• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکومت حاصل کرنے کے لیے مذہبی جماعتیں کہاں غلطی کرتی ہیں

شمولیت
مئی 26، 2018
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
43
حکومت حاصل کرنے کے لیے مذہبی جماعتیں کہاں غلطی کرتی ہیں


حصول اقتدار کے حوالے سے موجودہ دور میں عالمی سطح پر مسلم دینی جماعتوں اور تحریکوں کےایک سے زائد رجحانات نظر آتے ہیں۔

ایک طبقہ تو وہ ہے جو اپنی تمام دینی اور جماعتی سرگرمیوں کا محور حصولِ اقتدار کو سمجھتے ہیں۔ ان کی ہر کاوش اور کوشش یہاں تک کہ دروسِ قرآن اور تعلیمِ قرآن کا مطلب بھی یہ نظر آتا ہے کہ اقتدار اللہ کے نیک بندوں کے پاس آنا چاہیے۔ اور پھر وہ اپنے آپ کو اعلیٰ پائے کے نیک ، متقی اور باصلاحیت لوگ سمجھ کر زندگی اور اسکا ایک ایک لمحہ حصولِ اقتدار کی خاطر گزار دیتے ہیں۔
انکی کوشش یہ ہے کہ مغرب کا جو نظامِ جمہوریت چلا آرہا ہے ،اسی کے تحت حکومت اور اقتدار حاصل کیا جائے۔

دوسرا دینی طبقہ وہ ہے جو حصولِ اقتدار کی کوشش کرتا ہے مگر وہ موجودہ نظامِ جمہوریت کو درست نہیں سمجھتا اور وہ جمہوریت کے علاوہ کسی اور طریقے سے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس طریقے کو خلافت، ملوکیت یا جمہوریت کسی نظامِ حکومت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔

تیسرا دینی طبقہ وہ ہے جو اقتدار کے حصول کی کوشش کرتا ہےاور نہ ان کے اہداف و مقاصد میں ایسی کوئی بات ہے اور نہ ہی ان کے منشور میں یہ بات شامل ہے۔وہ بس اپنے آپ میں مگن ہیں۔اپنے اپنے نظریات خواہ وہ درست ہو یا غلط، ان کے پرچار کےلئے وہ کوشاں ہیں، اسی کے لئے وہ جیتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بعض کی طرف سے کبھی کبھی اقتدار کے حصول کی کوشش محسوس ہوتی ہے یا انفرادی طور پر ایسے کئی رجحانات سامنے آتے ہیں۔جیسے ہمارے ہاں کی تبلیغی جماعت ہے اور یہ عالمی سطح کی ایک جماعت ہے، یا دعوتِ اسلامی ہے۔اسی طرح بعض دیگر دینی تنظیمیں اور جماعتیں ہیں۔
اس کے علاوہ کئی دینی جماعتیں خلافت کے لئے زمین ہموار اور ماحول سازگار بنانے کے لئے کوشاں ہیں ۔
تعصب سے بالا اور قرآن فہمی کا ذوق رکھنے والے قارئین ! ذیل میں ہم حصول ِاقتدار کا قرآنی منشور پیش کرتے ہیں ۔ اور آپ کو دعوتِ فکر دیتے ہیں۔ پہلے کی طرح اب بھی ہیں اپنا موقف زبردستی منوانے کا شوق نہیں۔ اختلاف رکھنے کا حق ہر ایک کے پا محفوظ ہے۔ تو لیجیے قرآن میں حصولِ اقتدارکی راہ نمائیاں ۔
قرآن مجید نے لوگوں کی ذہن سازی کی ہے کہ اقتدار کا مالک اللہ ہے۔
1-اقتدار کا مالک اللہ ہے ، وہ جسے چاہتا ہے عنایت کرتا ہے
اس ضمن میں قرآن مجید نے بادشاہت کو بھی اللہ کی عنایت قرار دیا ہے، خلافت کو بھی اور وزارت کو بھی۔
(الف) بادشاہت اللہ کی طرف سے ہے:
اس کے کئی ایک دلائل قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں:
1–قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ ۔
“کہہ دیجیے اے بادشاہت کےمالک! تو جسے چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے”۔
(آل عمران : 26)
2-إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا.
