اہ خوب کہی ۔ مختصر اور طویل والی بات ۔ عقیدہ وہ تمام جنکا ذکر قرآن و حدیث میں مذکور و موجود هے ، بغیر کسی کمی بیشی کے ۔
دور تو عالم اسلام نے شیخ ابن تیمہ رحمہ کا بهی دیکها اور شیخ محمد بن عبدالوهاب کا بهی دیکها ۔ بدعتوں کو ختم بهی کیا ، عجیب بات هے کہ آپ بدعتوں کے خاتمے کو بدعت کہتے ہیں ۔
خیر آپ نے اس مراسلے میں بهی وہ سب کہا نہیں جو کہ محترم ابن عثمان نے اپنے مراسلہ میں پوچها تها ۔
رہ گئی بات خوردبین لگانے والی تو اس کی ضرورت کم ترین نگاہ رکهنے والوں کو بهی نہیں هوگی جنکی آنکهوں کی روشنیاں کمزور هو چکی ہیں ، فی الوقت تو بدعت و شرک میرے ذاتی خیال سے اپنے پورے عروج پر هے ۔
مفاہمت کی گنجائش ابن عثمان بهائی اور اشماریہ بهائی بتائیں کہ کس طرح پیدا کی جائے جب اس طرح کی سوچیں هوں !؟
عقیدہ کی طویل الذیلی نے ہی تو سارے افتراق وانتشار گھڑے ہیں،کبھی فرصت ملے تواپنے ہی مسلک کے عالم مولانا ابوالکلام آزاد کی سورہ فاتحہ کی تفسیر کا مطالعہ کیجئے گا، یاپھر دل تھوڑا وسیع ہے تو علامہ سید سلیمان ندوی کی اہل السنہ والجماعت نامی کتاب کا مطالعہ کیجئے، پتہ چلے گاکہ اسلام کی بیشتر مصیبت یہی عقیدہ کی طوالت اور خوردبینی ونکتہ چینی ہے۔
ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب پر بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی، اس لئے اس بحث کو چھوڑناہی مناسب ہے کیونکہ وہ خداکے پاس پہنچ چکے،اور بات تو اب کی ہورہی ہے ،ماضی میں کس نے کیاکیا،اس پر رونے سے کیاحاصل ہوگا۔
جس مضمون پر یہ بات شروع ہوئی ہے اس میں تو صاف اورسیدھے طورپر یہ کہاگیاہے کہ فقہی مسائل کے اختلاف میں عوام کو نہ ڈالاجائے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقولہ بھی ہے کہ لوگوں سے ان کے عقل کے بقدر بات کیاکرو کیاتم چاہتے ہواللہ اوراس کے رسول کےا رشادات جھٹلائے جائیں۔
اب عوام کو فقہی اختلاف میں الجھانے بچنے کی اپیل میں کیاآپ کو کوئی اعتراض ہے ،اگراعتراض نہیں ہے تو پھر اتفاق اوراتحاد کی بنیاد موجود ہے ،اگرآپ کو اس بنیادی نقطہ ہی سے اختلاف ہے توپھر اس تحریر کو پیش کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، صلاح الدین یوسف صاحب کی تحریر پیش کردینی تھی۔
رہ گئی بات عقیدہ میں اختلاف کی،تو ظاہرسی بات ہے کہ ہر شخص وہی عقیدہ رکھتاہے جس کو وہ بہتر سمجھتاہے جس طرح آپ کی نگاہ میں ،میں غلط ہوں، اسی طرح آپ میری نگاہ میں غلط ہیں، اب میں آپ کا مسلک اختیار کروں یاآپ میرامسلک اختیار کریں، وہ اسی وقت ہوسکتاہے کہ جب ہم دونوں میں سے کسی ایک کو ہدایت مل جائے اورمخالف کے مسلک پر شرح صدر ہوجائے،ورنہ تواپنی دہی کو سبھی میٹھاکہتے ہیں، گمراہ سے گمراہ تحریک اور تنظیم بھی اپنے لئے خوبصورت سلوگن وضع کرتی ہے، سلوگن سے کیاہوتاہے؟
مفاہمت کی یہ شکل جوآپ کی تحریر کے بین السطور سے عیاں ہے کہ آپ کے خیال میں جوقرآں وحدیث کا عقیدہ ہے (اورجومیرے خیال میں نہیں ہے)اس کواختیار کرلیں تو یہ اس بھائی چارے والی بات ہے جس میں ایک بھائی ہوتاہے اور دوسراچارہ،
اتفاق واتحاد کی سب سے بہتر بنیاد یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ ہمارے درمیان اختلاف ہے۔