اسقاطِ حمل، زنانہ مجبوری کے تناظر میں
عورت کی خوبصورتی متاثر ہوتی ہے، مرد کی معیشت کمزور ہے، ہمیں ابھی بچے نہیں چاہییں، وغیرہ حالات میں بلا ضرورت منع حمل یا اسقاط تو ایک فیشن کی صورت اختیار کرچکا ہے، جو ایک کبیرہ گناہ ہے، لیکن بہرصورت اس موضوع کا ایک ایسا پہلو بھی ہے، کہ جہاں واقعتا کئی ایک لوگ متذبذب نظر آتے ہیں، زیر نظر تحریر میں اسی صورتِ حال کو زیر بحث لانے کی کوشش کی گئی ہے، پہلے ایک سوال اور اس کا جواب ملاحظہ کرلیجیے:
’’علماء کرام ایک بھائی کا سوال ہے کہ اس کی بیوی بچے کی پیدائش میں دو سال کے وقفہ کی خواہش مند تھی لیکن چند ماہ بعد وہ امید سے ہوگئی اب وہ اپنے خاوند سے جھگڑتی ہے جس کی وجہ سے گھر کا ماحول کافی خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، کیا اس صورتحال میں وہ اسقاط حمل کروا سکتے ہیں؟ جبکہ حمل ابھی دو تین ہفتوں کا ہے۔‘‘
اب اس سوال کا ایک جواب عنایت فرمالیں:
’’قطعا نہیں۔۔۔!اور وقفے بھی کوئی مشروع ومحمود شے نہیں بلکہ إني مكاثرٌ بكم الأمم كے خلاف ہے۔۔۔زیادہ سے زیادہ جواز مع الكراهة كہا ہے بعض نے۔۔تو لڑنے جھگڑنے کی کیا عجيب بات ہے اللہ رب العزت كى تخليق پر اعتراض؟!
اللہ سے ڈرنا چاہئے اور توبه واستغفار كرکے اللہ کے امر کے سامنے سر تسليم خم كرنا چاہئے ۔۔۔ كجا اسقاط جيسے كبيره گناہ کی سوچ سوچنا۔۔اللہ رب العزت هدايت وتوفيق سے نوازیں آمين‘‘
اس جواب میں کتنی متانت وبصیرت ہے یہ بعد کی بات ہے، پہلے کچھ بنیادی باتوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کی پیدائش کا یہی طریقہ اختیار کیا ہے کہ مرد اور عورت دو انسانوں کے ملاپ سے ایک تیسرا انسان مرد یا عورت اس دنیا میں آتا ہے۔ مرد کے نطفہ میں کوئی کمزوری ہو، یا عورت کا رحم زرخیز نہ ہو تو پھر بھی یہ عمل ممکن نہیں۔ لہذا مرد یا عورت چاہتے ہوئے بھی اپنی ان صلاحتیوں کو ضائع و معطل کرنے کی اجازت نہیں، جو نسلِ انسانی کی بقا کا واحد ذریعہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کثرتِ اولاد کی طرف ترغیب دلائی ہے۔
لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اللہ تعالی کسی بھی مرد یا عورت پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر ذمہ داری کا مطالبہ نہیں کرتے، اگر کوئی انسان کوئی ذمہ داری ادا کرنے کے قابل نہیں، تو اس سے ڈنڈے کے زور پر اس کا مطالبہ نہیں ہے، مثلا کسی مرد یا عورت میں حقوقِ زوجیت ادا کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو، تو انہیں مجبور نہیں کیا جائے گا کہ تم ضرور بالضرور یہ کام کرو۔
کم وبیش نو ماہ تک بچے کو حمل کی حالت میں رکھنا، پھر اسے شدید تکلیف کے بعد جنم دینا، یہ ایسا مشکل مرحلہ ہے، جس کی مشقت، ناگواری ومشکل کو قرآن کریم نے بھی بالخصوص ذکر کیا ہے۔ اور یہ معاملہ چونکہ سراسر عورت کی ذمہ داری ہے، اس لیے اس میں عورت کی طبیعت و مزاج کا خیال رکھنا ہر صورت میں ضروری ہے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ جس طرح دن بہ دن مرد کی جسمانی ساخت اور اس کے قُوی کمزور ہورہے ہیں، عورت بھی اس زوال کا شکار ہے، آج سے ہزار سال پہلے مرد جتنی مشقت برداشت کرتے تھے، آج کے مردوں سے ہم بالکل وہی تقاضا کرسکتے ہیں؟ جس طرح مردوں نے اپنی کمزوری کی تلافی کے لیے آلات وسہولیات ایجاد کی ہیں، پیدائش اور حمل کے باب میں عورت کے لیے کسی قسم کی کوئی سہولت موجود نہیں، سوائے اس کے کہ اب ولادت کے لیے آپریشن کی سہولت موجود ہے، یعنی کوئی عورت طبعی طریقہ سے بچہ جننے کے قابل نہیں، تو آپریشن کے ذریعے اس کا حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح دورانِ حمل عورت کی جسمانی ساخت میں جو تبدیلیاں اور مشکلات اسے آتی ہیں، اس کے حل کے لیے بعض ادویات موجود ہیں، لیکن بہرصورت عورت کو بچہ ایک محدود مدت کے لیے اپنے پیٹ میں رکھنا ہی رکھنا ہے۔ اس دوران اس کے مزاج کی برہمی، وزن کی مشقت، جسم کا غیر معمولی بگڑنا اس کا کوئی حل کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔
عموما گھروں میں ایسے حالات بھی نہیں ہیں کہ عورت کو حمل ٹھہرگیا تو اب ہر وقت نوکرانی اس کے خیال کے لیے تیار ہے، کسی قسم کا مشقت والا کام، اس کو کرنے کو نہیں کہا جائے گا، اس کےبچے سنبھالنے کے لیے آیا موجود ہے، ایسی کوئی سہولت عمومی طرز معاشرت میں عورتوں کے لیے میسر نہیں ہے، اس صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے کئی ایک عورتیں مسلسل حمل سے گھبراتی ہیں، بلکہ بعض تو نفسیاتی طور پر اچھی خاصی متاثر ہوجاتی ہیں، جو بچے پہلے موجود ہیں، وہ الگ متاثر ہوتے ہیں، اور خاص طور پر اگر بچے بالکل بالکل چھوٹے چھوٹے اور دودھ پیتے ہوں، تو پھر نیا حمل ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اور جس کی وجہ سے میاں بیوی میں آپس میں لڑائیاں جھگڑے بھی ہوتے ہیں، گھر کے دیگر افراد بھی اس تناؤ سے متاثر ہوتے ہیں، نہ میاں بیوی ایک دوسرے کی پرواہ کرتے ہیں، اور دیگر افرادِ خانہ تو ان مسائل اور مشکلات کو سمجھنے کے لیے عموما تیار ہی نہیں ہوتے، جس وجہ سے نیا حمل بعض دفعہ ایک زحمت محسوس ہونا شروع ہوجاتا ہے، جیسا کہ اوپر سوال میں اس قسم کی صورتِ حال کا ذکر ہے۔
حمل کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کی نوعیت چاہے مختلف ہو، لیکن بہرصورت یہ مسئلہ دورِ نبوت میں بھی موجود تھا، اور اسی وجہ سے صحابہ کے ہاں’عزل‘ کی بحث موجود تھی، اور اس میں راجح موقف یہی ہے کہ ’عزل‘ کرنا، یعنی دورانِ جماع مادہ منویہ کو عورت کی شرمگاہ کے علاوہ کسی اور جگہ خارج کرنا جائز ہے۔
یہ مسئلہ بہت اہم ہے، کوئی بھی بات کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری اٹھانے کے مترادف ہے، کتبِ فقہ میں اس پر طویل بحثیں ہیں، عصر حاضر میں اس پر مستقل کتب و مقالات اور ریسرچ پیپرز موجود ہیں، لیکن میری نظر میں جب عورت کے لیے اپنی معمول کی زندگی گزارنا بہت مشکل ہوجائے، اور حمل کو برقرار رکھنے میں اس کے لیے شدید مشقت ہو، تو حمل کو شروع میں ہی خارج کروانا جائز ہے، اس میں ان شاءاللہ کوئی حرج نہیں، کیونکہ نیا حمل صرف ایک نطفہ ہے، جس میں روح نہیں ہے، اور نہ ہی وہ انسانی جان کے حکم میں ہے، لہذا اسے قتل وغیرہ سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔
اور اس پر تو علما کے باقاعدہ فتاوی موجود ہیں کہ اگر عورت کی جان کو خطرہ ہو، تو پھر حمل چاہے کتنے بھی ماہ کاکیوں نہ ہو، یہاں کی جان بچانا مقدم ہے، کیونکہ ایک عورت کی جان کا خیال رکھنا، اس کے پیٹ میں موجود حمل کی جان سے بہرصورت ضروری ہے۔
