کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
حیات امام محمدناصر الدین البانی رحمہ اللہ علیہ
حیاۃ الالبانی رحمہ اللہ۔ 56/57
اقتباس:ماھنامہ مجلہ صراط المستقیم،برمنگھم
کمپوزنگ: عتیق الرحمن لندن
نسب نامہاقتباس:ماھنامہ مجلہ صراط المستقیم،برمنگھم
کمپوزنگ: عتیق الرحمن لندن
محمد ناصر الدین البانی بن نوح بن آدم بن نجاتی الالبانی-
تاریخ پیدائش
شیخ فرماتے ہیں میرے پاس کوئی معتمدبہ تاریخ پیدائش موجود نہیں ہے سوائے اس کے جو میرے پاس پاسپورٹ یا شناختی کارڈ میں تحریر ہے، جس کے اعتبار سے تاریخ ولادت 1914ء ہے- (موافق 1332ھ-)
جائے پیدائش
آپ کی جائے پیدائش اشقورہ ہے جو اس وقت البانیا کی راجدھانی تھی، جسے بعد میں احمد زوغو نے اپنے دور حکومت میں "تیرنا" منتقل کردیا-
شام کی طرف ہجرت
احمد زوغو جب مسند حکومت پر برا جمان ہوا تو اس نے عوام پر خود ساختہ مغربی قوانین نافذ کرنا شروع کردیا، فوج و پولیس پر ہیٹ لگانا ضروری قرار دیدیا گیا، حجاب کے سلسلے میں عورتوں کو پریشان کیا جانے لگا، تو میرے والد نے شام بالخصوص دمشق کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا- میرے والد شام اور خاص طور سے دمشق کی فضیلت کے بارے میں وارد احادیث کا مطالعہ کیا کرتے تھے اور جیسا کہ ہم کو معلوم ہے کہ ان احادیث میں بعض صحیح، بعض حسن اور بعض ضعیف کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہیں، لیکن بالعموم شام اور دمشق کی فضیلت میں وارد احادیث کا عمومی نقطہ نظر صحیح ہے، ہجرت کے وقت میری عمر 9 سال تھی اور میں عربی زبان بالکل نہیں جانتا تھا-
تعلیم کی ابتداء
شیخ کہتے ہیں کہ دمشق جانے بعد میں نے ایک پرائیویٹ مدرسہ میں داخلہ لے لیا، جس کا نام "جمعیۃ الاسعاف الخیری" تھا، اور تعلیم شروع کردی، عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے میں نے پرائمری کا پہلا اور دوسرا سال ایک سال میں ہی ختم کردیا اور 6 سال کا کورس 4 سال میں ہی مکمل کرکے پرائمری کی سرٹیفکیٹ لے لی- اور لگتا ہے اللہ تعالی نے شروع ہی سے میرے اندر عربی زبان کی محبت پیدا کردی تھی، جس کی وجہ سے بفصل اللہ میں شامی ساتھیوں پر عربی وغیرہ کے مضامین میں ہمیشہ ممتاز رہا، اور مجھے یاد آتا ہے کہ نحو کے استاذ کوئی جملہ یا شعر بلیک بورڈ پر لکھ کر طلبہ سے اس کی ترکیب پوجھتے مگر جب وہ نہیں جواب دے پاتے تو مجھے کلاس کے بیچ سے اٹھا کر کہتے" کہ اے ارناؤوطی تم اس جملے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟" (سربیا، بوسنیا اور البانیا وغیرہ سے ہجرت کرکے بلاد عریبہ میں آنے والوں کو ارناؤوطی کہا جاتا تھا)- اور جب میں پہلی ہی کوشش میں صحیح جواب دے دیتا تو وہ شامی عرب طلبہ کو کوستے تھے کہ عرب ہوکر جواب دینے سے قاصر رہے اور یہ ارناؤوطی ہوکر صحیح جواب دے گیا-
وہاں سے تعلیم چھوڑنے کی بعد میرے والد نے فیصلہ کیا کہ میں بیک وقت مشائخ سے سے پڑھا کروں اور کام بھی کیا کروں، چنانچہ میں نے والد صاحب سے قرآن تجوید کے ساتھ پڑھا اور اور فقہ حنفی اور صرف بھی انہیں سے پڑھی۔ شیخ سعید برہانی سے بھی فقہ حنفی، بلاغت، نحو، اور خاص طور پر نور الایضاح کی شرح مراقی الایضاح پڑھی- چنانچہ میں ان لوگوں سے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ماموں اسماعیل اور ایک دوسرے شامی آدمی ابو محمد کے ساتھ کارپینٹر (بڑھئی) کا کام کیا کرتا تھا- جو 2 سال تک جاری رہا- اور میرا کام یہ تھا کہ میں بارش اور برف باری سے متاثرہ لکڑی اور اینٹ سے بنے ہوئے بوسیدہ گھروں کی مرمت کیا کرتا تھا- ایک دن بارش کی وجہ سے میں کام پر نہیں گیا اور والد صاحب کے پاس چلا گیا جوگھڑی سازی کا کام کیا کرتے تھے، انہوں نے مجھے دیکھ کر پوچھا کیا کام نہیں ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، پھر پوچھا: کیا خیال ہے میرے ساتھ کام کرو گے، کیونکہ کارپینٹر کا کام مناسب نہیں ہے؟ میں نے کہا: جیسے آپ کی رائے، پھر انہوں نے مجھے کمائی کرنے کے لیے اپنی دکان میں بلالیا-شیخ کہتے ہیں: میں نے تعلیم مکمل نہیں کی کیونکہ میرے والد صاحب مجھے مدارس ناظمیہ میں پڑھانے کے قائل نہیں تھے، اس لیے کہ ان میں تعلیم نہیں ہوتی تھی، اور ان کی رائے بھی صحیح تھی- میرا خیال اور مشاہدہ ہے کہ اگر میں ان جیسے مدارس میں پڑھتا تو آج میں جوہوں وہ شاید نہیں ہوتا- کیونکہ یہ مدارس علماء پیدا نہیں کرتے ہیں البتہ چاہنے والوں کے لیے بحث و تحقیق کے راستے کھولتے ہیں- لیکن ان مدارس کے فارغین کے اندر ایسے طلبہ بہت کم پائے جاتے ہیں-
علمِ حدیث کا شوق
شیخ کہتے ہیں کہ الحمد اللہ میں نے شروع ہی سے مذهبی ماحول میں آنکھیں کھولیں تھیں، میرے والد صاحب حنفی مذھب کے سلسلے میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے، گھر ميں پڑھنے لکھنے کا ماحول ہونے کی وجہ سے مجھے کتابوں کے مطالعہ کا اتنا شدید شوق ہوگیا تھا کہ میں قصے کہانیوں کی کتابوں کو پڑھا کرتا تھا- میں الف لیلہ، عنتر بن شداد، صلاح الدین ایوبی، ذات الھمۃ والابطال، جیسی کتابوں کا مطالعہ کیا کرتا تھا،
