- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
حیرت انگیز قرآن
تحریر: پروفیسرگیری ملر
اساک یونی ورسٹی، ترکی
ترجمہ: ذکی الرحمن غازی ندوی
‘‘قرآن حیرت انگیز کتاب ہے ’’۔اس بات کا اعتراف صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیرمسلم حضرات حتیٰ کہ اسلام کے کھلے دشمن بھی کرتے ہیں۔ عموماً اس کتاب کو پہلی با ر باریکی سے مطالعہ کرنے والوں کو اس وقت گہرا تعجب ہوتا ہے جب ان پر منکشف ہوتا ہے کہ یہ کتاب فی الحقیقت ان کے تمام سابقہ مفروضات اور توقعات کے برعکس ہے۔ یہ لوگ فرض کیے ہوتے ہیں کہ چونکہ یہ کتاب چودہ صدی قبل کے عربی صحراء کی ہے اس لیے لازماً اس کا علمی اور ادبی معیار کسی صحراء میں لکھی گئی قدیم، مبہم اور ناقابلِ فہم تحریر کا سا ہوگا۔ لیکن اس کتاب کو اپنی توقعات کے خلاف پاکر ان کو گہرا تعجب ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے پہلے سے تیار مفروضہ کے مطابق ایسی کتاب کے تمام موضوعات اور مضامین کا بنیادی خیال یا عمود صحراء اور اس کی مختلف تفصیلات مثلاً صحرائی مناظر کی منظر کشی، صحرائی نباتات کا بیان،صحرائی جانوروں کی خصوصیات وغیرہ ہو نا چاہیے۔ لیکن قرآن اس باب میں بھی مستثنیٰ ہے۔ یقیناً قرآن میں بعض مواقع پر صحرا ء اور اس کے مختلف حالات سے تعرض کیا گیا ہے، لیکن اس سے زیادہ بار اس میں سمندر کی مختلف حالتوں کا تذکرہ وارد ہوا ہے، خاص طور سے اس وقت جب سمندرآندھی، طوفان، بھنور وغیرہ اپنی ساری تباہ کاریوں کے ساتھ جلوہ نما ہوتا ہے۔
اب سے کچھ سال پہلے ہم نے ٹورنٹو میں مقیم ایک جہاز راں تاجر(Marine Merchant) کا قصہ سنا۔ اس تاجر نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ سمندر میں گزارا تھا، کسی مسلمان ساتھی نے اس کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کے لیے دیا۔اس جہاز راں تاجر کو اسلام یا اسلامی تاریخ سے کچھ واقفیت نہ تھی، لیکن اس کو یہ ترجمہ بہت پسند آیا۔ قرآن لوٹاتے ہوئے اس نے مسلمان دوست سے پوچھا :یہ محمد کوئی جہاز راں تھے؟گویااس کو قرآن کی جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ سمندر اور اس کے طوفانی حالات سے متعلق قرآن کا سچا اور باریک بیں تبصرہ اور مسلمان کا یہ بتا دینا کہ’‘‘‘ در حقیقت محمدﷺ ایک صحرا نشیں انسان تھے‘‘اس تاجر کے اسلام لانے کے لیے کافی ثابت ہوا۔ اس جہاز راں کا بیان تھا کہ وہ بذاتِ خود اپنی زندگی میں بارہا سمندر کے نامساعد حالات کا سامنا کر چکا ہے اور اسے کا مل یقین ہے کہ قرآن میں مذکور سمندر کے طوفانی حالات کی منظر کشی صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو براہ راست اس کا مشاہدہ کر چکا ہو۔ ورنہ ان حالات کا ایساخاکہ کھینچنا انسانی تخیل کے بس کی بات نہیں :
أَوْکَظُلُمَاتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَغْشَاہُ مَوْجٌج مِّن فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ اِذَا أَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرَاہَا (النور: ۴۰)
‘‘ پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اُس پر ایک اور موج، اور اُس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔’’
مذکور بالا قرآنی نقشہ کسی ایسے ذہن کی پیداوار نہیں ہو سکتا جو عملی طور پر ان حالات کو برت نہ چکا ہو اور جس کو تجربہ نہ ہو کہ سمندری طوفان کے گرداب میں پھنسے انسانوں کے احساسات اور جذبات کیا ہوتے ہیں۔ یہ ایک واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ قرآن کو کسی خاص زمانہ یا مقام سے مقید و مربوط نہیں کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس کے علمی مضامین اور آفاقی سچائیاں چودہ سو سال پہلے کے کسی صحرا نشیں ذہن کی تخلیق ہرگز نہیں ہو سکتی ہیں۔
عثتِ محمدی ﷺ سے بہت پہلے دنیا میں ایٹم(ذرہ) کے متعلق ایک معروف نظریہ (Theory of Atom) موجود تھا۔ اس نظریہ کی تشکیل میں یونانی فلاسفہ خصوصاً ڈیموکرائیٹس (Democritus) کی کاوشوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ تا آنکہ بعد میں آنے والی نسلوں میں اس نظریہ کو مسلم الثبوت واقع کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ وہ نظریہ کیا تھا ؟یونانی فلسفہ کی رو سے ہر مادی شے کچھ چھوٹے چھوٹے اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے۔یہ اجزاء (ذرات) اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ہماری قوتِ بینائی ان کا ادراک نہیں کر پاتی، اور یہ ناقابلِ تقسیم ہوتے ہیں۔ عربوں کے یہاں بھی ایٹم کا یہی تصور رائج تھا، اور حقیقت یہ ہے کہ آج بھی عربی زبان میں ذرہ کے لفظ کاکسی بھی مادی شے کے ادنیٰ ترین جز پر اطلاق کیا جاتا ہے۔ لیکن جدید سائنس کی رو سے کسی بھی شے کا چھوٹے سے چھوٹا جز (ذرہ)بھی عنصری خصوصیات کا حامل ہوا کرتا ہے۔ یہ جدید نظریہ جس کے واقعاتی شواہد موجود ہیں دورِ حاضر کی پیداوار ہے، اور عصرِ حاضر سے پہلے اس کا وجود علمی دنیا میں ناپید تھا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موجودہ دور کی اس دریافت(Discovery) کا تذکرہ چودہ صدی قبل نازل شدہ قرآن مجید میں پایا جاتا ہے:
وَمَا یَعْزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ فِیْ السَّمَاء وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِکَ وَلا أَکْبَرَ اِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ (یونس:۶۱)
‘‘کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ اس سے چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔’’
