• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکمی مرفوع کیا ہے؟

ایوب

رکن
شمولیت
مارچ 25، 2017
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
-3
پوائنٹ
62
اسلام علیکم، مجھے مرفوع حکمی کے بارے تفصیل درکار ہے مع حوالہ-

مثلاً کوئی صحابی کسی عمل پر اجر کا ذکر کرے تو کیا یہ اثر حکماً مرفوع ہوگی؟ اگر ہاں ہے تو مہربانی کرکے یہ دلائل کے ساتھ واضح کر دیجئے- جزاک اللہ خیراً
 
شمولیت
جون 21، 2019
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
41
اسلام علیکم، مجھے مرفوع حکمی کے بارے تفصیل درکار ہے مع حوالہ-

مثلاً کوئی صحابی کسی عمل پر اجر کا ذکر کرے تو کیا یہ اثر حکماً مرفوع ہوگی؟ اگر ہاں ہے تو مہربانی کرکے یہ دلائل کے ساتھ واضح کر دیجئے- جزاک اللہ خیراً
[emoji2769]محمد عبد الرحمن کاشفی

ويوجد المرفوع يسمى عند أهل المصطلح بالموقوف الذي حُكْمه الرفع وهو قول الصحابي الذي دلّت قرينة على أن أصله من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وينقسم إلى خمسة أنواع:

اس موقوف حدیث کا حکم بھی اہل اصطلاح کے ہاں مرفوع ہوتا ہے, جس میں قولِ صحابی رضی اللہ عنہ کی دلالت ایسی بات کی طرف ہوتی ہو جس کا اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ اور اس کی پانچ قسمیں ہیں۔

النوع الأول: التقريرات زمن الوحي، أي سكوت الوحي (القرآن والسنة) عن أفعال الصحابة زمن نزوله وإن لم تكن أفعالهم بحضرة النبي -صلى الله عليه وسلم- لأن الوحي لا يَسكت على منكر، قال جابر بن عبدالله رضي الله عنهما: "كنا نعزل والقرآن ينزل".

وہ تقریرات جو زمانہ‌ وحی میں واقع ہوئی ہو‌ں۔ مطلب یہ کہ صحابہؓ کے وہ افعال جن پر وحی (کتاب و سنت)خاموش ہوں۔ اس لیے کیوں کہ وحی منکر یا کوئی غلط کام پر خاموش نہیں ہوتی ہے۔
جیسے جابر رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا کہ ہم عورتوں سے عزل کیا کرتے تھے جب قرآن نازل ہوتا تھا۔

النوع الثاني: قول الصحابي أُمرنا بكذا وكذا، فالاحتمال الأرجح أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- هو الآمر كقول بن عباس رضي الله عنهما "أُمِرنا أن نكلم الناس على قدر عقولهم"، وللأمانة العلمية فهذا الحديث لا يخلو من مقال.
صحابی رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ہمیں ایسا ایسا حکم دیا گیا۔ پس اس سے راجح احتمال یہی نکل سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہی اس کام کو کرنے کا حکم دیا ہو۔
جیسے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ ہمیں یہ حکم دیا گیا کہ ہم لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کریں۔
{امانت علمیہ کے تحت یہ ذکر کر دیتے ہیں کہ یہ حدیث متکلم فیہ ہے۔}

النوع الثالث: قول الصحابي نهينا، كقول أم عطية رضي الله عنها: "نهينا عن اتباع الجنائز ولم يُعزم علينا".
صحابہ کا یہ کہنا کہ ہمیں منع کیا گیا ۔۔۔ جیسے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے سے منع کیا گیا‌, لیکن اس منع کرنے میں ہمارے اوپر سختی نہیں کی گئی۔


النوع الرابع: قول الصحابي قولا لا مجال للاجتهاد فيه، كأمور الغيب أو تفسيره للقرآن تفسيرا لا يمكن أن يجتهد فيه، مثال: روى الإمام البخاري في كتاب الاعتصام عن حذيفة بن اليمان رضي الله عنه أنه قال: "يا معشر القرّاء استقيموا لقد سبقتم سبقا بعيدا، فلا تأخذوا يمينا ولا شمالا فتضلوا ضلالا بعيدا"، فقوله "لقد سبقتم سبقا بعيدا" لا يمكن أن يسمعه إلا من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ويشترط في هذا النوع ألا يكون الصحابي معروفا بالتحديث من كتب أهل الكتاب كعبد الله بن عمرو رضي الله عنهما خشية أن تنسب أخبار أهل الكتاب إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم.