پھر اللہ کے فضل و کرم سے جب والد صاحب کے ساتھ کام کرنے لگا تو اچھا خاصہ وقت مل جایا کرتا تھا اور بعد میں والد صاحب سے اجازت لے کر مسجد اموی چلا جایا کرتا تھا، تاکہ بعض دروس کے حلقوں میں شریک ہوجایا کروں، اسی اثنا میں اللہ تعالی نے میری ملاقات ایک بوڑھے مصری سے کرادی جو بعض بوسیدہ کتابوں کو خریدتا اور انہیں مسجد اموی کے مغربی دروازے کے سامنے اپنی چھوٹی سی دکان میں رکھا کرتا تھا، اس سے ناول کی کتابوں کو کرائے پر لیتا، انہیں پڑھتا اور واپس کردیا کوتا تھا-جن کے بارے میں بظاہر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مطالعہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ کتابیں قاری پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں، لیکن بعد میں ان کتابوں کے مطالعے کا مثبت اثر میری زبان اور بول چال میں ہوا-
شیخ کہتے ہیں کہ اسی زمانے میں مجھے ایک دن اس بوڑھے کے پاس مجلہ المنار کے بعض شمارے ملے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اس میں شیخ رشید رضا کا ایک مضمون پڑھا جس میں انہوں نے امام غزالی کی" احیاء العلوم" کا تنقیدی جائزہ لیا تھا- اور انہوں نے اپنے مضمون میں زین الدین عراقی کی کتاب" المغني عن حمل الاسفار في تخریج ما فی الاحیاء من الاخبار، کی طرف اشارہ کیا تھا- مجھے اس کتاب کے دیکھنے کی شدید خواہش ہوئی، چنانچہ میں بازاروں میں جاکے پاگلوں کی طرح اس کتاب کی تلاش میں لگ گیا-
اور اس کتاب کے لکھنے کے وقت مجھے خیال آیا کہ میں اپنے والد کی کتابوں سے غریب الحدیث کے سلسلے میں استفادہ کروں، کیونکہ میں تو عجمی تھا اور بعض الفاظ کا مطلب نہیں سمجھ پاتا تھا، چنانچہ میں نے اس کام سے کافی استفادہ کیا-یہاں تک کہ کتاب مجھے ایک آدمی کے پاس مل گئی، لیکن اس وقت غربت کا یہ عالم تھا کہ اس کتاب کو خرید نہیں سکتا تھا، لیکن میں نے کتاب کے مالک سے یہ بات کی کہ میں کتاب کو کرائے پر لے کر پڑھ لوں؟ اور جب وہ راضی ہوگیا تو میں مارے خوشی کے اڑ رہا تھا، جلدی جلدی میں دکان میں گیا- جب میرے والد دکان میں نہیں ہوتے تو اس کتاب کے ساتھ لگا رہتا، اور پھر میں نے ایک کاغذ خریدا اور پوری کتاب نوٹ کرڈالی- یہ کتاب آج بھی میرے مخطوطات میں موجود ہے
بدعت کی تردید
شیخ فرماتے ہیں: میرے والد چونکہ متعصب حنفی تھے، جس کی وجہ سے گفتگو اور بحث کے دوران مجھ سے کہتے تھے، " علم الحدیث صنعۃ المفالیس" (علم حدیث پڑھنا مفلسوں کا کام ہے) اس کے باوجود علم حدیث کا مطالعہ کرتے رہنے کے بعد اس زمانے میں رائج بعض بدعتوں کا علم ہوا۔
چنانچہ میں نے مناسب سمجھا اپنی رائے اور تحقیق کو والد اور شیخ برہانی کے سامنے پیش کروں اور ایک دن میں نے ظہر کی نماز کے بعد شیخ برہانی سے یہ بات ذکر کی کہ مسحد بنی امیہ میں نماز جائز نہیں ہے، تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس موضوع کے بارے میں جو تم نے تحقیق کی ہے وہ مجھے لکھ کر دکھاؤ، چنانچہ میں نے تین چار صفحات میں لکھ کر انہیں اپنی تحقیق دی۔ انہوں نے کہا میں عید کے بعد اس کا جواب دوں گا (کیونکہ رمضان کا مہینہ چل رہا تھا) اور جب میں عید کے بعد ان کے پاس گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ ساری چيزیں جن کا ذکر تم نے اپنے مضمون میں کیا ہے ان کی کوئی اصل نہیں ہے، مجھے بڑا تعجب ہوا، میں نے پوچھا: کیوں؟ کہا کہ وہ تمام کتابیں جن کا حوالہ تم نے دیا ہے، ہمارے ہاں معتمد نہیں ہیں-مثلا حاشیہ ابن عابدین میں سفیان ثوری سے ایک روایت منقول ہے: " الصلاۃ فی مسجد بنی امیة بسبعین الف صلاۃ" ( کہ مسجد بنی امیہ کی فضیلت یہ ہے کہ اس میں ایک نماز کا ثواب 70 هزار نمازوں کے برابر ہے ( اس حدیث کی نسبت تاریخ ابن عساکر کی طرف کی گئی ہے- میں نے تلاش کیا تو تاریخ ابن عساکر میں مجھے یہ روایت ملی جس کی سند میں ظلمات ہی ظلمات ہیں- مجھے بڑا تعجب ہوا کہ یہ فقہاء حضرات کیسے اس ضعیف تر اثر کی روایت کرتے ہیں- مجھے تاریخ ابن عساکر میں یہ بھی ملا کہ یحی علیہ السلام کی قبر مسجد بنی امیہ میں موجود ہے، بحث و تحقیق کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مسجد بنی امیہ میں نماز جائز نہیں ہے۔
شیخ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ ان کی اس بات کا کیا مطلب ہے، لیکن میں نے اپنے مضمون میں انہیں کے مذهب حنفی کی چند کتابوں مثلا ملا علی قاری کی کتاب مرقاۃ المفاتیح شرح مشکواۃ المصابیح کا حوالہ دیا تھا جو کہ ایک حنفی عالم ہیں اور ایسے ہی بعض نصوص کا ذکر کیا تھا- واضح ہو کہ جو نقطۃ نظر شیخ برہانی کا تھا وہی نظریہ میرے والد صاحب کا بھی تھا-