اس میں شک نہیں کہ چودہ صدی قبل کے عرب باشندے جو کہ کسی شے کے ادنیٰ ترین جز کو ذرہ کے نام سے جانتے تھے، ان کو قرآن کی یہ تصریح بڑی غیر فطری اور غیر مانوس معلوم ہوئی ہوگی۔لیکن در حقیقت یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ زمانہ اپنی تیز رفتاری کے باوجود قرآن پر سبقت نہیں لے جا سکتا۔
عام طور پر کسی قدیم تاریخی کتاب کا مطالعہ کرنے والا اس بات کی بجا طور پر توقع رکھتا ہے کہ اس کے مضامین و فرمودات کے ذریعہ وہ اس زمانے کی صحتِ عامہ اور متداول طریقہ ہائے علاج کے متعلق کافی معلومات اکٹھا کر سکے گا۔دوسری تاریخی کتابوں مثلاً بائبل، وید، اوستھا وغیرہ میں واقعۃً ایسا ہے بھی، لیکن قرآن یہاں بھی یکتا ومنفرد ہے۔ یقیناً متعدد تاریخی مصادر میں ہمیں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے صحت و صفائی کی بعض ہدایتیں اور نصیحتیں عنایت فرمائی ہیں۔ لیکن ان کا تفصیلی تذکرہ قرآن میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ بادی النظر میں غیر مسلموں کو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مفید طبی معلومات کو کتابِ محفوظ میں کیوں شامل نہیں فرما دیا؟
بعض مسلم دانشوروں نے اس مسئلے کی اس طرح تشریح کی ہے:اگرچہ طب سے متعلق اللہ کے رسولﷺ کے ارشادات اور ہدایتیں مبنی بر صحت اور قابلِ عمل ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے لامحدود علم و حکمت میں یہ بات تھی کہ آئندہ زمانوں میں سائنس اور میڈیسن (Medicine)کے میدانوں میں بے مثال ترقی ہوگی جس کے نتیجے میں روایتی طبی ہدایتیں پرانی اور فرسودہ (Outdated) سمجھی جانے لگیں گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صرف اسی قسم کی معلومات کو درج فرمایا جو تغیرِ زمانہ سے متاثر نہ ہو سکیں۔ میری ناقص رائے میں اگر ہم قرآنی حقائق کو وحی الٰہی مان کر چلیں تو زیرِ بحث موضوع درست طریقے سے سمجھا جا سکے گا اور مذکورہ بالا بحث اور مناقشے کی غلطی بھی واضح ہو جائے گی۔
سب سے پہلے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ قرآن اللہ کی وحی ہے، اس لیے اس میں وارد تمام معلومات کا سرچشمہ بھی وہی ذاتِ برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو اپنے پاس سے وحی کیا اور یہ اس کلامِ الٰہی میں سے ہے جو تخلیقِ کائنات سے پہلے بھی موجود تھا۔اس لیے اس میں کوئی اضافہ، کمی اور تبدیلی ممکن نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم تو محمدﷺ کی ذات اور آپ کی ہدایات و نصائح کے وقوع پذیر ہونے سے بہت پہلے وجود میں آ کر مکمل ہو چکا تھا۔اور ایسی تمام معلومات جو کسی متعین عہد یا مقام کے خاص طرزِ فکر و طرزِ حیات سے متعلق ہوں کلامِ الٰہی میں داخلہ نہیں بنا سکتیں۔کیونکہ ایسا ہونا واضح طور پر قرآن کے مقصدِ وجود کے منافی ہے اور یہ چیز اس کی حقانیت، رہتی دنیا تک کے لیے اس کی رہنمائی کی صلاحیت،بلکہ اس کے خالص وحی الٰہی (Pure Divine Revelation)ہونے پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر سکتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن ایسا کوئی نسخۂ علاج (Home Remedies)تجویز نہیں کرتا جو مرورِ ایام کے ساتھ اپنی افادیت کھو دے، اور نہ اس میں اس ٹائپ کی کوئی رائے ذکر کی جاتی ہے کہ فلاں غذا افضل ہے یا فلاں دوا اس اس مرض میں شفا بخش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے صرف ایک چیز کو طبی علاج کے ضمن میں ذکر کیا ہے اور میری معلومات کی حد تک آج تک کسی نے اس کی مخالفت بھی نہیں کی ہے۔ قرآن نے صراحت کے ساتھ شہد(Honey) کو شفا قرار دیا ہے اور میری معلومات کی حد تک کسی نے آج تک اس کا انکار بھی نہیں کیا۔ اگر کوئی یہ مفروضہ رکھتا ہے کہ قرآن، کسی انسانی عقل کا کارنامہ ہے، تو بجا طور پر ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ہم اس کتاب کے تالیف کرنے والے کے فکری و عقلی رجحانات کا کچھ نہ کچھ پر تو (Reflection) اس میں ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ متعدد انسائیکلو پیڈیاز (Encyclopedias) اور نام نہاد علمی کتابوں میں بھی قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وارد ہونے والے خیالات و توہمات (Hallucinations)کی پیداوار بتایا گیا ہے۔ (العیاذ باللہ) چنانچہ ضروری ہے کہ ہم خود قرآن میں اس دعوے کی صحت و عدمِ صحت کے ثبوت و دلائل تلاش کریں۔ لیکن کیا قرآن میں ایسے دلائل یا اشارے موجود ہیں ؟یہ جاننے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ معینہ اشیاء کیا ہیں جو صاحبِ کتاب کے ذہن و دماغ میں ہر آن گردش کرتی رہتی تھیں ؟اس کے بعد ہی ہم فیصلہ کر سکیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کن کن افکار نے قرآن میں اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔
تاریخ اسلامی کے ہر طالب علم کو یہ بات معلوم ہے کہ آپﷺ کی زندگی مشقتوں اور پریشانیوں سے بھری تھی۔آپ کی حیات میں ہی دیکھتے دیکھتے آپﷺ کے کئی بچے وفات پا گئے۔ حضرت خدیجہؓ آپﷺ کی محبوب و وفادار شریکِ حیات تھیں، وہ آپ کا بیحد خیال فرماتیں اور ہر مشکل گھڑی میں آپ کا سہارا بنتی تھیں۔ آزمائش و ابتلا کے تاریک دور میں ہر غم کی شریک بیوی بھی انتقال فرما جاتی ہیں۔ یہ بات ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ امّ المومنین حضرت خدیجہؓ فولادی کردار کی مالک اور بڑی دانش مند خاتون تھیں۔ احادیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ پہلی وحی کے نزول پر سراسیمگی میں تیزی سے گھر واپس لوٹے اور سارا ماجرا حضرت خدیجہؓ کو سنایا۔اس زمانے کو چھوڑیے، آج بھی ہمیں کوئی ایساعرب باشندہ نہیں مل سکے گا جو یہ اعتراف کرے کہ ‘‘میں فلاں موقعے پر اس درجہ خوف زدہ ہو ا کہ بھاگ کر اپنی اہلیہ کے پاس جا پہونچا ’’عرب حضرات عام طور پر ایسا نہیں کرتے۔ لیکن یہ واقعہ حضرت خدیجہؓ کی اثر آفریں (Influential)اور طاقتور شخصیت کی دلیل ہے۔ یہ ان موضوعات میں سے کچھ کی مثالیں ہیں جن کے بارے میں قوی اندازہ ہے کہ انہوں نے بتقاضائے بشریت، محمدﷺ کے شفیق دل میں اپنے اثرات ضرور چھوڑے ہوں گے۔ لیکن یہ چند مثالیں ہی میرے نقطۂ نظر کی بھرپور تائید کرتی نظر آتی ہیں۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر قرآن کریم محمدﷺ کے لا شعورانسانی ذہن کی اختراع اور ایجاد ہے، تو اس میں ضرور بالضرور ان جاں گسل واقعات کا تذکرہ یا ان کی طرف تھوڑا بہت اشارہ دکھائی پڑنا چاہیے، لیکن حقیقتِ واقعہ اس کے برعکس ہے۔ قرآن کہیں پر بھی محمدﷺ کے بچوں کی موت، پیاری شریکِ حیات کی جدائی اور اول وحی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خوف، جس کو آپﷺ نے باحسن طریق اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ بانٹا تھا، قرآن کہیں بھی تفصیلاً یا اجمالاً ان بشری احساسات و جذبات کا تذکرہ کرتا دکھائی نہیں پڑتا۔ نفسیاتی نقطۂ نظر سے بھی یہ بات مستبعد ہے کہ ان چیزوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتسم نہ کئے ہوں گے۔ اب اگر یہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بشری ذہن کی ایجاد ہے تو اس میں ان واقعات کے گہرے اثرات، یا کم از کم ان کے متعلق ادنیٰ اشارہ تو ہونا ہی چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے، اور یہ نہ ہونا قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے کا اٹل ثبوت ہے۔
قرآن کو علمی طور پر دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ قرآن علمی سطح پر ہمیں ایسے خزانے عطا کر سکتا ہے جن کے عشر عشیر سے بھی دیگر صحائف کے اوراق خالی ہیں۔ آج دنیا کو قرآن کے لازوال علمی سرچشمہ کی تلاش ہے اور وہ جتنا جلد اس کو پالے اس کے لیے بہتر ہوگا۔ دنیا میں آج بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو کائناتی نظام کے بارے میں اپنے منفرد افکار و نظریات رکھتے ہیں۔ایسے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، لیکن سنجیدہ علمی حلقوں میں ان کی گفتگو سننا تک گوارا نہیں کیا جاتا۔ ایسا کیوں ہے؟اس کا سبب یہ ہے کہ گزشتہ صدی کے اواخر سے علمی حلقوں میں کسی بھی مفروضہ یا تجربہ کے درست ہونے، نہ ہونے کے لیے ایک اصول تنقیع بر بِنائے تغلیط (Falsification Test) متعین کر دیا گیا۔ اہلِ علم کے الفاظ میں وہ زریں اصول یہ ہے:اگر تمہارے پاس صرف کوئی تھیوری ہے تو براہِ مہربانی اسے سمجھانے میں ہمارا وقت ضایع نہ کرو، البتہ اگر تمہارے پاس اس تھیوری کی صحت و عدمِ صحت کو ثابت کرنے کا کوئی عملی طریقہ موجود ہے تو ہم سننے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ اسی معیار کے اتباع میں علمی حلقوں نے صدی کے آغاز میں آئن سٹائن(Einstein) کی پذیرائی کی، آئن سٹائن نے ایک نئی تھیوری (Theory of Relativity)پیش کی اور کہا:میرا ماننا ہے کہ کائنات اس ترتیب پر چل رہی ہے، تمہارے پاس میرے نظریہ کو غلط یا صحیح جانچنے کے تین راستے ہیں۔‘‘ اور پھر چھ سال کی مختصر مدت میں اس کے نظریے نے تینوں راستوں کو کامیابی کے ساتھ عبور کر لیا۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فی الواقع آئن سٹائن کوئی عظیم انسان تھا، البتہ اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس لائق تھا کہ اس کی بات کو بغور سنا جائے۔
قرآن اپنی حقانیت کے ثبوت میں انسانوں کے سامنے اِسی نوعیت کا معیارِ تفتیش پیش کرتا ہے۔ اس معیار کی روشنی میں قرآن کے بعض حقائق نے ماضی میں اپنی صحت کا لوہا منوایا ہے، جبکہ اس میں کچھ حقائق ابھی زمانے سے اپنی تصدیق کے منتظر ہیں۔ قرآن اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ ’’اگر یہ کتاب اپنے کلامِ الٰہی ہونے کے دعوے میں جھوٹی ہے تو تم فلاں طریقے سے اسے غلط ثابت کر کے دکھاؤ۔‘‘ حیرتناک بات یہ ہے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی آج تک کسی نے اس کے دعوے کے مطابق اس کے تجویز کردہ طریقے سے اسے باطل ثابت نہیں کیا۔ یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ مخالفین کی ہزار جز بز کے باوجود یہ کتاب اپنے دعوے میں صد فیصد سچی اور قابلِ اعتماد ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اوروں کے پاس اس قبیل کی کوئی چیز نہیں۔ان کے پاس جھوٹ اور سچ ثابت کرنے والا ایسا کوئی معیار، کوئی برہان نہیں۔ بلکہ ان بیچاروں کی اکثریت کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہمیں اپنے عقائد و نظریات کو پیش کرنے کے پہلو بہ پہلو مخاطب کو ان کی تردید و تغلیط کا موقع بھی دینا چاہیے۔ بہرحال اسلام ایسا کرتا ہے، قرآن اپنے مخاطبوں کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ آؤ اور مجھ کو غلط ثابت کر کے دکھاؤ۔ یہ قرآن کی چوتھی سورت میں ہے، میں آپ کو بیان نہیں کر سکتا کہ پہلی بار اس آیت کو پڑھ کر میری کیا کیفیت ہوئی تھی۔قرآن کا چیلینج یہ ہے:
أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْراً (النساء :۸۲)
‘‘کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔’’
