• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفیوں کا غیر مقلدانہ دفاع

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964

بَاب كَرَاهِيَة الإختلاف
عقب حَدِيث 7365 همام عَن أبي عمرَان عَن جُنْدُب أَن رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ قَالَ اقْرَءُوا الْقُرْآن مَا ائتلفت عَلَيْهِ قُلُوبكُمْ فَإِذا اختلفتم فَقومُوا عَنهُ
وَقَالَ يزِيد بن هَارُون عَن هَارُون الْأَعْوَر ثَنَا أَبُو عمرَان عَن جُنْدُب عَن النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ
قلت لم أَجِدهُ عِنْد يزِيد بن هَارُون إِلَّا عَن همام

حوالہ : جلد: 5: صفحہ : 329: الكتاب : تغليق التعليق على صحيح البخاري:المؤلف : أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى : 852هـ):المحقق : سعيد عبد الرحمن موسى القزقي:الناشر : المكتب الإسلامي , دار عمار - بيروت , عمان - الأردن
اس مثال میں امام بخاری رحمہ اللہ نے جو یہ فرمایا ہے :

اس میں چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے
1) یزید بن ہارون سے امام بخاری کا لقا ء ثابت نہیں ، اور اپنی صحیح میں وہ ایک واسطہ کے ساتھ یزید سے نقل کرتے ہیں
2) یزید بن ہارون نے عن ہارون فرمایا ، اس کا ثبوت ابن حجر کو نہیں ملا ، اسی وجہ سے فرما یا : کہ قلت لم أَجِدهُ عِنْد يزِيد بن هَارُون إِلَّا عَن همام یزید بن ہارون کے پاس یہ مذکورہ حدیث صرف ہمام کی روایت سے ہے نہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کے مطابق عن ہارون الاعور سے
لہذا میرا مدعی ثابت ہوا اور بھی مثالیں ہیں لیکن شاید یہ ایک ہی کافی ہوگا
پتہ نہیں آپ اس سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی حدیث صحیح بخاری کے اندر کئی مقامات پر مختلف اسانید کے ساتھ موجود ہے :


قال :
7365 - حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الجَوْنِيُّ، عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «اقْرَءُوا القُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ عَلَيْهِ قُلُوبُكُمْ، فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُومُوا عَنْهُ»، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَقَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هَارُونَ الأَعْوَرِ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ، عَنْ جُنْدَبٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
و قال :
5060 - حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الجَوْنِيِّ، عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اقْرَءُوا القُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ قُلُوبُكُمْ، فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُومُوا عَنْهُ»
وقال :
5061 - حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الجَوْنِيِّ، عَنْ جُنْدَبٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْرَءُوا القُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ عَلَيْهِ قُلُوبُكُمْ، فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُومُوا عَنْهُ» تَابَعَهُ الحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَأَبَانُ، وَقَالَ غُنْدَرٌ: عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ، سَمِعْتُ جُنْدَبًا، قَوْلَهُ، وَقَالَ ابْنُ عَوْنٍ: عَنْ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ عُمَرَ قَوْلَهُ وَجُنْدَبٌ أَصَحُّ وَأَكْثَرُ
