• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکومت کا ۔۔جی پی فنڈ ۔۔سود کے ساتھ واپس کرنا

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محدث فتوی
فتاویٰ جات: سود فتویٰ نمبر : 11513

حکومت کا جی پی فنڈ سود کے ساتھ واپس کرنا ؛
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لاہور سے محمد رفیق لکھتے ہیں۔ کہ حکومت اپنے ملازمین کی تنخواہ سے جی پی فنڈ کی جبرا کٹوتی کرتی ہے پھر ریٹائر منٹ کے وقت کٹوتی مع سود ملازم کودی جاتی ہے۔ اب اس سود کی رقم کو حکومت سے وصول کیاجائے یا حکومت کے پا س یعنی بینک میں چھوڑ دیا جائے اگر وصول کیا جائے تو اس کا مصرف کیا ہوگا؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہم اس کا جواب دینے سے پہلے اپنے قارئین کے لئے جی پی فنڈ کے متعلق کچھ معلومات درج کرناچاہتے ہیں تاکہ جواب دیتے وقت اس کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے ۔یہ لفظ جنرل پراویڈنٹ فنڈ کا مخفف ہے۔ جس کا معنی عمومی بچت فنڈ ہے۔ یہ حکومت کی بظاہر رفاہی سکیم ہے۔ جو اپنے ملازمین کو فراہم کرتی ہے۔ اس کا باقاعدہ ایک طریق کار ہے جس کی وضاحت کچھ یوں ہے۔
© جو ملازمین اس سکیم میں شامل ہونا چاہیں حکومت متعلقہ محکمہ کی وساطت سے انہیں وہ فارم فراہم کرتی ہے ایک فارم پر ملازم کے کوائف ہوتے ہیں جب کہ دوسرا نامزدگی کاہوتاہے۔ کہ ملازمت کے دوران ملازم کے مرنے یا کسی حادثہ کا شکار ہونے کی صورت میں یہ واجبات کون وصول کرے گا۔
© فارم پر کرنے کے بعد اکاؤنٹ آفس کی طرف سے ملازم کے لئے ایک نمبر الاٹ ہوتا ہے جسے اکاؤنٹ نمبرکہا جاتا ہے۔ آئندہ ملازم سے متعلقہ رقوم کا حساب اسی نمبر کے حوالہ سے کیا جاتا ہے۔
© تنخواہ کے سکیل کے لہاظ سے ملازم کی تنخواہ سے ہر ماہ کٹوتی ہوتی ہے۔جو بینک میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ حکومت کے اس کے متعلق جو ضوابط ہیں ہمیں تلاش بسیار کے باوجود کوئی ایسا ضابطہ نہیں ملا۔ جس کی رو سے یہ کٹوتی ضروری ہو البتہ عملا ایسا ضروری ہے بصورت دیگر ملازم کوکچھ مراعات سے محروم ہونا پڑتاہے۔یا کم از کم ہر ماہ تنخواہ کی ادائیگی ناممکن تو نہیں البتہ مشکل ہوجاتی ہے۔
© فارم کے خانہ نمبر 14 کے مطابق ملازم کو اختیار ہوتا ہے کہ فراغت کے وقت وہ اصل کٹوتی لے گا یا اس کے ساتھ فراہم ہونےوالا سود بھی وصول کرے گا۔
© اگر ملازم مجوزہ کٹوتی سے زیادہ رقم جمع کرانا چاہے تو اس کی سہولت دی جاتی ہے لیکن اس کے لئے الگ درخواست محکمہ کو دینا ہوگی۔
© اگر ملازم کی سروس دس سال سے کم ہے تو وہ صرف جی پی فنڈ لینے کا مجاز ہے۔ اگر دس سال سے زائد سروس ہے۔تودیگر مراعات (پنشن گریجویٹی) کا حقدار ہوگا۔
© ملازم کو یہ سہولت دی جاتی ہے کہ وہ دوران سروس کسی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر 80٪ جی پی فنڈ لے سکتا ہے۔ اس کے بعد اگر سروس تین سال یا عمر55 سال ہے۔تو یہ فنڈ ناقابل واپسی بصورت دیگر اسے چھتیس اقساط میں ماہ بما ہ اپنی تنخواہ سے محکمہ کو واپس کرنا ہوگا۔اصل کٹوتی بدستور جاری رہے گی۔
© اس فنڈ کا ملازم کی پنشن یا گریجویٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملازم کو اختیار ہوتا ہے ک وہ اپنی پنشن کا 40٪ یکمشت وصول کرلےجسے گریجوٹی کہا جاتا ہے۔ اور باقی 60 ٪ ماہ بماہ وصول کرتا رہے۔ یا یکمشت لینے کی بجائے وہ ماہ بما وصول کرے۔اس صورت میں پنش کی مقدارزیادہ ہوگی۔
© اس کٹوتی پر ملنے والے سود کی شرح متعین نہیں ہوتی۔بلکہ 15 فیصد سے 20 فیصد کے درمیان رہتی ہے البتہ جتنا سود ہوتا ہے اس پر مذید حکومت 30 فیصد کے حساب سے بونس جمع کرتی ہے آئندہ سال کٹوتی +سود+بونس کی مجموعی رقم پر سو د لگایا جاتا ہے۔یعنی یہ سود مرکب کی ایک صورت ہے۔
© چند سالوں بعد اس کٹوتی کی رقم میں حیران کن اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ اضافہ ایسی برق رفتاری سے ہوتا ہے۔ کہ اصل کٹوتی سے سود کہیں زیادہ ہوجاتا ہے۔
واضح رہے کہ دس سال کی کٹوتی ۔/6000 روپے ہے جبکہ جی پی فنڈ دس سال میں 264186 روپے ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل کٹوتی میں 204186 روپے سود کے ہیں۔دیکھیں آپ کے سود کس رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ یہ تو دس سالہ سروس کے اعدادوشمار ہیں بعض اوقا ت ملازمین کی سروس بیس اور پچیس سال بھی ہوجاتی ہے۔کچھ ملازمین یہ کہتے ہیں کہ سود کے علاوہ حکومت کچھ اس میں اپنی طرف سے رقم شامل کرتی ہے۔حالانکہ یہ مفروضہ صحیح نہیں ہے۔بلکہ یہ سود مرکب کاکرشمہ ہے۔
© ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس اس بات کا پابند ہے کہ وہ سال کے اختتام پر ملازم کو ایک سلپ جاری کرے جس میں اصل کٹوتی سود اور بونس کی وضاحت ہو لیکن وہ ہجوم مشاغل کا بہانہ بنا کر ایسا نہیں کرتا اگر ملازم ہر سال یا فراغت کے وقت کےلئے درخواست دے تو محکمہ کی طرف سے یہ اعدادوشمار فراہم کردیئے جاتے ہیں۔
©اس جمع شدہ فنڈ پر ہرسال زکواۃ بھی کاٹی جاتی ہے۔لیکن اس زکواۃ کی شرعی حیثیت انتہائی مخدوش ہے۔بینک کے سیونگ اکاؤنٹس میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ لہذا بینک میں جمع شدہ رقم کی از خودزکواۃ دینا چاہیے۔جی پی فنڈ کے متعلق یہ وہ تفصیلات تھیں جو ہم نے متعلقہ اشخاص سے حاصل کیں اب اس کی شرعی حیثیت کوبیان کرتے ہیں۔
© یہ بات تو واضح ہے کہ جی پی فنڈ میں اصل کٹوتی سے جو زائد رقم دی جاتی ہے۔وہ سود ہے۔چنانچہ خود گورنمنٹ اس کی معترف ہے۔جیسا کہ اس کے متعلقہ فارم کے خانہ نمبر 14 میں ہے۔
''کیا ملازم اپنی تمام جمع شدہ رقم پرسود کا خواہش مند ہے یا نہیں''؟
اور سود کو قرآن مجید میں بڑی صراحت او ر شدت کے ساتھ حرام قراردیا گیا ہے۔ اور سود خوروں کے متعلق جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ان سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ سود کا وجود روح اسلام کے بالکل منافی ہے۔قرآن مجید میں ہے کہ جو لوگ سودکھاتے ہیں نہیں کھڑے ہوں مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کوشیطان لپٹ کر خبطی بنادے۔''(2/البقرہ:275)