یہ قرآن کا سیدھا اور کھلا چیلنج ہے۔ یہ اصلاً منکرین کو سیدھی دعوت دیتا ہے کہ وہ اس میں کوئی خطا یا غلطی نکال کر دکھائیں۔ اس نوعیت کی دعوتِ مبارزت دینا کسی انسان کے بس کا روگ نہیں ہو سکتا۔دنیا میں کوئی آخری درجہ کا عالم و فاضل شخص بھی اس بات کی جرأت نہیں کر سکتا کہ امتحان گاہ سے اٹھتے ہوئے اپنی کاپی کے پہلے صفحے پر یہ نوٹ آویزاں کر دے کہ اس کاپی میں مندرج جملہ جوابات درست ہیں اور اگر کسی جانچنے والے کو اپنی قابلیت کا غرہ ہو تو اس دعوے کو غلط ثابت کر کے دکھائے۔ایسا کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کو پڑھ کر کوئی بھی ممتحن اس میں غلطی کو ڈھونڈے بغیر ساری رات سو نہ سکے گا۔ لیکن یقین جانئے کہ قرآن اپنا پہلا تعارف اسی حیثیت سے کراتا ہے۔اپنے پڑھنے والے کے ساتھ قرآن کا ایک اور رویہ بھی انتہائی حیرتناک ہے۔وہ قارئین کے سامنے گوناں گو موضوعات پر بڑی شرح وبسط کے ساتھ اپنی معلومات پیش کر تا ہے اور چلتے چلتے کچھ اس قسم کی نصیحت کر دیتا ہے کہ ’’اگر تمہیں مزید معلومات درکار ہوں یا میری بتائی باتوں سے تم مطمئن نہ ہوئے ہو تو ایسا کرو کہ متعلقہ موضوع کے ماہرین سے استفسار کر کے دیکھ لو۔‘‘ یہ بھی ایک غیر مانوس اور عجیب بات ہے۔ ایسا تقریباً ناممکن ہے کہ کوئی شخص جو جغرافیہ (Geography)، نباتیات(Botany)،حیاتیات(Biology) جیسے علوم پر اتھارٹی نہ ہونے کے باوجود متعلقہ موضوعات پر قلم اٹھائے۔ اورپھراس کا دعوی بھی ہو کہ اگر کوئی میری کتاب کے مشمولات سے متفق نہیں ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ ان موضوعات کے مسلم الثبوت ماہرین سے ان کا تجزیہ کرا لے کہ آیا اس کتاب میں فی الواقع کوئی غلط بات کہی گئی ہے یا نہیں ؟
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ بے شمار دانشوروں نے سائنسی موضوعات پر بیان کردہ قرآنی تفصیلات کو اپنی تحقیق وجستجو کا میدان بنایا اور اس کے نتیجے میں حیرت انگیز اکتشافات انجام دیے۔ماضی میں لکھی گئی مسلمان اہلِ علم و حکمت کی کتابوں میں موجود قرآنی آیات کے حوالے اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ یہ حضرات اپنے علم و تحقیق میں کس درجہ قرآن کی روشنی سے مستفیض ہوتے رہے تھے۔اسلاف کی یہ کتابیں اشارہ کرتی ہیں کہ ان بزرگوں کو مذکورہ بالا علمی میدانوں میں کسی مخصوص شے کی تلاش ہوتی تھی جس کو قرآن نے قطعی حقیقت کی حیثیت سے بیان کر دیا تھا۔ ان کے اعترافات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی تصریحات نے انہیں اس رخ میں چلنے پر آمادہ کیا تھا، کیونکہ قرآن کا اندازاس معرض میں بھی سب سے نرالا ہے۔وہ کسی بھی موضوع پر بات کرتے ہوئے آخری اور کلی حقائق بیان کر دیتا ہے۔ عبوری مراحل کی تفصیلات سے تعرض نہ کرتے ہوئے وہ صرف اتنا اشارہ کر دیتا ہے کہ یہ چیزیں اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ کہاں کہاں مل سکتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ ہر انسان کو بحث و تحقیق کی دعوت دیتا ہے اور بلا دلیل وجستجو کے اندھی تقلید کے رویّے کو قابلِ مذمت قرار دیتا ہے:
وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْْہَا صُمّاً وَعُمْیَاناً (الفرقان:۷۳)
‘‘جنھیں اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں گر جاتے’’۔
حالیہ دنوں میں مسلمانوں نے اس طرف خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ چند سال قبل سعودی حکومت نے اپنے دارالسلطنت ریاض میں متعدد متخصص اہلِ علم کو اس بات کی دعوت دی کہ وہ رحمِ مادر میں بچے کے ارتقائی مراحل کا جائزہ قرآن کے بیان کردہ حقائق کی روشنی میں لیں۔اس علمی اجتماع کو منعقد کرنے میں سعودی اربابِ حکومت کے پیشِ نظر درجِ ذیل قرآنی حکم تھا:
فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ اِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (الانبیاء :۷)
‘‘تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔’’
حاضرین میں ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ علم الجنین (Embryology)کے صدر پروفیسر کیتھ مور(Keith Moore) بھی تھے۔ موصوف نے اس موضوع پر درسی کتابیں تیار کی ہیں اور ان کا شمار اس موضوع پر دنیا کے معدودے چند نمایاں اہلِ علم میں ہوتا ہے۔ سعودی حکومت نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے اختصاص کی روشنی میں اس موضوع پر قرآن کے بیان کردہ حقائق کا جائزہ لیں اور ان کی صحت و عدمِ صحت پر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کریں۔ریاض میں قیام کے دوران ان کو تمام مطلوبہ آلات ووسائل بہم پہنچائے گئے اور ہر قسم کی مدد فراہم کی گئی۔ یقین جانیے کہ وہ اپنے اس تجربہ سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ بعد میں انہوں نے اپنی تصنیف کردہ کتابوں میں کئی بڑی تبدیلیاں کیں۔انہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’ہم ولادت سے پہلے‘(Before We are Born) کے دوسرے ایڈیشن میں اضافہ کرتے ہوئے، علم الجنین (Embryology) پر قرآنی تفصیلات کو بڑے مدلل انداز میں درست قرار دیا۔ اس سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن ہر اعتبار سے زمانہ سے سابق ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے پیروکاروں کا علم اس کے نہ ماننے والوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