وقال :
7364 - حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سَلَّامِ بْنِ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الجَوْنِيِّ، عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ البَجَلِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْرَءُوا القُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ قُلُوبُكُمْ، فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُومُوا عَنْهُ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «سَمِعَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ سَلَّامًا»

اب اتنا کچھ کے باوجود آپ کے نزدیک یہ روایت ’’ من گھڑت ‘‘ ہی ہے ؟
حافظ ابن حجر کے '' لم اجدہ '' کاتعلق اس خاص ایک سند کے ساتھ ہے ۔ جس کا ایسی حدیث پر کوئی فرق نہیں پڑتا جس کی اسانید ایک جم غفیر پر مشتمل ہوں ۔
ذرا ہدایہ سے اس درجہ کی من گھڑت نکال کر تو دکھائیں ؟
میری آپ سےبرادرانہ گزارش ہے کہ اگر مزید تغلیق التعلیق سے عبارات پیش کرنے کا خیال ہے تو کم ازکم زیادہ نہیں تو تغلیق التعلیق کا مقدمہ ضرور ملاحظہ فرمالیں اور امام بخاری کے تعلیق حدیث کے اسباب پر بھی نظر کر لیں تاکہ بلاوجہ محنت سے بچ جائیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
خلط مبحث میرے خیال میں نہیں ہورہا ، کیونکہ اصول حدیث میں مبتدع راویوں سے متعلق جو تفصیل ہے آپ نے پڑھی ہے ، اس کا تعلق حدیث ہی سے ہیں اور تغلیق التعلیق میں تقریبا ہر سند کا شروع اسی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے ہی ہوتا ہے تو مبتدع راوی بیچ میں تو آگیا ۔ ابتسامہ

نہیں بھائی : کلی طور سے مجھ پر یہ حکم لگایا حد سے تجاوز لگ رہا ہے ۔ابتسامہ
بات شاید سمجھ نہیں سکے آپ ۔
میں یہ کہہ رہا تھا کہ ان حجر سے بعض عقدی مسائل میں اختلاف کی بناء پر آپ پر ان کی کتاب کا حوالہ پیش کرنا بھی بہت ناگوار گزر رہا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف آپ ( اور ہم سب ) کافروں اور عیسائیوں کی کتابوں سے دن رات استفادہ کرتے ہیں ۔
دور نہ جائیں جس مکتبہ شاملہ سے دن رات کاپی پیسٹ ہر مکتبہ فکر کے لوگ کرتے ہیں کیا وہ سب اس شاملہ کو متعارف اور فراہم کرنے والوں سے مسائل میں متفق ہیں ؟
آپ اپنے بارے میں ہی بتادیں ۔۔۔؟؟
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
اب اتنا کچھ کے باوجود آپ کے نزدیک یہ روایت '' من گھڑت '' ہی ہے ؟
حافظ ابن حجر کے '' لم اجدہ '' کاتعلق اس خاص ایک سند کے ساتھ ہے ۔ جس کا ایسی حدیث پر کوئی فرق نہیں پڑتا جس کی اسانید ایک جم غفیر پر مشتمل ہوں ۔
ذرا ہدایہ سے اس درجہ کی من گھڑت نکال کر تو دکھائیں ؟
میری آپ سےبرادرانہ گزارش ہے کہ اگر مزید تغلیق التعلیق سے عبارات پیش کرنے کا خیال ہے تو کم ازکم زیادہ نہیں تو تغلیق التعلیق کا مقدمہ ضرور ملاحظہ فرمالیں اور امام بخاری کے تعلیق حدیث کے اسباب پر بھی نظر کر لیں تاکہ بلاوجہ محنت سے بچ جائیں ۔