“بے شک اللہ تعالیٰ نے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے”۔
(البقرۃ : 247)
3- وَاٰتٰهُ اللّٰهُ المُلكَ.
“اور اللہ تعالیٰ نے انہیں (داود علیہ السلام کو ) بادشاہت دی”۔
( البقرۃ: 251)
4-یوسف علیہ السلام کی دعا:
رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ.
“میرے رب ! تحقیق تو نے مجھے بادشاہت میں سےکچھ نوازا۔”
(یوسف: 101)
5-بنی اسرائیل کے باشاہوں کو بھی اللہ نے بادشاہت دی جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا :
اذْکُرُوْا نِعْمَۃ اللّٰہ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآء ۔
“اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب اس نے تم میں انبیاء بھی بنائے اور تمہیں بادشاہ بھی بنایا”۔
(المائدہ: 20)
6-ذولقرنین کے متعلق فرمایا:
إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ
“بے شک ہم نے اسے زمین میں اقتدار دیا”۔
(الکھف: 84)
7- بادشاہت اللہ کی طرف سے ہے حتیٰ کہ کسی کافر اور فاسق کوبھی بادشاہت ملتی ہے تو وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ نمرود کے بارے میں اللہ نے فرمایا:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ.
“کیا آپ نے اس شخص کی طرف نہیں دیکھا جس نے ابراہیم علیہ السلام سے ان کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے بادشاہت دی”۔
(البقرۃ: 258)
یہ علیحدہ بات ہے کہ ایسے لوگوں کو اقتدار دینے میں اللہ کیی رضا شامل نہیں ہوتی محض ارادہ ہوتا ہے۔
(ب) خلافت بھی اللہ کی طرف سے ہے:
فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَعَدَ اللّـٰهُ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّـهُـمْ فِى الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْ.
“اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان والوں اور عمل صالح اختیار کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں خلافت دے گا جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلافت دی تھی “۔
(النور: 55)
(ج) وزارت بھی اللہ تعالیٰ دیتا ہے:
سیدنا یوسف علیہ السلام کو مصر کی وزارت خزانہ کا قلم دان سونپا گیا۔ تیرھویں پارے کے آغاز میں اس کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وكَذٰلِكَ مَكَّـنَّا لِيُوْسُفَ فِى الْاَرْضِ .
” اور اسی طرح ہم نے یوسف علیہ السلام کوزمین (مصر ) میں اقتدار دیا”۔
( یوسف: 56)
مذکورہ آیا ت اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہیں کہ زمین کی بادشاہت ،خلافت یا اقتدرا و ر وزارت اللہ کے پاس ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ کسی کا اقتدار یا حکومت اس کی رضا سے ہوتا ہے اور کسی کا اقتدار محض اس کے ارادے سے ہوتا ہے اور اس میں اسکی رضا شامل نہیں ہوتی۔
اگلا سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے تو کیا بندوں کو کوشش نہیں کرنی چاہئے کہ وہ اقتدار لیں۔ جیسے اللہ نے فرمایا کہ:
نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَـهُـمْ مَّعِيْشَتَـهُـمْ فِى الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا.