قرآن مجید میں جا بجا بُرے افعال اور گندے کردار کی مذمت کی گئی ہے۔اوراہل ایمان کو اس سے سختی کے ساتھ روکاگیاہے۔ کہ وہ اخلاقی بُرایئوں میں ملوث ہوں۔ یاگناہوں اور بدکاری کی زندگی بسر کریں۔ اس طرح جو لو گ اللہ کی قائم کردہ حدوں کو توڑیں انھیں بھی شدید ترین عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔ لیکن قرآن مجید نے کفر اور شرک کے بعد جس شدت سے سودی لین دین کی مذمت کی ہے۔اس کی مثال کسی اور بُرائی کے ضمن میں نہیں ملتی۔چنانچہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:''اگر کوئی آدمی ایک مرتبہ دانستہ طور پر ایک درہم سود کھا ئے۔تو وہ چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔''(دارقطنی :3/16)
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس قوم میں سود خوری عام ہوجائے انھیں اللہ کی طرف سے قحط سالی میں پکڑ لیا جاتا ہے۔اور جو قوم رشوت ستانی میں گرفتار ہو اس پر اغیار کا رعب اور دب دبہ مسلط کردیاجاتاہے۔''(مسندامام احمد :4/205)
حدیث میں ہے کہ عرب کے قبیلہ بنو مغیرہ کے لوگ سود پر لوگوں کو قرض دیتےتھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ان کا پورا سود منسوخ کردیا۔ اور مکہ میں اپنے عامل کو ہدایت کی کہ اگر یہ لوگ سودی یعنی دین سے باز نہ آئیں تو ان کے خلاف جنگ کرکے انہیں اس قبیح فعل سے روک دیاجائے۔''
خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی ا للہ تعالیٰ عنہ جو دور جاہلیت کے بہت بڑے مہاجن اور سود لے کر لوگوں کو قرضہ دیاکرتے تھے۔ ان کے متعلق بھی حجۃ الوداع میں صاف صاف اعلان کردیا:'' دور جاہلیت کا پورا سود کالعدم ہوگیا ہے۔اور سب سے پہلے میں اس سود کو منسوخ ٹھراتا ہوں جو میرے چچا عباس بن عبدالمطلب کا لوگوں کی طرف نکلتا ہے۔''(مسندامام احمد :5/73)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کے متعلق اپنے اندیشے کا بایں الفاظ اظہارفرمایا:
''مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ جس خطرناک کردار کااندیشہ ہے وہ سود خوری ہے۔''(مسند امام احمد :5/73)
سود خوری ایک ایسا سنگین جرم ہے کہ اس کی زد میں نہ صرف کھانے والا بلکہ کھلانے والا لکھنے والا اور گواہی دینے والا بھی آتا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو ملعون قرار دیا ہے۔حضرت جابر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے کھلانے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا:''کہ یہ سب لعنت زندگی میں برابر ہیں۔''(صحیح بخاری :کتاب البیوع)
بعض اوقات ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جرم کو بایں الفاظ بیان فرمایا:'' کہ سود کے ستر حصے ہیں۔ ان میں سے کم تر حصہ اپنی حقیقی ماں سے جماع کرنا ہے۔''(ابن ماجہ)
اگرچہ اس کی سند میں ابو معشر لحچ بن عبدالرحمٰن راوی ضعیف ہے۔تاہم دیگر شواہد کی وجہ سے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔''(صحیح ابن ماجہ :2/27)
اب تک قابل غوربات یہ ہے کہ ملازم کو جوسودی رقم ملتی ہے۔ اس کا مالک کون ہے ملازم تو اس کا مالک نہیں کیونکہ یہ تو اسی رقم کامالک ہے۔جو ماہ بماہ ا س کی تنخواہ سے کٹوتی کی صورت میں جمع ہوتی رہی اور جو زائد رقم سود کی شکل میں ہے ملازم اس کا قطعاً مالک نہیں ہے۔اصل رقم کا متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اگر تم توبہ کرو توتمہارے لیے تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیاجائے۔''(2/البقرہ :279)
سودی رقم کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود سے باقی رہ گیا ہے۔اگر تم مومن ہوتو اسے چھوڑ دو۔''(2/البقرہ 278)
اگر اس رقم کی وصولی پر اصرار ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''پھر اگر تم اس پر عمل نہ کرو تو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ۔''(2/البقرہ 279)
ان قرآنی آیات اور احادیث کاخلاصہ یہ ہے۔
©سود مطلق طور پر حرام ہے اس کے متعلق کوئی استثنائی صورت نہیں ہے۔
© سود وصول کرنے والا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرتا ہے۔
©سود لینا اپنے ایمان کو خیر باد کہہ دینے کے مترادف ہے۔
© سود خوری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت اور پھٹکار کی باعث ہے۔
© سود کا ایک ایک روپیہ چھتیس چھتیس دفعہ زنا کے برابر ہے۔
©سود کا استعمال گویا اپنی ماں سے زنا کرنا ہے۔
©سود لینے سے اللہ تعالیٰ کا عذاب قحط سالی میں آتا ہے۔
ایسے حالات میں کیا ایک غیرت مند صاحب ایمان سے توقع کی جاسکتی ہے۔ کہ وہ اپنی اصل رقم کے ساتھ سودی رقم کو بھی وصول کرے گا اگرچہ ایسے موقع پرانسان کا امتحان ہوتا ہے۔ کہ ایک طرف تھوڑی سی رقم اور دوسری طرف ڈھیروں مال ہے لیکن جس شخص کو اپنے ایمان کی فکر ہے وہ اس گندگی کے ڈھیر کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا ارشا د باری تعالیٰ ہے:
''اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہہ دیجئے کہ پاک اور ناپاک یکساں نہیں ہیں۔خواہ ناپاک کی کثرت تمھیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو۔''(5/المائدۃ :100)
اس آیت پر غور کرنے سے قدروقیمت کا ایک دوسرا معیار سامنے آتا ہے۔جو ظاہر بین اور دنیا پرست انسان کے معیارسے بالکل مختلف ہے بظاہر اصل کٹوتی کے مقابلے میں سودی ر قم زیادہ قیمتی ہے۔لیکن آیت میں بیان کردہ معیار کے مطابق یہ سودی رقم ناپاک ہے۔اور ملازم کی اصل کٹوتی پاک ہے۔ ناپاک خواہ مقدار میں کتنا ہی زیادہ ہوبہرحال وہ پاک کے برابر کس طرح نہیں ہوسکتا۔سودی رقم مقدا ر میں زیادہ ہے۔ معیار میں اعلیٰ نہیں ہے۔ اصل کٹوتی مقدار میں بہت کم ہے لیکن معیار کے لہاظ سے بہت برتر ہے یہ تو ہمارے مشاہدے کی بات ہے۔کہ غلاظت کے ایک ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیادہ قدررکھتا ہے۔پیشاب کے ایک لبریز جوہڑ سے پانی کا ایک چلو زیادہ وزنی ہے۔ لہذا ایک دانا اور ایک سچے صاحب ایمان کو حلال پر ہی قناعت کرنا چاہیے خواہ وہ کتنا ہی حقیر اور قلیل ہو اور حرام کی طرف کسی حال میں بھی ہاتھ نہیں بڑھانا چاہیے خواہ وہ بظاہر کتنا ہی زیادہ اور شاندار ہو۔
