عبدالرحمن بھٹی
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2015
- پیغامات
- 2,435
- ری ایکشن اسکور
- 293
- پوائنٹ
- 165
اوپر والی بات کا حوالہ یہ ہے : الدلیل القوی
میرے پاس بالکل بھی وقت نہیں ہے اس لیے جو کام آپ مجھے کہہ رہے ہیں اس کی زحمت خود ہی فرما لیں جزاک اللہ خیرا
بھائی جان اگر آپ کے پاس وقت نہ ہو تو ان باتوں کو نہ چھیڑا کریں۔ اور جب چھیڑ دیا ہے تو مکمل کریں۔ عاصم انعام بھائی کا مطالبہ بالکل درست ہے۔ جب آپ نے تحریف کا دعوی کیا ہے تو پہلے یہ بھی تو بتائیے کہ تحریف کہتے کسے ہیں؟ یوں تو آپ روایت بالمعنی پر بھی تحریف کا الزام لگا سکتے ہیں۔
مہربانی فرما کر کتابیں دینے کے بجائے اصل مقامات سے عبارات لائیے۔
محمد عاصم انعام صاحب کیا آپ نے یہ تحریر اصل کتاب میں پڑھی ہے یا کہ کہسی اور کتاب سے حوالہ درج کیا ہے؟بھائی میں کرلیتا ہوں لیکن ٹائم دے دیجئے گا مصروفیت زیادہ ہے شاید تین چار دن بعد آن لائن ہوجاؤں ۔ان شاء اللہ
واقعہ: میں نے ایک حنفی عالم کی کتاب میں ایک تحریردیکھی جو کہ شیعہ کی کتاب ”حق الیقین“ کے حوالہ سے لکھی تھی کہ وہ تحریفِ قرآن کے قائل ہیں۔ یہبات اتنی شدید تھی کہ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں یہ گمان کر رہا تھا کہ بعض اوقات ایک بات کا عندیہ تو ہوتا ہے مگر اس کو نمک مرچ لگا کر شدید کر دیا جاتا ہے۔ جس حنفی عالم کی یہ کتاب تھی میں نے کبھی بھی اس میں ایسی بات نہیں پائی تھی مگر میرا طریقہ کار یہ ہے کہ اس قسم کی شدید بات کو جب تک محولہ کتاب میں نہ دیکھ لوں یقین نہیں کرتا۔خیر محولہ کتاب مجھے کوئی دس سال کے بعد ملی اور اس میں وہ تحریر جوں کی توں پا کر اطمینانِ قلب ہؤا۔
میں نے سوچا کہ کتاب تو مل ہی گئی ہے اس کو پڑھ لوں۔ اس میں مطاعن کے سلسلہ میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن تھا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نعوذ باللہ قرآن کو نہیں مانتے تھے۔ دلیل میں صحیح بخاری کی حدیث درج تھی جس میں دوران سفر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حدث اکبر والا واقعہ درج تھا۔ میرے پاس صحیح بخاری موجود تھی میں نے بڑی کوشش کے بعد وہ محولہ عبارت مل گئی اور وہ اسی طرح تھی جیسا کہ ”حق الیقین“ میں لکھی تھی۔ ذہن میں کھلبلی مچھ گئی کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاء کی کہ یا اللہ میرا سینہ کھول دے۔ دوسری احادیث سے یہ عقدہ کھل گیا جن میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وضاحت تھی کہ میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں جس کی تشریح رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی۔
اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ کسی تحریر پر اندھوں کی طرح نہ گریں اور نہ ہی تعصب سے کام لیں اگر حق کو پانا ہے تو۔