” ہم نے دنیا کی زندگی میں ان کے مابین روزی تقسیم کی ہے”۔
( الزخرف: 32)
تو کیا بندوں کو حق حاصل نہیں کہ وہ روزی حاصل کرنے کے لئے جستجو کریں؟ اسی طرح اقتدار اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو بندوں کو اقتدار لینے بلکہ چھیننے کا حق حاصل نہیں؟ تو آئیے یہ سمجھنے کو کوشش کرتے ہیں۔
2- اللہ سے اقتدار لینے کے لئے بندوں کی کوشش
سابقہ مثال کا جواب یہ ہے کہ روزی اللہ تعالیٰ نے تقسیم کی ہے اور ساتھ لوگوں کوحکم بھی دیا ہے کہ وہ روزی تلاش بھی کریں۔ اور اللہ کے برگزیدہ بندے بھی محنت کرکے روزی تلاش کرتے رہے۔ مگر اقتدار لینے کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا اور پورے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جن جن ہستیوں کو اقتدار دینے کا تذکرہ کیا ہے ان میں کسی کی طر ف سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کا تذکرہ نہیں فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے جن انبیائے کرام علیھم السلام کو بادشاہت سے نوازا یا وزارت نصیب فرمائی، اسی طرح اس امت میں جن کو خلافت سے نوازا گیا انہوں اپنے طور پر ان عہدوں کی کوئی کمپین چلائی؟ اوڑھنا بچھونا حصول اقتدار کو بنایا؟ اپنے آپ کو اس کا واحد اہل ثابت کرنے کی کوشش کی۔۔؟ نہیں، ان میں سے کسی نے بھی ایسا کچھ نہیں کیا۔
اگر کوئی شخص کہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے خود کہا تھا کہ :
اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ.
“مجھے سرزمین (مصر) کے خزانوں پر مامور کردیں”۔
(یوسف: 55)
تو ہم کہیں گے کہ کیا یوسف علیہ السلام نے وزارتِ مصر ملنے سے پہلے کی تمام قربانیاں مصر کے اقتدار کے لئے دی تھیں۔کیا ان کے حاشیہِ خیال میں بھی ایسی بات تھی۔ انھوں نے اللہ کا خوف دل میں رکھا اور اس کے احکام کی بجا آور ی کی اور ایک دن ایسا آیا کہ بادشاہ نے خود یہ اظہار کیا:
ائْتُـوْنِىْ بِه اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِىْ.
“انہیں (یوسف علیہ السلام) کو میرے پاس لاؤ، میں انہیں خاص الخاص اپنے لئے رکھنا چاہتا ہوں”۔
( یوسف: 54)
جب بادشاہ نے یہ اظہار کیا تواس وقت یوسف علیہ السلام نے خواہش کا اظہار کیا کہ (اگر اصلاح مطلوب ہے تو) مجھے سرزمین مصر کے خزانوں پر مامور کردیں۔
سیدنا یوسف علیہ السلام کے علاوہ پہلے عنوان کے تحت جن جن کا ذکر ہوا ہے ان میں سے کسی کی حصول اقتدار کے لیے کوئی کوشش سامنے نہیں آئی ۔ طالوت ہوں کہ داؤد علیہ السلام ، بنی اسرائی کے بادشاہ ہوں یا رحمت عالم ﷺ کے خلفاء ، آپ کو ان کی طرف سے حصول اقتدارکی خاطر دعوتیں کرنے ، سرگرمیاں دکھانے، افطار ڈنر دینے، لوگوں سے اس سلسلے میں میل جول رکھنے کا شوق تھا نہ ان کا یہ مطمح نظر تھا۔
دراصل وہ اللہ کے احکام سے یہی سمجھے تھے کہ خلافت و حکومت اللہ کے اختیا رمیں ہے ۔ وہ جسے چاہے گا یہ سونپ دے گا ہمیں بس اس کے احکام ماننے ہیں۔ اگر حصول اقتدار کے پیش نظر کوئی سرگرمیاں اختیار کی ہوتیں، اس کی خاطر قوم سےمکالمے کیے ہوتے تو ان کا کچھ نہ کچھ حصہ تو ضرور اللہ تعالیٰ قراآں مجید میں بیان فرمادیتا مگر اقتدار سے نوازے جانے والے انبیاء کرام علیھم السلام اور بعض دیگر شخصیات کے واقعات اور ان ک مختلف پہلوؤں میں حصول اقتدار کی سرگرمیوں کا کوئی اشارہ تک محسوس نہیں ہوتا۔
ہاں! سیدنا سلیمان علیہ السلام کی دعا ضرور تھی کہ :
وَهَبْ لِـىْ مُلْكًا لَّا يَنْبَغِىْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِىْ.