اللہ تعالیٰ کا قانون فطرت یہی ہے کہ سود اخلاقی روحانی او ر تمدنی ترقی میں نہ رکاوٹ بنتا ہے۔بلکہ تنزل کا باعث ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اللہ تعالیٰ سود کا مٹھ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشو نمادیتا ہے''
یہ ایک حقیقت ہے کہ سود کا انجام غربت اور زلت ورسوائی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:''سود کی مقدار خواہ کتنی زیادہ ہو آخر یہ غربت اور افلاس کی طرف لے جاتا ہے۔''(مسند امام احمد :1/395)
ان حقائق کے پیش نظر ہمارا یہ موقف ہے۔کہ سودی رقم کو کسی صورت میں نہ وصول کیاجائے۔ سود خوروں کے گھر صاف رکھنے کےلئے اپنے گھر کو اس گندگی سے ملوث کرناکوئی دانشمندانہ بات نہیں۔قرآن وحدیث میں سود کے متعلق کسی قسم کا استثناء نہیں ہے۔اس کے متعلق خود استثنائی صورتیں پیدا کرلینا شریعت سازی ہے۔جس کے ہم مجاز نہیں ہیں۔سود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ہماری زمہ داری یہ بیان کی ہے۔ کہ ہم اسے وصول ہی نہ کریں۔حرام خوروں کے لئے یہ حرام چھوڑ دیا جائے۔
عذر ہائے لنگ
اصل کٹوتی کے ساتھ سودی رقم لینے کے لئے کچھ مجبوریاں اور مصلحتیں بیان کی جاتی ہیں۔جن کا حاصل یہ ہے کہ:
© ملازم کی مرضی کے بغیر ماہ بما ہ تنخواہ سے کٹوتی ہوتی رہی جب یہ کٹوتی شروع ہوئی تھی۔اس وقت روپے کی مالیت اور موجودہ مالیت میں بہت تفاوت ہے لہذا اس نقصان کی تلافی کے لئے سودی رقم لینے میں کیا حرج ہے۔؟
© ملازم کو جی پی فنڈ حاصل کرنے کےلئے دفتری عملے کوکچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔لہذا یہ سودی رقم لے کر دفتری عملے کو دے دی جائے تاکہ'' مال حرام بودجائے حرام رفت'' کا مصداق بن جائے۔
© سودی رقم لے کر خوداستعمال نہ کرے بلکہ ثواب کی نیت کرے بغیر کسی لاچاری یا غیر مسلم کو دے دی جائے بصورت دیگر دفتری عملہ اس رقم کو ہڑپ کرجائے گا۔
© سود وہ ہوتا ہے جو فریقین کی رضا مندی سے طےہو۔اس 'سودی رقم'میں ملازم کو رضا مندی شامل نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ارادہ اختیار کودخل ہے لہذا اس رقم کو اپنے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔وغیرہ۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلامی نظام عدل کے منافی جودھاندلیاں ہم نے سینے سے لگار رکھی ہیں۔وہ''خود ساختہ بہانوں'' کے سہارے لگا رکھی ہیں۔ ورنہ در حقیقت وہ شرعی معذرتیں نہیں ہیں۔ بلکہ عذر ہائے لنگ ہیں۔جسے ہم''خوئے بد رابہانہ بسیار'' سے تعبیر کرسکتے ہیں۔دور حاضر میں''مجبوری''ایک ایسی مکروہ کیفیت کا نام رہ گیا ہے۔ جس کا اسلام میں کوئی قطعا ً وجود نہیں ہے۔وقت اور حالات کو بدلنے کی بجائے ہم نے ایسی معذرتوں سے سازگاری پیداکرلی ہے۔جس کے بعد مجبوری مجبوری نہیں رہتی بلکہ معصیت اور مجرمانہ غفلت بن جاتی ہے۔لہذا ایسی مجبوریوں کے سہارے جو بھی خلاف شرع کام کیا جائے گا۔ اسے شرعی معذرت کے نام پر حلال یاجائز قرار نہیں دیا جاسکتا مجبوریاں ناسازگارحالات اور نامساعد ظروف کا حاصل ہوتی ہیں۔ جو لوگ ناسازگار فضائوں کو بدلنے کےلئے اپنے ہاتھ پائوں مارتے ہیں۔ اسلام میں ایسے افراد کی معذرتوں کو تاتبدیلی حالات قبول کیا جاتا ہے جہاں ایسی بات نہیں ہوتی۔وہاں اسلام ایسی مجبوریوں اور معذرتوں سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ یہ بہانہ سازی کی وہ مکروہ صورت ہے۔جسے اسلام دشمنی سے تعبیر کیا جائےگا۔ ہاں اگر قرآن کی بیان کردہ اضطراری حالت پیدا ہوجائے۔تو سود جیسی خبیث اور پلید چیز کو استعمال کرنے کی گنجائش نکل سکتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''البتہ جو شخص بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر ان(حرام اشیاء ) میں سے کوئی چیز استعمال کرلے بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔''(5/المائدہ :3)
دوسرے مقام پر اس اضطراری اور اس کی حد بندی کی مزید وضاحت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''ہاں جوشخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان(حرام اشیاء) میں سے کوئی چیز کھالےبغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔''(2/البقرہ :173)
ان آیات پر غو ر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام چیز استعمال کرنے کی اجازت چار شرطوں سے دی گئی ہے۔
1۔واقعی مجبوری کی حالت میں مبتلا ہو مثلاً بھوک پیاس سے جان پر بن گئی ہو یا بیماری کی وجہ سے جان خطرے میں ہو اور اس حالت میں حرام چیز کے علاوہ اور کوئی میسر نہ ہو۔
2۔ اللہ کے قانون کو توڑنے کی خواہش دل کے نہاں خانہ میں پوشیدہ نہ ہو۔
3۔ضرورت کی حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔مثلاً تھوڑی مقدار میں حرام چیز سے اگر جان بچ سکتی ہے اس سے زیادہ مقدار استعمال نہ کی جائے۔
4۔حرام کے استعمال سے کسی نافرمانی یا معصیت کے ارتکاب کا ارادہ نہ ہو۔
قرآن کریم میں ایک مقام پر بہانے باز لوگوں کاتذکرہ بایں الفاظ ہوا ہے۔
''جو لوگ اپنے آپ پر ظلم کررہے تھے۔ ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور اور مجبور تھے فرشتوں نے کہا:کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم اور بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔''(4/النساء :97)