ایسے معاملات جن میں صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو اجتہاد کرنے کی گنجائش نہ ہو۔ اور ایسی تفسیر بھی کہ جس میں اجتہاد کرنا ممکن نہ ہو۔
جیسے بخاری, کتاب الاعتصام میں حذیفہؓ سے ایک روایت ہے کہ انہوں نے کہا; اے قرآن وحدیث پڑھنے والو! قرآن وحدیث پر جم جاؤ کیونکہ دوسرے لوگ حدیث اور قرآن کی پیروی کرنے میں تم سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں یعنی دور نکل گئے ہیں ۔اور اھر ادھر دائیں بائیں راستہ لوگے تب بھی گمراہ ہو گے بہت ہی بڑے گمراہ۔
اس میں "تم سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں یعنی دور نکل گئے ہیں ۔" کہنا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنے بغیر ممکن نہیں ہے۔
{اس میں یہ بھی ایک شرط ہے کہ ایسے صحابیؓ کے قول کو اس مسئلے میں نہ لیا جائے جو اہل کتاب سے بیان کرنے میں مشہور ہوں}
مثلا عبد اللہ بن عمر‍‍ؓ سے اس طرح کی باتیں مرفوعا بیان نہ کی جائیں۔ جس میں یہ امکان قوی ہوتا ہے کہ شاید کہ وہ اہل کتاب کی اخبار ہوں پر ہم نے اسے نبیﷺ کی طرف منسوب کر دیا۔

النوع الخامس: قول التابعي عن الصحابي: رَفَعَه أو بلغ به، أو يقول في أول الرواية مرفوعا، ففي الصحيحين عن أبي هريرة مرفوعا: بينما كلب يطيف بركية كاد يقتله العطش إذ رأته بغي من بغايا بني إسرائيل فنزعت موقها فسقته فغفر لها به.
تابعی رحمہ اللہ کا رفعه کہنا اور بلغ بہ کہنا یا روایت کے شروع میں مرفوع کہنا مثلا ابو ہریرہ ؓ مرفوعا بیان کیا ہے کہ ایک کتا ایک کنویں کےچاروں طرف چکر کاٹ رہاتھا جیسے پیاس کی شدت سےاس کی جان نکل جانے والی ہوکہ بنی اسرائیل کی ایک زانیہ عورت نے اسےدیکھ لیا۔اس عورت نے اپنا موزہ اتار کرکتے کوپانی پلایا اس کی مغفرت اسی عمل کی وجہ سے ہوگئی۔

Sent from my BKL-L09 using Tapatalk
 
Last edited:

ایوب

رکن
شمولیت
مارچ 25، 2017
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
-3
پوائنٹ
62
جزاک اللہ عبد الرحمن بھائی لیکن اگر حوالے بھی ذکر کر دیتے تو اچھا ہو جاتا-
 

nspbscf243

مبتدی
شمولیت
مئی 11، 2020
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
F

Sent from my QMobile i6i using Tapatalk
 

ایوب

رکن
شمولیت
مارچ 25، 2017
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
-3
پوائنٹ
62
آپ کو کس چیز کا حوالہ چاہیے؟ Sent from my BKL-L09 using Tapatalk
السلام عليكم بھائی، اللّٰہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے میں پوچھ رہا تھا کی کسی اصول کی کتاب میں یہ درج ہے یا کسی امام یا محدث نے یہ اصول بیان کیا ہو یا پھر کسی اور طرح سے یہ اخذ کیا گیا ہے-
 
شمولیت
جون 21، 2019
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
41
السلام عليكم بھائی، اللّٰہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے میں پوچھ رہا تھا کی کسی اصول کی کتاب میں یہ درج ہے یا کسی امام یا محدث نے یہ اصول بیان کیا ہو یا پھر کسی اور طرح سے یہ اخذ کیا گیا ہے-
آپ تدریب الراوی میں ان تفصیلات کو دیکھ سکتے ہیں۔https://archive.org/details/tadsrsw/page/n290/mode/1up

Sent from my BKL-L09 using Tapatalk
 
Top