بدعت کی تردید میں کتاب کی تالیف
شیخ کہتے ہیں: اس کے بعد میں نے اپنی کتاب تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد لکھی اور اپنے قول و فعل میں مطابقت رکھنے کے واسطے مین نے مسجد بنی امیہ میں نماز نہ پڑھنے کا فیصلہ کیا- اور جب والد صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اپنے دل میں یہ بات رکھ لی اور ایک بار پھر جب 'دوسری جماعت" کا مسئلہ درپیش ہوا تو میں نے پوری قوم کی مخالفت کی، کیونکہ مسجد بنی امیہ میں دو جماعتیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک حنفی امام کی اور ایک شافعی امام کی- حنفی جماعت کی امامت شیخ برہانی کرتے تھے اور جب وہ نہیں رہتے تو میرے والد صاحب ان کی نیابت کرتے تھے، لیکن میں اپنے والد کے پیچھے دوسری جماعت سے نہیں پڑھا کرتا تھا-
نئی جگہ میں میں نے اپنا فکری اور عملی کام آزادی سے جاری رکھا، ہم بعض دوستوں کے گھر بھی درس قائم کیا کرتے تھے اور جب ہماری دعوت کا حلقہ وسیع ہوگیا تو ہم نے باقاعدہ حدیث اور فقہ کا بھی درس شروع کردیا- میرے والد کبھی کبھی میرے پاس آتے اور بات جیت کرکے چلے جاتے، ایک دن آئے اور مجھ سے کہا: " انا لا انکر اننی استفدت منک" (میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ میں نے تم سے استفادہ کیا ہے)- شیخ نے کہا ہمارے اور ان کے درمیان جو کچھ ہوا شاید یہ اس کا کفارہ ہو-میرے حاسدین نے میرے والد صاحب کو میرے خلاف بھڑکایا اور ایک دن، رات کے کھانے پر والد صاحب نے مجھ سے فصیح عربی میں کہا: اما الموافقۃ واما المفارقۃ، کہ یا تو تم ہماری بات سے اتفاق کرو گے یا پھر تم گھر چھوڑ کر چلے جاؤ گے- شیخ کہتے ہیں: جب والد صاحب نے یہ بات کہی تو میں نے ان سے 3 دن کی مہلت مانگی، غور و فکر کرنے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ میں گھر چھوڑ کر جارہا ہوں تاکہ میری مخالفت سے آپ کو پریشانی نہ ہو- چنانچہ میں گھر سے اس حالت میں نکلا کہ میرے پاس ایک بھی دینار نہیں تھا – مجھے یاد ہے کہ جب میں جارہا تھا تو والد صاحب نے مجھے صرف 25 لیرہ دیا تھا، پھر میں نے ایک صاحب سے 200 لیرہ قرض لیا اور ایک دکان کرایہ پر لی اور الگ کام کرنے لگا- اسی زمانے میں میں نے" الروض النضیر فی ترتیب و تخریج الطبرانی الصغیر" لکھی، میری عمر اس وقت 22 سال تھی-
تحصیل علم کے لیے سائیکل کی سواری
شیخ کہتے ہیں کہ: مجھے ایک سستی زمین ملی اور میں نے خرید لی، وہاں پر گھر بھی بنایا، اور وہیں پر اپنی دکان بھی کھول دی لیکن جب اپنے نئے گھر میں گیا تو مکتبہ ظاہریہ میرے گھر سے کافی دور پڑنے لگا، جہاں میرا آنا جانا برابر رہتا تھا، مکتبہ کھلنے سے قبل ایک دو گھنٹہ دکان میں کام کرتا اور پھر مکتبہ چلا جاتا- لیکن وقت بچانے کی خاطر میں نے ایک سائیکل خرید لی جس پر سوار ہوکر میں مکتبہ ظاہریہ جایا کرتا تھا ( اس زمانے میں شام میں سائیکل سواری اچھی بات نہیں مانی جاتی تھی) چنانچہ دمشقیوں نے پہلی بار دیکھا کہ کوئی صاحب عمامہ شیخ سائیکل پر سوار ہوکر آتا جاتا ہے انہیں اس واقعہ سے بڑا تعجب ہوا، اس وقت ایک مزاحیہ میگزین نکلتا تھا جس کا نام" المضحک المبکی" (ہنسانے رلانے والا) جسے ایک عیسائی آدمی شائع کرتا تھا، چنانچہ اس نے اپنے مزاحیہ کالم میں اس کا ذکر کیا، لیکن میں نے ان سب چيزوں کی پرواہ نہیں کی، کیونکہ مجھے تو اپنا وقت بچانے اور اس سے استفادہ سے مطلب تھا-
مکتبہ ظاہریہ میں ایک ورق کی تلاش
شیخ کہتے ہیں: ایک دن میری آنکھ میں درد محسوس ہوا، میں نے ڈاکٹروں کو دکھایا، اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کام کرتے ہو؟ میں نے کہا: میں گھڑی ساز ہوں اور کتابوں کا بہت مطالعہ کرتا ہوں، چنانچہ اس نے مجھے علاج کے ساتھ 6 مهینوں تک ان سب چيزوں سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا، میں دکان میں لوٹ آیا، 2 هفتوں تک میں نے کام کیا اور نہ ہی پڑھائی لکھائی- ایک دن میرے دل میں خیال آيا کہ مکتبہ ظاہریہ میں بہت سارے رسالے ہیں، جن میں سے ایک رسالہ ابن ابی الدنیا کا ذم الملاھی بھی ہے- میں نے خطاط سے کہا کہ وہ میرے لیے اس رسالے کی خطاطی کردے- اس کے بعد جب میں مکتبہ آیا تو معلوم ہوا کہ اس کا ایک ورق غائب ہے، پھر بھی میں نے اس خطاط کو کتابت جاری رکھنے کو کہا اور جب مجھے یہ یقین ہوگیا کہ ایک ہی ورق غائب ہے تو میں نے اس کی تلاش کرنے کا پورا فیصلہ کرلیا، مکتبہ میں اس ورق کی تلاش کے دوراں مجھے بڑا علمی فائدہ ہوا، میری ہمت بڑھ گئی، یہاں تک کہ میں نے 500 سے زائد مجلات کو دیکھ ڈالا- سیڑھی پر چڑھ کر اوپر کی الماریوں کی ایک ایک جلد اور ایک ایک کتاب میں ڈھونڈتا- مطالعہ اور تلاش کے دوران مجھے جو کچھ مفید معلومات ملتیں، نوٹ کرتا جاتا- اس کام سے مجھے بہت فائدہ ہوا، بہت سارے مسائل کا علم ہوا اور بڑی ہمت افزائی بھی ہوئی-