بھائی : میرے تھریڈ کو ذرا غور سے دیکھے ،
اس میں لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا : يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هَارُونَ الأَعْوَرِ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ، عَنْ جُنْدَبٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یعنی یہ مذکورہ بالا حدیث ایک اسی سندسے بھی منقول ہے کہ یزید نے ہارون الاعور سے سنا اور اس آگے ابوعمران سے سنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
اس میں ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ مذکورہ بالا حدیث مجھے اس سند سے نہیں ملا کہ یزید نے ہارون الاعور سے نقل کیا ہے ، بلکہ یہ حدیث مجھے صرف یزید عن ہمام کی سند سےملا نہ کہ اس سند سے جس کا دعوی امام بخاری رحمہ اللہ کر رہے ہیں ،
تو میرا دعوی یہ ہے کہ کیا اس حدیث کو اس سند کے ساتھ (جس کا دعوی امام بخاری رحمہ اللہ فرما رہے ہیں اور ابن حجر کو وہ حدیث اسی سند سے ملا ہی نہیں ، ) کو ہم من گھڑت مان جائیں ؟
محنت صرف اس لئے کر رہا ہوں کہ صرف آپ ہی تو ہے جو میری بات کو صحیح سمجھ پاتے ہیں ،اور بحث وتنقید کی حدود میں رہ کر اظہار رائے کر لیتے ہیں ،
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
میری آپ سےبرادرانہ گزارش ہے کہ اگر مزید تغلیق التعلیق سے عبارات پیش کرنے کا خیال ہے تو کم ازکم زیادہ نہیں تو تغلیق التعلیق کا مقدمہ ضرور ملاحظہ فرمالیں اور امام بخاری کے تعلیق حدیث کے اسباب پر بھی نظر کر لیں تاکہ بلاوجہ محنت سے بچ جائیں ۔
پڑھ لیا ہے بھائی ، اسباب سے بحث نہیں ہورہی ،بلکہ اس سے ہورہی ہے کہ ابن حجر کے قول لم اجدہ سے کسی حدیث پر من گھڑت کا حکم نہیں لگ سکتا ۔
اسباب سے اگر بحث ہو تو اس سلسلہ میں ہم نے بھی ہدایہ کے احادیث سے متعلق سبب کا حوالہ میں قاسم ابن قطلوبغا رحمہ اللہ کے حوالے سے پیش کیا ہے ۔
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
میں یہ کہہ رہا تھا کہ ان حجر سے بعض عقدی مسائل میں اختلاف کی بناء پر آپ پر ان کی کتاب کا حوالہ پیش کرنا بھی بہت ناگوار گزر رہا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف آپ ( اور ہم سب ) کافروں اور عیسائیوں کی کتابوں سے دن رات استفادہ کرتے ہیں ۔
بھائی : عیسائی اور کافروں کی کتابوں سے ہم اپنے دینی اور مسلکی مسائل سے متعلق اخذ واستفادہ اس طور پر نہیں کر تے ، کہ اس کو دلیل کے طور پر پیش کیا جائے ۔
جس مکتبہ شاملہ سے دن رات کاپی پیسٹ ہر مکتبہ فکر کے لوگ کرتے ہیں کیا وہ سب اس شاملہ کو متعارف اور فراہم کرنے والوں سے مسائل میں متفق ہیں ؟
آپ اپنے بارے میں ہی بتادیں ۔۔۔؟؟
مکتبہ الشاملہ سے کاپی پیسٹ کوئی غیر عالمانہ یا غیر محققانہ طرز عمل نہیں ، البتہ اس پر کلی اعتماد محل نظر ہے ،
مکتبہ الشاملہ کا اگر دانشمندانہ استعمال ہو ، مستعمِل صاحب بصیرۃ ہو اور ہر فن کی کتابوں سے اخذ کا طریقہ جانتا ہو، تو مکتبہ الشاملہ سے کاپی پیسٹ میں کوئی مضائقہ نہیں ، اس سے بہت سارا ٹائم بچ جاتا ہے ۔
یہ تفصیل اس لئے لکھ ڈالی کہ مجھے آپ کے مذکورہ بالا عبارت میں اس عمل سے متعلق خفتِ نظر کا شائبہ محسوس ہوا ۔
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
