حیدرآبادی
مشہور رکن
- شمولیت
- اکتوبر 27، 2012
- پیغامات
- 287
- ری ایکشن اسکور
- 500
- پوائنٹ
- 120
مرقعِ حیدرآباد - ہم جنھیں حرف دعا یاد نہیں
علامہ اعجاز فرخ
علامہ اعجاز فرخ
آج معلوم نہیں خدا کی زمین تنگ پڑگئی ہے یا ہمہ منزل عمارتوں کی بلندی پر پہنچ کر انسان خدا بلند کہلانا چاہتا ہے ۔ صرف عمارتیں بلند ہوتی جارہی ہیں ۔ انسان کے قد کا مجھے پتہ نہیں ۔ لیکن سنتا ہوں کہ آج کل ماں باپ کی گھروں میں جگہ نہیں ۔ ماں کسی بیٹے کے گھر ہوتی ہے تو باپ کسی بیٹے کے گھر ۔ جس بیٹے کے گھر ماں ہوتی ہے وہاں ملازمہ برخواست کردی جاتی ہے ۔ جس بیٹے کے گھر باپ ہوتا ہے وہاں بچوں کو اسکول لے جانے والا اور بازار سے سودا سلف لانے والا نوکر نکال دیا جاتا ہے ۔ آج کے دور کی تہذیب یہی ہے ۔ آج اسی کو تمدن کہتے ہیں۔ پادری چرچ کو بلارہا ہے ۔ مبلغ دعوت تبلیغ دے رہا ہے ۔ ناصح نصیحتوں میں مصروف ہے ۔ ہمارے تو اب دعا کیلئے ہاتھ بھی نہیں اٹھتے ۔
ہم جنھیں رسم وفا یاد نہیں
ہم جنھیں حرف دعا یاد نہیں
ہم جنھیں رسم وفا یاد نہیں
ہم جنھیں حرف دعا یاد نہیں
آپ شاید اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ماضی کو حال میں سفر کرواکر اس سے آپ بیتی کہلوانا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔ شاید اس لئے بھی کہ حال تیز رفتار ہے ۔ ماضی سے گریزاں بھی ہے اسے صرف ایک داستان پارینہ کی حیثیت دے کر ، بہت ہوا تو خوبصورت چرمی جلد میں محفوظ کرکے آبنوسی الماری میں یوں سجا رکھ سکتا ہے کہ شیشے کے پیچھے سے یہ خوبصورت جلد تو نظر آئے لیکن ماضی کو مہربہ لب بھی رکھنا چاہتا ہے کہ اس کی گویائی کہیں انقلاب کا پیش خیمہ نہ بن جائے ۔ ایسے میں اگر کسی کو ماضی کے لمحات کو تازہ کرنے کا شوق نہیں بلکہ سودا سمایا ہو تو اس کے لئے ایسی عالی ہمتی اور جواں مردی بھی چاہئے کہ وہ نہ صرف صدیوں کا فرزند بننے کا حوصلہ رکھتا ہو بلکہ صدیوں کے اس سفر میں آبلہ پائی کو اپنا مقدر بھی جانے ۔غار میں صدیوں سے گہری نیند کے بعد جب تھوڑی سی مدت بیداری کی ملی اور ان جاگنے والوں نے اپنے ہی شہر کو دیکھا تو نہ شہر نے ان کو پہچانا نہ انہوں نے شہر کو ۔ گویا شہر نہیں بلکہ دہر بدل گیا تھا ۔ پلکوں سے آشوب سنبھالا نہ گیا تو دعا کی ہمیں اب قیامت تک کی نیند دے دے کہ اب تو اپنا آپ بھی نہ سنبھالا جائے ہے ۔ وہ نیک اور مخلص لوگ تھے ان کی دعا عرش ر ساتھی ۔ ہاتھ تو ہمارے بھی اسی طرح اٹھے ہوئے ہیں اور خواہش بھی یہی ہے ، لیکن قبولیت دعا اس لئے بھی نہیں ہوتی کہ ہمیں نہ رسم وفا یاد ہے اور نہ حرفِ دعا یاد ۔