” اور مجھ ایسی بادشاہی عطا کر کہ میرے بعد وہ کسی کے لائق نہ ہو”۔
(ص: 35)
یاد رہے ! یہ دعا بھی حالت اقتدار میں مانگی کئی تھی نہ کہ اقتدار سے پہلے ۔ یہ دعا تو یہ درس دیتی ہے کہ اقتدار اللہ کے پاس ہے۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اقتدار ظالموں کے پاس ہے جبکہ یہ ہمارے پاس ہونا چاہئے تو وہ یہ دعا کرے کہ اللہ! ہمیں یہاں کا اقتدار نصیب فرمادے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلافت عطا ہوئی ۔ کوئی بھی صاحب علم وتحقیق کیا یہ ثابت کرسکتا ہے کہ انہوں نے خلافت کے حصول کے لئے کوئی مہم جوئی کی تھی یا رفاقتِ رسول ﷺ کی سعادت وہ حصول اقتدار کے لئے کرتے رہے؟ میں اپنے مطالعے کی حد تک کہتا ہوں کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کے جمع ہونے اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلافت ملنے سے قبل خود سیدنا ابوبکر رضی اللہ کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ انہیں خلیفہ بننا ہے۔ وہ اس کے لئے مہم جوئی کیا کرتے!! جس طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلافت ملی وہ مکمل واقعہ بول کر یہ بتارہا ہے کہ انصارو مہاجرین کو بھی یہ اندازہ نہ تھا کہ چند ہی لمحوں بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مسند خلاف پر جلوہ افروز ہوں گے۔یہ صورت حال دیکھ کر واقعی اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نے انہیں خلافت سے نواز کر اپنا وعدہ پورا کردیا۔ مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ جماعتوں کی حالت یہ ہے کہ ان کے کتنے ہی امیر حکومت کے لئے جستجو کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ایک امیر نے جہاںسرگرمیاں چھوڑی تھیں، دوسرے نے وہی سے آکر آغاز کیا۔ اپنے آپ کو نامزد کیا، اہل ثابت کرنے کی کوشش کی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی خلافت ملنے کا اندازہ نہ تھا ور اسی طرح بعد والے خلفاء رضی للہ عنھم کو ۔ یہاں سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ کی خلافت کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بڑی مشکل سے سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خلافت کی ذمہ داری اٹھانے پر مجبور کیاگیا۔ اس کے باوجود جب وہ خطبہ خلافت دینے کے لئے منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو کہنے لگے: لوگوں!! حکومت کے معاملے میں میری رائے کے بغیر ہی مجھے اس آزمائش سے دوچار کیا گیا ہے، نہ میرا یسا کوئی مطالبہ تھا ، اور نہ مسلمانوں کا مشور ہ تھا۔ اور میں نے جو آپ سے بیعت لی ہے اسے ختم کرتا ہوں، لہذا تم اپنے لیے کسی اور کو پسند کرلو۔ یہ سن کر موجود تمام لوگ یکبارگی پکارنے لگے: امیر المومنین! ہم نے آپ کو اختیا رکیا ہے، ہم آپ پر راضی ہیں۔ خیروبرکت سے آپ ہمارے معاملے کے والی بنیں۔ جب عمر بن عبدالعزیز رحمہاللہ نے محسوس کیا کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہے ، تب انھوں بات آگے بڑھائی۔۔۔۔
(تاریخ دمشق )357:45