میری خوش نصیبی تھی کہ میں نے پروفیسر کے ٹی وی پروگرام کو مسلسل دیکھا۔اس پروگرام میں پروفیسر نے اپنے تجربات کے نتائج پیش کیے تھے۔ ان دنوں اس پروگرام کا بڑا چرچہ تھا،پروفیسر موصوف نے اپنے پروگرام میں چند سلائیڈ تصویریں بھی دکھائی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ رحمِ مادر میں جنین کے نشوونما کے بارے میں قرآن نے جو معلومات ذکر کی ہیں وہ اب سے تیس سال پہلے تک بھی علمی دنیا میں غیر معروف تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بذاتِ خود قرآن کی بیان کردہ معلومات میں ایک چیز سے آج تک قطعی ناواقف تھے۔وہ یہ کہ جنین (Embryo) اپنے ارتقائی مراحل میں سے ایک مرحلہ میں ’علقہ‘(جونک،Leech) سے مشابہت رکھتا ہے اور یہ تشبیہ صد فیصد مطابقِ واقعہ ہے۔ اپنی کتاب میں اس واقعے میں انہوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ درحقیقت میں نے کبھی اس سے پہلے جونک کو نہیں دیکھا تھا۔ اس قرآنی تشبیہ کی سچائی جاننے کے لیے میں نے ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ حیوانیات (Zoology)سے رجوع کیا اور وہاں سے جونک کی فوٹو حاصل کی۔اپنے تقابلی مطالعہ کو مبنی بر صحت پاکر انہوں نے اس موضوع پر تحریر کی ہوئی اپنی درسی کتابوں میں جنین اور جونک کی تصاویر کو شائع کیا۔اس کے بعد پروفیسر موصوف نے ایک کتاب ’علم الاجنہ السریری(Clinical Embryology ) کے نام سے تحریر کی اور اس میں قرآن کی بتائی ہوئی معلومات کی روشنی میں اپنے علمی نتائج پیش کئے۔اس کتاب کی اشاعت سے کینڈا کے علمی حلقوں میں ہنگامہ بپا ہو گیا۔ طول و عرض میں اخبارات کی سرخیاں اس کتاب کی نذر ہو گئیں۔ بعض اخبارات کا رویہ قدرے مضحکانہ بھی تھا، مثلاً ایک اخبار کی سرخی یہ تھی: Surprising things found in Ancient Book (حیرت انگیز چیزیں ایک قدیم کتاب میں پائی گئیں )۔
اس مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر عام لوگوں کو واقعہ کی حقیقت کا علم نہیں تھا۔ ایک پریس رپورٹر نے پروفیسر کیتھ مور سے سوال کرتے ہوئے پوچھا تھا:کیا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ قدیم عربوں کو ان معلومات کا علم رہا ہو اور قرآن کے مؤلف نے ان کو کتابی شکل میں محفوظ کر دیا ہو؟ہو سکتا ہے کہ عربوں نے ماضی میں عملِ جراحت کی ابتدائی شکل ایجاد کر لی ہو اور چند عورتوں کے پیٹ پھاڑ کر اس قسم کی چیزیں جان لی ہوں ؟سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر موصوف نے کہا تھا :آپ یہاں ایک اہم نکتہ فراموش کر رہے ہیں۔وہ یہ کہ جنین کے ابتدائی مراحل کی تصاویر جو آج ہر جگہ آسانی سے مل جاتی ہیں ان کو صرف اور صرف خُورد بین (Microscope) کے ذریعہ سے لیا جا سکتا ہے اور خُورد بین کب وجود میں آئی یہ آپ کی جنرل نالج میں ہوگا ہی۔یہ کہنا فضول ہے کہ چودہ سو سال پہلے کسی نے جنین کے ارتقائی مراحل جاننے کی کوشش کی تھی۔ کیونکہ اس زمانے میں لوگ اس کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ قرآن میں مذکورہ جنین کے ابتدائی مراحل کی معلومات کو مجرد آنکھ سے دیکھنا ممکن ہی نہیں اور خُورد بین کا آلہ محض دو صدی قبل تک دنیا میں ناپید تھا۔یہ سوال پوچھے جانے پر کہ اب آپ اس کی کیا توجیہ کریں گے، انہوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا:اس کی توجیہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ قرآن اللہ رب العالمین کا نازل کردہ کلام ہے۔
مذکور بالا مثال میں قرآن کے علمی بیانات کی تصدیق کرنے والا شخص اگرچہ غیر مسلم تھا، لیکن اس بات سے کوئی اصولی فرق نہیں پڑتا۔ اگر کوئی عام آدمی اس نوعیت کے قرآنی بیانات کی وکالت کرے تو ضروری نہیں کہ ہم اس کی بات قبول کر لیں۔ لیکن اصحابِ علم کو حاصل اعتبار و احترام کے پیشِ نظر اگر کوئی متبحر عالم، جس کی اپنے اختصاص پر قدرت اور کمال مسلّم و مقبول ہو، اس بات کا دعوی کرے کہ میرے متعلقہ موضوع پر وارد قرآنی بیانات صد فیصد درست ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کے نتائج کو صحیح نہ مانیں۔پروفیسر کیتھ مور کے تجربہ سے سبق لیتے ہوئے ان کے ایک ہم پیشہ ساتھی نے بھی اس قسم کوشش کی۔پروفیسر مارشل جونسن(Marshal Johnson)جو ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ علم طبقات الارض((Geologyمیں استاد تھے، انہوں نے اپنے مسلم دوستوں سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ ان کے میدانِ اختصاص سے متعلق قرآن میں وارد معلومات کو اکٹھا کر کے انہیں دیں۔اور پھر ان کے علمی نتائج نے دوسری بار لوگوں کو حیرت واستعجاب میں مبتلا کر دیا کیونکہ اس موضوع پر بھی قرآنی بیانات سے جدید سائنسی انکشافات مکمل ہم آہنگ ہیں۔مختلف علمی موضوعات پر قرآنی بیانات کی رنگا رنگی کو دیکھتے ہوئے ہر علمی موضوع پر بحث و تحقیق کرنا ایک مستقل کتاب کا طالب ہے اور اس کے لیے طویل مدت بھی درکار ہوگی جو اس مختصر سے مقالہ میں ممکن نہیں۔
مذکور بالا تحقیقی بیانات کے تذکرے سے میرا مقصود یہ کہنا ہے کہ قرآن کریم مختلف موضوعات پر اپنی رائے بڑے نپے تلے لیکن واضح اسلوب میں پیش کر دیتا ہے اور اپنے قاری کو وصیت کرتا ہے کہ وہ ان موضوعات کے متخصص علماء و ماہرین کی تحقیقات کی روشنی میں قرآنی بیانات کو جانچے اور اہلِ علم و فضل سے مراجعت و مشاورت کے بعد ہی قرآن کی حقانیت پر صاد کرے۔ بلا شبہ قرآن کا اپنایا ہوا یہ جرأت مندانہ موقف ہمیں دنیا کی کسی دوسری کتاب میں نہیں ملتا۔ اس سے زیادہ حیرتناک بات یہ ہے کہ قرآن جہاں کہیں بھی اپنی معلومات پیش کرتا ہے وہ بیشتر اوقات اپنے قاری سے تاکید کرتا جاتا ہے کہ ان باتوں کو اس سے پہلے تم نہیں جانتے تھے۔واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں آج کوئی ایسی مقدس کتاب موجود نہیں ہے جواس طرح کی صراحت کرتی ہو۔ مثال کے طور پر عہد نامہ قدیم (Old Testament)میں بہت سی ایسی تاریخی معلومات ملتی ہیں کہ فلاں بادشاہ کا زمانہ یہ تھا اور اس نے فلاں بادشاہ سے جنگ کی تھی، یا فلاں فلاں بادشاہ کے اتنے اور اتنے بیٹے تھے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیشہ یہ شرط بھی ملتی ہے کہ اگر تمہیں مزید معلومات درکار ہیں تو فلاں فلاں کتاب سے رجوع کرو، یعنی سابق الذکر معلومات کا مصدر کچھ کتابیں ہیں جن کی طرف بہ وقتِ ضرورت رجوع کیا جا سکتا ہے۔ لیکن قرآن کا معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے، وہ اپنے پڑھنے والے کو معلومات فراہم کرتے ہوئے صراحت کر دیتا ہے کہ یہ باتیں اپنے آپ میں تمہارے لیے نئی ہیں اور کسی خارجی مصدر سے نہیں لی گئی ہیں۔ اور قرآن کی یہ نصیحت تو برقرار رہتی ہی ہے کہ اس دعوی پر شک کرنے والے اگر چاہیں تو بحث و تحقیق کر کے اس کو غلط ثابت کر نے کی کوشش کر لیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چودہ صدیوں کے طویل عرصہ میں کوئی ایک شخص بھی اس دعوے کو چیلینج نہیں کر سکا۔ حتیّٰ کہ کفار مکہ جو اسلام دشمنی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتے تھے، وہ بھی قرآن کے اس دعوے کی تردید نہ کر سکے۔ کوئی ایک متنفس بھی یہ ادعاء نہ کر سکا کہ قرآن کی مبینہ معلومات سیکنڈ ہینڈ ہیں اور مجھے معلوم ہے کہ محمد ﷺ نے ان کو کہاں سے چرایا ہے۔اس قسم کا دعوی نہ کئے جانے کی وجہ یہ تھی کہ واقعتاً یہ حقائق اپنے آپ میں جدید تھے۔چنانچہ بحث وجستجو پر آمادہ کرنے والی قرآنی ہدایت کی پیروی میں خلیفۂ راشد ثانی حضرت عمر بن الخطابؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں ایک وفد کو سدِ(دیوار)ذوالقرنین کی تلاش میں بھیجا۔ قرآنی وحی سے پہلے عربوں نے اس دیوار کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا، لیکن چونکہ قرآن نے اس کی علامات و قرائن واضح کر دیے تھے اس لیے انہوں نے اس دیوار کو ڈھونڈھ نکالا۔ اور در حقیقت یہ دیوار آج بھی موجودہ روس کے ڈربنڈ ((Durbendنامی مقام پر واقع ہے۔یہاں ایک بات ذہن نشیں کر لیجئے کہ اگرچہ قرآن میں متعدد چیزیں بڑی صحت اور دقت رسی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر وہ کتاب جو چیزوں کو درستگی اور باریکی سے بیان کر دے وہ منزل من اللہ قرار پائے گی۔صحیح بات یہ ہے کہ صحت و باریکی، وحیِ الٰہی ہونے کی شرطوں میں سے صرف ایک شرط ہے۔ مثال کے طور پر ٹیلیفون ڈائیریکٹری اپنی معلومات میں صحیح و دقیق ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ منزل من اللہ ہے۔ فیصلہ کن بات یہ ہے کہ قرآنی معلومات کے اصل منبع و مصدر کو دلائل و براہین کے ذریعہ ثابت کیا جائے، اور یہ ذمہ داری قرآن کے مخاطب کی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئلہ کچھ اس طرح بنتی ہے کہ قرآن اپنے آپ میں ایک اٹل سچائی ہے، اب جس کو اس دعویٰ میں تردد ہو وہ قطعی دلیلوں سے اس کی تردید کر کے دکھائے۔اور خود قرآن اس قسم کی بحث و تمحیص کی ہمت افزائی کرتا ہے۔
یہاں یہ علمی حقیقت بھی ہمارے ذہنوں سے اوجھل نہ ہو کہ اگر کوئی انسان کسی کائناتی مظہرہ ((Phenomenon کی علمی توجیہ نہ کر سکے تو اسے لازماً دوسروں کی توجیہات کی صداقت کا اعتراف کرنا ہی چاہیے۔ہم ایسا نہیں کہتے، لیکن اس صورت میں اس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ بذاتِ خود اس کی کوئی معقول توجیہ برآمد کر کے دکھائے۔ یہ علمی نظریہ ہماری زندگی کے بیشمار تصورات پر صادق آتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر یہ قرآنی تحدی سے مکمل ہم آہنگ ہوتا دکھائی پڑتا ہے۔ قرآن اپنے منکرین کے سامنے بڑی پریشانیاں کھڑی کر دیتا ہے، وہ آغازِ گفتگو ہی میں اپنے مخالف سے اس قسم کا عہد لے لیتا ہے کہ اگر آپ کسی حقیقت کو صحیح تسلیم نہیں کرتے تو اس کو غلط ثابت کر کے دکھائیں۔
قرآن کی متعدد آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی شناعت بیان کی ہے جو حقائق سننے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کے ذریعے سے ان کو نہیں آزماتے اور عقل کے اندھے ہو کر اپنے عناد و انکار پر اڑے رہتے ہیں :
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْراً مِّنَ الْجِنِّ وَالاِنسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لاَّ یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُونَ بِہَا أُوْلَ ئِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُوْلَ ئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ (الاعراف:۹۷۱)
’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوے ہیں۔‘‘
گویا قرآن کے الفاظ میں ایسا شخص قابلِ ملامت ہے جو معلومات کو سن کر رد و قبول کے لیے اپنی عقلی صلاحیتوں کو رو بہ عمل نہیں لاتا ہے۔
قرآن کی صحت و صداقت جانچنے کے اور بھی طریقے پائے جاتے ہیں۔ان میں ایک مسلمہ طریقہ’’ استنفادِ بدیل ‘‘ (Exhausting the Alternatives)کا ہے۔بنیادی طور پر ہم قرآن کا یہ دعویٰ دیکھتے ہیں کہ وہ وحیِ الٰہی ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو کیا ہے؟دوسرے الفاظ میں قرآن اپنے قاری کو چیلنج کرتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی توجیہ پیش کرے، ورق اور سیاہی سے تیار شدہ یہ کتاب کہاں سے آئی ہے؟اگر یہ اللہ کی وحی نہیں ہے تو اس کا مصدر کیا ہے؟حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج تک کوئی اس مظہرہ کی اطمینان بخش متبادل توجیہ پیش نہیں کرسکاہے۔