اب یہ تو اپنے حنفی بزرگوں سے پوچھیں کہ ان کو امام مرغینانی رحمہ اللہ کی '' محدثانہ '' شان نظر کیوں نہیں آئی
حضر حیات : بھائی: مولانا عبد الحی اللکنوی رحمہ اللہ سےاس بارے میں پوچھا : فرمانے لگے : میں تو صاحب ہدایہ کو امام اور محدث ہی سمجھتا ہوں : بندہ نے کہا : کہ حضر حیات بھائی کو حوالہ چاہیے ، فرمانے لگے : لیجئے :
Captureasasas.JPG
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
بھائی : میرے تھریڈ کو ذرا غور سے دیکھے ،
اس میں لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا : يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هَارُونَ الأَعْوَرِ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ، عَنْ جُنْدَبٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یعنی یہ مذکورہ بالا حدیث ایک اسی سندسے بھی منقول ہے کہ یزید نے ہارون الاعور سے سنا اور اس آگے ابوعمران سے سنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
اس میں ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ مذکورہ بالا حدیث مجھے اس سند سے نہیں ملا کہ یزید نے ہارون الاعور سے نقل کیا ہے ، بلکہ یہ حدیث مجھے صرف یزید عن ہمام کی سند سےملا نہ کہ اس سند سے جس کا دعوی امام بخاری رحمہ اللہ کر رہے ہیں ،
تو میرا دعوی یہ ہے کہ کیا اس حدیث کو اس سند کے ساتھ (جس کا دعوی امام بخاری رحمہ اللہ فرما رہے ہیں اور ابن حجر کو وہ حدیث اسی سند سے ملا ہی نہیں ، ) کو ہم من گھڑت مان جائیں ؟
محنت صرف اس لئے کر رہا ہوں کہ صرف آپ ہی تو ہے جو میری بات کو صحیح سمجھ پاتے ہیں ،اور بحث وتنقید کی حدود میں رہ کر اظہار رائے کر لیتے ہیں ،
اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ امام بخاری ایک ہی روایت کو مختلف اسانید سے ذکر کرتے ہیں ۔ تاکہ اختلاف رواۃ کی وضاحت ہوجائے ۔ چونکہ ایک یا اسک سے زائد اسانید سے متن حدیث ثابت ہوجاتا ہے توپھر کسی غرض سے کسی کمزور سند کو ذکر کرنا قدح کا باعث نہیں ۔ بلکہ بعض دفعہ امام بخاری کسی سند کو معلق بیان ہی اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ یہ سند ان کے نزدیک درست نہیں اور صحیح کے اندر ان کی شرط کے مطابق نہیں ۔
لیکن اس میں متن حدیث کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس کو تو امام صاحب صحیح اور متصل اسانید سے ذکر کر چکے ہوتے ہیں ۔
لیکن صاحب ہدایہ نے ایک حدیث کی متعدد اسانید پیش کرتے ہوئے یہ غلطی یا تساہل نہیں کیا بلکہ متن حدیث ذکر کرنے میں ہی فاش غلطیاں کی ہیں ۔ کہ حافظ ابن حجر جیسا کثیر الاطلاع شخص بھی اس کی ایک سند بھی تلاش نہیں کرسکا ۔
امید ہے دونوں باتوں میں فرق واضح ہوگیا ہوگا ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر امام بخاری نے تعلیقات یا دیگر اس صنف سے کچھ ذکر کیا تو ان کے لیے واضح عذر ہے کہ انہوں نے اس کو معرض استدلال میں ذکر نہیں کیا ۔ لیکن فقہاء نے جو من گھڑت روایات ذکر کی ہیں کیا ان کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اس کو معرض استدلال میں ذکر نہیں کیا ۔ ؟
