• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم حیات طیبہ کا آخری باب رفیق اعلیٰ کی جانب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مسواک نرم کردی ، اور آپﷺ نے نہایت اچھی طرح مسواک کی۔ آپﷺ کے سامنے کٹورے میں پانی تھا۔ آپﷺ پانی میں دونوں ہاتھ ڈال کر چہرہ پونچھتے جاتے تھے۔ اور فرماتے جاتے تھے۔ لاإلہ إلا اللّٰہ،اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ موت کے لیے سختیاں ہیں۔1
مسواک سے فارغ ہوتے ہی آپﷺ نے ہاتھ یا انگلی اٹھا ئی ، نگاہ چھت کی طرف بلند کی۔ اور دونو ں ہونٹوں پر کچھ حرکت ہوئی۔ حضرت عائشہ ؓ نے کان لگایا تو آپﷺ فرمارہے تھے : ''ان انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین کے ہمراہ جنہیں تو نے انعام سے نوازا۔ اے اللہ ! مجھے بخش دے ،۔مجھ پر رحم کر ، اور مجھے رفیق ِ اعلیٰ میں پہنچا دے۔ اے اللہ ! رفیق اعلیٰ ۔''2 آخری فقرہ تین بار دہرایا ، اور اسی وقت ہاتھ جھک گیا۔ اور آپﷺ رفیق ِ اعلیٰ سے جا لاحق ہوئے۔ إناللّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔
یہ واقعہ ۱۲/ ربیع الاول ۱۱ھ یوم دوشنبہ کو چاشت کی شدت کے وقت پیش آیا۔ اس وقت نبیﷺ کی عمر تریسٹھ سال چار دن ہوچکی تھی۔
غمہائے بیکراں :
اس حادثہ ٔ دلفگار کی خبر فورا پھیل گئی ، اہل ِ مدینہ پر کوہ غم ٹوٹ پڑا۔ آفاق واطراف تاریک ہوگئے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ جس دن رسول اللہﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے اس سے بہتر اور تابناک دن میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اور جس دن رسول اللہﷺ نے وفات پائی اس سے زیادہ قبیح اور تاریک دن بھی میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ 3
آپﷺ کی وفات پر حضرت فاطمہ ؓ نے فرطِ غم سے فرمایا:
((یا أبتاہ ، أجاب رباً دعاہ ، یا أبتاہ، من جنۃ الفردوس مأواہ، یا أبتاہ، إلی جبریل ننعاہ ۔)) 4
''ہائے ابا جان ! جنہوں نے پروردگار کی پکار پر لبیک کہا۔ ہائے ابا جان ! جن کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے۔ ہائے اباجان! ہم جبریل علیہ السلام کو آپﷺ کے موت کی خبر دیتے ہیں۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۶۴۰
2 ایضاً صحیح بخاری باب مرض النبیﷺ وباب آخرما تکلم النبیﷺ ۲/۶۳۸ تا ۶۴۱
3 دارمی ، مشکوٰۃ ۲/۵۴۷۔ انہی حضرت انسؓ سے ان الفاظ کے ساتھ بھی روایت ہے کہ جس دن رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے ہر چیز روشن ہوگئی۔ اور جس دن آپﷺ نے وفات پائی ہر چیز تاریک ہوگئی۔ اور ابھی ہم نے رسول اللہﷺ سے اپنے ہاتھ بھی نہ جھاڑے تھے ، بلکہ آپﷺ کے دفن ہی میں مشغول تھے کہ اپنے دلوں کو بدلا ہوا محسوس کیا۔ (جامع ترمذی ۵/۵۸۸، ۵۸۹ )
4 صحیح بخاری باب مرض النبیﷺ ۲/۶۴۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حضرت عمرؓ کا موقف :
وفات کی خبر سن کر حضرت عمرؓ کے ہوش جاتے رہے۔ انہوں نے کھڑے ہوکر کہنا شروع کیا : کچھ منافقین سمجھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی وفات ہوگئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی وفات نہیں ہوئی، بلکہ آپﷺ اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ جس طرح موسیٰ بن عمران علیہ السلام تشریف لے گئے تھے۔ اور اپنی قوم سے چالیس رات غائب رہ کر ان کے پاس پھر واپس آگئے تھے۔ حالانکہ واپسی سے پہلے کہا جارہا تھا کہ وہ انتقال کرچکے ہیں۔
اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ بھی ضرور پلٹ کر آئیں گے۔ اور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالیں گے جو سمجھتے ہیں کہ آپﷺ کی موت واقعہ ہوچکی ہے۔1