غیر مسلموں کی طرف سے قرآن کے منزل من اللہ نہ ہونے کے سلسلے میں جو توجیہات عرض کی گئی ہیں ان کو دو بڑے عنوانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مخالفین کی تمام ہرزہ سرائیاں ان دائروں سے باہر کم ہی نکلتی ہیں۔ مخالفین کا ایک گروہ جو متعدد اصحابِ علم، سائنس دانوں اور تعقّل زدہ لوگوں پر مشتمل ہے، کہتا ہے کہ بڑے طویل عرصہ تک قرآن اور محمد ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کر کے ہم اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ درحقیقت محمدﷺ ایک عبقری (Genius)انسان تھے،جن کو اپنے بارے میں (نعوذ باللہ) یہ وہم ہو گیا تھا کہ وہ ایک نبی ہیں۔اس کی وجہ ان کی عقل میں فتور اور نامساعد حالات میں ان کی پرورش و پرداخت ہے۔ ایک جملہ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد ﷺ حقیقتاً ایک فریب خوردہ(Fooled) انسان تھے۔ اس گروپ کے بالمقابل مخالفین کا دوسرا گروہ ہے جس کا کہنا ہے کہ دراصل محمد ایک جھوٹے انسان تھے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ آپس میں بھی کبھی قرآن کے متعلق اتفاقِ رائے نہیں کر سکے ہیں۔اسلام اور اسلامی تاریخ پر لکھے گئے بہت سارے مغربی مصادر و مراجع میں ان دونوں مفروضات کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ پہلے پیراگراف میں محمدﷺ کو ایک فریب خوردہ،مختل الحواس انسان کی شکل میں پیش کریں گے اور معاً اگلے اقتباس میں انھیں جھوٹا، کذاب کے القاب سے نوازتے دکھائی دیں گے۔حالانکہ اندھی مخالفت کے زور میں یہ حضرات علمِ نفسیات کی ابجدی حقیقت کو بھی دانستہ یا نادانستہ فراموش کر جاتے ہیں کہ کوئی انسان بیک وقت محبوس العقل اور جھوٹا شاطر(Imposter) نہیں ہو سکتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص مخبوط العقل ہے اور اپنے آپ کو نبی سمجھ بیٹھا ہے تو اس کا معمول یہ نہیں ہوگا کہ وہ رات کے آخری پہر میں جاگ کر اگلے دن کے لیے لائحہ عمل تیار کرے تاکہ اس کی نبوت کا ڈھونگ جاری رہ سکے۔ اگر وہ مختل العقل ہے تو وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اپنی دانست میں سچا نبی ہوگا اور اسے کامل یقین ہوگا کہ آئندہ کل جو بھی ناگہانی سچویشن رونما ہوگی، وحیِ الٰہی ہر موقعہ پر اس کی دادرسی کر دے گی۔ اور واقعہ ہے بھی کہ قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ کفار و مشرکین کے سوالات و اعتراضات کے جواب میں نازل ہوا ہے۔مختلف خلفیوں (Back Grounds) کے حامل مخالفین الگ الگ سطحوں پر آپﷺ سے سوالات دریافت کرتے تھے اور اللہ کی جانب سے وحی کے ذریعے آپﷺ کو اس سے باخبر کیا جاتا تھا۔ لہٰذا اگر آنحضورﷺ کو دماغی خلل(Mind Delusion) کا شکار باور کر بھی لیا جائے تو فطری طور پر ان کا رویہ جھوٹے شخص کا سا نہیں ہو سکتا۔غیر مسلم مخالفین علمی سطح پر کبھی اس بات کا اقرار نہیں کر سکتے کہ یہ دونوں از قبیلِ اضداد صفتیں کسی ایک آدمی میں یکجا ہو سکتی ہیں۔کوئی بھی انسان یا تو فریب خوردہ ہوگا یا جھوٹا، بیک وقت دونوں ہرگز نہیں ہو سکتا۔ جس چیز پر میں زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ کہ متعلقہ دونوں صفات دو متضاد شخصیتوں کا مظہر ہیں اور ایک شخص میں ان کا پایا جانا صرف خوابوں کی دنیا میں ممکن ہے۔
آنے والے منظر نامے کے ذریعہ آپ جان لیں گے کہ کس طرح غیرمسلم مخالفین،کولہو کے بیل کی مانند ایک دائرے میں گھومتے گھومتے خود اپنے کھودے ہوئے اعتراضات کے گڈھوں میں آ گرتے ہیں۔اگر آپ ان میں سے کسی سے پوچھیں کہ تمھارے فہم کے مطابق یہ قرآن کہاں سے آیا ہے؟وہ جواب دے گا کہ یہ ایک مخبوط العقل انسان کی خیال آفرینی کا کرشمہ ہے۔ اب آپ اس سے پوچھیں : ’’اگر یہ کسی پاگل ذہن کی پیداوار ہے تو اس میں یہ علمی باتیں کہاں سے آ گئیں ؟اس کو تو تم بھی مانو گے کہ قرآن میں ایسی معلومات کا تذکرہ ہے جو اس وقت عربوں کو نہیں معلوم تھیں ‘‘، اب وہ لاشعوری طور پر اپنے جواب میں تبدیلی کرتے ہوئے کہے گا:’’ہو سکتا ہے کہ محمدﷺ مخبوط العقل نہ ہوں، اور انھوں نے یہ معلومات بعض غیر ملکی اجنبیوں سے سن کر ان کو اپنی طرف منسوب کر دیا ہو، اور اس بہانے جھوٹ موٹ نبوت کا دعوی بھی کر دیا ہو‘‘۔اس نقطہ پر آ کر آپ اس سے پوچھیں :’’اگر تمھارے مطابق محمد ﷺ جھوٹے نبی تھے تو کیا وجہ ہے کہ انھیں اپنے آپ پر اس درجہ اعتماد کیوں تھا؟کیوں ان کے تمام تصرفات سے فی البدیہہ جھلکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سچا نبی متصور کرتے تھے؟‘‘اس نقطہ پر پہونچ کروہ تنگ نائے میں پھنسی بلی کی طرح اپنے سابقہ موقف کی طرف پلٹی مارتے ہوئے کہے گا :’’ممکن ہے کہ وہ فی الواقع جھوٹا نہ ہو، بلکہ مخبوط العقل ہو جو کہ خود کی نبوت میں یقین کرتا تھا‘‘ یہاں آ کر بحث و تمحیص کا دائرہ گھوم کر پھر وہیں آ رکتا ہے جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی۔
جیسا کہ میں پیچھے ذکر کر چکا ہوں کہ قرآنِ کریم میں ایسے بہت سارے علمی حقائق مذکور ہیں کہ جن کو اللہ عالم الغیب کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ہے۔علی سبیل المثال: کون تھا جس نے محمدﷺ کو سدِ ذی القرنین کے متعلق بتایا جبکہ وہ جزیرۃ العرب کی حدود سے باہر شمال میں ہزاروں کیلو میٹر کی دوری پر واقع ہے، ؟کون تھا جس نے علمِ جنین کے بارے میں بالکل درست معلومات سے محمدﷺ کو آگاہ کیا تھا؟ان حقائق کی کثرت کو دیکھتے ہوئے بھی جو لوگ ان کو ذاتِ الٰہی کا فیضان نہیں ماننا چاہتے، آٹومیٹیکلی ان کے پاس صرف ایک آپشن باقی رہ جاتا ہے۔ یعنی کسی گمنام اور مجہول شخص نے یہ بیش بہا معلومات کا خزانہ، محمدﷺ کی جھولی میں ڈال دیا تھا، جس کا خاطر خواہ استحصال کرتے ہوئے محمد ﷺ نے نبوت کا دعوی کر دیا۔ لیکن اس غلط مفروضہ کو بڑی آسانی کے ساتھ محض ایک مختصر سے سوال کے ذریعہ رد کیا جا سکتا ہے:اگر بموجب اس مفروضہ کے محمدﷺ ایک جھوٹے نبی تھے، تو آخر انھیں اپنے جھوٹ پر اتنا بھروسا کیوں تھا؟کیوں کر انھوں نے ایک بت پرستانہ ماحول میں رائج مذہبی عقائد ورسوم پراس درجہ بیباکی و شجاعت کے ساتھ تیز و تند تنقیدیں کیں، جس کا تصور بھی کسی نفاق پرست جھوٹے مدعیِ نبوت سے نہیں کیا جا سکتا؟۔ یہ بے مثال خود اعتمادی و بیباک شجاعت صرف اور صرف سچی وحیِ الٰہی کی سرپرستی میں میسر آ سکتی ہے۔