حیدرآباد میں معیار معاشرت الگ الگ تھے ، امیری اور غریبی کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن تہذیب ہر طبقے میں قدر مشترک تھی ۔ محلوں اور محل سراؤں کا تو پوچھنا کیا ۔ حاجب ، خدمتگار ، فراش ، جاروب کش ، حقہ بردار ، سائس ، کوچوان ، چوبدار ، رکاب دار ، عصا بردار ، مالی ، مالن ، کاماٹی ، کاماٹن ، ماما ، مغلانی ، اصیل کنیز ، لونڈی ، باندی ، جسولیناں ، قلماقنیاں ، خاکروب ، حقہ بردار ، سقہ ، جسے بہشتی بھی کہا جاتا تھا ، تو ہمہ وقتی دیوڑھیوں کے ملازم تھے ۔ شرفاء کے گھر اتنے ملازم نہ سہی لیکن طرز بود و باش میں سلیقہ وہی تھا ۔ اور تو اور غریب بھی کسی سے پیچھے نہ تھے ۔ وہاں دالان ، پیش دالان اور بچھے ہوئے تخت ، قالین کا فرش ، سفید دو گھوڑے کی بوسکی کی ملائم چاندنی ، پختہ چھت ، چھت سے آویزاں فانوس اور فرشی جھاڑ تو یہاں لال مٹی کے لیپے ہوئے دالان میں شطرنجی اور چہلواری کی چاندنی کا فرش ، دیوار سے گاؤ تکیہ اور پاندان تو تمام طبقوں میں مشترک تھے ۔ امراء اور رئیسوں کی بیگمات کے وقار اور مرتبہ کا اندازہ صرف ان کے پاندان سے لگایا جاتا تھا ۔ امراء کے گھروں میں ڈہائی سیری کریم نگر کی مھین جالی کے دو منزلہ پاندان ، بالائی منزل میں مھین تراشی ہوئی چھالیہ کی پرتیں ، کچھ مشک ، کچھ زعفران اور کچھ عنبر میں بسائی ہوئی سونے اور چاندی کے ورق میں لپٹی ہوئی ۔ الائچی ، لونگ ، جوز ، جوتری ، زغفران ، سونف ، تراشا ہوا کھوپرا ، حسب ذوق زردہ و قوام ، بریلی کا کتھا اور کانپوری کتھے کی بڑی اور پپڑی اور چونا خالص عرق گلاب میں بجھایا ہوا اور مھیں ململ سے چھانا ہوا ۔ پان بنانے کے انداز میں بھی ایک خاص سلیقہ ہوا کرتا تھا ۔ زانو پر بچھی ہوئی سرخ صافی ، خاصدان سے کلی دار پان کو چن کر پہلے باریک قینچی سے یوں تراش لیا جاتا تھا کہ کنارے یکساں ہو جائیں یہی تراش تو بیگم صاحبہ کی خاص ہنرمندی تھی جو ان کی مہارت کا ثبوت تھی ۔ پھر پان کی نس علحدہ کرلی جاتی اور پان پر پان جوڑ کر حسب موسم سلائی سے چونا لگایا جاتا تھا کہ جاڑوں میں زعفران اور گرما میں گلاب یا کیوڑے میں کھلی کلی کا چونا ہو ۔ بعض گھرانوں میں خشک کتھا اور بعض میں شیر بادام میں پکایا ہوا کتھا استعمال ہوتا تھا ۔ چھالیہ ، چکنی ، سپاری ، نرملی ، جوز ، جوتری ، الائچی اور جو پسندیدہ ہو تو گلقند کے اضافہ بعد گلوری کو موڑ کر چاندی لپٹا لونگ ٹانک دیا جاتا تھا اور اس پر حسب مراتب چاندی یا سونے کا ورق لپیٹ کر چاندی کی طشتری میں سرخ مخمل اور اسپر گلوری رکھ کر پیش کی جاتی تھح۔ قبول کرنے والال سروقد اٹھ کر تعظیم بجا لاتا اور پان قبول کرکے سلام کے عوض ڈھیروں دعاؤں کی سوغات بھی پاتا تھا ۔ ادھر اگالدان ابھی استعمال ہوا ہی تھا کہ کنیز نے فوراً اگالدان بدل دیا ۔ اگالدان بھی پاندان ہی کی طرح مرصع ہوا کرتے تھے ۔ سقوط حیدرآباد کے بعد جب پڑوسی درآئے تو وہ اگالدان کے استعمال سے ناآشنا تھے ۔ دفاتر معتمدی جسے آج سکریٹریٹ کہا جاتا ہے ۔ عدالت العالیہ جیسے ہائیکورٹ کہتے ہیں وہاں ہر اجلاس پر اگالدان ہوا کرتے تھے ۔ ایسے میں نئے عہدیداروں نے اگالدانوں کا بطور گلدان استعمال کیا ۔ عدالت میں چونکہ جج کی کرسی اونچی ہوا کرتی تھی اس لئے اس کے پہلو میں اگالدان بھی اونچے تھے ۔ یہی اگالدان بعض عہدیداروں کے دیوان خانوں میں استقبالیہ گلدان کی صورت خوب سجائے گئے ۔