وبالمثال یتضح المقال کے مصداق جس طرح بخاری کی اس معلق سند کے بارے میں حافظ ابن حجر نے ’’ لم أجد ‘‘ کہا اسی طرح ’’ ہدایہ ‘‘ کی ایک حدیث بھی پیش خدمت ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر نے یہی الفاظ کہے ہیں درایہ ( ج 1 ص 168 ) میں فرماتے ہیں :
حَدِيث من صَلَّى خلف عَالم تَقِيّ فَكَأَنَّمَا صَلَّى خلف نَبِي لم أَجِدهُ
اب ذرا ڈھونڈیے یہ روایت کہ یہ حدیث کی کس کتاب میں آئی ہے ؟ خود اکثر حنفی فضلاء اور شارحین ہدایہ نے اس کو بے اصل بلکہ بعض نےاس کا موضوع ہونا نقل کیا ہے ۔
پڑھ لیا ہے بھائی ، اسباب سے بحث نہیں ہورہی ،بلکہ اس سے ہورہی ہے کہ ابن حجر کے قول لم اجدہ سے کسی حدیث پر من گھڑت کا حکم نہیں لگ سکتا ۔
اسباب سے اگر بحث ہو تو اس سلسلہ میں ہم نے بھی ہدایہ کے احادیث سے متعلق سبب کا حوالہ میں قاسم ابن قطلوبغا رحمہ اللہ کے حوالے سے پیش کیا ہے ۔
اسباب اس وجہ سے پڑھنے کے لیے کہا تھا تاکہ دونوں میں فرق واضح ہوجائے ۔ بخاری کی تعلیقات کے اسباب پڑیں گے تو ان کی محدثانہ شان مزید کھل کر سامنے آئے گی ۔
جبکہ جو اسباب آپ بیان کر رہے ہیں اس سے تو ایسی کوئی بات پتہ نہیں چلتی ۔ اب مکھی پہ مکھی مارتے جانا یہ کوئی عالمانہ اور محققانہ فعل نہیں ہے ۔ کیا کتب حدیث دنیا سے اٹھ گئیں تھیں کہ روایات لینے کے لیے کسی اور طرف جانا پڑا ۔۔۔؟ ان طرز عمل کو علامہ عبد الحی لکھنوی نے بھی النافع الکبیر میں فقہاء کی سستی قرار دیا ہے اور کہا کہ نقل روایت میں اعتماد کتب حدیث پر ہونا چاہیے ناکہ مصنفات فقہیہ پر ۔
حضر حیات : بھائی: مولانا عبد الحی اللکنوی رحمہ اللہ سےاس بارے میں پوچھا : فرمانے لگے : میں تو صاحب ہدایہ کو امام اور محدث ہی سمجھتا ہوں : بندہ نے کہا : کہ حضر حیات بھائی کو حوالہ چاہیے ، فرمانے لگے : لیجئے :]
کاش ان حدیثی نکات سے امت اسلامیہ کو بھی کوئی فائدہ ہوجاتا ۔ویسے آپ کے مختلف اقتباسات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امام صاحب باوجود محدث ہونے کے اتنا وقت نہیں نکال سکے کہ جن احادیث کو بطور دلائل کے پیش کیا ہے ان کو اصل کتابوں سے بھی ملاحظہ فرمالیں ۔ بہر صورت لیس الخبر کالمعاینۃ کے مصداق صاحب ہدایہ کو ’’ محدث ‘‘کے عظیم لقب سے نوازنے کی بجائے اگر کوئی صاحب محنت کرکے ہدایہ سے ان کی خدمات حدیثیہ ذکر کردیتا تو نرے الفاظ سے یہ بہتر تھا ۔
فی الوقت ہم تو یہی کہیں گے کہ جن لوگوں نے صاحب ہدایہ کو محدث کہا ہے ان کو بھی ہدایہ میں کوئی ایسی خوبی نظر نہیں آئی جس کو بطور دلیل پیش کرسکیں ۔
ویسے بعض دفعہ لینے اور دینے کے پاٹ میں کافی فرق آجاتا ہے ۔ کہیں امام بخاری کی فقاہت پر سوالیہ نشان ہے حالانکہ علماء امت نے ان فقیہ و مجتہد قرار دیا اور صحیح بخاری ان کی فقاہت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ جبکہ دوسری طرف علامہ مرغینانی کو محدث ثابت کرنے کے لیے دلائل کا یہ حال ہے کہ ۔۔ ۔ واللہ المستعان ۔
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے
دیا جاسکتا ہے لیکن واقعی جواب ہے ہی نہیں
حَدِيث من صَلَّى خلف عَالم تَقِيّ فَكَأَنَّمَا صَلَّى خلف نَبِي لم أَجِدهُ
جس طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں لم اجدہ کے الفاظ لائے ہیں ایسے ہی امام بخاری رحمہ اللہ والی سند کے بارے میں بھی استعمال کئے ہیں تو کیا وہ من گھڑت ہوگی ۔صرف اس ایک ہی سند کی بات کر رہا ہوں ۔