ایک زمانے کے بعد شیخ حمدی عبدالمجید سلفی نے )جو شیخ کے شاگردوں میں سے ہیں) میرے دریافت کردہ اس نسخہ کی اساس پر اس کتاب کی تحقیق کی، جسے مؤسستہ الرسالہ نے شائع کیا، جہاں شیخ شعیب ارناؤط کام کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد میں نے ان کتابوں (جن کا نام میں نے اس ایک ورق کی تلاش کے وقت لکھا تھا (پر نظر ثانی کی، نئے سرے سے کارڈوں پر لکھا اور مؤلفین کے ناموں پر انہیں حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا اور اس سے مکتبہ ظاہریہ کے مخطوطات کی فہرست وجود میں آئی- پھر اس کا دوسرامرحلہ آیا اور یہی اس کوشش کا بابرکت ثمرہ ہے کہ میں نے ان مخطوطات کو پرھنا شروع کیا، ان سے حدیثی فوائد کا استخراج کیا اور حروف تہجی کے اعتبار سے ان کو مرتب کیا- گم شدہ ورق کی یہ مختصر کہانی ہے۔ ( شیخ ابو الحسن "جو شیخ البانی کے شاگردوں میں سے ہیں" کہتے ہیں کہ شیخ علی حسن اثری نے ان کو بتايا کہ ایک تحقیق کرنے والے کو وہی ورق ترکی کے کسی مکتبہ سے ملا، جسے اس نے ایک ميگزين میں شائع کیا، پھر شیخ البانی رحمہ اللہ علیہ کو مضمون سنایا گیا تو شیخ کو بڑی خوشی ہوئی، کیونکہ مکتبہ ظاہریہ میں اس ورق کے تلاش میں شیخ کو یقین ہوگیا تھا کہ یہ ورق مکتبہ میں نہیں ہے، اور پھر اس ورق میں موجود علمی مواد سے واقفیت آپ کی خوشی کا سبب بنا، ابو اسماء کہتے ہیں، شیخ علی حسن اثری نے یہ بات مجھے بھی بتائی)۔لائبریری میں پھٹے پرانے اور بوسیدہ اوراق کا ایک گوشہ تھا، جہاں گرد و غبار کی وجہ سے کوئی نہیں جاتا تھا- میں نے مکتبہ کے ذمہ دار سے کہا کہ مجھے وہاں بھی اس ورق کی تلاش کی اجازت دے دے، شاید اللہ کو منظور ہو تو مل جائے، میں نے وہاں تلاش شروع کی تو قضائی کی "مسند الشہاب" کا مغربی نسخہ ملا، میں نے اس سے مسند الشہاب کے مکتبہ ظاہریہ والے پہلے مخطوطہ کی تکمیل کرلی اور مجھے بہت خوشی ہوئی، میں لائبریرین کے پاس اس نسخہ کو لے گیا مگر اس نے اس علم سے عدم جانکاری کی وجہ سے اس نفیس نسخہ پر توجہ نہیں کی-
مکتبه ظاہریہ میں شیخ کے لیے خصوصی کمرہ
ابو اسماء کہتے ہیں: اسلامی ملکوں میں لائبریریوں کے اپنے اپنے ضوابط اور قوانین ہوتے ہیں، جن کی حدود میں ہی رہ کر وہ طلباء اور زائرین کے ساتھ معاملات کرتے ہیں- پھر مکتبہ ظاہریہ والوں نے ایک کمرہ کیسے خاص کردیا، اس کی کنجی شیخ کو کیسے ملی؟ وہ کسی بھی وقت مکتبہ میں داخل ہوسکتے تھے، ان سب کے اسباب شیخ البانی یوں بیان کرتے ہیں:
مخطوطات اور کتابوں سے بھر جاتا تھا، یہاں تک کہ کسی اور کے لیےجگہ نہیں رہتی، اس سے ظاہر ہے کہ دوسرے طلبہ کو اعتراض ہوتا ہوگا، خاص کر امتحانوں کے دنوں میں، جس کی وجہ سے مکتبہ کے ذمہ داروں نے سیڑھی کے نیچے ایک تاریک کمرہ تھا، جس کو کسی لائق نہیں سمجھا جاتا تھا، میرے ليے خاص کردیا اور میری ضرورت کے مخطوطات اور کتابیں وہاں رکھ دی گئيں تاکہ اس سے دوسروں کو پریشانی نہ ہو۔اولا میری محنت، لگن اور سرگرمیوں کا اس میں کافی دخل ہے، کیونکہ میں مکتبہ میں بیٹھتا تھا اور وہاں کے ملازم سے کہتا تھا کہ فلاں فلاں مخطوطہ مجھے دے دے، یہاں تک کہ میری میز پر بہت سارے مخطوطات جمع ہوجاتے تھے اور وہ میز جہاں 4 شخص بیٹھ سکتے تھے،
دوسرا یہ کہ شام یونیورسٹی کی کلیۃ الشریعہ نے علوم حدیث میں ایک انسائیکلوپیڈیا تیار کرنے کا فیصلہ کیا تو مجھےیہ تجویز پیش کی کہ میں اس سلسلہ میں کام کروں۔
چنانچہ غور و فکر کرنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا اور یہ شرط رکھی کہ میں اس موضوع پر صرف 4 گھنٹے یومیہ کام کروں گا، باقی وقت طلب علم میں صرف کروں گا اور مکتبہ والے مجھے کسی بھی وقت آنے جانے سے نہیں روکیں گے، کیونکہ مکتبہ صبح 8 بجے کھلتا ہے اور 12 بجے بند ہوجاتا ہے اور پھر شام کو 4 بجے کھلتا ہے اور ٹھیک 9 بجے بند ہوجاتا تھا، چنانچہ ان لوگوں نے مکتبہ کے ذمہ داروں سے بات کی اور انہوں نے اس سے اتفاق کیا، مجھے مکتبہ کی ایک کنجی دے دی گئی اور چوکیدار سے کہ دیا کہ مجھے کسی بھی وقت مکتبہ میں داخل ہونے سے منع نہ کرے۔
دعوت وتبلیغ
احادیث کے مطالعه نے شیخ علیه الرحمہ کی علمی اور عملی زندگی پر بہت اثر ڈالا- چنانچہ حنفی گھرانے میں نشو نما پانے کے باوجود شیخ صحیح منہج کی طرف مائل ہوئے- شیخ اپنے والد سے جو حنفی تھے، بہت سارے مسائل میں اختلاف رکھتے تھے، اور والد سے کہتے کہ جب اللہ کے رسولۖ سے حدیث ثابت ہوجائے تو اس کا چھوڑنا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے اور یہی منہج امام ابو حنیفہ رح اور دوسرے ائمہ کرام کا بھی تھا، اور یہیں سے شیخ نے ایک طرف دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا اور دوسری طرف شیخ کے درمیان اور اور دوسرے مشائخ اور ائمہ مساجد کے درمیان بحث شروع ہوگئی جب اپنے ہی قوم کے مسلکی تعصب رکھنے والے صوفیوں اور بدعتیوں نے شیخ کے خلاف ہنگامہ کھڑا کردیا- انہیں" گمراہ وہابی" کے خطاب سے نوازا- دوسرے لوگوں کو شیخ سے دور رکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن دمشق کے شیخ بهجت بیطار عبدالفتاح ، حامد فقی، شیخ توفیق بزرہ جیسے مشهور فاضل علماء نے شیخ کو اپنی دعوت و تبلیغ جاری رہنے پر ابھارا اور شیخ کے منہج کی تائید کی-
