شام میں رهنے والا دنیا کا سب سے بڑا دهشت گرد بچه
قتل طفلاں کی منادی ہورہی ہے شہر میں
ماں!مجھے مثل موسی تو بہادے نہر میں
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
ستم ظريفی ديکھيں کہ آپ شامی پناہ گزينوں پر مصيبتوں کو اجاگر کر کے امريکہ پر ايک ايسے موقع پر تنقيد کر رہے ہيں جبکہ امريکی حکومت نے محض چند دن قبل سال 2016 ميں دس ہزار شامی پناہ گزينوں کو امريکہ ميں بسانے کا سنگ ميل عبور کيا ہے۔
اس ضمن ميں رپورٹ پيش ہے۔
http://www.nbcnews.com/storyline/syrias-suffering-families/10-000th-syrian-refugee-will-arrive-u-s-monday-n639446
شام ميں بچوں پر تشدد پر آپ کا غم وغصہ بالکل بجا ہے ہے اور ہم بھی اس حوالے سے شديد تحفظات رکھتے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ دس ہزار شامی پناہ گزين جو اس سال امريکی معاشرے کا حصہ بننے جا رہے ہيں، اس ميں سے قريب اسی فيصد عورتيں اور بچے ہيں جن ميں سے زيادہ تر اٹھارہ سال سے کم عمر ہیں۔
علاوہ ازيں 99 فيصد پناہ گزين مسلمان ہيں۔ اب تک امريکہ کی 39 رياستوں ميں شامی پناہ گزين منتقل کيے جا چکے ہيں۔
اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ شام ميں جاری خانہ جنگی اور تشدد اور اس کے نتيجے ميں انگنت عام شہريوں کی ہلاکت امريکی حکومت سميت تمام عالمی برادری کے ليے لمحہ فکريہ ہے۔ روز بروز بڑھتا ہوا انسانی سانحہ اور اس کے نتيجے ميں لاکھوں بے گھر پناہ گزين کوئ ايسی "کامياب حکمت عملی" نہيں ہے جس سے خطے ميں کسی کا بھی فائدہ ممکن ہے۔
ايسے بے يارو مددگار شہری جنھيں ان کی اپنی حکومت نے پناہ دينے سے انکار کر ديا ہے، ان کی مدد کرنا کسی بھی طور ایسا عمل نہيں ہے جسے ہماری جانب سے خطے ميں بے جا مداخلت سے تعبير کيا جا سکے۔ يہ ايک عالمی انسانی سانحہ اور مسلۂ ہے جس کے حل کے ليے تمام عالمی برداری اور خطے کے تمام فريقين کی جانب سے مشترکہ اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے اور يہی ہماری حکومت کی حکمت عملی ہے۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی حکومت کو اس بنياد پر مورد الزام قرار ديا جا سکتا ہے کہ ہم نے ايک ايسی حکومت کے احتساب کے ليے عالمی شعور بيدار کرنے کی کاوش کی ہے جس نے تمام تر عالمی قوانين کی دھجياں اڑاتے ہوۓ اپنے ہی شہريوں پر انتہائ بے رحم انداز ميں بم برساۓ اور يہی نہيں بلکہ سينکڑوں کی تعداد ميں عام شہريوں کے خلاف دانستہ خطرناک کيمیائ گيس کے استعمال کی رپورٹس بھی منظر عام پر آ چکی ہيں؟
کيا يہ کہنا درست ہے کہ عالمی براداری کو شام ميں جاری صورت حال کو معمول کا تنازعہ قرار دے کر اسے داخلی صورت حال سمجھنا چاہيے اور اسد کی حکومت کی جانب سے جو ہتھکنڈے استعمال کيے جار ہے ہيں انھيں کسی بھی عسکری تنازعے کے ضمن ميں قابل قبول طريقہ کار قرار دے کر اسے نظراندار کر دينا چاہيے؟
ستم ظريفی ديکھيں کہ آپ شامی پناہ گزينوں پر مصيبتوں کو اجاگر کر کے امريکہ پر ايک ايسے موقع پر تنقيد کر رہے ہيں جبکہ امريکی حکومت نے محض چند دن قبل سال 2016 ميں دس ہزار شامی پناہ گزينوں کو امريکہ ميں بسانے کا سنگ ميل عبور کيا ہے۔
اس ضمن ميں رپورٹ پيش ہے۔
http://www.nbcnews.com/storyline/syrias-suffering-families/10-000th-syrian-refugee-will-arrive-u-s-monday-n639446
شام ميں بچوں پر تشدد پر آپ کا غم وغصہ بالکل بجا ہے ہے اور ہم بھی اس حوالے سے شديد تحفظات رکھتے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ دس ہزار شامی پناہ گزين جو اس سال امريکی معاشرے کا حصہ بننے جا رہے ہيں، اس ميں سے قريب اسی فيصد عورتيں اور بچے ہيں جن ميں سے زيادہ تر اٹھارہ سال سے کم عمر ہیں۔
علاوہ ازيں 99 فيصد پناہ گزين مسلمان ہيں۔ اب تک امريکہ کی 39 رياستوں ميں شامی پناہ گزين منتقل کيے جا چکے ہيں۔
اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ شام ميں جاری خانہ جنگی اور تشدد اور اس کے نتيجے ميں انگنت عام شہريوں کی ہلاکت امريکی حکومت سميت تمام عالمی برادری کے ليے لمحہ فکريہ ہے۔ روز بروز بڑھتا ہوا انسانی سانحہ اور اس کے نتيجے ميں لاکھوں بے گھر پناہ گزين کوئ ايسی "کامياب حکمت عملی" نہيں ہے جس سے خطے ميں کسی کا بھی فائدہ ممکن ہے۔
ايسے بے يارو مددگار شہری جنھيں ان کی اپنی حکومت نے پناہ دينے سے انکار کر ديا ہے، ان کی مدد کرنا کسی بھی طور ایسا عمل نہيں ہے جسے ہماری جانب سے خطے ميں بے جا مداخلت سے تعبير کيا جا سکے۔ يہ ايک عالمی انسانی سانحہ اور مسلۂ ہے جس کے حل کے ليے تمام عالمی برداری اور خطے کے تمام فريقين کی جانب سے مشترکہ اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے اور يہی ہماری حکومت کی حکمت عملی ہے۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی حکومت کو اس بنياد پر مورد الزام قرار ديا جا سکتا ہے کہ ہم نے ايک ايسی حکومت کے احتساب کے ليے عالمی شعور بيدار کرنے کی کاوش کی ہے جس نے تمام تر عالمی قوانين کی دھجياں اڑاتے ہوۓ اپنے ہی شہريوں پر انتہائ بے رحم انداز ميں بم برساۓ اور يہی نہيں بلکہ سينکڑوں کی تعداد ميں عام شہريوں کے خلاف دانستہ خطرناک کيمیائ گيس کے استعمال کی رپورٹس بھی منظر عام پر آ چکی ہيں؟
کيا يہ کہنا درست ہے کہ عالمی براداری کو شام ميں جاری صورت حال کو معمول کا تنازعہ قرار دے کر اسے داخلی صورت حال سمجھنا چاہيے اور اسد کی حکومت کی جانب سے جو ہتھکنڈے استعمال کيے جار ہے ہيں انھيں کسی بھی عسکری تنازعے کے ضمن ميں قابل قبول طريقہ کار قرار دے کر اسے نظراندار کر دينا چاہيے؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
https://www.instagram.com/doturdu/
https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
https://www.instagram.com/doturdu/
https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/