ایک طرف یہ کردار ہے اور دوسری طرف یہ دینی تحریکوں کے لوگ ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ نظام حکومت کو خلفائے راشدین کےمطابق چلانے کے دعویدار بھی ہیں۔ اور اپنی تقریر و تحریر کو انھی کے کارناموں سے مزیّن کرتے ہیں۔
مگر جن لوگوں نے حالیہ دینی تحریکوں کے آنگن میں آنکھ کھولی ہے وہ کبھی بھی ان حقائق کو ماننے کے لئے تیا رنہیں ہیں۔ وہ تو بس ایک ہی بات کہتے ہیں اور کرتے ہیں کہ اسلام کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ اقتدار ، اقتدار اور بس اقتدار۔۔۔ اور اس کے اہل ہیں بھی بس وہ خود، وہی اور وہی۔
جب راقم نے بعض تحریکوں اور ان کے منشور کو اسی ایک نقطے پر مرکوز پایا، حصول اقتدار کی ریلیوں میں گولیوں سے چھلنی ہوتے دیکھا اور اس کی خاطر کفن پہنتے دیکھا تو اس پہلو سے قرآن و سنت کا مطالعہ کیا اور اسی کا ایک مختصر خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔
3- حصول اقتدار کے لئے ہر ناجائز طریقہ بھی جائز ٹھہرا
جن جماعتوں یا تحریکوں نے حصول اقتدار ہی کو اپنی منزل سمجھا ہے وہ اس امر کو بھی لازم نہیں سجھتیں کہ حصول اقتدار کا طریقہ بھی جائز ہونا چاہئے۔انہیں لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کےلئے جو کچھ کرنا پڑے وہ اس کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ وہ اتحاد کے دلفریب نعروں کی آڑ میں حق کے اظہار سے باز رہتے ہیں۔ وہ لوگوں سے یہ تو پوچھتے ہیں کہ کیا رسول اللہ ﷺ بریلوی تھے، دیوبندی تھے، شیعہ تھے، یا اہلحدیث اور یہ پوچھ کر یہ بتاتے ہیں کہ آپ ﷺ ان میں سے کچھ بھی نہیں تھے لیکن خود اپنی جماعت کو مسلک کی سطح پر لے جاتے ہیں۔۔۔۔ اور لوگوں سے یہ نہیں پوچھتے کہ مکی دور میں رسول اکرم ﷺ نے اقتدار چھیننے کی کتنی تحریکیں بنائی تھیں؟ آپ ﷺ نے سیاسی استحکام کے لئے مسلمانوں کو کتنے گروہوں میں تقسیم کیا تھا کہ ہر کوئی علیحدہ علیحدہ امیر بنا کر ساری زندگی اپنی جماعت کے گرد ہی گھومتا رہے۔ اسی طرح ایسی جماعتیں غیر اسلامی طریقوں سے اسلام کا غلبہ چاہتی ہیں۔ دراصل ایسی جماعتیں اسلام کا نام لے کر عوام کو دھوکا دینا چاہتی ہیں۔
جاری ہے…..
 
Last edited:
شمولیت
مئی 26، 2018
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
43
حکومت حاصل کرنے کے لیے مذہبی جماعتیں کہاں غلطی کرتی ہیں؟ حصہ دوم
4-اقتدار چھیننا
جن دینی تحریکوں پر اقتدار کا نشہ سوار ہے وہ پہلے سے برسرِاقتدار حکومتوں کو ہر طریقے سے ختم کرنے کے آرزو مند رہتی ہیں۔اور موقع کی تلاش میں رہتی ہیں کہ ان سے اقتدار چھینا جائے۔ اس کے لیے وہ برسر اقتدار پارٹیوں کے کمزور پہلو تلاش کرکے ان کے خلاف عوام کو بھڑکاتی ہیں۔ یہاں یہ بتانا مقصود نہیں کہ برسرِاقتدار پارٹیوں میں کمزوریاں نہیں ہوتیں، یہاں تو یہ بتانا ہے کہ آیا شریعت میں اس بات کا جواز ہے کہ برسر ِاقتدار مسلمان حکمرانوں سے ان کا اقتدار بزور اور زبردستی چھینا جائے۔ جو لوگ دین نہیں جانتے ان کی بات تو علیحدہ ہے۔ دین داری کے دعوے داروں اور ملک میں اسلام کو رائج کرنے کا ادّعا رکھنے والوں کو اس کی کوئی دلیل تو مہیا کرنی چاہئے۔وہ ایسی کوئی آیت یا حدیث تو لائیں جس میں مسلم حکمرانوں سے اقتدار چھیننے کی تعلیم ہو۔ ان کے سامنے یہ بات نہیں کہ فرعون کے ہاتھوں ظلم میں پسنے والے بنی اسرائیل کو فرعون سے اقتدار چھیننے کے بجائے اس کا علاقہ چھوڑنے کا حکم ہوا۔