" جب ہم نے اپنی دعوت و تبلیغ کا خوش گوار اثر دیکھا تو ہم نے حلب اور لاذقیہ کے درمیان واقع ادلب، سلمیہ، حمص، حماہ، رقہ جیسے علاقوں کا دورہ کرنے کا پروگرام مرتب کیا، جس میں قابل ذکر کامیابی ملی- جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علوم حدیث کے شائقین جمع ہوتے اور حدیث کی کتابوں کا مل کر مذاکرہ کرتے- سوالات و جوابات اور مناقشہ کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ لیکن یہ دورے حاسدین کے حسد کا شکار ہونے سے بچ نہ سکے، انہوں نے ذمہ داروں سے شکایت کی اور ہم لوگ مشکلات میں پھنس گئے-"شیخ البانی رحمہ اللہ علیہ لوگوں کی باتوں اور مخالفین کی مخالفت کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتے تھے- بلکہ ان کی مخالفتیں شیخ کو اپنے موقف اور منہج پر مزید ثابت قدم رہنے پر معاون ثابت ہوتی تھیں- اور لقمان علیہ السلام کی وصیت کے مطابق اپنے آپ کو صبر کرنے، مصائب برداشت کرنے کی تلقین کرتے- شیخ توحید و سنت کا پھریرا لے کر جمیعة الشبان المسلمین کے صدر شیخ عبدالفتاح امام کے ساتھ دمشق اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں کے بہت سارے مشائخ کے پاس گئے اور ان سے توحید، سنت و عقیدہ و مسلکی تعصب کے مسائل پر بحث کی- شیخ کے حاسدوں، جاہلوں اور شیخ کے منہج کی مخالفت کرنے والے لوگوں نے شیخ کی ہر طرح سے مخالفت کی، جس کی تفصیل شیخ بايں طور بیان فرماتے ہیں:
ہوا یوں کہ حاسدوں نے حکومت سے شیخ کی جھوٹی شکایت کی اور شیخ کو6 ماہ کے لیے قید کردیا گيا، واضح ہو کہ اس سے پہلے 1976ء میں بھی ایک بار شیخ کو ایک ماہ کے لیے جیل ہوئی، لیکن اللہ کے فضل سے اس کا فائدہ یہ ہوا کہ شیخ کی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو اگر ایسے واقعات پیش نہ ہوتے تو شاید ایک بار بھی شیخ سے ملاقات کی نہ سوچتے، چہ جائیکہ وہ شیخ سے سلفیت اور شیخ کے منہج کے بارے میں بات کریں، جس سے شیخ اور سلفیت کے سلسلہ میں ان کے بہت سے غلط افکار بدل گئے-
شیخ کی علمی مجلس
شیخ کا ہفتہ واری پروگرام ہوتا تھا، جس میں یونیورسٹویوں کے اجلہ استاذہ کرام تک حاضر ہوتے تھے۔ ان مجالس اور پروگراموں میں شیخ نے درج ذیل کتابوں کا درس دیا-
- الروضۃ الندیہ (صدیق حسن خان)
- منہاج الاسلام فی الحکم (محمد اسد)
- اصول الفقہ (عبدالوھاب خلاف)
- مصطلح التاریخ (اسد رستم)
- فقہ السنہ (سید سابق)
- الحلال و الحرام (یوسف القرضاوی)
- الترغیب والترھیب (حافظ منذری)
- فتح المجید الشرح کتاب التوحید (عبدالرحمان بن حسن)
- الباعث الحثیث شرح اختصار علوم الحدیث (احمد شاکر)
- ریاض الصالحین (امام نویؒ)
- الامام فی احادیث الاحکام (ابن دقیق العید)
- الادب المفرد (امام بخاریؒ)
- اقتضاء الصراط المستقیم (ابن تیمیہ)
شیخ علی خشان اور شیخ عید عباسی بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے فضل و کرم اور شیخ کی مسلسل کوششوں سے آپ رح کی حدیث، فقہ اور عقیدہ میں بہت ساری مفید کتابیں منظر عام پر آئيں، جنہوں نے علمی حلقوں میں شیخ کو متعارف کروایا، شیخ کے صحیح منہج کي پہچان کرائی- شیخ کی علمی صلاحیتوں، تفقہ اور لیاقت کو لوگوں کے سامنے پیش کیا، جس کی وجہ سے شیخ ایک مشهور و معروف عالم کی صورت میں ابھرے- ایسے عالم جن سے علماء و مشائخ استفادہ کرتے، علمی مراکز کے ذمہ دار جن کی قدر کرتے، چنانچہ جب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی داغ بیل ڈالی گئی تو جامع کے ذمہ داروں بالخصوص جامعہ کے رئیس اور مفتی الدیار السعودیۃ شیخ علامہ محمد بن ابراہیم آل شیخ نے البانی صاحب کا حدیث، علوم حدیث اور فقہ حدیث کی تدریس کے لیے انتخاب کیا- شیخ نے جامعہ میں تین سال تک حدیث اور علوم حدیث کا درس دیا- اس درمیان شیخ اتنی محنت اور اخلاص سے کام کرتے تھے کہ گھنٹی ختم ہونے کے بعد میدان میں طلبہ کے ساتھ بیٹھتے، بعض اساتذہ جب وہاں سے گزرتے تو یہ منظر دیکھ کر کہتے کہ حقیقی در و تدریس یہی ہے نہ کہ کلاس روم میں جو درس ہوتا ہے-
شیخ کی طلبہ سے محبت
شیخ کا تعلق اپنے شاگردوں کے ساتھ، ساتھی اور دوست جیسا تھا نہ کہ استاذ شاگرد جیسا- شیخ نے سارے تکلفات کو ختم کرکے اعتماد اور بھائی چارگی کو قائم کیا تاکہ طلبہ كو استفادہ میں جھجھک محسوس نہ ہو- یہاں تک کہ شیخ کہتے ہیں کہ: "طلبہ کا میرے ساتھ ایسا لگاؤ تھا کہ جب میں اپنی گاڑی میں جامعہ جاتا تھا تو میری گاڑی طلبہ سے گھر جاتی تھی-"