حضرت ابو بکرؓ کا موقف :
ادھر حضرت ابو بکرؓ سنح میں واقع اپنے مکان سے گھوڑے پر سوار ہو کر تشریف لائے۔ اور اُتر کر مسجد نبوی میں داخل ہوئے۔ پھر لوگوں سے کوئی بات کیے بغیر سیدھے حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے ، اور رسول اللہﷺ کا قصد فرمایا ، آپﷺ کا جسدِ مُبارک دھار دار یمنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ حضرت ابو بکرؓ نے رُخ انو ر سے چادر ہٹائی۔ اور اسے چوما اور روئے۔ پھر فرمایا : میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ، اللہ آپﷺ پر دو موت جمع نہیں کرے گا۔ جو موت آپﷺ پر لکھ دی گئی تھی وہ آپﷺ کو آچکی۔
اس کے بعد ابو بکرؓ باہر تشریف لائے۔ اس وقت بھی حضرت عمرؓ لوگوں سے بات کررہے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ نے ان سے کہا : عمر ! بیٹھ جاؤ۔ حضرت عمرؓ نے بیٹھنے سے انکار کردیا۔ ادھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عمرؓ کو چھوڑ کر حضرت ابو بکرؓ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:
(( أما بعد : من کان منکم یعبد محمداًﷺ فإن محمداً قد مات ومن کان منکم یعبد اللہ فإن اللہ حي لایموت قال اللّٰہ:
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَ‌سُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّ‌سُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ‌ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِ‌ينَ (۳: ۱۴۴)
''اما بعد ! تم میں سے جو شخص محمدﷺ کی پوجا کرتا تھا تو (وہ جان لے ) کہ محمدﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے۔ اور تم میں سے جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ کبھی نہیں مرے گا، اللہ کا ارشاد ہے۔ محمد(ﷺ ) نہیں ہیں مگر رسول ہی۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۶۵۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
چکے ہیں تو کیا اگر وہ (محمدﷺ ) مرجائیں یا ان کی موت واقع ہو جائے یا وہ قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ اپنی ایڑ کے بل پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو شخص اپنی ایڑ کے بل پلٹ جائے تو (یاد رکھے کہ ) وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو جزادے گا۔''
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جواب تک فرطِ غم سے حیران وششدر تھے انہیں حضرت ابو بکرؓ کا یہ خطا ب سن کر یقین آگیا کہ رسول اللہﷺ واقعی رحلت فرماچکے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ واللہ ! ایسا لگتا تھا گویا لوگوں نے جانا ہی نہ تھا کہ اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے۔ یہاں تک کہ ابو بکرؓ نے اس کی تلاوت کی تو سارے لوگوں نے ان سے یہ آیت اخذ کی۔ اور اب جس کسی انسان کو میں سنتا تو وہ اسی کو تلاوت کررہا ہوتا۔
حضرت سعیدؓ بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا : واللہ ! میں نے جوں ہی ابو بکرؓ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا خاک آلود ہوکر رہ گیا۔ (یا میری پیٹھ ٹوٹ کر رہ گئی ) حتیٰ کہ میرے پاؤں مجھے اٹھا ہی نہیں رہے تھے اور حتیٰ کہ ابو بکر کو اس آیت کی تلاوت کرتے سن کر میں زمین کی طرف لڑھک گیا۔ کیونکہ میں جان گیا کہ واقعی نبیﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے۔1
تجہیز وتکفین اور تدفین :
