھا۔ یہ کتاب یہاں موجود ہے:
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/1-urdu-islami-kutub/213-teen-talaq.html
[/QUOTE]
اگربات محض معاشرے کے بگاڑ کی ہے توابن حزم کا فتوی ہے کہ موسیقی جائزہے معاشرے کے بگاڑ کے پیش نظراس کو کیوں نہ اختیار کرلیاجائے اورمسلمانوں میں جوبگاڑعمومی طورپر سرایت اختیار کرگیاہے اس کو اختیار کرلیاجائے۔ اگربات محض معاشرے کے بگاڑ کی ہے توخواتین بے پردہ اورچہرہ کھول کر چلتی ہیں تواس مسئلہ میں البانی کی رائے کیوں نہ اختیار کرلیاجائے۔اگربات محض معاشرے کے بگاڑ کی ہے توہم حنفی ہی پہلے امام ابوحنیفہ کی رائے کیوں نہ اختیار کرلیں کہ شراب محض انگورکاہی ہے ۔بقیہ دیگراجناس کے شراب پینے پر تعزیر ہے حد نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے معاشرے کابگاڑ کوئی کلی اوراصولی ضابطہ نہیں ہے کہ اس کے نام پر ہرچیز کو جائزقراردیاجائے۔ اس کی اپنی کچھ حدود ہیں،کچھ ضابطے ہیں۔
میں اپنی ذاتی بات کروں۔
اگرطلاق ثلاثہ کا مسئلہ مفقود الخبر یاائمہ اربعہ میں دیگر اختلافی مسائل کی طرح ہوتاتوہمیں معاشرے کے بگاڑ کے پیش نظر وہ رائے اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی لیکن جس مسئلہ پرائمہ اربعہ متفق ہیں۔ اس سے باہر جانااورخروج کرناراقم الحروف اپنے لئے بقول حضرت شاہ ولی اللہ کہ ائمہ اربعہ کے اجتہادات سے باہر نکلناجائزنہیں ہے،جائز نہیں سمجھتا۔
اس کے علاوہ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں ابن تیمیہ نے درحقیقت جس شدومد کے ساتھ کام لیاہے وہ درحقیقت ایک ایسے غالی شخص کے خلاف تھاجس نے اس رائے سے خروج کرنے والے کے کفر اورقتل کا فتوی دیاتھا۔بہرحال ایک ایسی رائے جس کی کچھ نہ کچھ دلیل مل جاتی ہو اس پر اتناسخت فتوی اورفیصلہ شریعت کے مزاج اورمذاق کے خلاف ہے اسی تناظر میں ابن تیمیہ نے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر شدومداورتفصیل کے ساتھ قلم اٹھایا۔ابن تیمیہ کے بعد ابن قیم نے حسب معمول اس مسئلہ کو اپنے فکر ونظرکی جولان گاہ بنایااوردلائل چاہے جیسے بھی ہوں اس سے اپنی کتاب نہیں کتابوں کو بھردیا۔حالانکہ یہ واضح رہناچاہئے تھاکہ ابن تیمیہ اس مسئلہ میں محض ایک غالی رائے کی تردید کرناچاہ رہے تھے نفس طلاق ثلاثہ سے ان کو زیادہ سروکار نہیں تھا۔
والسلام