شیخ صاحب نہایت ہی اعلی اخلاق کے مالک تھے، کشادہ دل اور مزاج کے نہایت ہی اچھے تھے، شاگرد کے لیے بہترین استاذ، دوست کے لیے بہترین دوست تھے-
حاسدوں کی جلن
شیخ کی مقبولیت کو دیکھ کر جامعہ کے بعص استاذہ آپ سے حسد کرنے لگے، بالآخر شیخ علیہ الرحمہ حسبنا اللہ و نعم الوکیل کہتے ہوئے قضاء و قدر سے ہر حال میں راضی بہ رضا ہوکر ایمان و یقین کے ساتھ وہاں سے کوچ کرگئے-
" حیثما کنت تقوم بواجب الدعوۃ لا فرق عندک"شیخ ابن باز رح شیخ البانی کی ایمانی قوت، ان کی لیاقت، مصیبت کے وقت ان کے مادہ صبر کو پہنچاتے تھے، اس لیے آپ رح شیخ کے جامعہ سے نکلتے وقت تسلی دیتے ہوغے یوں گویا ہوئے:
جہاں بھی آپ رہیں گے دعوت کا کام کرتے رہیں کے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا-
شیخ البانی کا جامعه پر اثر
شیخ البانی دنیا کے پہلے عالم تھے، جنہوں نے دنیا کی کسی یونیورسٹی میں پہلی بار، علم اسناد، کے موضوع کو حدیث کے نصاب میں داخل کیا- کیونکہ اس وقت تک دنیا کی کسی بھی اسلامی یا عربی یونیورسٹی میں یہاں تک کہ جامعہ ازہر میں بھی ایسا موضوع داخل نصاب نہیں تھا-
شیخ کا طریقہ تدریس یہ تھا کہ تیسرے سال کے طلبہ کے لیے صحیح مسلم سے ایک حدیث اور دوسرے سال کے طلبہ کے لیے سنن ابوداؤد سے ایک حدیٹ کا انتخاب کرتے- کلاس روم میں بلیک بورڈ پر سند کے ساتھ حدیث کو لکھتے اور علم رجال کی کوئی کتاب جیسے تقریب وغیرہ کے ذریعے حدیث کی تخریج، اس کے رجال کی تنقید کا طریقہ عملی صور سے بتاتے- چنانچہ شیخ کے جامعہ سے کوچ کرکے جانے کے بعد بھی موصوف کےان دروس کا واضح اثر باقی رہا اور جب شیخ محمد امین مصری شعبہ حدیث کے صدر مقرر ہوئے تو انہوں نے البانی رح کے طریقہ درس پر چل کر علم اسناد کو پڑھایا- یہاں تک کہ عالم اسلامی کے بہت سارے جامعات میں یہ طریقہ تعلیم جاری و ساری ہوگیا، جس کے نتیجہ میں بہت ساری کتب حدیث کی علمی تحقیق و تخریج سامنے آئی-
شیخ کی خاکساری
ابو اسماء کہتے ہیں کہ مجھ سے حسن عوایشہ نے بیان کیا کہ علامہ البانی ایک بار میرے گھر آئے اور اسی کمرے میں اور اسی کرسی پر بیٹھے، میں جلد بازی کی وجہ سے شیخ کی ضیافت نہ کرسکا اور میں نے شیخ کو کہا: معاف کیجیے گا شیخ! میرے پاس فی الحال کوئی چيز تیار نہیں ہے جسے میں آپ کو پیش کرسکوں- عوایشہ کہتے ہیں کہ میرے یہ کہنے کے بعد شیخ خاموش ہوگئے اور بات نہیں کی- میں نے شیخ سے پوچھا کہ کیا میرا یہ سوال بدعت تو نہیں؟ شیخ نے کہا، میرا یہاں آنے کا مقصد کھانا نہیں بلکہ کھانے کھلانے والا ہے-
ابو اسماء کہتے ہیں کہ مجھ سے شیخ حسین بن خالد عشیش نے البانی صاحب کے تواضع کے بارے مین چند ایسے واقعات بیان کیے جنہیں شاید ہی کسی نے سنا ہو، وہ کہتے ہیں: یہ 1965- 66 کی بات ہے، میری عمر 15-16 سال تھی اور میں حماہ شھر میں رہتا تھا، جہاں میرے اور ایک اور صاحب کے علاوہ کوئی سلفی نہیں تھا، چنانچہ ہم دونوں نے شیح کے پاس دعوت نامہ بھیجا کہ وہ ہمارے یہاں تشریف لائيں، اور یہ بات ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ شیخ ہماری دعوت کو منظور کریں گے، کیونکہ اس وقت ہم لوگ چھوٹے تھے اور شیخ ہمیں پہچانتے بھی نہیں تھے- چنانچہ کچھ هی دنوں کے بعد شیخ رح میرے دوسرے ساتھی کے گھر تشریف لائے اور وہ صاحب میرے پاس بھاگے ہوئے میرے گھر آئے اور خوشخبری دی کہ شیخ ہمارے گھر تشریف لائے ہیں، یہ سن کر ہم لوگ بھاگے ہوئے شیخ کے پاس گئے-شیخ عوایشہ نے مجھ سے بیان کیا کہ شیخ فجر کی نماز میں اپنی گاڑی سے اپنے طلبہ کے گھروں پر جاکر ان کو نماز کے لیے جگایا کرتے تھے-
شیخ ابو اسماء کہتے ہیں: میں نے شیخ ابو اسحاق حوینی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ ایک بار شیخ رح کے گھر گئے اور وہاں ایک صاحب پاؤں پر پاؤں رکھ کر سوئے ہوئے تھے، شیخ وہاں سے گذرے مگر کچھ نہیں کہا-
اندازہ لگائیے کہ محدث عصر، امیر المومنین فی الحدیث دو چھوٹے چھوٹے طلبہ کی دعوت پر لبیک کهہ کر پہنچتا ہے جبکہ پہلے سے کوئی تعارف بھی نہیں ہے، آپ نے خاکساری اور تواضع کی حد کردی، اللہ تعالی آپ کو اپنی رحمت و مغفرت سے ڈھانپ لے۔ آمین
شیخ ایک لاکھ حدیثوں کے حافظ تھے:
ابو اسماء کہتے ہیں، شیخ عشیش نے مجھ سے بیان کیا کہ شیخ رح ایک بار بتارہے تھے کہ حافظ حدیث کسے کہتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ حفظ حدیث کا سب سے اعلی درجہ امیر المومنین فی الحدیث کا ہے، پھر حافظ حدیث کا، پھر محدث کا-
شیخ نے بتایا کہ حافظ حدیث اسے کہیں گے جس کو ایک لاکھ حدیثيں سند کے ساتھ یاد ہوں-
عشیش کہتے ہیں کہ میں نے فورا سوال کیا، کیا ہم یہ سمجھیں کہ ہمارے شیخ کو ایک لاکھ حدیثيں یاد ہیں؟
شیخ نے فرمایا: اس سے تم کو کیا مطلب، مجھے یاد ہے یا نہیں؟ عشیش نے کہا، کیوں نہیں مجھے مطلب ہے- شیخ نے کہا، نہیں کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے –
عشیش نے کہا، تو کیا میں کهہ سکنے کی جرات کرسکتا ہوں کہ ہمارے شیخ حافظ حدیث ہیں- عشیش کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ کہا تو شیخ خاموش ہوگئے، پھر میں نے شیخ سے کہا کہ خاموشی کا مطلب اثبات ہے، پھر شیخ نےکہا کہ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس سے تم کو کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے؟- عشیش نے کہا، کیا میں خاموشی کو اثبات پر محمول کروں، پھر شیخ خاموش ہوگئے اور میں اپنا سوال بار بار دھراتا رہا تو شیخ نے فرمایا " وما بکم من نعمۃ فمن اللہ- کہ ہمارے پاس جو بھی نعمت ہے سب اللہ کی عنایت کردہ ہے- عشیش نے کہا، کہ کیا میں اسے اثبات سمجھوں؟ شیخ نے فرمایا: تم چاہو تو اسے اثبات پر محمول کرلو یا جو چاہو سمجھ سکتے ہو- عشیش کہتے ہیں کہ، جب شیخ نے یہ کہا تو میں نے مارے خوشی کے زور سے اللہ اکبر کہا اور کہا الحمد اللہ ہمارے شیخ کو ایک لاکھ حدیثيں یاد ہیں، جب شیخ نے مجھے یہ کہتے ہوئے سنا تو ہنس پڑے، ایسے جیسے کہ میری بات کی تصدیق کررہے ہوں-
عشیش کہتے ہیں یہ شروع سے آخر تک شیخ کے جواب میں تشفی بخش بات نہیں تھی جو صرف اور صرف شیخ کی انتہاء درجے کی خاکساری اور تواضع کی دلالت کرتا ہے-
اس کے علاوہ بھی شیخ کے تواضع اور منکسرالمزاجی کےبہت سارے واقعات ہیں، عشیش کہتے ہیں شیخ رح کا مجھ سے اس طرح مباحثہ کرنا بھی ان کی شدید خاکساری اور تواضع کی دلیل ہے-
شیخ کی اولاد
شیخ کہتے ہیں کہ اللہ کے فضل و کرم سے میں نے اپنے سارے بچوں کا نام عبد سے رکھا، میری پہلی بیوی سے عبد الرحمن، عبدالطیف اور عبد الرزاق ہیں- دوسری بیوی سے عبدالمصور، عبد الاعلی اور عبد المہیمن ہیں اور میرے خیال سے میں نے رجال اور رواۃ کی کتابوں میں جس قدر بھی نام دیکھے ہیں، شاید ہیں کسی آج تک عبدالمصور نام رکھا ہو- اللہ تعالی مجھے مزید توفیق سے نوازے اور میرے آل و اولاد میں برکت نازل فرمائے- اے میرے رب ہمیں ہماری بیویوں اور ذریت سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا-
پھر 1383ھ میں جب میں مدینہ منورہ میں تھا تو اللہ تعالی نے ایک بیٹا دیا تو میں نے مدینۃ الرسول کی مناسبت سے اور اس کی یاد میں ، نیز اللہ کے رسول کی حدیث " تسموا باسمی ولا تکنوابکنیتی" کہ میرے نام پر نام رکھو البتہ میری کنیت مت رکھو، پر عمل کرتے ہوئے اس بیٹے کا نام "محمد:" رکھا-
شیخ کے بیٹے شیخ عبدالرزاق البانی نے ان کی ترتیب کو اس طرح بتائی ہے:
شیح کے اخلاقپہلی بیوی سے عبدالرحمن، عبدالطیف، عبدالرزاق، دوسری بیوی سے انیسہ، عبدالمصور، آسیہ، سلامہ، عبدالاعلی، محمد، عبدالمہیمن، حسانہ، سکینہ، تیسری بیوی سے ہبۃ اللہ اور چوتھی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی اور وہ اب بھی بقید حیات ہیں-
آج کے زمانے میں بہت سارے لوگ جب غلطی کر جاتے ہیں اور جب کوئی عالم یا انہیں جیسا شیخ یا طالب علم نصیحت کرتا ہے تو نہیں مانتے- لیکن شیخ البانی رح جیسا کہ میں نے ان سے سنا ہے، ان کی کتابوں میں پڑھا ہے، ایسے نہیں تھے- حق بات سے شرم نہیں کرتے اور اسے اپنے لیکچر اور دروس میں علی الاعلان کہتے تھے-
شیخ کا اخلاق یہ بھی تھا کہ وہ اپنی تعریف اپنے ساتھ پسند نہیں کرتے تھے، تاکہ ان کے اندر ریا کاری نہ پیدا ہوجائے، اپنے تلامذہ اور دوستوں کے احوال دریافت کرتے رہتے تھے- بھلائی کا بدله بھلائی سے دیتے اور بہت زیادہ رونے والے تھے-
شیخ بہت ہی رقیق القلب اور بہت زیادہ آنسو والے شخص تھے، شايد ہی کسی ایسی حدیث کا ذکر آیا ہو جس میں رونے والی بات ہو اور شیخ نہ روئے ہوں-
شیخ کی تالیفات
ابو اسماء کہتے ہیں کہ شیخ حسن عوایشہ کے ذریعے مجھے شیخ البانی رح کے ہاتھوں لکھی ہوئی فہرست ملی جس میں انہوں نے اپنی مطبوعہ او رغیر مطبوعہ کتابوں کا ذکر کیا ہے جن کی تعداد 66 تک پہنچتی ہے، لیکن یاد رہے کہ شیخ نے اس میں اپنی ساری کتابوں کا ذکر نہیں کیا ہے، چنانچہ مجّلہ اصالہ میں شیخ کے مشہور شاگرد علی حسن عبدالحمید حلبی اثری کے قلم سے ایک مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے شیخ رح کی تمام تالیفات کا ذکر کیا ہے جس کے حساب سے شیخ کی کل تالیفات کی تعداد 218 تک پہنچتی ہے-
مرض وفات
وفات کے قبل آخری تین سالوں میں شیخ کو بہت ساری بیماریاں لاحق ہوگئی تھیں، میں شیخ سے ٹیلی فون پر برابر رابطہ رکھتا تھا اور ان سے بات چيت کرتا تھا، شیخ کی بیماریوں کی وجہ سے شیخ کا وزن برابر گھٹتا جارہا تھا، یہاں تک کہ جب میں نے 1999-8-5 کو شیخ کی زیارت کی تو اس وقت شیخ صاحب بہت دبلے ہوگئے تھے، یہاں تک کہ وفات کے دن آپ کا وزن 30 کلو سے بھی کم ہوگیا تھا-