امام بخاری نے تعلیقات یا دیگر اس صنف سے کچھ ذکر کیا تو ان کے لیے واضح عذر ہے کہ انہوں نے اس کو معرض استدلال میں ذکر نہیں کیا ۔
تو امام بخاری رحمہ اللہ ایسے تعلیقات جب استدلال کے لئے پیش نہیں کر رہے تو کس لئے پیش کر رہے ؟
کاش ان حدیثی نکات سے امت اسلامیہ کو بھی کوئی فائدہ ہوجاتا ۔ویسے آپ کے مختلف اقتباسات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امام صاحب باوجود محدث ہونے کے اتنا وقت نہیں نکال سکے کہ جن احادیث کو بطور دلائل کے پیش کیا ہے ان کو اصل کتابوں سے بھی ملاحظہ فرمالیں ۔ بہر صورت لیس الخبر کالمعاینۃ کے مصداق صاحب ہدایہ کو '' محدث ''کے عظیم لقب سے نوازنے کی بجائے اگر کوئی صاحب محنت کرکے ہدایہ سے ان کی خدمات حدیثیہ ذکر کردیتا تو نرے الفاظ سے یہ بہتر تھا ۔
فی الوقت ہم تو یہی کہیں گے کہ جن لوگوں نے صاحب ہدایہ کو محدث کہا ہے ان کو بھی ہدایہ میں کوئی ایسی خوبی نظر نہیں آئی جس کو بطور دلیل پیش کرسکیں ۔
بہر حال آپ محدث کے وصف کو تو مان گئے ۔ابتسامہ
امام بخاری کی فقاہت پر سوالیہ نشان ہے
بھائی میں کئی بار تصریح کرچکا ہوں کہ میں امام بخاری رحمہ اللہ کو فقیہ اور مجتہد مانتا ہوں ، سوال امام ترمذی رحمہ اللہ کے حوالے سے کیاتھا ،
حالانکہ علماء امت نے ان فقیہ و مجتہد قرار دیا اور صحیح بخاری ان کی فقاہت کا منہ بولتا ثبوت ہے
علماء امت سے مراد اگر امام بخاری رحمہ اللہ کے معاصرین ہو ں ، تو ان میں سے کسی ایک کی تصریح آپ دکھائے جس نے امام بخاری رحمہ اللہ کو مجتہد قرار دیا ہو ۔
اگر بعض کے علماء ہوں تو اس میں کسی زمانے کا قید نہیں ، بعد کے زمانہ میں تو صاحب ہدایہ کو بھی محدث قرار دیا گیا ہے ۔
اب مکھی پہ مکھی مارتے جانا یہ کوئی عالمانہ اور محققانہ فعل نہیں ہے
حضر حیات بھائی : لگتا ہے آپ میں ایک چھوٹا سا شاہد نذیر اور لولی آل ٹائم جیسا شرارتی بچہ موجود ہے ۔ ابتسامہ
یا کتب حدیث دنیا سے اٹھ گئیں تھیں کہ روایات لینے کے لیے کسی اور طرف جانا پڑا
کتب حدیث سے مراد ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
دیا جاسکتا ہے لیکن واقعی جواب ہے ہی نہیں
میری بات اچھی نہیں لگی تو تدریب الراوی سے ملاحظہ کر لیں تعلیقات بخاری کے متعلق فرماتے ہیں :
وَذَلِكَ أَقْسَامٌ: أَحَدُهَا: مَا يَلْتَحِقُ بِشَرْطِهِ، وَالسَّبَبُ فِي عَدَمِ إِيصَالِهِ إِمَّا الِاسْتِغْنَاءُ بِغَيْرِهِ عَنْهُ، مَعَ إِفَادَةِ الْإِشَارَةِ إِلَيْهِ وَعَدَمِ إِهْمَالِهِ بِإِيرَادِهِ مُعَلَّقًا اخْتِصَارًا، وَإِمَّا كَوْنُهُ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ شَيْخِهِ، أَوْ سَمِعَهُ مُذَاكَرَةً، أَوْ شَكَّ فِي سَمَاعِهِ، فَمَا رَأَى أَنَّهُ يَسُوقُهُ مَسَاقَ الْأُصُولِ ( تدریب الراوی ج 1 ص 197 ت السرساوی )
ایک اور جگہ پر لکھتے ہیں :
الرَّابِعُ: مَا هُوَ ضَعِيفٌ لَا مِنْ جِهَةِ قَدْحٍ فِي رِجَالِهِ، بَلْ مِنْ جِهَةِ انْقِطَاعٍ يَسِيرٍ فِي إِسْنَادِهِ، قَالَ الْإِسْمَاعِيلِيُّ: قَدْ يَصْنَعُ الْبُخَارِيُّ ذَلِكَ إِمَّا لِأَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ ذَلِكَ الشَّيْخِ بِوَاسِطَةِ مَنْ يَثِقُ بِهِ عَنْهُ، وَهُوَ مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ عَنْ ذَلِكَ الشَّيْخِ، أَوْ لِأَنَّهُ سَمِعَهُ مِمَّنْ لَيْسَ مِنْ شَرْطِ الْكِتَابِ، فَنَبَّهَ عَلَى ذَلِكَ الْحَدِيثِ بِتَسْمِيَةِ مَنْ حَدَّثَ بِهِ لَا عَلَى التَّحْدِيثِ بِهِ عَنْهُ ( التدریب ج 1 ص 199 )