انہی تحریکوں کے پروردہ ایک شخص سے راقم کی بات ہوئی تو اس نے واضح طور پر یہ کہہ دیا کہ اللہ نے نہیں فرمایا کہ ظالموں سے اقتدار چھینو۔ میں نے کہا یہ کس آیت کا ترجمہ ہے؟ تو وہ صاحب ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ اگر کوئی یہ دلیل پیش کرے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا۔”
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو”۔
(النسآء : 4)
لہٰذا ہمیں نااہل لوگوں سے چھین کر حکومت اس کے اہل کے سپرد کرنی چاہیے۔ تو یہاں دو باتیں عرض ہیں کہ حکومت چھیننے کا یہاں ذکرنہیں ، دوسرے یہ کہ جو خود اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرتا ہے شریعت کی نگاہ میں وہ خود ہی نااہل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایسے ہی ایک شخص کو نااہل قراردیا تھا۔ حوالہ آرہا ہے۔
5- حصول ِ اقتدار کا قرآن مجید میں کوئی حکم ہے؟
قرآن مجید اپنے ماننے والوں کو جن جن احکامات پر چلنے یا جن باتوں سے رکنے کا حکم دیتا ہے اور بندوں سے جو کچھ مطلوب ہے اسے صراحت سے یا اشاروں سے سمجھا دیتا ہے مگر ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ بات لکھتا ہوں کہ حصولِ اقتدار کا حکم نہ صراحتًامجھے ملا ہے اور نہ اشارتاً۔ اگر حصول ِاقتدار اتناہی اہم فریضہ ہوتا ، جیسا کہ بعض جماعتوں نے سمجھ رکھا ہے ، تو قرآن مجید میں اسکا حکم ہونا چاہیے تھا کہ اقتدار حاصل کرو۔
قرآم مجید میں ایسی وضاحتیں تو موجود ہیں کہ “جنہیں ہم زمین میں اقتدار دیتے ہیں تو وہ تماز قائم کرتے ہیں، زکاۃ کا نظام قائم کرتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔
( الحج : 41)
اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ جسے اللہ اپنی خوشنودی سے اقتدار نصیب فرمائے، ان کی یہ خصوسیات اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ خوشنودی کا لفظ یہاں اس لیے استعمال کیا کہ فرعون ، ہامان ، نمرود کوبھی اقتدار اللہ نے دیا تھا ور آج کے کافرون کو بھی دیتا ہےمگر اس میں اسکی رضا شامل نہیں ہوتی۔
زیادہ سے زیادہ ایسی تحریکوں کے پاس ایک یہ آیت اپنے موضوع پر موجود ہے کہ:


“تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو خیر کی طرف دعوت دے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے”۔

(آل عمران : 104)

یہاں “امۃ ” کا لفظ آیا ہے جس کے معنی لوگوں کے بھی ہیں۔ اگر جماعت مراد ہو بھی تو نبی کریم ﷺ کو ایک علیحدہ جماعت بنا کر اس کا ایک علیحدہ امیر مقرر کردینا چاہئے تھا جیسا کہ آج یہ لوگ سمجھتے ہیں۔ تیسرےیہ کہ جماعت اور حکومت دو علیحدہ علیحدہ اصطلاحیں ہیں۔ جماعت کا ہونا اور بات ہے اور حکومت کا اختیار اور بات ہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے حکومت ضروری نہیں۔ ہر کوئی اپنی سطح پر یہ فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ اگر یہ فریضہ حکومت ملنے کے بعد ہی ادا ہونا ہوتا تو قرآن مجید میں پہلے حکومت کےحصول کا ذکر ہوتا۔ اسی طرح جو جماعتیں اس آیت سے استدلال کرتی ہیں ان کے پاس حکومت نہیں ہے اور وہ اپنے طور پر یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ وہ اس فریضے کو بڑے اچھے انداز سے نبھا رہے ہیں۔