اللہ تعالیٰ نے بہانہ ساز لوگوں کی معذرت کوقبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔آج کل ہمارا بھی یہی حال ہے کہ ہم رخصتوں کا دامن تھامنے میں کوئی سستی نہیں کرتے۔لیکن اپنی زمہ داریوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔بلکہ اگر سوئی کے سوراخ جتنی رخصت ہوتو اس سے اونٹ گزارنے کی کوشش کرتے ہیںَ۔العیاذ باللہ۔ایسا کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
اب ان حیلوں اور بہانوں کا جائز ہ لیتے ہیں۔ جو جی پی فنڈ کی سودی رقم لینے کےلئے بطور سند پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن ہم قارئین کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ کہ رزق حلال خیروبرکت سے معمور ہوتا ہے۔جب کہ حرام مال کئی ایک مصیبتوں اور آفتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتاہے۔بعض اوقات حرام کی نحوست حلال مال کو بھی لے ڈوبتی ہے۔اگرچہ سودی رقم ہمارے پیش کردہ دس سالہ گوشوارے کے مطابق اصل کٹوتی سے چار گناہ زائد ہے۔تاہم ایک بندہ مومن کےلئے اس سے کنارہ کش رہنے میں ہی عافیت ہے۔رزق حلال کی برکت اور مال حرام کی نحوست کا اندازہ اس حقیقت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔کہ ایک بکری جو حلال جانور ہے۔اور سال میں ایک یا دو دفعہ بچے جنم دیتی ہے۔جبکہ ہزاروں کی تعداد میں روزانہ ان کو ذبح کیاجاتاہے۔اس کے باوجود باہر میدانوںمیں ان کے ریوڑچرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں کتیا چھ ماہ بعد کئی بچے جنم دیتی ہے۔اورحرام ہونے کی وجہ سے کوئی زبح بھی نہیں کرتا لیکن کتوں کے کبھی میدانی علاقوں میں ریوڑ نظر نہیں آتے۔اب حیلوں کے متعلق گزارشات پیش خدمت ہیں:
© نقد کی مالیت کا اتار چڑھائو ہر دور میں رہا ہے۔ لیکن یہ مادہ پرستانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔کہ اسے بنیاد بناکر سود کو جائز قراردیاجائےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے چچا عباس بن مطلب رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کاسود ختم کیاتھا تو کیا آپ نے اس کی مالیت کے نشیب وفراز کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی تلافی کی تھی؟پھر کیا مالیت کے فرق سے سودی رقم کی اصل کٹوتی سے چارگنا زیادہ ہوسکتی ہے؟
©جب یہ ثابت شدہ حقیقت ہے۔کہ سودی رقم ملازم کی نہیں بلکہ اس کی رقم صرف اصل کٹوتی ہے۔تو پھر کیادفتری عملے کو رشوت دینے کےلئے دوسروں کی دولت پر شبخون مارنا کہاں کی عقلمندی ہے۔اگراپنی رقم کے لینے کےلئے رشوت دینا ضروری ہو تو اس کا کوئی اور حل سوچیں نہ کہ اس مال سے دیں جو آپ کا نہیں ہے۔
©ہمارے نزدیک یہ سودی رقم وصول کرنا ہی جرم ہے۔کیوں کہ صریح نص قرآن کے خلاف ہے۔قرآن کی خلاف ورزی کرکے اسے وصول کرنا پھر ثواب کی نیت کے بغیر کسی کو دینا اسے '' ظلمات بعضها فوق بعض''سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
© جب ملازم جی پی فنڈ کا فارم پرکرتاہے۔تو خانہ نمبر 14 میں اپنی رضامندی کا اظہار نہیں کرتا تو بھی اس رقم کے سود ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔بہرحال اصل کٹوتی کے علاوہ دوسری رقم ہے۔ تو سود جسے کسی صورت میں لینا جائز نہیں ہے۔باقی رہی یہ بات کہ وہ رقم جو ملازم کے کھاتے میں پڑی ہے۔اس کا مصرف کیا ہو؟ اس کی زمہ داری ملازم پرنہیں ہے کہ وہ اس کے متعلق درد سر اپنے زمہ لےوہ خود بخود جہاں سے آئی تھی وہاں پہنچ جائے گی۔آخر بینک میں سروس چارجز ایک کھاتہ ہوتا ہے اس کھاتہ میں جمع شدہ رقم تحلیل ہوے ہوئے ختم ہوجاتی ہے۔
پس چہ باید کرو؟ہمیں مختلف احباب کی طرف سے زمینی حقائق پر نظر رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔اگر اس سے مراد باطل سے سمجھوتا کرناہے۔توایسا کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ تاہم ہمارے نزدیک اس کا حل یہ محکمہ جب اپنے ملازم کا جی پی فنڈ کاکھاتہ بناتا ہے۔تو اسے ایک فارم مہیا کیا جاتاہے۔ اور اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کٹوتی کی جمع شدہ رقم پر سود لیناچاہتا ہے یانہیں؟اگر ملازم لکھوادے کہ میں سود نہیں لیناچاہتا تو اس کی جمع شدہ رقم پر سود نہیں لگایا جاتا۔ اگر اسے کے باوجوداس کی کٹوتی میں سود شامل کردیا گیا ہے۔ تو ایک سادہ کاغذ پر درخواست دے کر اپنی جمع شدہ رقم پر سودی اضافہ ختم کرایا جاسکتا ہے۔ہماری معلومات کے مطابق بعض احباب نےایساکیاہے۔اور انھیں صرف اصل کٹوتی ہی کی رقم ملی ہے۔فارم کاعکس حسب زیل ہے:
قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ خانہ نمبر 14 کے مندرجات کابغور مطالعہ کریں۔حرف آخر جی پی فنڈ کے متعلق ہماری آخری گزارش یہ ہے کہ صرف اپنی اصل کٹوتی پر اکتفا کیاجائے سود وغیرہ لینے کا لالچ نہ کرے کیوں کہ اس کے متعلق قرآن وحدیث میں بہت سخت وعید آئی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے:'' کہ میری اُمت پر ایسا بُراوقت آئے گا۔ کہ لوگ سود کو استعمال کریں گے۔ عرض کیاگیا کہ سب لوگ اس میں مبتلا ہوں گے؟فرمایا:کہ جولوگ سودسے اپنے دامن کو بچانے کی کوشش کریں گے انہیں بھی اس کی غبار ضرور آلودہ کرے گی۔''(مسند امام احمد :2/493)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ سود کو بھی ترک کردو اور جس کے متعلق تمھیں شبہ پڑ جائے اس سے بھی اجتناب کرو۔''(مسند امام احمد :1/36)
اس سلسلے میں ارشادباری تعالیٰ ہے:
''جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لئے سود خوری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا سو کھا چکا اس کامعاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس حکم کے بعد پھر اس حرکت کااعادہ کرے وہ جہنمی ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔''(2/البقرہ:275)
ہم نے قارئین کو اپنے رب کی نصیحت پہنچادی ہے۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔(آمین )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث (شیخ الحدیث مفتی عبد الستار الحماد حفظہ اللہ تعالیٰ )
ج1ص246