گویا امام بخاری کی تعلیقات وغیرہ کو لے کر ان کی صحیح بخاری پر اعتراض نہیں کیاجاسکتا کیونکہ ان چیزوں کو انہوں نے قصدا ایسا کیا ہے تاکہ صحیح روایات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مزید علوم حدیث سے متعلقہ فوائد بھی واضح کرسکیں ۔ مثلا اسانید میں اختلاف ۔ حدیث یا کسی خاص سند کے ضعف کی طرف اشارہ وغیرہ ۔
اب آپ جس حدیث کو لےکر اعتراض کر رہے ہیں اگر وہ واقعتا صحیح بخاری میں صحیح سند سے موجود نہیں تو آپ کا اس کو ’’ من گھڑت ‘‘ منوانے پر زور دینا بجا ہے ۔ البتہ ان اسانید کو لے کر جن کو خود بخاری نے بطور صحیح کے بیان نہیں کیا اعتراض کرنا ۔۔۔ سمجھ سے باہر ہے ۔ حافظ ابن حجر نے سند کے بارے میں کہا ہےکہ مجھے نہیں ملی ۔ تو اس کا مطلب ہے ایک خاص سند انہیں نہیں مل سکی ۔ لیکن حافظ کو نہ ملنے کے باوجود اس پر من گھڑت کا حکم نہیں لگایاجاسکتا ۔ کیونکہ یہاں معاملہ سند کا ہے ۔ اور سند پر من گھڑت کا حکم اسی وقت لگتا ہے جب وہ سلسلہ سند سرے سے موجود ہی نہ ہو ۔ جبکہ یہاں تو یزید بن ہارون سے بھی صحیح سندیں منقول ہیں ۔ ہارون الأعور سے بھی صحیح اسانید سے یہ حدیث مروی ہے ۔ اسی طرح ہمام کا معاملہ بھی یہی ہے ۔ تو اس سب کے باوجود کس طرح اس کو ’’ من گھڑٹ ‘‘ مان لیاجائے ۔۔؟؟
البتہ ہدایہ میں یہ خصوصیات سرے سے موجود ہی نہیں ہیں ۔ کیونکہ وہاں خیر سے کسی حدیث کی سند ہے ہی نہیں ۔ نہ صحیح نہ ضعیف ۔ گویا ایسی جگہ پر اگر کوئی ’’ لم اجد ‘‘ کہے گا تو اس کا مطلب ہےکہ اس حدیث کی اسے کوئی سند ملی ہی نہیں نہ صحیح نہ ضعیف بلکہ موضوع بھی نہیں ۔
ویسے بھی جس طرح صحیح بخاری کی حدیث کی ایک سند کے بارےمیں حافظ ابن حجر نے ’’ لم اجد ‘‘ کہا ہے تو وہی حدیث مختلف صحیح اسانید سے موجود ہے ۔آپ بھی ہدایہ کی وہ احادیث جن کے بارے میں حافظ ابن حجر نے ’’ لم اجد ‘‘ کہا ہے اس کی ہدایہ کے اندر یا باہر سے کوئی صحیح سند پیش کردیں ۔ تو ہم مان لیں گے کہ یہ روایت من گھڑت نہیں اور حافظ ابن حجر کو اس کا علم نہیں ہوسکا ۔
بہر حال آپ محدث کے وصف کو تو مان گئے ۔ابتسامہ
میرے یا کسی اور کے ماننے نہ ماننے سےکیا ہوتا ہے ۔ جہاں کتاب کی خستہ حالی واضح ثبوت ہے ۔
البتہ بقول بعض حنفی بزرگوں کے صاحب ہدایہ کی کتاب تصنیف کرنے کا اصل مقصد ہی دلائل عقلیہ تھے نہ کہ نقلیہ ۔ اس پر اعتبار کرتے ہوئے یہ توجیہ ممکن ہے کہ انہوں نے اپنی محدثانہ مہارات کو چھپا کر فلسفیانہ موشگافیوں کا اظہار زیادہ مناسب سمجھا ۔ اس لیے ان کی محدثانہ شان واضح نہیں ہوسکی ۔
لیکن پھر کوئی یہ اعتراض کردے گا کہ جہاں نقلی دلائل دستیاب ہوں وہاں عقلی کو ان پر ترجیح دینے کا کیا معنی بنتا ہے ۔ ؟
کتب حدیث سے مراد ؟
متقدمین کی وہ کتب جن میں احادیث بالأسانید نقل ہوئی ہیں ۔ جیسے کتب ستہ وغیرہ ہیں ۔

آخر میں گزارش یہ ہےکہ اگر آپ نے میری ذات پر بھی کوئی تبصرہ کرنا ہے تو کسی اور کو ساتھ نہ ملائیں ۔ کیونکہ یہ اخلاقی طور پر بھی مناسب نہیں ہے ۔
 
Top