اسی طرح ایسے لوگوں کی زبانوں پر علامہ اقبال کا ایک شعر بھی گردش کرتا ہے:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو—-جدا ہودیں سیاست سے رہ جائی ہے چنگیزی
اور اس شعر کو وہ ایک شرعی حکم سمجھ کر اپنا سیاسی کردار ادا کرنے کی بھر پور کوکشش کرتے ہیں۔ دراصل یہ شعر تو نظام حکومت اور سیاست سےدین کو الگ رکھنے کی روش کی مذمت میں ہے کہ دین کو الگ رکھنے سے ہر نظام ظلم و ستم اور فساد سے عبارت ہوتا ہے۔ جبکہ قران و سنت اور ہماری سنہری تاریخ سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی سیاست کا آغاز اقتدار ملنے کے بعد ہوتا ہے۔ حصول اقتدار کے لیے نہیں۔ اور ہماری بات اقتدار کےحصول کے متعلق چل رہی ہے۔ جسے اللہ اقتدار دے دے اسے کیا کرنا چاہیے یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔
اگر قرآن مجید میں یا حدیث نبوی میں حکومت اور اقتدار حاصل کرنے کا مسلمانوں کو کوئی حکم دیا گیا ہے تو ازراہ کرم ہمیں بھی اس سے آگاہ کیا جائے تاکہ اپنے محترم قارئین تک ان نصوص کو پہنچایا جائے اور ان پر عمل درآمد ہو۔ حدیث میں تو عامل یا گورنر مقرر کرنے کی حد تک بھی کسی کی ذاتی چاہت یا شوق کو پسند نہیں کیا گیا چہ جائیکہ کسی کی چاہت کے مطابق اسے کسی ملک کا اقتدار سونپ دیا جائے۔ واضح حدیث ہے:
“لن نستعمل علی عملنا من ارادہ”۔
“ہم اپنے امور پر اسے ہرگز عامل مقرر نہیں کرتے جو اس کا ارادہ رکھتا ہے”۔
( صحیح مسلم : 1733)
دوسری حدیث میں ہے:
“انا واللہ لانولی علٰی عملنا ھٰذا أحداً سألہ أو حرص علیہ” ۔
“اللہ کی قسم ! بے شک ہم اس کارِ حکومت پر کسی کو مقرر نہیں کرتے جو اس کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کو بھی نہیں اس کی حرص رکھتا ہے”۔
(صحیح مسلم : 1733)
ایک اور حدیث میں فرمایا:
“فا نک ان اعطیتھا عن مسالہ وکلت الیھا ون اعطیتھا عن غیر مسالہ اعنت علیھا”۔
” بے شک اگر تمہیں یہ امارت تمہارے مطالبے پر دی گئی تو تمہیں اسی کے سپرد کردیا جائے گا اور اگر یہ امارت تمہارے مطالبے کے بغیر تمہیں دی گئی تو اس پر ( اللہ کی طرف سے) تمہاری مدد بھی کی جائے گی”۔
(صحیح مسلم : 1823)
6- حصول اقتدار کے ہنگامی طریقے
اس طبقے اور پہلے طبقے میں فرق یہ ہے کہ یہ طبقہ مسلمان حکمرانوں کو کافر قرار دیتاہے جبکہ پہلا طبقہ انہیں ظالم ، فاسق اور نااہل تو قرار دیتا ہےمگر کافر نہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ یہ طبقہ اس نظام کو ناجائز سمجھتا ہے جس سے حکومت حاصل کی جائے ، اس لیے وہ کسی اور طریقے سے حکومت حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ پہلا طبقہ نظام جمہوریت کو درست سمجھتے ہوئے اسی کے تحت حکومت کا متمنی ہے۔ مگر پہلے طبقے کی طرح اس دوسرے طبقے کا منہج اور طریقہ حصول اقتدار شرعی طور پر محلِّ نظر ہے۔ اور گزشتہ صفحات میں کی گئی وضاحتیں اس کے لیے کافی ہیں مگر ایک مزید خامی جو اس طبقے کے اندر ہے وہ ہے اپنے اقتدار کے لئے بہت سے مسلمانوں اور بلادِ اسلامیہ کو فتنہ وفساد سے دوچار کرنا ، وہاں کے باسیوں کے قتلِ عام کو روا سمجھنا ، ان پر حملے کرنا، حکومتوں کو نشانہ بنانا۔ یہ شریعتِ اسلامیہ میں بجائے خود ایک بہت بڑا جرم ہے۔