محدث فتویٰ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
میرے ان باکس میں پوچھے گئے سوالات اور اس احقر کے جوابات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہُ!
محترم اہل علم حضرات سے کچھ دوستوں کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے جواب درکار ہیں، قرآن و حدیث کی رُو سے جواب دے کر (یا کسی مفتی کی طرف ریفر کرکے) عند اللہ ماجور ہوں۔

1۔ ایک کمپنی اپنے ملازمین کی تنخواہ کا 10 فیصد پراویڈنٹ فنڈ کے طور پر جمع کرتی ہے اور اس میں اتنا ہی (10 فیصد) حصہ اپنی طرف سے ملاکر، یہ رقم کسی کاروبار (؟) میں لگاتی ہے پھر رائج مارکیٹ کے حساب سے جو منافع ملتا ہے (جو یقینا سود ہی ہوتا ہے؟) وہ ملازمین کی جمع شدہ رقم کے تناسب سے ان کے اکاؤنٹ میں جمع کرتی رہتی ہے۔ یہ تمام رقم (اپنی جمع شدہ + کمپنی کی طرف سے ملائی گئی + منافع کے طور پر ملی ہوئی) ملازم کی ملکیت ہے اور وہ اسے اپنی مدت ملازمت کے دوران یا ملازمت ختم ہونے پر حاصل کرسکتا ہے۔

