السلام علیکم! تحریر ہذا فیس بک پر محمد الفیصل صاحب نے تحریر فرمائی ہے، اس پر مدلل تحقیق سے نوازا جائے ، بالعموم محدثین کرام کا طرز عمل اور بالخصوص امام بخاری و ترمذی کا مچالوں کے ساتھ واضح کیا جائے تب بات ہے! اور ہاں ! تبرا بازی نہ کی جائے جیسا کہ موصوف نے کرنے کی کوشش فرمائی ہے، جزاکم اللہ خیرا۔موصوف کی فیس بک آئی ڈی بھی دیکھ لیں تاکہ جو وہاں بات کرنا چاہے وہاں کر لے۔i
https://www.facebook.com/mohammad.alfaisal.39?fref=ufi
""حنفیت کے ساتھ محدثین کا تعصبانہ رویہ
ایک ساتھی نے لکھا کہ امام ترمذی "جامع السنن" میں دیگر ائمہ کے نام لیکر ان کی فقہی آراء نقل کرتے ہیں،جبکہ حنفی نقطہ نظر کو اول تو وہ نظر انداز کردیتے ہیں اورمجبورا اگر ذکر کیا بھی تو اہل الراے کہہ کرکیا- اس کی کیا توجیہ ممکن ہے؟ ہم نے جو جواب دیا وہ ملاحظہ کیجئے-
----------------------------------
امام ترمذی اور ان کے پیش رو محدثین کا طرز عمل احناف کے ساتھ ان کے متعصابہ رویوں کی عکاسی کرتا ہے-امام ترمذی ایک روایت نقل کرکے وفی الباب کے عنوان سے توثیق کے لئے اس کے دیگر متابعات کی طرف اشارہ کردیتے ہیں،اور وہی روایت کسی اور باب کے تحت جب احناف کے نقطہ نظر کی مؤید بنے تو کہہ دیتے ہیں "وہذا الحدیث لانعرفه إلا من هذا الوجه" -اس طرز عمل کی کوئی علمی توجیہ نہیں کی جاسکی اور کسی نے کی بھی تو مسموع نہیں- اس میں دو راے نہیں کہ یہ قاری کی آنکھ میں دھول جھونکے کا حربہ ہے-ہاں اسکی نفسیاتی تحلیل کرکے یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ نفسِ امّارہ کی چلتر بازیوں کے سامنے تقوی کا طُور بھی کافُور ہوجاتاہے تو امام ترمذی بھی ان کے سامنے مغلوب ہوگئے- مگر ان کی ہمالیہ جیسی جلالت ِشان اب تک ہمارے دلوں میں ایستادہ ہے اور ایسی لغزشوں سے ہم ان کے تقوی وللہیت کو ہر گز ہرگز زیر بحث نہیں لا سکتے کہ اپنی عاقبت ویسے بھی مخدوش ہے-
یہ ممکن نہیں کہ تعصب کی اندرونی نفسیات انسان کے اعضاء وجوارح پر اثرپذیر نہ ہوں - ہم اس کی ایک مثال امام بخاری ہی کے عمل سے دیتے ہیں- امام بخاری نے "التاریخ الکبیر" میں لکھا ہے کہ کہ جب سفیان ثوری کو امام ابوحنیفہ کی خبر ِ وفات ملی تو کہا " الحمدللہ، کان ینقض الاسلام عروة عروة،فما رأيت في الإسلام أشأم منه" ثوری درحقیقت امام ابوحنیفہ کے زبردست مداح تھے انکی طرف یہ قول نعیم بن حماد نے اپنی طرف سے وضع کرکے منسوب کردیا- مگر امام بخاری جو حدیث وعللِ حدیث میں مرتبہ امامت پر فائز ہونے کے ساتھ تاریخ و رجال پر بھی اجتہادی نظر رکھتے تھے اور اپنی مستقل راے رکھتے تھے اس قول کو وہ آنکھیں بندکرکے کیسے نقل کرگئے؟کیا وہ امام ابوحنیفہ کے خلاف نعیم بن حماد کی واضعانہ کام جویوں سے ناواقف تھے؟ نہیں،بالکل نہیں- تو پھر توجیہ کیا ہے؟سادہ لوح یہی توجیہ کریں گے کہ امام کا کام تھا رَطب ویابس اقوال کو جمع کرنا،اورنقدکا کام ناقدین کے سپرد کردیا- حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری بھی تعصب کا شکار ہوگئے تھے- ان کے استاد حمیدی مسلکاً ظاہری تھے اور احناف کے ساتھ ظواہر کی دشمنی مشہور ہے-حمیدی کو امام ابوحنیفہ سے جو نفور تھا اس کے اثر سے امام بخاری بھی محفوظ نہ رہ سکے-اور یہ اس قدر بچکانہ جملہ جو انہوں نے امام کے بارے میں نقل کیا ہے اسی تعصب کا نتیجہ ہے- مولانا عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ فن حدیث پر ناقدانہ نظر رکھتے تھے اور ان کی حدیثی خدمات عرب وعجم دونوں کے ہاں معترف بہا ہیں- مرحوم نے ایک نجی مجلس میں کہا کہ امام بخاری کی جلالتِ شان کے کیا کہنے، مگر احناف کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک انہوں نے کیا اسکی سزاء یہ ہوئی کہ ہم جیسے ناقدین بھی ان کے علمی تسامحات اور فروگزاشتوں پر جی بھر کر نقد و جرح کرتے ہیں-
