وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس چیز کا مسجد نبوی میں تو بہت خیال رکھا جاتا ہے، وہ حاجیوں کو آگے سے آگے بھیجتے ہیں، حتی کہ بعض حاجیوں تو غصے میں آجاتے ہیں کہ آپ ہمیں یہاں نماز کیوں نہیں پڑھتے دیتے، حالانکہ یہاں جگہ موجود ہے، اور نماز گزر رہی ہے۔
جس کی یہ قریشی صاحب بات کر رہے ہیں، کہ مسجد سے باہر ہی لوگ نماز شروع کرلیتے ہیں، تو اس طرح کے حالات بعض دفعہ پیدا ہوجاتے ہیں، اور یہ واقعتا غلطی ہے۔ کہہ رہے تھے، کچھ لوگ اپنی دکان کے سامنے مصلی بچھا کر نماز شروع کردیتے ہیں، تو اس کے لیے وہاں انتظامیہ کیا کرے؟ کوئی اپنے گھر اور ہوٹل میں بھی نماز شروع کردیتا ہوگا، تو یہ اس کی غلطی ہے، وہاں کی انتظامیہ تو نہیں کہتی کہ آپ مسجد سے باہر ہی نماز شروع کردیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح ہمارے ہاں چھوٹی سے مسجد میں سو ہزار یا تیس چالیس ہزار لوگ صفیں بنالیتے ہیں، حرمین میں اس طرح کی صف بندی ممکن ہی نہیں، وہ جان بوجھ کر کچھ جگہیں خالی کرواتے اور رکھتے ہیں، تاکہ کسی قسم کے حادثے سے بچا جاسکے۔
میں خود اپنی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھ چکا ہوں، جس طرح کی صف بندی یہ قریشی صاحب چاہتے ہیں، اس طرح ممکن ہی نہیں ہے، رمضان اور حج کے دنوں میں ایک دن بھی ایسا ہوگیا تو وہاں سے سیکڑوں لاشیں اٹھیں گی، کیونکہ اتنی بڑی تعداد کو بالکل ساتھ ساتھ متصل صفیں بنوانا یہ ممکن نہیں، اور پھر لوگوں کے حالات بھی عجیب وغریب ہوتے ہیں، کسی کو سانس کی بیماری، کوئی رش سے گھبراتا ہے، کوئی چل ہی نہیں سکتا، کوئی بے ہوش ہوا، کوئی تھک کر بیٹھ گیا، خالی جگہیں چھوڑی ہوتی ہیں، تو ان کو حالات کو سنبھال لیا جاتا ہے، ورنہ جتنا رش یہاں ہوتا، اللہ معاف کرے، لوگ گھبرا کر یہاں آنا چھوڑ دیں گے۔
اور پھر یہ بات ہے کہ بعض دفعہ آگے کہیں خالی جگہ ہوتی ہے، لیکن وہاں تک پہنچنے میں اتنی زیادہ دیر لگ جاتی ہے، اور کئی لوگوں نے فورا واپس جانا ہوتا ہے، اور وہ آتے بھی عین ٹائم پر ہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ نرمی کرنا مجبوری ہے، ورنہ آئندہ وہ مسجد میں آئیں گے ہی نہیں۔ جس بندے سے سال میں ایک مرتبہ یا پوری زندگی میں ایک مرتبہ جانا ہے، وہ ہر نماز سے آدھا گھنٹہ یا گھنٹہ پہلے مسجد کے اندر ہوگا، اسے اس بندے کی مجبوری سمجھ میں نہیں آسکتی، جس نے اپنا کاروبار بھی کرنا ہے، دکان بھی کھولنی ہے، اور ہر نماز مسجد نبوی یا مسجد حرام میں پڑھنی ہے۔
اس قسم کے مسائل کوسامنے رکھتے ہوئے صف بندی کے مسائل میں نرمی کی جاتی ہے۔
آج کی سن لیں، آج تکمیل قرآن کا موقعہ تھا، پوری مسجد نبوی فل تھی، تو لوگوں نے امام سے آگے بھی صفیں بنانا شروع کردیں، اب مجبورا انہیں خاموشی اختیار کرنا پڑی، نہ خاموشی کرتے تو لوگوں کو مسجد نبوی سے واپس بھیجتے؟ یا انہیں کہتے کہ یہاں نماز نہ پڑھو؟ یا پھر مسجد نبوی کے اندر والے دروازے چوپٹ کھول دیتے کہ اندر گھس جاؤ، اور سب شہادت کا رتبہ پاؤ۔
کل یا پرسوں عید کے وقت بھی یہی کچھ ہونے والا ہے۔
اور قدیم و جدید بعض اہل علم کے نزدیک اس کی قسم کی مجبوری کے وقت امام کے برابر یا اس سے آگے بھی صف بنالینے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ شیخ ابن باز کا موقف ہے کہ ایسی صورت حال ہو تو واپس لوٹ جائیں، کہیں اور جا کر نماز پڑھیں۔( ابتسامہ)
میں بھی جب پہنچا تو پہلے سوچا امام سے آگے ہی کھڑا ہوجاؤں، لیکن پھر دوبارہ تھوڑی ہمت کی، شرطوں کو ایک چقمہ سا دیا، اور پیچھے تھوڑی سی جگہ مل گئی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ہر بندہ ایسے نہیں کرسکتا، اور اگر ہر بندہ ہی ایسے کرے، تو ظاہر ایک آدھے بندے کی جگہ تو نکل آئے گی، جو ہزاروں آگے کھڑے ہوئے ہیں، سب پیچھے آئیں گے، تو تنظیم و ترتیب کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
بہر صورت جان بوچھ کر سستی کے مارے کہیں پیچھے نماز نہیں شروع کرنی چاہیے، لیکن حالات اور مجبورا کہیں صف بندی کا خیال نہ ہوسکے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ولا یکلف اللہ نفسا إلا وسعہا۔
قریشی صاحب نے بات کچھ اور تھی، اور اس کو رنگ کو کوئی اور دیا، اور رہی سہی کسر عنوان دینے والے نے نکال دی۔