پراویڈنٹ فنڈ جمع کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
کمپنی کی طرف سے ملائی جانے والی رقم کے بارے میں کیا حکم ہے؟
اس تمام سلسلے میں ملنے والے منافع کے بارے میں کیا حکم ہے؟

2۔ ایک کمپنی ملازمین کو سالانہ ایک آفر دیتی ہے جس کے تحت وہ ایک مخصوص رقم سے (جو کہ بعد میں ملازم کی تنخواہ میں سے قسط وار کاٹ لی جاتی ہے) اپنی کمپنی ہی کے شیئرز خرید لیتے، اتنی ہی رقم کے شیئرز کمپنی بھی مفت میں ان میں ملادیتی ہے، اور وہ سب ملازم کی ملکیت ہوجاتے ہیں۔ ایک مخصوص وقت (تقریبا 3 سال) کے بعد ملازم ان شیئرز کو اسٹاک ایکسچینج کے اس وقت کے ریٹ پر بیچ سکتا ہے۔

شیئرز یا اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار کے بارے میں کیا حکم ہے؟
کمپنی کی طرف سے ملنے والے شیئرز کے بارے میں کیا حکم ہے؟
یہ شیئرز (اپنے خریدے ہوئے + کمپنی کی طرف سے ملے ہوئے) بیچ کر ملنے والی رقم (جس میں منافع یا نقصان دونوں ممکن ہیں) کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جزاک اللہ خیرا
1۔ پراویڈنٹ فنڈ کے بارے میں علمائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ علماء اسے جائز قرار دیتے ہیں اور کچھ ناجائز۔ آپ کو جن علماء کی رائے پر اعتماد ہو، ان کے کہے پر عمل کیجئے۔

2۔ شیئرز کا کاروبار تو زیادہ تر علماء کے نزدیک جائز ہے۔ لہٰذا متذکرہ بالا طریقے سے شیئر اور اس کے فوائد کو حاصل کرنا جائز ہی ہے۔

3۔ اس قسم کے ”اختلافی“ معاملات میں آپ کو ”جائز“ کا بھی فتویٰ مل جاتا ہے اور ”ناجائز“ کا بھی۔ اور یہ اختلافات کبھی ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے ۔ لہٰذا اگر آپ میں خود اتنی ”علمی صلاحیت“ نہیں ہے کہ قرآن و سنت سے از خود ”حقیقت“ تک پہنچ سکیں تو آپ کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ ان علماء کی رائے پر عمل کریں جن پر آپ کو ”اعتبار“ ہو۔ میں خود بھی اسی راستہ پر چلتا ہوں کہ عالم و مفتی نہیں ہوں۔

واللہ اعلم بالصواب

جواب میں اضافہ:
  1. کمپنی کی طرف سے ملائی جانے والی پی ایف کی رقم تو بلا اختلاف جائز ہے۔
  2. ملازم کی پی ایف + کمپنی کی طرف سے ملائی جانے والی پی ایف پر مجموعی طور پر جو منافع ملتا ہے، اسی پر اختلاف ہے۔ کچھ علماء اسے جائز کہتے ہیں۔
  3. کمپنی کی طرف سے ملنے والی شیئرز بلا اختلاف جائز ہے۔
  4. اپنے اور کمپنی کے دئے گئے مجموعی شیئر کی فروخت سے حاصل شدہ رقم بلا اختلاف جائز ہے

واللہ اعلم بالصواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جی پی فنڈ کےکے بارے میں سوال
جواب از مفتی محمد رفیق طاہر صاحب


السلام علیکم :
اک کمپنی اپنے ملازمین کو "سی پی فنڈ" کے نام سے اک سہولت دیتی ہے . جس کی شروط درج ذیل ہیں:
1. یہ سہولت تمام ملازمین کے لئے "آپشنل" ہے . اور اسکا مقصد اپنے ملازمین کو سہولت دینا ہے .
2. جو ملازم بھی چاہے وہ اس سہولت سے استفادہ حاصل کر سکتا ہے اور وہ اپنی تنخواہ میں سے کچھ مخصوص حصہ جو کے زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار ہے ، کٹوا سکتا ہے
3. جتنی رقم ملازم نے کٹوائی ہوتی ہے ، اتنی ہی رقم کمپنی اپنی طرف سے ڈال کر بینک کے کسی کاروباری کام میں خرچ کرتی ہے . اب ملازم کو جب یہ رقم واپس دی جاۓ گی تو اس میں ایک تو وہ رقم تھی جو ملازم نے کٹوائی اور جو اتنی ہی رقم کمپنی نے اپنی طرف سےڈالی وہ بھی ملازم ہی کو ملے گی. اور ملازم اگر چاہے تو جو بینک کے کاروبار سے منافع ہوا ہے اس میں سے بھی اپنا حصہ لے سکتا ہے اور اس کے اوپر سود بھی ..!!! لیکن یہ منافع اور سود اسکی مرضی پر ہے کہ وہ معاہدے سے نکلوا بھی سکتا ہے، معاہدے کے اندر اسکو نکالنے کی سہولت موجود ہے.
4. کمپنی اس فنڈ کی سہولت سے فائدہ اٹھانے والے ملازمین سے یہ معاہدہ لکھواتی ہے کہ سروس کے دوران سی پی فنڈ کے لئے کٹوائی گئی رقم ملازمت پوری ہونے پر پوری نکلوا سکتا ہے . اوراگر ملازمت کے دورانجمع شدہ رقم سے استفادہ حاصل کرنا چاہے تو اس معاہدے کے تین سال بعد ٹوٹل رقم جو شق #3 کے تحت بنے گی اسکا 80 %بطور قرض نکلوا سکتا ہے جو کے بعد میں طے شدہ اوسط کے ساتھ ہر ماہ واپس لیے جاتے ہیں .
سوال یہ ہے کہ اس شرط کے ساتھ کہ بینک کے کاروبار سے کمایا گیا منافع اور سود نہ لیا جاۓ ،اور صرف ملازم کی اپنی اصل رقم اور اس کے ساتھ اتنی ہی کمپنی کی طرف سے دی گی رقم لینا جائز ہے ؟؟؟ قرآن و حدیث کے دلائل کے ساتھ تفصیلی فتویٰ دیں .اور حلال و حرام کی تمام صورتیں بھی بیان کر دیں ..انشا الله کمپنی کے تمام ملازمین تک یہ فتویٰ پہنچایا جاۓ گا..!!!
جزاک الله
الجواب:

جی پی فنڈ میں جتنی رقم کی کٹوتی کی گئی ہے اتنی ہی رقم وصول کی جاسکتی ہے ۔ اس پر سود وصول کرنا حرام ہے ۔
کمپنی کی طرف سے دی گئی اضافی رقم کو بونس کا نام دیا جاتا ہے ۔ عام طور پر حکومتی اداروں میں کٹوتی پر تیس فیصد بونس دیا جاتا ہے اور پندرہ سے بیس فیصد تک اس پر سود لگتا ہے ۔ اور پھر آئند ہ سال کٹوتی + سود+ بونس پر پھر سود لگتا ہے اور اسی کے تیس فیصد پر بونس دیا جاتا ہے ۔ یعنی یہ بونس بھی سودِمرکب ہی بن جاتا ہے ۔ اگر تو ایسی ہی صورت ہے تو ایسا بونس لینا بھی درست نہیں ۔ اور اگر ملازم کے تنخواہ سے جتنی رقم کاٹی گئی اتنا ہی بونس ہو یعنی اس میں سود شامل نہ ہو تو اس میں حرج نہیں ۔
سود کی حرمت کے تمام تر دلائل اس سودِمرکب کے حرام ہونے پر بھی دلالت کرتے ہیں ۔
ہاں
جب اسے سود سے بچا لیا جائے اور جتنی رقم کی کٹوتی کی گئی ہے اتنی ہی وصول کی جائے تو اسکے مباح اور حلال ہونے میں کوئی شک نہیں ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
پاکستان کے سرکاری اداروں اور غیر سرکاری اداروں میں پی ایف کا نظام قدرے جداجدا ہے۔
  1. سرکاری اداروں میں ماہانہ تنخواہ میں سے کچھ رقم اس فنڈ کی مد میں کاٹی جاتی ہے اور سال بھر کے بعد جمع شدہ رقم پر سالانہ منافع یا سود دیا جاتا ہے۔ یہ منافع یا سود بالعموم اس سال کے سرکاری یا بنک کے سود ریٹ کے مساوی ہوتا ہے۔ حکومت یہ منافع اس فنڈ کی مد میں جمع ہونے والی رقم کو کاروبار میں لگا کر یا کہیں انوسٹ کرکے حاصل شدہ منافع میں سے دیتی ہے۔
  2. نجی اداروں میں (عموماً) ہر ماہ ملازم کی ماہانہ تنخواہ میں سے دس فیصد کٹوتی کی جاتی ہے۔ آجر اسی کٹوتی کے برابر رقم اپنی طرف سے ملازم کے اس فنڈ میں ڈونیٹ کرتا ہے ۔ پھر آجر ان دونوں رقوم کو کہیں انوسٹ کرتا ہے جہاں سے اسے جو منافع ملتا ہے وہ بھی ملازم کے پی ایف فنڈ میں جمع ہوجاتا ہے۔
  3. بعض نجی ادارے اپنی کمپنی کے شیئرز بھی اپنے ملازمین کو دیتے ہیں۔ شیئرز کی خریداری کے لئے وہ ملازم کو مطلوبہ رقم غیر سودی قرضہ کے طور پر دیتے ہیں جو ماہانہ اقساط کی صورت میں واپس لی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ملازم جتنے شیئرز خریدتا ہے، اسی کے مساوہ شیئرز کمپنی ملازم کو بطور تحفہ دیتی ہے۔ یہ دونوں شیئرز کمپنی کے پاس ہی رہتے ہیں۔ ملازم جب چاہے یہ شیئرز مارکیٹ ریٹ پر فروخت کرسکتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عموماً شیئرز کی مارکیٹ ریٹ بڑھتی ہی رہتی ہے۔ لیکن کم ہونے کا امکان بھی رہتا ہے
پس نوشت: اس احقر کو سرکاری و غیر سرکاری دونوں اقسام کے اداروں میں ملازمت کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ بطور سرکاری افسر چودہ برس تک خدمات انجام دینے کے بعد جب سرکاری ادارے کو چھوڑا تو جملہ جی پی فنڈ بھی وہیں چھوڑ آیا تھا۔ تاہم اس کے علاوہ مختلف نجی اداروں میں ملازمت کے دوران پروویڈنٹ سے ”استفادہ“ کرتا رہا ہوں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ابھی ابھی اکاؤنٹینٹ جنرل سندھ کے دفتر میں ایک افسر سے بات ہوئی جو جنرل پروویڈنٹ فنڈز ہی سے متعلق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ :
  1. ہر ماہ ملازم کی تنخواہ سے اس فنڈ کے لئے 7٪ کٹوتی کی جاتی ہے۔ اور سال بھر کی مجموعی کٹوتی پر اُس سال کی سرکاری ریٹ کے مطابق سود ادا کیا جاتا ہے۔
  2. ملازم اگر چاہے تو یہ لکھ کر دے سکتا ہے کہ میرے فنڈ میں سود شامل نہ کیا جائے۔
  3. واضح رہے کہ پاکستان کے بہت سے علماء نے اس سرکاری جی پی فنڈز بمع منافع یاسود کو جائز قرار دیا ہے ۔ روزنامہ جنگ، اخبار جہاں، امت وغیرہ جیسے عوامی پلیٹ فارم سے بار بار جی پی فنڈز کو جائز قرار دینے کے فتاویٰ شائع ہوتے رہے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
واضح رہے جن علمائے کرام نے جی پی فنڈز کو جائز قرار دیا ہے، وہ بھی سود کو حرام ہی سمجھتے ہیں۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ جی پی فنڈز کے مروجہ سسٹم میں ”سود“ شامل نہیں ہے ۔ جبکہ دوسرے گروپ کا اصرار ہے کہ اس میں سود شامل ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
جی پی فنڈ کی شرعی حیثیت