الضرر یزال، درء المفاسد أولی من جلب المصالح وغیرہ قواعدِ فقہیہ سے بھی اس باب میں استیناس کیا جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ مسئلہ چونکہ مشقت وتکليف سے جڑا ہوا ہے، اس لیے اس ضمن میں عورت کی رائے سب سے زیادہ اہم ہے، جو ان مشکل مراحل کا بذاتِ خود سامنا کرتی ہے، ایسی عورت کو اللہ کا ڈر خوف، تقوی پرہیزگاری سب باتیں معلوم ہونی چاہییں، اور ساتھ اسے یہ مسئلہ بھی سمجھانا چاہیے کہ شریعت میں تکلیف مالایطاق کا تصور موجود نہیں ہے، اور یہ بھی کہ بلا ضرورت اس قسم کا کام بہت بڑے گناہ کے زمرے میں آتا ہے، پھر وہ جو فیصلہ کرے، اس کے خاوند، یا دیگر لوگوں کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ عموما دیکھا یہ گیا ہے کہ عورتوں کے اس قسم کے خاص مسائل میں بھی رائے زنی عموما مرد حضرات ہی کر رہے ہوتے ہیں، حالانکہ اس مشقت و تکلیف یا صورتِ حال کا اندازہ کوئی مرد کرسکتا ہے؟ چاہے وہ اس کا خاوند یا قابل قدر مفتی صاحب ہی کیوں نہ ہوں؟ کیا خاوند یا مفتی صاحب نے کبھی نو ماہ کا حمل اٹھا کر دیکھا ہے؟ کبھی کوئی بندہ دیکھا ہے جو دو کلو کا تھیلا نو ماہ تک اپنے پیٹ پر باندھ کر چلتا بھی ہو، سوتا بھی ہو، لوگوں کے سامنے بھی ویسے ہی جاتا ہو؟ حالانکہ ہر عاقل و بالغ شخص یہ سمجھتا ہے کہ حمل کی تکلیف و مشقت اس سے بھی کئی درجے زیادہ ہے۔
حمل سے بچنے کی احتیاطی تدابیر:
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب عورت کی حالت اجازت نہ دیتی ہو تو حتی الوسع احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں تاکہ اسقاط حمل وغیرہ کا مرحلہ در پیش ہی نہ ہو۔ مثلا مرد کو کنڈوم استعمال کرنا چاہیے، یا پھر عزل کرنا چاہیے، یا ماہواری کے ایام ختم ہوتے ہی چند دن جماع نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ عموما حمل ٹھہرنے کی مدت ماہواری کے فورا بعد کے کچھ دن ہوتے ہیں، وظیفہ زوجیت اس طرح ادا کرنے کی کوشش کریں کہ جس سے عموما حمل نہیں ٹھہرتا، اسی طرح عورتوں کو بعض ادویات بھی دی جاتی ہیں کہ جن سے حمل نہیں ٹھہرتا وغیرہ وغیرہ۔
لیکن کئی ایک شادی شدہ حضرات یہ بات جانتے ہیں کہ ان میں سے کسی بھی احتیاطی تدبیر کے نتائج سوفیصد نہیں ہیں، اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر مرد یا عورت کے لیے ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا ممکن و آسان بھی ہو۔ بعض حکیم اور ڈاکٹر حضرات ایسی تدابیر بتاتے ہیں کہ وظیفہ زوجیت جو ایک راحت و سکون کا ذریعہ ہے، وہ ایک مشقت و عذاب نظر آتا ہے۔ اور پھر معاملہ ایسا بھی نہیں جیسا کہ بعض جاہل عوام میں زبان زدِ عام ہوتا ہے کہ بھئی حمل سے ڈرتے ہو، تو ایک دوسرے کے قریب کیوں جاتے ہو؟ اور پھر بعض لوگ اپنی یا دوسروں کی مثالیں بھی دینا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ اس بات کی ایک طعنہ زنی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں۔ کیونکہ مرد وعورت کا وظیفہ زوجیت ادا کرنا بھی مطلوب و محمود ہے، کوئی بھی صحت مند مرد وعورت اس کے بغیر نہیں رہ سکتے، اور پھر وہ لوگ جن کے ساری ساری عمر گزار کر دو تین بچے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے اپنی پوری ازدواجی زندگی میں صرف دو یا تین بار یہ کام کیا تھا، یا وہ ساری عمر احتیاطی تدابیر کی جیل میں ہی گزارتے رہے ہیں، بلکہ یہ تو اللہ کی مرضی اور فیصلہ ہے، کہ بعض لوگ بوند بوند کو ترستے ہیں، جبکہ بعض کے ہاں اللہ تعالی بارش ہی برسا دیتا ہے۔ لہذا یہ ایک لایعنی اور فضول طعنہ ہے کہ کسی کو ان مسائل میں یہی کہنا شروع کردیا جائے کہ بھئی تم ایسے کام کرتے ہی کیوں ہو؟
اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک طرف حلال طریقے سے زندگی گزارنے والے زوجین کو اس قسم کے طعنے مارے جاتے ہیں، جبکہ دوسری طرف حرام کاری کرنے والوں کے لیے راستے کھلے ہیں، جو شادی، گھر، معاشی بہتری وغیرہ کچھ بھی ضروری نہیں سمجھتے، اور بلا کسی احتیاطی تدبیر چند کوڑیوں کے عوض حرام تعلقات قائم کرکے چلتے بنتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ودود ولود عورتوں کے لیے یہ بھی مصیبت ہے کہ پہلے تو ان کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا، پھر جب مسلسل مشقِ ستم کے باعث ان کی جسمانی ساخت زوال کا شکار ہونے لگتی ہے، تو پھر بھی ان کے لیے نت نئی ذہنی و عملی اذیتیں اور مشقتیں رکھی ہوتی ہیں، ایسی صورتِ حال میں عورت کو جو طعنہ زنی اور جغت بازی کی جاتی ہے، اس پر بعض لوگوں کی مستقل تحاریر بھی نظر سے گزری ہیں۔ خیر آمد بر سرِمطلب کہ ہم عورت کی آزادی اور حقوق کے مغربی تصور پر لعنت بھیجتے ہیں، لیکن بہرصورت ہمیں عورت کے جائز حقوق ، خواہشات، اور ترجیحات کا تحفظ کرنا چاہیے، بالکل ایسے ہی جیسے ہر مرد اپنی پسند ناپسند اور طبیعت ومزاج کی نازکیوں کا خیال رکھتا ہے۔
خود خواتین کو جو ماں اور ساس کے درجہ میں ہیں، اپنی بیٹی اور بہو کی زبان بننا چاہیے، جس طرح ایک ماں اپنے بیٹے کا خیال رکھتی ہے، کبھی آپ نے سنا ہے کسی ماں نے کہا ہو کہ دیکھو تمہارا باپ تواتنی محنت و مشقت کرتا تھا، تو تم اتنی جلدی کیوں تھک جاتے ہو؟ ہمارے زمانے میں بجلی کا نام نشان نہیں تھا، اور تم تو بجلی کے بغیر ایک منٹ نہیں رہتے ہو؟ وغیرہ لیکن ہر دوسری ساس بہو کو یہ طعنہ ضرور مارتی ہے کہ تم کوئی انوکھے بچے پیدا تو نہیں کررہی یا کام تو نہیں کررہی ، ہم نے بھی تو یہ سارا کچھ کیا ہے، اور اس سب میں حالات ، خوراک اور غذا کا وہ فرق بالکل محو ہوجاتا ہے، جوایک ماں اور بیٹی یا ساس اور بہو کے زمانے میں ہوتا ہے۔
خیر یہ ایک سوچ ہے، جو ازدواجی زندگی اور ارد گرد کے حالات کو دیکھ کر، موضوع سے متعلق کچھ مطالعہ کرکے اپنے الفاظ میں بیان کردی، جو بہرصورت معاشرے میں رائج فتوی اور سوچ سے مختلف ہے، اس کو لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس موضوع پر مزید لکھا جائے، اس کی تفصیلات کو دیکھا جائے، مردوں کی طرح عورتوں کے مسائل کو بھی سمجھنے کی کوشش کی جائے، اگر ہم نے کوئی فتوی یا بات نافذ کرنی بھی ہے، تو سائل کی تشفی وقناعت کا خاطرخواہ سامان اس میں موجود ہونا چاہیے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے موضوعات پر لکھنا ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہتا ہے، ہر بندے میں ان موضوعات پر لب کشائی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ قوی خدشہ ہوتا ہے کہ آپ کی تحریر کو زینہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لوگ آپ کی ذاتی اور گھریلو زندگی میں جھانکنے کی کوشش کریں گے۔ آزاد انصاری کو کہنا پڑا تھا:
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے نا گفتہ رہ گئے
لیکن بہرصورت بعض موضوعات پر کسی نہ کسی کو تو ہمت کرنا ہی ہوتی ہے۔ اوپر جو سوال کیا گیا ہے، اور اس کا جواب دیا گیا ہے، اپنے مطالعہ وسوچ کی روشنی میں میں اس جواب سے اختلاف کرتا ہوں، اور یہ عرض کرتا ہوں کہ ایسی صورتِ حال میں روایتی انداز میں اس قسم کی فتوی بازی کی بجائے عورت کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، کہ آخر کیوں وہ بچہ نہیں لینا چاہتی؟ اور وہ حمل سے اس قدر بد دل کیوں ہورہی ہے؟ اور اگر واقعتا معاملہ عورت کے لیے مشقت و تکلیف مالایطاق کی حد تک ہو، تو پھر عورت کی بات کو ماننا چاہیے، اور مرد کو اپنے دائرہ کار سے باہر کسی پر اپنی سوچ اور فکر کا تسلط ہرگز نہیں کرنا چاہیے، وکما قیل:الحکم علی الشیء فرع عن تصورہ۔ واللہ أعلم بالصواب وإلیہ المرجع والمآب۔