ادھر نبیﷺ کی تجہیز وتکفین سے پہلے ہی آپﷺ کی جانشینی کے معاملے میں اختلاف پڑ گیا۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین وانصار کے درمیان بحث ومناقشہ ہوا، حجت و گفتگو ہوئی۔ سوال وجواب ہوا۔ اور بالآخر حضرت ابو بکرؓ کی خلافت پر اتفاق ہوگیا۔ اس کا م میں دوشنبہ کا باقی ماندہ دن گذر گیا۔ اور رات آگئی۔ لوگ نبیﷺ کی تجہیز وتکفین کے بجائے اس دوسرے کام میں مشغول رہے۔ پھر رات گذر گئی۔ اور منگل کی صبح ہوئی۔ اس وقت تک آ پﷺ کا جسد مبارک ایک دھار دار یمنی چادر سے ڈھکا بستر ہی پر رہا۔ گھر کے لوگوں نے باہر سے دروازہ بند کردیا تھا۔
منگل کے روز آپﷺ کو کپڑے اتارے بغیر غسل دیا گیا۔ غسل دینے والے حضرات یہ تھے۔ حضرت عباس ، حضرت علی ، حضرت عباس کے دو صاحبزادگان فضل اور قثم رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام شقران ، حضرت اسامہ بن زید اور اوس بن خولی رضی اللہ عنہم ۔ حضرت عباس ، فضل اور قثم آپﷺ کی کروٹ بدل رہے تھے۔ حضرت اسامہ اور شقران رضی اللہ عنہما پانی بہا رہے تھے۔ حضرت علیؓ غسل دے رہے تھے۔اور حضرت اوسؓ نے آپﷺ کو اپنے سینے سے ٹیک رکھا تھا۔2
آپﷺ کو پانی اور بیر کی پتی سے تین غسل دیا گیا۔ اور قباء میں واقع سعد بن خیثمہ کے غرس نامی کنویں سے غسل دیا گیا۔ آپﷺ اس کا پانی پیا کرتے تھے۔3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۶۴۰، ۶۴۱ 2 دیکھئے: ابن ماجہ ۱/۵۲۱
3 تفصیل طبقات ابن سعد ۲/۲۷۷،۲۸۱ میں ملاحظہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس کے بعد آپﷺ کو تین سفید یمنی چادروں میں کفنا یا گیا۔ ان میں کرتا اور پگڑی نہ تھی۔1بس آپﷺ کو چادروں ہی میں لپیٹ دیا گیا تھا۔
آپﷺ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں بھی صحابہ کرام کی رائیں مختلف تھیں، لیکن حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی نبی بھی نہیں اٹھایا گیا مگر اس کی تدفین وہیں ہوئی جہاں اٹھایا گیا۔ اس فیصلے کے بعد حضرت ابو طلحہؓ نے آپﷺ کا وہ بستر اٹھایا جس پر آپﷺ کی وفات ہوئی تھی۔ اور اسی کے نیچے قبر کھودی۔ قبر لحد والی (بغلی ) کھودی گئی تھی۔
اس کے بعد باری باری دس دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حجرہ شریف میں داخل ہوکر نماز جنازہ پڑھی۔ کوئی امام نہ تھا۔ سب سے پہلے آپﷺ کے خانوادہ ( بنو ہاشم ) نے نماز جنازہ پڑھی۔ پھر مہاجرین نے ، پھر انصار نے ، پھر مردوں کے بعد عورتوں نے ، اور ان کے بعد بچوں نے۔2
نماز جنازہ پڑھنے میں منگل کا پورا دن گذر گیا ، اور چہار شنبہ (بدھ ) کی رات آگئی۔ رات میں آپﷺ کے جسد ِ پاک کو سپر دِ خاک کیا گیا۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ہمیں رسول اللہﷺ کی تدفین کا علم نہ ہوا، یہاں تک کہ ہم نے بدھ کی رات کے درمیانی اوقات میں (اور ایک روایت کے مطابق ، آخر رات میں ) پھاؤڑوں کی آواز سنی۔3
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۱۶۹ جنائز باب الثیاب البیض للکفن ، فتح الباری ۳/۱۶۲،۱۶۷ ،۱۶۸حدیث نمبر ۱۲۶۴، ۱۲۷۱،۱۲۷۲،۱۲۷۳، ۱۲۷۳، ۱۳۸۷، صحیح مسلم : جنائز ، باب کفن المیت ۱/۳۰۶ حدیث نمبر ۴۵
2 دیکھئے: مؤطا امام مالک ، کتاب الجنائز ، باب ماجاء فی دفن المیت ۱/۲۳۱ طبقات ابن سعد ۲/۲۸۸ - ۲۹۲
3 مسند احمد ۶/۶۲، ۲۷۴۔ واقعہ وفات کی تفصیل کے لیے دیکھئے صحیح بخاری باب مرض النبیﷺ اور اس کے بعد کے چند ابواب مع فتح الباری ، نیز صحیح مسلم ،مشکوٰۃ المصابیح ، باب وفاۃ النبیﷺ ، ابن ہشام ۲/۶۴۹ تا ۶۶۵۔ تلقیح فہوم اہل الاثر ص ۳۸، ۳۹۔ رحمۃ للعالمین ۱/۲۷۷ تا ۲۸۶۔ اوقات کی تعیین بالعموم رحمۃ للعالمین سے لی گئی ہے۔
 
Top