مفتی مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ​


جی پی فنڈ سے مراد وہ رقم ہے جو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے حکومت ہر ماہ کاٹتی ہے پھر ان کی ریٹائرمنٹ پر مع اضافہ انہیں دے دیتی ہے۔قرآن وسنت کی روسے زائد وصول شدہ رقم سود ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ۔فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ۔

’’اے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ پھر اگر تم نے یہ نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کا اعلان سن لو اور اگر توبہ کر لو تو تمھارے لیے تمھارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘(البقرہ:278۔279)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اصل مال لینے کا حکم فرمایا ہے اور زائد رقم کی وصولی سے روک دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ سودی رقم لینا ایمان کے منافی ہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺکے ساتھ جنگ کے مترادف ہے۔اسی طرح احادیث میں سود لینے والے پر لعنت مذکور ہے۔لہذا ملازم آدمی صرف اپنی اصل رقم جو اس کی کاٹی جاتی ہے وہی وصول کرسکتا ہے زائد رقم اگر لیتا ہے تو وہ اس کا مالک نہیں۔وہ یقیناً سود کھا کر لعنت کا مستحق بنتا ہے اور یہ بات حکومتی طبقہ جانتا ہے کہ جی پی فنڈ میں جو زائد رقم دی جاتی ہے وہ سود ہے جیسا کہ گورنمنٹ اکاونٹ میں جو فارم ملتا ہے اس کے خانہ نمبر14میں یہ بات درج ہے کہ’’کیا ملازم اپنی جمع شدہ رقم پر سود کا خواہش مند ہے یا نہیں؟‘‘اگر ملازم لکھ دے کہ میں سود وصول نہیں کروں گا تو اس کی جمع شدہ رقم کو سود کی آلائش وامیزش سے پاک رکھا جاتا ہے۔اس لیے تمام ملازمین کو اس رقم کی وصول سے اجتناب کرنا چاہیے۔


ربانی،مفتی مبشراحمد،احکام ومسائل کتاب وسنت کی روشنی میں،(نظر ثانی:عبدالسلام بن محمد)لاہور،دارالاندلس،ص432
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جی پی فنڈ کے حوالے سے علما اہل حدیث کے ایک مجموعہ میں بحث و مباحثہ ہوا، فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی صاحب اس کے جواز کے قائل تھے۔
ڈاکٹر حسن مدنی صاحب کا رحجان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الستار حماد صاحب کا فتوی اوپر گزر چکا، وہ اسے سود ہی سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر حسن صاحب کی آخری تحریر بطور فائدہ یہاں نقل کی جاتی ہے:
’’السلام علیکم
دو روز سے جاری جی پی فنڈ، بینوولٹ فنڈ اور پنشن وغیرہ کی بحث کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ
جی پی فنڈ میں سود کا ہونا کوئی منصوص مسئلہ نہیں، یہ نبی کریم کا فتویٰ نہیں بلکہ معروف مفتیان کرام کی اجتہادی رائے ہے کہ وہ اس مسئلہ کو کس شرعی پہلو سے دیکھتے ہیں۔
جبکہ اس کے مقابل دوسری رائے بھی شرعی دلائل کی بنا پر موجود ہے کہ جبری جی پی فنڈ وغیرہ کو سرے سے سود نہ سمجھا جائے اور اس پر بھی بہت سے فتاوی موجود ہیں۔
عامی شخص، اجتہادی مسائل میں مفتی صاحب کی شخصیت کی بنا پر اور دلائل شرعیہ کو سمجھنے والا طالب علم، دلائل کے وزن کی بنا پر کسی بھی رائے کو اختیار کرلے تو اس کو مطعون نہیں کیا جاسکتا۔
ہذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
اس علماء کے مجموعہ کا مقصد ہی علمی مکالمہ و تنقیح ہے، الحمد للہ
میں نے والد گرامی حفظہ اللہ سے بھی کئی روز قبل یہ سارے مسائل پیش کئے تھے، وہ ابھی تک متوقف ہیں۔ جوں ہی کوئی نئی رہنمائی ملی تو یہاں بھی پیش کروں گا۔ ان شاء اللہ‘‘
’’یوں تو استاذ گرامی کی ہدایت کے تحت میں اس کو طول نہیں دینا چاہتا، تاہم آپ کے اعتراض کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ
جہاں اختیار کی آپشن موجود نہیں، صرف قبول کرنے کا جبر ہے تو وہاں سود کا بھی کوئی امکان نہیں، اور میں نے اوپر کی تحریر جبری جی پی فنڈ کے بارے میں ہی لکھی ہے، اختیاری میں تفصیل ہے اور اس میں احتیاط یہی ہے کہ بچا جائے۔‘‘
 
Top