یہاں میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، اسلامی تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کو بھی یہ بات معلوم ہوگی کہ آنحضرت ﷺ کا ایک چچا ابولہب دینِ اسلام کی دعوت کا کٹر مخالف تھا۔ اسلام سے اس کی دشمنی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ ملعون راستا چلتے آپﷺ کا پیچھا کیا کرتا تھا، جہاں آپﷺ رک کر کسی کو وعظ و تبلیغ فرماتے یہ فوراً جا پہنچتا اور بڑی شدومد کی ساتھ آپﷺ کی تردید کرنے لگتا۔ الغرض زندگی کے ہر ہر شعبے میں محمد ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات کے برعکس کرنا اس کی زندگی کا شیوہ تھا۔ اسی ابو لہب کی موت سے تقریباً دس سال پہلے آنحضرتﷺ پر ایک چھوٹی سورت نازل ہوئی۔ یہ مکمل سورت ابو لہب سے متعلق تھی اور یہی اس کا نام بھی پڑا۔ اس سورت نے پوری وضاحت اور قطعیت کے ساتھ ابو لہب کو جہنمی یا دوزخی قرار دیا ہے۔دوسرے الفاظ میں معلوم تاریخ میں پہلی بار کسی انسان کو مدتِ امتحان ختم ہونے سے پہلے ہی نتیجہ بتا دیا گیا۔قرآن جو کلامِ ربانی ہے اس میں اگر کسی کے بارے میں صراحت کے ساتھ اہلِ جہنم ہونے کا تذکرہ آ جائے تو اس کا سیدھا مفہوم یہ ہوگا کہ اب ایسے شخص کو قبولِ ایمان کی توفیق نہیں ہوگی اور ہمیشہ ہمیش کے لیے وہ ملعون و مردود ہی رہے گا۔
ابو لہب اس سورت کے نزول کے بعد دس سال تک زندہ رہتا ہے اور اس طویل مدت میں وہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتا۔اس قدر اسلام دشمنی کے باوجود اس سے کبھی یہ نہ بن سکا کہ وہ بر سرِ عام یہ اعلان کر دیتا:
’لوگو!ہم سب نے سنا ہے کہ محمدﷺ کی وحی کے دعوے کے مطابق،میں کبھی اسلام قبول نہیں کروں گا اور میرا انجام دوزخ مقدر ہو چکا ہے، لیکن دیکھو میں آج اسلام میں داخلہ کا اعلان کرتا ہوں اور جان لو کہ میرا مسلمان ہو جانا محمد ﷺ کے لائے ہوئے قرآن کی روشنی میں ناممکن تھا، اب تم لوگ فیصلہ کرو کہ ایسی خدائی وحی کے بارے میں کیا کہو گے؟‘
وہ اگر ایسا اعلان کر دیتا تو یقین مانیے نہ صرف قرآن کی صداقت مشکوک ہو جاتی،بلکہ اسلام کی بیخ کنی کا اس کا دیرینہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو جاتا۔لیکن وہ ایسا نہ کر سکا، حالانکہ اس کی شر پسند طبیعت سے ایسے ردِ عمل کی بجا طور پر امید کی جا سکتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا، پورے دس سال گزر جاتے ہیں اور وہ اپنی طبعی موت مر کر ہمیشہ کے لیے واصلِ جہنم ہو جاتا ہے لیکن اس پوری مدت میں اس کے اندر قبولِ اسلام کا کوئی داعیہ پیدا نہیں ہو پاتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر محمدﷺ اللہ کے سچے رسول نہیں تھے تو انھیں یقینی طور پر کیسے معلوم ہوا کہ ابو لہب قرآن کی پیشین گوئی کو حرف بہ حرف درست قرار دیتے ہوئے بالآخر کفر پر ہی مرے گا؟محمد ﷺ کو یہ خود اعتمادی کہاں سے حاصل ہو گئی کہ وہ اپنے مشن کے کٹر مخالف کو کامل دس سال اس بات کا موقعہ دیے رہیں کہ اگر وہ چاہے تو ان کے دعوۂ نبوت کو جھوٹا ثابت کر دکھائے؟اس کا بس یہی جواب ہے کہ آپﷺ فی الواقع اللہ کے سچے رسول تھے۔ انسان وحیِ الٰہی کے فیضان سے سرشار ہو کر ہی اس قسم کا پرخطر چیلینج پیش کر پاتا ہے۔
محمد ﷺ کا اپنی صداقت پر یقین اور اس کی تبعیت میں اللہ کی نصرت و حفاظت پر اعتماد کس بلندی کو پہنچا ہوا تھا، ہم اس کی دوسری مثال پیش کرتے ہیں۔ ہجرت کے موقعے پر آپﷺ نے مکہ کو خیر باد کہہ کر حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ مشہور پہاڑ’’ ثور‘‘ کے ایک غار میں پناہ لی تھی۔ کفارِ مکہ آپﷺ کے خون کے پیاسے بن کر پوری طاقت کے ساتھ آپﷺ کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ ایسی ہولناک صورتِ حالات میں یہ ہوتا ہے کہ تلاش کرنے والی ایک پارٹی قدموں کے نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے ٹھیک اسی غار کے بالمقابل پہنچ جاتی ہے جس میں آپﷺ پناہ گزیں تھے۔ بس لمحہ کی دیر تھی کہ کوئی اس غار میں جھانک کر دیکھ لے اور اسلامی تاریخ کوئی دوسرا رخ اختیار کر نے پر مجبور ہو جاتی۔ حضرت ابو بکرؓ بھی حالات کی سنگینی سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ یقین جانیے اگر محمدﷺ اپنے دعوے میں جھوٹے ہوتے اور آپ کی رسالت محض ایک دھوکا ہوتی، تو ایسی صورت میں آپ کا فطری ردِ عمل یہ ہونا چاہیے تھا کہ آپ ﷺ اپنے ساتھی سے کہتے:
’اے ابوبکرؓ ذرا غار کے پچھلی طرف جا کر تو دیکھو، کیا وہاں کوئی جائے فرار ہے؟یا فرماتے:ابو بکرؓ ! وہاں کونے میں دبک کے بیٹھ جاؤ اور بالکل آواز نہ کرو۔‘
آپﷺ نے ایسا کچھ نہیں فرمایا، اس وقت آپﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ سے جو کہا وہ آپﷺ کے توکل علی اللہ کا غماز اور اپنی نبوت کی سچائی پر کامل یقین کا مظہر تھا۔ قرآن نے اس وقت کی نازک صورتِ حال میں آپ کا ردِ عمل (Reaction)اس طرح ذکر کیا ہے:
ثَانِیَ اثْنَیْْنِ ِذْ ہُمَا فِیْ الْغَارِ اِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّہَ مَعَنَا(التوبہ: ۴۰)
’جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘
اب مذکورہ بالا مثالوں کی روشنی میں فیصلہ کیجیے کہ کیا کسی جھوٹے،دھوکے باز مدعیِ نبوت کو ایسی پرخطر صورت حال میں اپنے جھوٹ پر اس درجہ اعتماد ہو سکتا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ یقین و توکل کی یہ کیفیت کسی کاذب فریبی کو میسر آ ہی نہیں سکتی۔ جیسا کہ پیچھے ذکر آیا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ قرآن کو وحیِ الٰہی نہ ماننے والے اپنے آپ کو ایک خالی دائرہ (Vacant Circle )میں گھرا پاتے ہیں اور ان سے کوئی معقول جواب نہیں بن پاتا۔ کبھی وہ محمد ﷺ کو ایک دیوانہ شخص گردانتے ہیں اور کبھی جھوٹا دھوکہ باز۔ ان کی عقل میں اتنی موٹی بات بھی نہیں آتی کہ دیوانگی اور مکاری متضاد صفات ہیں اور کسی ایک آدمی میں ان کے اجتماع کی بات کہنا بذاتِ خود پاگل پن کی علامت ہے۔