اپنی سرگرمیں اور کارروائیوں کےلیے اس طبقے کا دامن بھی شرعی دلائل سے یکسر خالی ہے۔ پہلے طبقے کی طرح انہیں بھی حصولِ اقتدار کی منزل درکا ہے، اس سفر میں خواہ ہزاروں انسانوں کا خون ان کے سر آئے اور بلادِ اسلامیۃ شروفساد کی آماجگاہ بنے رہیں۔ پھر وہ فساد اور فسادیوں کے متعلق قرآن مجید کے تبصرے سے یکسر نابلد نظر آتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ان سے کیا توقع ہوسکتی ہے؟
7-کیا پھر مسلمانوں کو اجتماعی یا انفرادی سطح پر ایسی کوئی کوشش کرنی چاہئے؟
اگر پہلے طبقے کے اقتدار کی چاہت اور اس کےحصول کا طریقہ بھی درست نہیں اور دوسرے طبقے کا بھی درست نہیں کیا موجودہ مسلمانوں کو اس کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہئے؟ تیسرے طبقے کی طرح بس اپنے اپنے دائرہ میں مصروف رہنا چاہئے۔ نہیں ، نہیں۔
مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ دین پر عمل ، دین کو غالب کرنے کی کوشش کریں، اور ہر مرحلے اور میدان میں اور نظریے اور سوچ اور فکر میں اطاعت الہٰی اور اطاعت رسول کو اپنا شعار بنائیں اور اپنی اپنی سطح تک اس کی تنفیذ کی کوشش کریں۔۔۔۔ اس طرح ایک صالح معاشرہ قائم ہوگا اور پھر اللہ جسے چاہے گا اقتدار کی ذمہ داری سونپ دے گا۔ نبی کریم ﷺ نے بھی مکہ مکرمہ میں حکومت کی پیش کش کو ٹھکردایا تھا اور ساری توجہ لوگوں کے ذہن بدلنے پر دی تھی بالآخر بڑے ہی غیر محسوس انداز سے اللہ نے اہل ایمان کو مدینہ منورہ کے اقتدار سے نوازا اور رفتہ رفتہ یہ پھیلتا ہی چلا گیا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار اقتدار دینے کو اپنے ذمے لیا ہے۔
موجودہ اکثر مسلمانوں سے یہ کام ہوتے نہیں ۔ یہ مستقل نوعیت کے کام ہیں۔ اس راہ میں مسلکوں اور جماعتوں کے بت پاش پاش ہوتے ہیں، کریڈٹ جماعتوں کے بجائے اسلام کو جاتا ہے۔اس لیے ہم ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ
الا ماشاء اللہ سب مسلمان ہی اپنی اپنی جماعت کو ترقی دینے میں مگن ہیں اور جس نے جس تحریک میں آنکھ کھولی ہے اور پرورش پائی ہے وہ اس کے نظریات سے سر مو انحراف کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اور اسلام ایک طرف کھڑا نظر آرہا ہے۔
 
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
برادر شہزاد محبوب؛ اس سے پہلے کہ اس مضمون کے متعلق میں اپنے چند تحفظات کا اظہار کروں، آپ یہ واضح کر دیں کہ یہ مضمون آپ کا اپنا تحریر کردہ ہے یا "الفتن" کی ویب سائٹ سے فقط آپ نے نقل کیا ہے؟

کیونکہ اگر آپ نے صرف نقل کیا ہے تو پھر اس مضمون کے بنیادی موقف غلطی آپ کو فقط قرآن اور حدیث کی ایک ایک مثال سے ہی سمجھ آجائے گی۔ انشاء اللہ تعالٰی۔
 
Top