پان اور پاندان حیدرآبادی تہذیب کا ایک اہم باب ہے ۔ کوئی مہمان جب گھر آئے تو اسکی تواضع استقبالیہ پان اور عطر سے کی جاتی تھی ۔ حسب موقع تواضع کے بعد بوقت رخصت بھی پان پیش کیا جاتا اور ساتھ میں عطر کی سوغات بھی دی جاتی تھی ۔ بیگم صاحبہ کے دو منزلہ پاندان کی بالائی کشتی کے نیچے ایک اور منزل ہوا کرتی تھی جس کے مختلف خانوں میں چاندی کے مختلف سکے اور ایک خانہ میں چھوٹی اشرفیاں بھی ہوا کرتی تھیں ۔ ان کے درمیان بیگم صاحبہ اپنی پسندیدہ انگشتریاں بھی رکھ چھوڑا کرتیں کہ دن ، تاریخ یا لباس کی مناسبت سے بدل سکیں ۔ عزیز رشتے داروں میں کوئی مہمان آتا اور لڑکیاں بالیاں بیگم صاحبہ کے سلام کو حاضر ہوتیں تو سلام ، آداب ، تسلیم ، بندگی کے عوض دعاؤں کی سوغات تو ہوتی ہی تھی ۔ لیکن مٹھی بھر سکے نکال کر مغلانی کو آواز بھی دیدیا کرتی تھیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہ لو ان بچوں کا صدقہ ہے ۔ فقیروں ناداروں میں خیرات کروادینا ۔
دور گذر گئے زمانے گذر گئے اس دور میں بیٹے جوان تو کجا شادی شدہ بھی ہوجاتے بلکہ کئی بچوں کے باپ بھی ہوجاتے تو مجال نہ تھی کہ بزرگوں کے آگے پان کھائے منہ لال کئے چلے آئیں ۔ یہ تو سب ہم عمر اور ہم مرتبہ لوگوں کے درمیان کے شوق تھے ۔ دادا کے آگے پوتے جوان ہوجاتے لیکن بیٹا باپ سے نظریں ملا کر بات نہیں کیا کرتا تھا بلکہ ماں باپ کے آگے ہمیشہ نظریں جھکی ہوتی تھیں ۔
ہر سواری پر پردہ عام تھا ۔ پاندان عام تھے ۔ بزرگوں کا احترام عام تھا ۔ وسیع اور عریض صحن عام تھے ۔ دالان ، پیش دالان ، دیوان خانوں کی تہذیب منفرد تھی ۔
آج معلوم نہیں خدا کی زمین تنگ پڑگئی ہے یا ہمہ منزل عمارتوں کی بلندی پر پہنچ کر انسان خدا بلند کہلانا چاہتا ہے ۔ صرف عمارتیں بلند ہوتی جارہی ہیں ۔ انسان کے قد کا مجھے پتہ نہیں ۔ لیکن سنتا ہوں کہ آج کل ماں باپ کی گھروں میں جگہ نہیں ۔ ماں کسی بیٹے کے گھر ہوتی ہے تو باپ کسی بیٹے کے گھر ۔ جس بیٹے کے گھر ماں ہوتی ہے وہاں ملازمہ برخواست کردی جاتی ہے ۔ جس بیٹے کے گھر باپ ہوتا ہے وہاں بچوں کو اسکول لے جانے والا اور بازار سے سودا سلف لانے والا نوکر نکال دیا جاتا ہے ۔ آج کے دور کی تہذیب یہی ہے ۔ آج اسی کو تمدن کہتے ہیں۔ پادری چرچ کو بلارہا ہے ۔ مبلغ دعوت تبلیغ دے رہا ہے ۔ ناصح نصیحتوں میں مصروف ہے ۔ ہمارے تو اب دعا کیلئے ہاتھ بھی نہیں اٹھتے ۔
ہم جنھیں رسم وفا یاد نہیں
ہم جنھیں حرف دعا یاد نہیں