شیخ محمد عابدین (جو شیخ کی زوجہ ام الفضل کے رشته داروں میں سے ہیں) نے مجھ سے قاہرہ ایئرپورٹ پر بتایا کہ شیخ کا اینمیا (خون کی کمی) کا مرض لاحق ہوگیا ہے، اور اسی طرح محمد بدیع موسی نے عمان میں مجھے بتایا تھا کہ شیخ کو کلیجے اورپھپھڑے میں تکلیف تھی- ابو اسماء کہتے ہیں کہ شیخ کو ہمیشہ حلق میں لیس دار بلغم کی شکایت رہتی تھی، میں نے خود شمیسانی ہسپتال میں شیخ کی زیارت کے وقت ان کی تکلیف دیکھی تھی-
شیخ علی بن حسن عبدالحمید الحلبی نے مجھ سے دبئی میں بیان کیا کہ وفات سے دو دن قبل شیخ نے مجھ سے قرآن کی تفسیر اور صحیح ابوداؤد کا نسخہ منگوایا اور انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وفات سے ایک ماہ قبل تک شیخ تین دن تک صرف ایک حدیث کی تلاش میں لگے رہے، یہاں تک کہ اپنے پوتے عبادہ کو 18 صفحات میرے سامنے املا کرادیا-ان تمام امراض کے علاوہ شیخ پر بڑھاپا بھی طاری تھا، پھر بھی بحث و تحقیق اور مطالعہ سے گریز نہیں کرتے تھے- اگر بذات خود نہیں کرسکتے تھے تو اپنے بیٹوں یا وہاں پر موجود لوگوں سے کہتے کہ فلاں کتاب لاکر اس میں سے فلاں جگہ سے پڑھو-
شیخ محمد ابراہیم شقرہ سے کہتے ہوئے سنا کہ شیخ رح بحث و تحقیق سے غفلت نہیں کرتے تھے اور جب کچھ لکھنا چاہتے تھے اور اپنے بیٹوں سے کہتے تھے" اکتب یا عبدالطیف، اکتب یا عبادہ" (عبدالطیف لکھو، عبادہ تم بھی لکھو)
یہ لوگ شیخ کو سونے کی حالت میں کہتے ہوئے سنتے، " ھات کتاب الجرح والتعدیل جزء کذا صفحہ کذا" (کہ الجرح و التعدیل کتاب کا فلاں جزء فلاں صفحہ لے کر آؤ) یہ تھا شیخ کا علم کے ساتھ شغف کا عالم-
اس طرح شیخ رح نے زندگی کے 60 سال سے زیادہ کی مدت علم کے درس و تدریس اور خدمت میں گزاری، کتنے حوشگورا اور بہترین تھے وہ دن!
ابو اسماء کہتے ہیں، میں نے بروز ہفتہ بتاریخ 23 جمادی الاول 1420ھ بمطابق 2 اکتوبر 1999ع کو عصر کے بعد شیخ کی وفات کی خبر سنی- انا للہ و انا الیہ راجعون
شیخ کا وصیت نامہ
شیخ کے وصیت نامہ کی عبارت کا اردو ترجمہ من و عن درج ذیل ہے-
وصیت نامہ کی عبارت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں اپنی بیوی، بچوں، دوستوں اور سارے اعزہ کو وصیت کرتا ہوں کہ جب ان کو میری وفات کی خبر پہنچے تو وہ میرے لیے مغفرت اور رحمت کی دعائيں کریں اور میرے اوپر نوحہ نہ کریں، نہ ہی آواز سے روئيں- ثانیا: مجھے دفن کرنے میں جلدی کریں، میری تجہیز و تکفین میں جتنے لوگوں کی ضرورت ہو ان کے علاوہ میرے رشتہ داروں، اعزہ و اقارب کو خبر نہ کریں- مجھے میرے پڑوسی، میرے مخلص دوست، عزت خصر ابو عبداللہ غسل دیں گے، نیز وہ لوگ ان کے ساتھ غسل دینے میں شریک ہوسکتے ہیں جن کو وہ اپنی مدد کے لیے منتخب کریں گے-
ثالثا: میں چاہتا کہ مجھے سب سے قریبی جگہ میں دفن کیا جائے تاکہ جو لوگ میرے جنازے کو اٹھائيں، انہیں گاڑی وغیرہ میں رکھنے کی ضرورت نہ پڑے اور لوگوں کو اپنی اپنی گاڑیوں سے قبرستان تک جانے کی ضرروت نہ پیش آئے- میری قبر ایسے قبرستان میں ہو جو قدیم ہو اور جس کے بارے میں غالب گمان ہو کہ اسے اکھیڑا نہیں جائے گا-
جس شہر میں میری وفات ہو وہاں کے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ میری تدفین کے بعد ہی میرے ان بچوں کو خبر کریں جو اس شہر کے باہر ہوں- تاکہ جذبات کے غالب ہونے کی وجہ سے میری تدفین میں تاخیر نہ ہو- اللہ سے دعا ہے کہ میں اس سے ایسی حالت میں ملوں کہ وہ میرے اگلے اور پچھلے سارے گناہوں کو معاف کرديئے ہوں-
وصیت کی تنفیذاپنی لائبریری کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ اس کی کتابیں مطبوعہ، غیر مطبوعہ، مخطوط، غیر مخطوط، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے مکتبہ کے لیے ہدیہ کردی جائيں کیونکہ جامعہ کے ساتھ میرے لیے منہج سلف پر کتاب و سنت کی دعوت کے سلسلہ میں بہت ساری يادیں وابستہ ہیں جبکہ میں وہاں مدرس تھا-
شیخ کی وصیت کے مطابق اس کی تنفیذ کردی گئی، چنانچہ شیخ کی وفات مغرب سے تھوڑی دیر قبل ہوئی اور عشاء کے تین گھنٹہ بعد آپ کی تجہیز و تکفین کردی کئی- آپ کے بھائیوں، بیٹوں، شاگردوں، دوستوں اور اعزہ و اقارب میں سے جو لوگ اس وقت نماز جنازہ میں حاضر ہوسکے ان کی تعداد 5000 یا اس سے زیادہ تھی، سنت کے مطابق آپ کی نماز جنازہ میدان میں ادا کی گئی-
شیخ کی قبر
آپ کی وصیت میں تھا کہ آپ کو سب سے قریبی قبرستان میں دفن کیا جائے-
ابو اسماء کہتے ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سب سے قریبی جگہ سے مراد شیخ کے گھر سے قریبی جگہ تھی، ورنہ تو آپ کی وفات شمیسانی ہسپتال میں ہوئی تھی-
شیخ کا گھر عمان میں ایک پہاڑ پر واقع ہے- جس کا نام ہملان ہے اور شیخ کے گھر کے قریب ہی ایک پرائیویٹ قبرستان ہے جو چاروں طرف سے بند ہے، اسی میں شیخ دفن کیے جانے کے لیے اللہ نے راستہ ہموار فرمایا، چناچہ اسی ہملان قبرستان میں آپ مدفون ہیں- (رحمہ اللہ علیہ)
(تفصیل دیکھیے حیاۃ الالبانی 1/53-56 للشیبانی حفظ اللہ)