یہ سب حضرات اللہ تعالی کے انتہائی برگزیدہ بندے تھے، ان کے اخلاص اور تقوی وللہیت میں رتی برابر شبہ نہیں-احادیث کے حصول اور پھر ان کے انتخاب،اورجمع وتدوین کی راہ میں ان حضرات نے جو صعوبتیں اٹھائیں،جو مجاہدے کئے ان کی تفصیل پڑھ کر عقل دنگ اور زبان گنگ رہ جاتی ہے-مگر آخرش انسان تھے اور یہ تعصب وغیرہ انسانی فطرت کا لازمہ ہے""
https://www.facebook.com/mohammad.alfaisal.39?fref=ufi
""حنفیت کے ساتھ محدثین کا تعصبانہ رویہ
ایک ساتھی نے لکھا کہ امام ترمذی "جامع السنن" میں دیگر ائمہ کے نام لیکر ان کی فقہی آراء نقل کرتے ہیں،جبکہ حنفی نقطہ نظر کو اول تو وہ نظر انداز کردیتے ہیں اورمجبورا اگر ذکر کیا بھی تو اہل الراے کہہ کرکیا- اس کی کیا توجیہ ممکن ہے؟ ہم نے جو جواب دیا وہ ملاحظہ کیجئے-
----------------------------------
امام ترمذی اور ان کے پیش رو محدثین کا طرز عمل احناف کے ساتھ ان کے متعصابہ رویوں کی عکاسی کرتا ہے-امام ترمذی ایک روایت نقل کرکے وفی الباب کے عنوان سے توثیق کے لئے اس کے دیگر متابعات کی طرف اشارہ کردیتے ہیں،اور وہی روایت کسی اور باب کے تحت جب احناف کے نقطہ نظر کی مؤید بنے تو کہہ دیتے ہیں "وہذا الحدیث لانعرفه إلا من هذا الوجه" -اس طرز عمل کی کوئی علمی توجیہ نہیں کی جاسکی اور کسی نے کی بھی تو مسموع نہیں- اس میں دو راے نہیں کہ یہ قاری کی آنکھ میں دھول جھونکے کا حربہ ہے-ہاں اسکی نفسیاتی تحلیل کرکے یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ نفسِ امّارہ کی چلتر بازیوں کے سامنے تقوی کا طُور بھی کافُور ہوجاتاہے تو امام ترمذی بھی ان کے سامنے مغلوب ہوگئے- مگر ان کی ہمالیہ جیسی جلالت ِشان اب تک ہمارے دلوں میں ایستادہ ہے اور ایسی لغزشوں سے ہم ان کے تقوی وللہیت کو ہر گز ہرگز زیر بحث نہیں لا سکتے کہ اپنی عاقبت ویسے بھی مخدوش ہے-
یہ ممکن نہیں کہ تعصب کی اندرونی نفسیات انسان کے اعضاء وجوارح پر اثرپذیر نہ ہوں - ہم اس کی ایک مثال امام بخاری ہی کے عمل سے دیتے ہیں- امام بخاری نے "التاریخ الکبیر" میں لکھا ہے کہ کہ جب سفیان ثوری کو امام ابوحنیفہ کی خبر ِ وفات ملی تو کہا " الحمدللہ، کان ینقض الاسلام عروة عروة،فما رأيت في الإسلام أشأم منه" ثوری درحقیقت امام ابوحنیفہ کے زبردست مداح تھے انکی طرف یہ قول نعیم بن حماد نے اپنی طرف سے وضع کرکے منسوب کردیا- مگر امام بخاری جو حدیث وعللِ حدیث میں مرتبہ امامت پر فائز ہونے کے ساتھ تاریخ و رجال پر بھی اجتہادی نظر رکھتے تھے اور اپنی مستقل راے رکھتے تھے اس قول کو وہ آنکھیں بندکرکے کیسے نقل کرگئے؟کیا وہ امام ابوحنیفہ کے خلاف نعیم بن حماد کی واضعانہ کام جویوں سے ناواقف تھے؟ نہیں،بالکل نہیں- تو پھر توجیہ کیا ہے؟سادہ لوح یہی توجیہ کریں گے کہ امام کا کام تھا رَطب ویابس اقوال کو جمع کرنا،اورنقدکا کام ناقدین کے سپرد کردیا- حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری بھی تعصب کا شکار ہوگئے تھے- ان کے استاد حمیدی مسلکاً ظاہری تھے اور احناف کے ساتھ ظواہر کی دشمنی مشہور ہے-حمیدی کو امام ابوحنیفہ سے جو نفور تھا اس کے اثر سے امام بخاری بھی محفوظ نہ رہ سکے-اور یہ اس قدر بچکانہ جملہ جو انہوں نے امام کے بارے میں نقل کیا ہے اسی تعصب کا نتیجہ ہے- مولانا عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ فن حدیث پر ناقدانہ نظر رکھتے تھے اور ان کی حدیثی خدمات عرب وعجم دونوں کے ہاں معترف بہا ہیں- مرحوم نے ایک نجی مجلس میں کہا کہ امام بخاری کی جلالتِ شان کے کیا کہنے، مگر احناف کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک انہوں نے کیا اسکی سزاء یہ ہوئی کہ ہم جیسے ناقدین بھی ان کے علمی تسامحات اور فروگزاشتوں پر جی بھر کر نقد و جرح کرتے ہیں-
یہ سب حضرات اللہ تعالی کے انتہائی برگزیدہ بندے تھے، ان کے اخلاص اور تقوی وللہیت میں رتی برابر شبہ نہیں-احادیث کے حصول اور پھر ان کے انتخاب،اورجمع وتدوین کی راہ میں ان حضرات نے جو صعوبتیں اٹھائیں،جو مجاہدے کئے ان کی تفصیل پڑھ کر عقل دنگ اور زبان گنگ رہ جاتی ہے-مگر آخرش انسان تھے اور یہ تعصب وغیرہ انسانی فطرت کا لازمہ ہے""